بخاری محدث کے بارے میں ایک کتاب : قرآن مقدس اور بخاری مقدس

برائے مهرباني ايسي آيت هميں بھی دکھا دیجیے جس میں جنابت سے تيمم كا ذكر هے ورنه آپ اپنے "ایمان" كي حرارت میں حضرت عمر كے ساتھ حضرت عمار پر بھی عدم فقهاهت كا دشنام لگا گئے ہیں۔

بھلا اگر قرآن میں ایسی آیت ہے تو حضرت عمار نے اس کو بطور استدلال ذكر كيوں نه كيا؟؟؟ قرآن سے پہلے كوئی اور دليل بطور استدلال پیش کرنا عدم فقاهت هے۔
بهر حال يه آیت موجوده قرآن میں اگر ہے تو پیش کی جائے۔
اس پر میں مین کوئی تبصرہ نہیں کرونگا صرف جالندھری صاحب کا سورہ مائدہ کی آیت 6 کا ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا اور ایک حدیث کا مفہوم

یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح (یعنی تیمم) کر لو ۔
حدیث رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مفہوم
ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت عمر بھی تھے نماز کا وقت ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھائی جب نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص کو الگ تھلگ کھڑا تھاجس نے لوگوں کے ساتھ مل کر نماز ادا نہیں کی تھی تو آپ نے اس سے پوچھا کہ تم نے نماز ادا نہیں کی؟ اس نے عرض کیا کہ میں حالت جنابت میں ہوں اور یہاں پانی موجود نہیں ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مٹی کو استعمال کر لو تمہارے لیے کافی ہے۔‘‘
یہ حدیث صحیح بخاری میں بیان ہوئی
 
مگر معاشره میں هميشه سے ایسے لوگ موجود رہے ہیں کہ والد پر اگر تکلیف طاری ہو تو انھیں وراثت كے حساب كتاب كي پڑی رهتي هے اور وه والد كي تلكيف كا خيال نهيں کرتے۔ اور صحيفه وصيت كي طمع رهتي هے چاہے اس کا وجود ہی نہ ہو۔
لا حول ولا قوة الا بالله

بل آخر وہ بات جو آپ کے دل میں تھی باہر آہی گئی مگر آپ نے یہ نہ سوچا کہ جن امام بخاری کے دفاع میں آپ یہاں موجود ہیں ان ہی بخاری صاحب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس پاک ہستی کے والد گرامی ہیں یعنی سیدہ کائنات حضرت فاطمہ علیہا السلام کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ " فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہے "
 
آخری تدوین:

فرسان

محفلین
علی بہرام ! ايك ماه سے زائد عرصے بعد جب يهاں دوباره آيا تو معلوم هوا كه آپ تو تعطيلات پر هيں.

اگر هم كسي اور بحث ميں مصروف هوتے تو شائد ميں آپ كي باتوں كا رد نه كرتا ، تاهم چونكه بات ايسے موضوع سے هے جس سے ميري شديد جذباتي وابستگي هے ، تو ميں ان باتوں كا رد ضرور كرتا هوں ، مگر آپ كي تعطيلات كے باعث اپ وه بات نه رهي جو پهلے تھي.
 

فرسان

محفلین
آپ نے اپني خطاء كا اعتراف كيا ، اور ميرا شكريه بھي ادا كيا. ذيل ميں آپ كي مزيد چند ايماني ، علمي ، تاريخي ، منهاجي اور ذوقي غلطيوں كي نشاندهي كي جائے گي ، اميد هے آپ اسي طرح اعتراف اور شكريه سے كام ليں گے. آپ نے يه بھي كها كه آپ نے ميري تعليق كے بعد مطالعه كيا ، ميں اس بات پر آپ كا شكريه ادا كرتا هوں ، اور اميد كرتا هوں كه مطالعه كے مزيد مواقع آپ كو نصيب هو سكيں گے.
 

فرسان

محفلین
اپنا كلام پيش كرنے سے ميں آپ كے ايك سابقه مراسله كا جواب دينا چاهوں گا كيونكه آپ نے ايك غلطي كو ايك سے زياده بار دهرايا هے.

ذيل كے سوالوں سے اس كا جواب دينے كي كوشش كروں گا ان شاء الله.

