بدلتی ہوئی دنیا میں مسجد کا کردار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چند معروضات (قسط اوّل)

فلک شیر

محفلین
بدلتی ہوئی دنیا میں مسجد کا کردار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چند معروضات (قسط اوّل)
فلک شیر​
مسجد قرون اولیٰ میں :
طلوع اسلام کے بعد مسلمانوں کے قدم جس جس زمین پہ بھی پڑے، وہاں انہوں نے سب سے پہلے جو عمارت کھڑی کی ، وہ ان کی سجدہ گاہ تھی۔ مسلم اورسجدہ میں جو تعلق ہے ، اس سے کوئی ذی شعور غافل و جاہل نہیں ہے۔ مسجدکو اِس سے پہلے لوگوں کی عبادت گاہوں سے یہ امتیاز حاصل ہوا، کہ اُن کے برعکس یہ ایک زندہ عمارت تھی ، معاشرے کے سینے میں دھڑکتی ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صاف خون سے پورے جسم کو سیراب کرتی اور آلودہ کو صفائی کے لیے واپس کھینچتی ۔یہی وجہ ہے، کہ محسن انسانیت ، سید وُلد آدم ؑ سیدنا حضرت محمد ﷺاس چیز کا ازحد التزام فرماتے ، کہ جہاں جہاں مسلمان موجود ہوں، وہاں مسجد تعمیر ہو اور سب وہاں نماز کے لیے وقت مقررہ پہ آ موجود ہوں ۔۔۔۔۔۔چھوٹے بڑے،امیر غریب، مالک اورملازم، کسان اور سپاہی، غلام اور آقا،دور والے اور قریب والے ، مسافر اور مقیم، مصروف اور فارغ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب ۔۔۔۔۔۔ سب کلمہ گو کسی تفریق، رعایت اور سستی کے بغیر آوازہ صلاۃ اور ندائے فلاح بلند ہوتے ہی حاضر ہو جائیں ۔ اس امر سے سستی جناب پیغمبرﷺ کو کسی قیمت پہ گوارا نہ تھی۔۔۔۔۔۔ وہ صحابی تو آپ کو یاد ہی ہوں گے، جنہوں نے بڑھاپے، نابینا پن، بے سہارا ہونے ،رستے کی وحشت،دوری اور سواری نہ ہونے کے متعدد عذر باری باری پیش کیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن جواب میں حکم ملا، کہ اذان سنتے ہو، تو مسجد میں حاضر ہونا ہو گا ۔ اور پھر جناب رحمت عالم ﷺ کا نماز باجماعت کے لیے نہ آنے والوں کے گھروں کو جلانے تک کا ارادہ ظاہر فرمانا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب سمجھنے، جاننے اور عمل کے لیے بہت کافی ہے ۔لیکن نماز اور مسجد کے ان فضائل و فرائض کا علم ہونے کے باوجود خالی صفیں اور اِن کے گرداگرد بسنے والے مسلمانوں کا کسی خاص قلبی تعلق کا عدم اظہار بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے، جن کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔

بدلے ہوئے حالات اور ان کا تقاضا:
پیغمبر آخر الزماں ﷺ کی بعثت کو پندرہ سو برس ہونے کو آئے ہیں ۔ ان بے شمار بیتے شب وروز میں اہل اسلام نے عروج و زوال کی کیا کیا منازل نہیں دیکھ لیں ۔ عرب سے چین ، افریقہ سے یورپ تک ان کے بیٹے توحید کا پیغام اور عدل کی داستانیں چھوڑ آئے ۔ پھر وہ وقت بھی انہوں نے دیکھا، کہ الٰہی شرائع کی جو تنفیذ اُن حضرات کے ہاتھ چہار دانگ عالم میں ہوئی، وہ اپنے ہی گھروں تک میں اجنبی ہو کر رہ گئی ۔ آج کا عالم اسلام اس سلسلہ کی کس سٹیج پہ ہے، آپ اس سے واقف ہیں ۔
ایسا کیوں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک ملین ڈالر سوال ہے!! اس سوال کے بے شمار جوابات اور اپنے جوابات کے حق میں بیسیوں دلائل ہر گروہ، جماعت اور پارٹی کے پاس ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بدقسمتی سے اپنی ان توجیہات کی نشرو اشاعت بھی ان کے نزدیک افضل ترین اعمال میں شمار ہوتی ہے ۔ ایسے میں بہت سے اہل علم نے اس اہم موضوع پہ اپنے فکر وتخیل کے گھوڑے دوڑائے اور رشحات قلم ہمارے سامنے رکھے ہیں۔ اس اجتماعی زوال کا حل کیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر اگر غور کیا جاے، تو ایک بنیادی وجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مسجد کا کردار "متحرک" سے "غیر فعال" اور "زندہ" سے "نیم مردہ" ہو جانا بھی ہے ۔
آج کا مسلمان، سائنسی ترقی کی بدولت مغرب سے مرعوب ہے ۔۔۔۔۔ اور ایجادات سے مستفید ہونا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس سے وہ کسی قیمت پہ ہاتھ نہیں دھونا چاہتا، خواہ اس استفادے کا ایک نتیجہ اُسے آیات و روایات سے دور کر دینا ۔۔۔۔اور دوسرا مادیت پرستی کے اندھے کنویں میں گرا دینا ہی کیوں نہ ہو ۔آج کا مسلم نوجوان اپنے معاشرے میں۔۔۔۔۔ "روحانی تسکین"کے اتنے مہیا کنندگان و دعویداران ۔۔۔۔۔۔۔موجود پاتا ہے ، کہ اُسے اس ضمن میں کسی "کمی" کا احساس ہی نہیں ہونے پاتا۔ ہیرو ورشپ کی حس کی تسکین کے لیے بھی۔۔۔۔ جسٹن بیبر، لائنل میسی اور پال واکر ۔۔۔۔۔۔۔ آ موجود ہوتے ہیں ۔ "انسانیت" اور "رواداری"کی مثالیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُسے بالی ووڈ سے بکثرت مل جاتی ہیں ۔ایام منانے کی باری آئے تو۔۔۔۔۔۔۔۔اس سلسلہ میں فراوانی ہی فراوانی ہے ۔نسبتیں ، سلسلے اور زنجیریں کبھی باعثِ فخر ہوتی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب "آزادی"۔۔۔۔۔۔۔۔ "جیسے چاہے جینے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور "کھل کر جینے " کا دور ہے ۔
لیکن اے میرے محترم اسلام پسند بھائی!
کیا یہ سب طعنے دے کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اہل مسجد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس آہوئے حرم کو سُوئے حرم واپسی پہ مجبور یا قائل کر سکتے ہیں !؟

مسجد کا جدید کردار!؟
یہ ہماری بدقسمتی ہے ، کہ آج ہم اہل مذہب کی اصطلاح اُن مسلمانوں کے لیے کر رہے ہیں ، جو عبادات کے نظام کی کسی نہ کسی حد تک پیروی کرتے ہیں ، مگر یہ حالات کا جبر ہے ، سوا س کے سوا چارہ نہیں ۔
تو اہل مذہب نے ان حالات میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب کہ ایک وسیع تر کشمکش بے شمار محاذوں پہ جاری ہے
§اپنی تیاری کے لیے کیا سامان اور ہتھیا رجمع کیے ہوئے ہیں ؟
§اپنے انسانی وسائل (مربی ، ائمہ ،خطباء،منتظمین)کہاں سے لیے ہیں اور اُن کی تربیت ۔۔۔۔ کہاں ، کیا اور کیسے۔۔۔۔۔۔۔ کی ہے؟
§ائمہ مساجد اور قراء وخطباءکو روایتی اسلوب سے ہٹ کر اور چلاؤ کام سے آگے نکل کر معاشرے میں اثرپذیر ہونے کی کس قدر مہارت،آزادی اور تربیت دی ہے؟
§مسجد اور کمیونٹی کے درمیان تعلق صرف عبادت گاہ کا متعین کیاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک زندہ مرکزاور اس کے گرد گھومتے سیاروں کا؟
§دین کے بنیادی متون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قرآن وفرامین پیغمبرﷺ ۔۔۔۔۔۔۔ ضروری فقہیات اور منتخب فکری و تکنیکی اسباق کو۔۔۔۔۔۔۔اپنی کمیونٹی کے چھوٹے بڑوں اور مردوزن تک ایک یا دوسرے طریقے /رستے سے پہنچانے/سکھانے /عامل بنانے کے لیے کیا شعوری اور دلی کوششیں کی ہیں؟
§ معاشرہ اگر لفظ "اسلام" کی "بیان شدہ تشریحات"سے خوف/ہچکچاہٹ میں مبتلا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔تو جن ناموں /اصطلاحات سے وہ مانوس ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُنہیں استعمال کرنے کے مواقع سےفائدہ اٹھایا ہے؟
§ شریعت کی بیان کردہ اصطلاح۔۔۔۔۔ "علم"۔۔۔۔۔۔ کو اس کے اصل اور وسیع تر مفہوم ۔۔۔۔۔۔یعنی ۔۔۔۔۔فلاحِ دارین۔۔۔۔ کے تناظر میں اپنی کمیونٹی کا حال اور مستقبل بنانے کے لیے کیا کوششیں کی ہیں؟