1. خلافت ميں قريش كو تقديم حاصل هے يا نسب كي بنا پر افضليت حاصل هے ؟؟؟؟

2. كيا كفار كے جاهلي دور سے موجود ، قريش كى نسبي برتري كے مختلف معيار پر اسلام كا كوئي ركن كھڑا هو سكتا هے؟؟؟

3. اگر برتري نهيں بلكه محض تقديم (يعني كسي كو اوليت دينا) هے تو اس كي كيا وجه؟؟؟
 

فرسان

محفلین
اگر خلافت ميں قريش كو نسب كي بنا پر كوئي برتري حاصل هوتي تو اس كي كوئي دليل تو ضرور هوتي ، مگر اس كے بجائے هميں اس كے خلاف دليل ملتي هے. همارے مولا همارے رب همارے الله نے قرآن مجيد ميں قوموں اور قبيلوں كو محض تعارف كا ذريعه فرمايا هے. ساتھ ميں يه بھي فرما ديا كه الله كے هاں برتري صرف تقوى پر هے كيونكه جب بنانے والے نے نسب اور قبيله كو تعارف كے لئےهى بنايا هے توانسان جتنا مرضي زور لگا لے ، يه برتري كا معيار بن هي نهيں سكتا. بلكه سچ تو يه هے كه كوئي قبيله برتر اسي وجه سے هوتا هے كه اس ميں كوئي بلند كردار شخصيت هوتي هے ، لهذا انساني برتري قبيلے كي محتاج نهيں بلكه قبيله اپني برتري منوانے كے لئے افراد كے كردار و اعمال كا محتاج هے.
 

فرسان

محفلین
خليفه نے اپني ذاتي قابليت ، ذهني وسعت اور ايماني طاقت سے مسلمانوں كے امور كو چلانا هوتا هے ، يه نكاح كا مسئله تھوڑا هي هے كه نسب كي جانچ پڑتال كي جاوے؟؟؟؟

تاريخ گواه هے كه كون سے خلفاء كا دور سب سے كامياب دور تھا. ترتيب ويسي هي ملے گي جيسي كه ذاتي درجات ميں هے نه كه نسب ميں. اور مسلمان (اگر وه گمراه نه هو تو) كيلئے تمام خلفاء قابل صد هزار احترام هيں ، جن كے بارے ميں بري سوچ بھي گناه هے ، ثواب نهيں .

نسب كي يه جنگ يهوديوں كو جچتي هے جن كي عهد نامه عتيق ساري كي ساري قبائلي عصبيت سے پُر هے ، ايك قبيله كو اوپر اور دوسرے كو نيچا كرنے كے لئے طرح طرح كا مواد ملے گا ، عجب نهيں كه مسلمانوں ميں يه عادت يهود هي سے آئي هو ، بالآخر احاديث شريفه ميں اس كي بھي خبر هے كه يه امت پهلي امتوں كے نقش قدم پر بھي چلے گي. جيسے جيسے قيامت نزديك آرهي هے ، يه حديث رفته رفته واضح هوتي جا رهي هے ، اور اس كا ظهور محض ايك فرقه نهيں بلكه امت كو عام هے.

اسي طرح كفار نے بھي كها تھا كه

[Arabic](وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ (سوره زخرف))[/Arabic]

يعني قرآن ان دو شهروں(مكه يا طائف ) ميں موجود كسي (دنياوي) عظمت (جاه وجلال) والے آدمي پر كيوں نه اتارا گيا؟

معلوم هوا كه اس طرح كي نسبي ، جاه وجلال اور دولت وغيره كو رب كے هاں برتري كي بنياد بتانا كفار كا شيوه هے.
 

فرسان

محفلین
لهذا اصل بات يه هے كه قريش (بلا شبه قريش دنيا كا سب سے بهترين قبيله هيں) مگر خلافت ميں قريش كا ذكر برتري نهيں تقديم هے اور اس كي جو وجوهات مسلمان سكالرز نے بيان كي وه يه هے كه عربوں ميں قبائلي تفاخر كا خناس بهت قوي تھا اور وه كسي دوسرے قبيلے كي سرداري قبول نه كرتےتھے ، لهذا ايك ايسے قبيله ميں خلافت كو محصور كيا گيا جو كئي وجه سے لوگوں ميں سب سے زياده مقبول ، متمول ، مركزيت كا حامل اور معزز تھا. قريش وه قبيله تھا جس سے سب سے كم رقابت پائي جاتي تھي. يمن سے شام تك ان كي دوستياں تھي. جبكه دوسرے قبائل كي دوستيوں كے بجائے رقابتيں تھي.

باقي قبائل جاهليت كے دور ميں مختلف جنگوں اور باهم حملوں ميں مصروف هونے كي بنا پر كئي قسم كي پراني رقابتوں ميں ڈوبے هوے تھى.


اگر ايسا نه كيا جاتا اور انصار يا كسي اور قبيله كو اسلام كي امامت كا شرف نصيب هوتا تو جن قبائل نے تيسري صدي ميں جا كر بحرين سے اٹھ كر كعبه پر حمله كيا تھا وه اپنے ساتھ كئي عرب قبائل كو ملا كر پهلي هي صدي ميں مدينه منوره پر حمله آور هوجاتے.

مختصر يه كه تقديم قريش كوئي ديني برتري يا ركن اسلام هوجانے كي بات نهيں هے بلكه محض اسلامي سياسيات كي ايك اهم حكمت عملي تھي.
 

فرسان

محفلین
دنيا ميں دو هي قسم كے حكومتي نظام هيں. ايك بادشاهت كا جس ميں نسل در نسل نسب كو مقدم كيا جاتا هے اور بادشاه كا بيٹا چاهے كتنا هي كم سن يا نا لائق كيوں نه هو ، اسے لوگوں كے امور سنبھالنے كو بيٹھا ديا جاتا هے.

دوسرا نظام لوگوں كو ايك نسب يا خاندان كے بجائے ذاتي قابليت اور اهليت كو ترجيح ديتے هوئے ايسي حكومت قائم كرتا هے جس كي اطاعت ميں ملت كے كسي فرد كو عار نه هو.

آج بھي بهت سے ترقي يافته ممالك ميں صدر يا وزيراعظم جيسے نازك عهدے كيلئے كم از كم 40 برس كا هونا لازمي شرط هے ، كيونكه بزرگوں كے هوتے هوئے جوانوں كا اقتدار كي خواهش كرنا بذات خود ايك جرم هے.
 

فرسان

محفلین
سقيفه بني ساعده كے وقت حضرت ابو بكر رضي الله عنه كي عمر كم وبيش 60 سال تھي ، جبكه حضرت علي رضي الله عنه كي عمر 30 سے 35 سال كے درميان تھي. انبياء كي عمومي عمر نبوت كے وقت 40 سال هوا كرتي تھي.

ميري يه مراد هرگز نهيں كه كوئي بھي كم سن شخص كسي بزرگ سے زياده لائق نهيں هو سكتا. تاهم بزرگوں كے هوتے هوئے اپني اپني بات كرنا محض گستاخي هے جس كا كوئي "امام" سوچ بھي نهيں سكتا.


تاهم بعض لوگ جو دين اور نسب كي برتري ميں بهت قوي تعلق بتاتے هيں ان كا اصرار هے كه بنده جيسا مرضي هو پر هوسب سے اونچے نسب كا. اس كے هوتے هوئے اس سے ايك اشاريه ايك درجه كم بهتر نسب بھي نهيں مانا جاسكتا. ان كے اداس دل كے لئے پيغام هے كه جناب اب تو كچھ نهيں هو سكتا ، الله نے جهاں اپنے دين كي امامت مناسب سمجھي وهاں ركھ دي ، اور اب يه بهت پهلے كي بات هے ، اس بات پر لڑنا اور مجلسيں سجانا كيا عقل مندي هے؟؟؟؟

اب تو اتحاد كي بات كرني چاهئے ،، عالمي مجلس اتحاد بين المسلمين !
 

فرسان

محفلین
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فورا بعد ہی صحابہ منکر زکوۃ ہوگئے تھے جن کی سرکوبی کے لئے حضرت ابو بکر نے کئی لشکر روانہ کئے اور ہزاروں لوگوں کو مارا گیا ۔ اور آپ صرف فتویٰ دینے پر اتنے چیں باجبیں ہورہے ہیں
اس جگه يه جو آپ نے كها كه صحابه منكرزكاة هوگئے تھے ، تو يقين جانيئے كه آپ نے تشيع كا حق ادا نهيں كيا ، كيونكه اصل شيعه تمام صحابه كا ادب و احترام كرتا هے. تاهم آپ نے بغض صحابه كا حق ضرور اداكر ديا هے. اور اصل شيعه آج شائد آٹے ميں نمك كے برابر بھي نه هوں . اب تو تشيع كے نام پر بغض صحابه كا مذهب رائج هے جو دراصل صفوي مذهب هے.


يهاں يه سوال بھي كسي كے ذهن ميں پيدا هو سكتا هے كه اگر واقعي مرتد هونے والے صحابه تھے تو ان كو اسلام ميں لانے والے كون هستياں هيں ؟؟؟ مجوس ويهود تو يه كام كرنے سے رهے اور نه يه كام 17 لوگوں كي مختصر جماعت سے هو سكتا هے !!!

اگر صحابه هي مرتد هو گئے تھے تو ان منكرين زكاة سے لڑنے والے كون تھے ؟؟
 

فرسان

محفلین
حقيقت اس كے برعكس هے. مرتد هونے والے (نعوذ بالله) وه لوگ نهيں جو صحابيت كے انمول شرف سے فيضياب هوئے.


ميں آپ كو بتاتا هوں كه يه مرتدين و منكرين زكاة كون تھے .

يه عرب كے مشرق ميں آباد بدوي قبيلے تھے جنهيں عربي ميں اعراب كها جاتا هے. يه مختلف قبائل تھے . نجد ، احساء ، قطيف اور بحرين وغيره كے ارد گرد كے علاقے ان كا اصل وطن تھے.

1. حضرت ابو بكر الصديق رضي الله عنه وأرضاه كے دور ميں يه مرتد هوئے. مال كي هوس ميں.