کیا یہ سب کچھ اہل مسجد کے بھی ذمہ ہے؟
"دین سراسر خیرخواہی ہے " ۔۔۔۔۔۔ اس فرمانِ پیغمبرﷺ کی سمجھ جن کو آ جائے ۔۔۔۔۔۔۔وہ گوشہ عافیت میں بیٹھ کر اردگرد پھیلی آگ کا تماشادیکھ ہی نہیں سکتے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ اپنے جیسے انسانوں کو پروانوں کی مانند "شمعِ تہذیب"کی لو کا رزق ہوتے دیکھیں ۔۔۔۔۔اور پھر دامنِ عافیت سمیٹ کر ایک محدود سے "روحانی تجربے "تک خود کو محدود کر لیں ۔ اُن کے سامنے صرف اپنی فلاح کے لیے بھاگ دوڑ کرنا نہیں رہتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں سامنے اپنے اہل و عیال نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔جنہیں اُس آگ سے بچانے کا حکم آسمان سے نازل ہو اہے ۔۔۔۔۔۔جو ہر سالم و کامل کو مکسور و منشور کر دے گی ۔۔۔۔۔۔جس کی ایک لپٹ اور بھبک ہی تکلیف کا ایسا باب کھول دے گی، کہ جس کا مداوا آسمان اور زمین میں کسی سے نہ ہو گا ۔ایسے حضرات و خواتین اہل و عیال کے بعد اعزہ و اقارب ، اہل محلہ اور اپنی بساط کے مطابق اگلے بڑے دائروں میں کام کے رستے تلاش کرتے ہیں اور آگے بڑھنے کے سوا اُن کو کچھ سوجھتا ہی نہیں ۔

اب ایسے حالات میں ، کہ جب مسلم عوام بالعموم اور مسلم شباب بالخصوص اپنے "عبد"کے سٹیٹس اور "امت" کے تصور سے زیادہ مانوس نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ اہل مسجد ۔۔۔۔۔اور اُن تمام اربابِ حل و عقد (مقتدر علماء، زعمائے مدارس،جدید و قدیم پہ دسترس رکھنے والے اہل علم ، حکومتی عہدیداران، دینی جماعات ،طلباء تنظیمات)،جو مسجد اور اہل مسجد کے لیے آئیڈیل، شعوری لائحہ عمل اور لاشعوری رہنمائی ۔۔۔کا انتظام کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ کے ذمہ نہیں ہے، کہ اس سلسلہ میں اپنا کرنے کا کام پہچانیں ۔ اگر کفر و عصیان سائنسی انداز میں آپ کی نئی نسل پہ حملہ آور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو آپ بھی اس سلسلہ میں کچھ وقت سوچنے کے لیے نکالیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خالی برا بھلا کہنے سے تو کچھ نہ ہو گا۔اور یہ کام آپ نہ کریں گے، تو کون کرے گا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔آسمان سے وحی کا سلسلہ منقطع ہوا ہے ، نصرت کا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شرط نیک نیتی ،علمی پختگی،داعیانہ بصیرت اور استقامت کے ساتھ اس میدان میں اترنا ہے ۔ بلاگ پہ تحریر کا ربط
 
Top