2. حضرت عمر رضي الله عنه وأرضاه كے مبارك و سعيد دور ميں جب اسلامي فوجيں فارس وروم كو روندتي هوئي دنيا ميں اسلام كا پرچم گاڑ رهي تھي تو جهادي ضرورتوں كے پيش نظر كوفه و بصره كے شهر آباد هوئے. ان دو شهروں ميں آباد هونے والے عربوں ميں كثير تعداد انهي قبائل كي تھي. حضرت عمر رضي الله عنه كے سامنے سے تو شيطان يھي بھاگ جايا كرتا تھا ، ان بدوي قبائل كو كوئي فتنه كھڑا كرنے كي مهلت نه مل سكي.

3. حضرت عثمان رضي الله عنه وأرضاه كے دور ميں ان كي هوس نے پھر انگڑائي لي جسے انهوں نے مختلف انداز ميں پورا كرنا چاها. حضرت عثمان رضي الله عنه وارضاه كو شهيد كرنے جو خارجي لوگ آئے تھے ان ميں سے اكثر يهي لوگ تھے ، يعني بصره و كوفه كے لشكر. ان لوگوں كا مسئله يه تھا كه يه سازش كا جلد شكار بن جانے والے ، حسد ميں لت پت اور اقتدار كي هوس كے مالك لوگ تھے. اسلام سے اپنے حسد كي بنا پر ان قبائل ميں كئي لوگوں نے نبوت كا جھوٹا دعوى بھي كيا. آگے چل كر يه لوگ اسلامي خلافت سے بھي بري طرح حسد كريں گے اور ايك متوازي اقتدار كے لئے كوشاں نظر آئيں گے. تاريخ ميں يه لوگ اهل بيت كے نام پر اقتدار هتھيانے كے لئے كوشاں رهے ، اس كوشش ميں اهل بيت كا محض نام استعمال كيا جاتا تھا ، اصل مقصد اهل بيت ميں سے ايك ضعيف خليفه كو نامزد كركے خود زمام خلافت سنبھالنا تھا بالكل ويسے هي جيسے كريم خان زند خودصفوي شاه كي موجودگي ميں ايران كا شاه تھا. يا پھر جيسے نادر شاه ايراني.

4. حضرت عثمان كو شهيد كرنے كے بعد يه قبائل حضرت علي رضي الله عنهما وأرضاهما كے لشكر ميں شامل هو كئے.

5. حضرت علي رضي الله عنه وأرضاه كے لشكر ميں ان لوگوں كي كيا سرگرمياں رهي ، وه كافي تاريك باب هے. حضرت علي رضي الله عنه وأرضاه كو ان لوگوں سے سخت تكاليف پهنچي.

6. اس كے بعد يه لوگ حضرت حسن رضي الله عنه وأرضاه كے لشكر ميں شامل هوتے هيں اور اپنے آپ كو انكا ساتھي (عربي لفظ = شيعه) ظاهر كرنے لگے. موقع ملنے پر ان بھوكوں نے حضرت حسن رضي الله عنه وأرضاه كا خيمه لوٹ ليا اور اس فتنه ميں حضرت حسن رضي الله عنه وأرضاه شديد زخمي بھي هو گئے.

7. تاهم جب حضرت حسن رضي الله عنه وأرضاه نے منصب خلافت (پهاڑوں جيسے عساكر هونے كے باوجود) حضرت معاويه رضي الله عنه كو سونپ ديا تو يه قبائل حضرت حسن رضي الله عنه وأرضاه سے مايوس هوكر حضرت حسين رضي الله عنه وأرضاه كے گرد جمع هونے لكے.

1) نجد ، احساء ، قطيف اور بحرين كے ساتھ ساتھ اب يه كوفه اور بصره ميں بھي كثير تعداد ركھتے تھى. مستقبل ميں فارس كے علاقوں ميں بھي ان كا نفوذ پھيل جائے گا.

8. حضرت معاويه رضي الله عنه كي وفات كے بعد يه قبائل (جو پهلے سے قريش كے حاسد اور اقتدار وخلافت كي هوس ميں گرفتار تھے ، اور برار حضرت حسين رضي الله عنه وأرضاه سے اميديں قائم كئے بيٹھے تھے) انهوں نے كوفه سے ان گنت خط حضرت حسين رضي الله عنه وأرضاه كو لكھے ، جس كے نتيجه ميں جو سانحهء عظيمه هوا ، اس ميں يزيد لئيم كے ساتھ ساتھ ان كمينه صفت لوگوں كا بھي بهت كچھ حصه هے.

9. امام عالي مقام رضي الله عنه وأرضاه كي شهادت كے بعد ان لوگوں پر زمين تنگ پڑ نا شروع هوگئي. اور يه لوگ حضرت علي رضي الله عنه وأرضاه كے ايك اور فرزند ارجمند حضرت محمد بن حنفيه كو اپني اميدوں كا مركز بنائے مختلف كوششوں ميں مصروف رهے. آخر كار مختار ثقفي كا خروج هوا اور اس نے حضرت حسين رضي الله عنه وأرضاه كا بدلا ليا . جب حضرت حسين رضي الله عنه كا قصاص لينے مختار نے خروج كيا تو يهي قبائل تھے جنهوں نے اسے كامياب بنانے ميں كردار ادا كيا. يه مختار وهي هے جس نے اسلام ميں پھلي بار عقيده "بداءت" كا چرچا كيا. اور ساتھ ميں ان قبائل ميں كئي بدعتيں اور عقائد ڈال گيا. ان عقائد ميں سے ايك عقيده بداءت هے ، جس كو وقتي ضرورتوں كي بنا پر تخليق كيا گيا تھا.


1) تاريخ كي مختلف كتابو ں مثلا تاريخ طبري اور الملل والنحل ميں مذكور هے كه حضرت ابن حنفيه كي وفات كے بعد ان قبائل ميں عقيده رجعت بھي در آيا جسے چند شيعه دعاة نے پروان چڑھايا. عقيده رجعت كا مطلب هے كه كسي امام كي وفات يا ظاهري طور پر كهيں روپوش هو جانے كے بعد اس امام كي دنيا پر دوباره واپسي تاكه وه امام اپنے دشمنوں سے بدلا لے اور ايك نئي حكومت قائم كرے جو حق پر مبني هو گي. اقتدار اور بدلا لينےكي يه قديم كوشش مرنے كے بعد بھي جاري و ساري رهتي هے. يعني فوت هونے كے بعد جنت سے اس دنيا پر دنياوي حكومت كے لئے آنے كو رجعت كهتے هيں.


2) يه عقيده ان قبائل اور ديگر چند فرقوں كو اتنا پسند اور كار آمد نظر آيا كه اس سے تاريخ ميں بڑي بڑي گٹھياں سلجھا دي گئي.


3) مثلا جب حضرت امام جعفر صادق كے پوتے محمد بن اسماعيل بن جعفر كي وفات هو گئي تو ان كے ماننے والوں نے عقيده رجعت سے اپنے آپ كو تسلي دي. تاريخ ميں يه قرامطه اور اسماعيليه دونوں گروه هيں.


4) اور مثلا جب حضرت حسن عسكري بغير اولاد وفات پا گئے تو مختلف ماننے والوں نے يه پھيلا ديا كه حضرت حسن عسكري كا ايك چھوٹا بيٹا هے جو بهت چھوٹا هونے كي بنا پر اپنے دشمنون سے بچنے كے لئے گھر كے تهه خانے ميں روپوش هے. جب ملنے والوں كا زور بڑھا تو اهل نظر نے يه خبر دي كه حضرت امام اب غائب هو چكے هيں اور قيامت كے نزديك دوباره تشريف لائيں گے لهذا انتظار كے لئے معذرت خواه هيں,


5) كوئي ننھا دماغ اس كا تخيل بھي تو كر سكتا هے كه اگر واقعي يه تمام فرقے رجعت كے عقيده ميں حق بجانب هوئے اور هر امام جن كو واپس آنا هے وه سب قيامت كے نزديك واپس يھي آگئے تو اتنے سارے اماموں كي موجودگي ميں امامت آخر ملے گي كن كو؟؟؟؟
كل كي نسبت آج امامت اور خلافت كا حصول قدرے مشكل امر هے خصوصا اقوام متحده كي موجودگي ميں J !!!!


10. بهر حال تاريخ ميں يه قبائل تيسري صدي هجري ميں اقتدار حاصل كرنے ميں كامياب هوكئے اور قرامطه (يعني باطني شيعه فرقه) كي صورت ميں ظاهر هوئے. حج كے دنوں ميں خانه كعبه پر حمله كيا وهيں كھڑے هو كر شراب پي ، انتهائي بے دردي سے حاجيوں كو قتل كيا اور زمزم كے كنوئيں كو لاشوں سے پاٹ ديا، خانه كعبه ميں حجره اسود كو هتھوڑوں سے توڑ توڑ كر نكالا اور اپنے ساتھ احساء لے گئے. آج بحرين اور احساء كے شيعه انهي كي اولاد هيں جو وهابيوں سے بڑا تنگ هيں. يه اور بات هے كه وهابي مسلمانوں كي شروعات ميں يه قبائل ان كي تائيد اور تعريف كرتے رهے هيں.

11. مرتد هونے والے ان قبائل كي اور بھي بهت سي تاريك تاريخ هے جسے ميں نظر انداز كرتا هوں.

12. ممكن هے كه كوئي صاحب جو ان حقائق كو پهلي بار ديكھ رهے هوں ، وه ان كو سندباد اور الف ليلى كي داستان سمجھ بيٹھيں. تاهم ميں اپني هر بات كے حواله كا پابند هوں. سر دست آپ ان ميں سے بعض معلومات كيلئے قرامطه پر لكھي گئي كوئي بھي اچھي كتاب ديكھ سكتے هيں. اور ان قبائل كے حالات كيليے بھي احساء كي تاريخ ملاحظه كي جاسكتي هے. آپ چاهيں تو ايرانيوں كا لكھا دائره معارف اسلام بھي استعمال كر سكتے هيں جو فارسي ميں هے.

13. يهاں ميں يه بھي واضح كردينا چاهتا هوں كه قبائل سے ميري مراد تمام مشرقي قبائل نهيں. اور نه هي مرتد اور قرمطي بن جانے والے قبائل كاا ايك ايك فرد مراد هے. كيونكه ان قبائل كے بهت سے افراد راه راست پر بھي تھے. بالكل ايسے هي جيسے ارتداد كے دور ميں ان قبائل كے كئي افراد اسلام پر قائم رهے.



البته اتنا كهنا ضروري هے كه صحابه صرف شيعه كى نزديك مرتد هوئے تھے أور وه بھي عام صحابه نهيں بلكه وه تمام مهاجرين و بدري صحابه جنهوں نے حضرت ابو بكر كي خلافت كو مانا. وجه يه بيان كي جاتي هے كه الله تعالى نے تو حضرت علي رضي الله عنه كو خليفه مقرر فرما كر بھيجا مگر مسلمان سارے مل كر كسي اور صحابي كو خليفه سمجھنے لگے.


تاهم سنيوں كے نزديك منكر زكاة صحابه نهيں بلكه محض نو مسلم بدوي قبيلے قبائل تھے.
 

فرسان

محفلین
بنو تیم کہ جو حضرت ابو بکر کا خاندان ہے وہ پھر بھی خاندان نبی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی بنی ہاشم سے نسب میں کم درجہ پر ہے

كس كافر نے يه كها كه حضور سيدي رسول الله صلى الله عليه وسلم كے نسب مبارك جيسا كسي اور صحابي يا غير صحابي كا نسب هے؟؟؟

اگرچه همارے مولا الله نے قوميں اور قبيلے بنانے كي جو وجه هم مسلمانوں كو بتائي وه يه كه هميں ايك دوسرے كا تعارف حاصل هو ، اور الله كے نبي صلى الله عليه وسلم كا امتي كبھي نسب كي جنگ ميں نهيں پڑتا ، تاهم يه بات سو فيصد درست هے كه حضور صلى الله عليه وسلم تمام خلق ميں بهترين نسب مبارك والے هيں.
 

فرسان

محفلین
کوئی دلیل ہے کہ بنو تیم ہی قبیلہ قریش میں سب سے اعلی خاندان ہے تو اس کے لئے دلیل دے کر مجھ ناقص علم کے علم میں اضافہ فرمائے شکریہ کیونکہ یہ یاد رہے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کے لئے اعلی نسب اور خاندان کی دلیل دی گئی تھی

آپ نے كافي سرسري حكمت عملي كا مظاهره كيا هے. يعني جب بنو تميم كے نسب پر طعن آپ سے بن نه پايا تو آپ نے طعن نما ايك چھوٹي سي "طعني" مارنے كي كوشش كي هے.

جناب اگر آپ كي مراد سقيفه بني ساعده سے مراد وهي سقيفه هے جس پر كچھ جهات آج تك غيظ ميں مبتلا هيں ، يعني 11 هجري كا سقيفه بني ساعده تو يه مكر وخبر آپ تك كيونكر پهنچي كه وهاں نسب كي برتري كي بات هوئي تھي ؟؟؟؟ مجھے يه كيونكر ياد رهے ؟؟؟


برائے مهرباني ثابت كريں كه وهاں كسي نے كسي كي نسبي برتري پر اپني تائيد كا اعلان كيا هو.

اگر يه آپ كا اپنا استدلال هے تو آپ سے گزارش هے كه اس پر اكيلے هي قائل ومائل رهيں ، ورنه عربي عبارت سميت يهاں نقل كرديں كه خلافت كا حقدار وه هے جس كا نسب سب سے اعلي هو.

تو صاحب آپ كا پهلا مقدمه هي باطل هے كه سقيفه بني ساعده ميں كوئي نسب كي برتري طے پا رهي تھي.

قريش اور خلافت كا تعلق آپ كو اپني پچھلي تعليق ميں سمجھا چكا هوں ، ايك بار پھر پڑھ ليں.

تقديم قريش كي بات تو خاكسار بيان كر هي چكا هے.
 

فرسان

محفلین

واقعه يه هے كه اسلام كي آمد كا ايك مقصد نسب اور اس جيسي دوسري چكيوں سے انسانيت كو آزاد كرانا بھي هے ، يه كيسے ممكن هے كه اسلام ميں بھي كسي ايك خاندان ، قبيله يا گروه كي غلامي كا تصور موجود هو ، اسلام ميں ايسي كوئي بات كهنا محض باطل كو حق كهنا هے. خليفه تو امت كا خود چنا گيا هوتا هے تاكه ان كا نمائنده اور سالار هو.


اسلام ايسا مذهب نهيں جو نسب پر چلتا هو. يه توحيد كا مذهب هے جس ميں انسان يه اقرار كرتا هے كه وه صرف الله هي كي عبادت كرتا هے اور صرف اسي سے مدد مانگتا هے. اسلام كا ايك بھي ايسا اداره نهيں جس كي بنياد نسبي تفاخر هو. نه نماز كي امات ، نه جهاد كي سپه سالاري اور نه امت كي خلافت. اسلام اور اجاره داري دو متضاد قوتيں هيں. جبكه نسبي تفاخر دراصل اجاره داري كي ريڑھ كي هڈي هے.

اسلام ميں فضيلت كي بنياد تقوى هے جيسا كه قرآن ميں بيان هوا. ايمان اور عمل صالح انسان كي بلندي يا پستي كا معيار هے نه كه اس كا قبيله يا خاندان.
 

فرسان

محفلین
میں یہ مانتا ہوں کہ علم انساب میں اتنا طاق نہیں ہوں یہ خطاء ایسی بناء پر ہوئی آپ کی توجہ دلانے پر جب میں نے اس پر مطالعہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر کا تعلق قبیلہ قریش کی ایک شاح بنو تیم سے ہے اور قبیلہ بنوتمیم ایک الگ قبیلہ ہے جو نجد اور اس کے اطراف میں آباد تھا اور سلفیوں کے امام محمد بن عبدالوھاب التمیمی نجدی کا تعلق ایسی قبیلے سے ہے اور اس نام یکسا نیت کی بناء پر یہ خطاء ہوئی لیکن آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میری اس غلطی کی نشاندہی فرماکر میرے علم میں اضافہ کے باعث بنے شکریہ

صحيح بخاري پر شروع هونے والى لڑي ميں اب اگر بنو تميم كي تاريخ پر روشني ڈالني پڑ رهي هے تو اس ميں ميرا كيا قصور ؟؟

آپ نے قبيله بنو تميم كے "ماضي "كو نظر انداز كرتے هوئے ان كے "حال "پر كچھ گزارشات كي هيں ، حالانكه ماضي ميں اگر والد كافر اور حال ميں بيٹا مسلمان هو تو بيٹے كو كفر كا طعنه دينا كسي ذي عقل كا كام نهيں هو سكتا.

ان كے حال كے بارے ميں صحيح حديث شريف ميں يه خبر دي گئي هے كه يه لوگ دجال كے خلاف سب سے شديد هونگے. چنانچه دجالي ميڈيا پر اكثر وبيشتر ان سعودي نجدي مسلمانوں كو شدت پسند كها جاتا هے. نجد كے وهابي لوگ دين كے معامله ميں كافي شديد هيں اور بدعت يا غفلت برداشت نه كرنے ميں مشهور هيں. شيعه ان پر اس لئے بھي برهم هيں كه انهوں نے عراقي مزاروں پر سجدے اور طواف بند كر كے بهت سے مزارات كو پھر سے قبريں بنا ديا .

اس كا تو شيعه و سني دونوں كو تقريبا احساس هو چكا هے كه قيامت اور دجال كا ظهور اب قريب هے. شيعه اكثر اپني سواريوں پر "يا قائم ادركني" كے سلوگان لگائے نظر آتے هيں جو اس بات كا قوي ثبوت هے كه شيعه ماننے والوں كے نزديك پھي اب قيامت قريب هے. ايسے ميں دجال اور پھر شدت پسند شديد نجديوں كا وجود حديث شريف اور اهل سنت ذخيره حديث كي حقانيت كا منه بولتا ثبوت هے.
 

فرسان

محفلین
مولا علی علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام کا کس درجہ خیال رکھتے تھے یہ امام احمد رضا خان صاحب کے اس شعر سے معلوم ہوجائے گا
مولا علی نے واری تیری نیند پر نماز
وہ بھی عصر جو سب سے زیادہ خطر کی ہے

یہاں رد شمس والی حدیث کی طرف اشارہ ہے

حضرت علي رضي الله عنه كے بهت بهت فضائل هيں جن كے هوتے هوئے يه منكر روايت فضائل ميں كچھ اضافه نهيں كرسكتي.

حضرت علي رضي الله عنه نے كئي بار اس كا عملي ثبوت ديا كه وه حضور سيدي رسول الله صلى الله عليه وسلم كے جانثار هيں.

تاهم ايسے جانثار صحابي نے جو حضور سيدي رسول الله صلى الله عليه وسلم كے حكم پر اپني جان كي بالكل پرواه نهيں كرتے ، جب انھوں نے بھي حضور سيدي صلى الله عليه وسلم كي راحت كا خيال كرتے هوئے كاغذ اور قلم لانے ميں تامل كيا تو هميں بري سوچ نهيں ركھني چاهيے.
 

فرسان

محفلین
حضرت مولا علی علیہ السلام نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی معاہدے سے نہ مٹایا اس میں صرف ادب کو ہی ملحوض نہیں رکھا بلکہ یہ ان کے ایمان کی بھی بات تھی کیونکہ معاہدے سے صرف نام محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )مٹانے کی بات نہیں تھی کیونکہ یہ نام تو بعد میں بھی لکھا گیا اور اس پر کفار نے کوئی اعتراض بھی نہیں کیا کفار کا اعتراض تو ""محمد رسول اللہ "" پر تھا جو ہر مسلمان کے ایمان کا ہے اگر مولا علی علیہ السلام یہ مٹادیتے تو آج ناصبی اس کو دلیل بنا کر مولا علی علیہ السلام پر طن کرتے جو کہ اس کے باوجود بھی کرتے ہیں

جس كام كو آپ ايمان كا خطره سمجھ رهے هيں وه بالكل باطل سمجھ هے.

كيونكه بعد ميں سيدي رسول الله صلى الله عليه وسلم نے خود وه لفظ مٹا ديا تھا.

اور آپ يه بھي بھول رهے هيں كه يه الفاظ مٹا دينے كا حكم خود سيدي رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ديا تھا.

ايك هي كام يا ايمان كا خطره هوتا هے اور يا نهيں هوتا. اگر يه ايمان كا خطره هوتا تو خود حضور سيدي صلى الله عليه وسلم نے اس كا حكم كبھي نه فرمايا هوتا. اور نه بعد ميں اس كام كو خود فرمايا هوتا.

اگر يه ايمان كا خطره تھا تو كيسے ممكن هے كه حضور سيدي رسول الله صلى الله عليه وسلم اس كا حكم فرماتے؟؟؟؟

كيا ممكن هے كه حضرت علي رضي الله عنه نے ايسا سوچا هو كه يه حكم جو حضور صلى الله عليه وسلم مجھے دے رهے هيں اس سے ميرا ايمان جاتا رهے گا ، لهذا مجھے ايسا نهيں كرنا چاهيے ؟؟؟

كوئي مسلمان ايسا خيال ركھ سكتا هے ؟؟؟؟؟

آپ دفاع كرتے كرتے بهت بدترين بات كر گئے.

آپ كي اپني سوچ غلط هے.
 

فرسان

محفلین
۔
" الصحابہ کلھم عدول "

الصحابه كلهم عدول كا قاعده بالكل اپني جگه قائم اور درست هے اور قيامت تك ان شاء الله اسي طرح رهے گا تاهم آپ كے لئے علم كي بات يه بتا دوں كه كسي وقت كسي چيز كا ياد نه آنا عدالت سے كوئي تعلق نهيں ركھتا. حافظه اور عدالت دو الگ الگ چيزيں هيں.
 

فرسان

محفلین
اس پر میں مین کوئی تبصرہ نہیں کرونگا صرف جالندھری صاحب کا سورہ مائدہ کی آیت 6 کا ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا اور ایک حدیث کا مفہوم

یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح (یعنی تیمم) کر لو ۔

ارے واه !

يه شراكت تو سب سے زياده مضحكه خيز هے ، اور سچ پوچھيے تو ميں كهه سكتا هوں كه اس طرز استدلال پر ميرے "هاسے" چھوٹ گئے.

يعني كه ايك جليل القدر صحابي جن كي اپني زبان عربي تھي وه آيت سمجھ نه سكے اور دليل يه دي جاتي هے كيونكه هندوستان كے جالندھري صاحب نے آيت كا مطلب اور ترجمه كسي اور طرح سمجھا !!!

آفرين !


آپ نے تو ايسي بات كي جيسے كوئي شخص كهے كه حضرت علي كرم الله وجهه نے بعد از ركوع قنوت پڑھ كر غلطي كي ، اور ثبوت يه دے كيونكه هندوستان كے كوئي عالم قبل از ركوع قنوت پڑھنے كے قائل هيں. ايك تو كيا پورا هندوستان ايك طرف جمع هو جائے تو بھي اس كے قول كي اتني حيثيت نهيں كه حضرت علي رضي الله عنه وأرضاه كو غلط ثابت كرسكے.

يا جيسے كوئي كهے كه حضرت حسن رضي الله عنه نے لشكر جرار هونے كے باوجود اپنا منصب چھوڑ كر غلط قدم اٹھايا اور ثبوت يه دے كيونكه حضرت حسن رضي الله عنه كے لشكر كے كئي لوگ ان كے اس اقدام كو غلط كهتے هيں.

تو جناب يه جالندھري صاحب والي دليل نےبهت محظوظ كيا.
 
Top