بحوالہ قائداعظم۔وہ جھوٹ بول کہ سچ کو بھی پیار آ جائے ...صبح بخیر۔۔۔۔۔ڈاکٹر صفدر محمود

آبی ٹوکول

محفلین
مجھے کہنے دیجئے کہ تحقیق کی دنیا میں کوئی حرف یا تحقیق حرف آخر نہیں ہوتی، تحقیق نت نئے پہلو سامنے لاتی اور نئے نئے حقائق بے نقاب کرتی ہے اس لئے میں ہرگز اُن لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اپنی حقیر سی تحقیق پر اڑ جائیں یا اسے حرف آخر سمجھیں۔ میرا فقط ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ میرے دلائل کے رد میں اور اپنے نقطہ نظر کے حق میں کوئی ٹھوس شواہد اور ثبوت دیجئے، میں آپ کی بات ’’سر تسلیم خم ہے‘‘ کہہ کر مان جائوں گا اور اپنا نقطہ نظر بدل لوں گا کیونکہ طرز کہن پہ اڑنا تحقیق کے تقاضوں کی نفی ہے۔ پھر مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ بظاہر یا بلا تحقیق کسی بات کو تسلیم کرنے اور نقطہ نظر کو ماننے کا ایک واضح پیمانہ اور اصول ہے اور اس کسوٹی پر پرکھے بغیر کسی الزام یا نقطہ نظر کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کی گواہی ملکی و غیر ملکی تمام مورخین اور مصنفین نے دی ہے کہ قائداعظم سچے اور کھرے انسان تھے، وہ نہ جھکتے تھے نہ بِکتے تھے اور یہ کہ انہیں قومی خزانے کے تقدس کا اتنا خیال اور احساس تھا کہ ایک پائی کا ضیاع بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ اب اگر کوئی شخص اس حوالے سے قائداعظم کی ذات بارے شکوک پیدا کرے تو میں اسے کیسے مان جائوں اور اسے بہتان کیوں نہ سمجھوں۔ کہنے کا مقصد فقط یہ تھا کہ کسی عظیم شخصیت کے بارے میں کسی بات پر یقین کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ کیا یہ بات، نقطہ نظر یا الزام اُن کے شخصیت سے لگا کھاتا ہے، کیا اُن کے مزاج، کردار اور شخصیت سے مطابقت رکھتا ہے؟ یہ ایک کامن سینس کا اصول ہے پھر اس کے بعد تحقیق کی باری آتی ہے کہ آپ ان کے حوالے سے لکھی گئی کتابیں پڑھیں، اُن کی تقریریں اور تحریریں کھنگالیں اور ان کے ساتھیوں اور ہم عصروں کے انٹرویو کریں وغیرہ وغیرہ۔ اگر پھر بھی ایسے نقطہ نظر کا کہیں نشان نہ ملے تو پھر مان لیں کہ یہ بات بے بنیاد ہے اور بقول شاعر یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی۔
آج کے کالم کا اصل موضوع ایک فقرہ ہے جسے قائداعظمؒ سے منسوب کیا جاتا ہے سوال یہ ہے کہ کیا قائداعظمؒ نے کبھی ایسا کہا تھا؟ وہ فقرہ ہے کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ڈال دیئے گئے ہیں۔‘‘ ناانصافی یہ ہے کہ اس فقرے کو بلا تحقیق اتنی بار تواتر سے دہرایا گیا ہے، فرمایا گیا ہے اور کالم نگاروں نے اپنی تحریروں کو سجانے کے لئے اسے اتنی بار لکھا ہے کہ اب ہر شخص اس پر یقین کر لیتا ہے اور اس پر تنقیدی نظر ڈالنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتا۔ اسے کہتے ہیں غلط العام، ایسی غلطی جسے لوگ سچ سمجھنے لگیں۔ اسی لئے گوبلز کہتا تھا کہ اتنی بار جھوٹ بولو کہ وہ سچ لگنے لگے بلکہ سچ کا لبادہ اوڑھ لے۔ میں اس موضوع پر خاصی تحقیق کے بعد کئی بار لکھ چکا ہوں کہ قائداعظمؒ سے منسوب یہ الفاظ بالکل ثابت نہیں ہوتے، میں قائداعظم کے بے شمار ساتھیوں، کارکنوں اور ملنے والوں سے مل کر پوچھ چکا ہوں، قائداعظم پر تحقیقی مستند اور قابل اعتبار کتابوں کی ورق گردانی کر چکا ہوں مجھے اس فقرے کا کہیں نام و نشان نہیں ملا۔ اول تو قائداعظم اس قسم اور اس طرح کے انسان نہیں تھے کہ اپنے قریبی ساتھیوں، جانثار کارکنوں اور مخلص قائدین کے بارے میں تضحیک آمیز بات کرتے۔ انہوں نے سینکڑوں بار اپنے ساتھیوں اور تحریک پاکستان کے کارکنوں کے ایثار اور جذبے کی تعریف کی اور سینکڑوں بار حصول پاکستان کا کریڈٹ انہیں دیا۔ انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ قیام پاکستان صرف ان کا ذاتی کارنامہ تھا اور یہ کہ اس جدوجہد میں دوسرے شامل نہ تھے۔ میری سمجھ بوجھ اور تحقیق کے مطابق ایسے فقروں کی ’’ایجاد‘‘ کا سہرا اُن مقررین اور سیاسی خطیبوں کی خطابت کے سر ہے جنہوں نے قائداعظمؒ کی عظمت کو چار چاند لگانے کے لئے اور جوش خطابت میں سچ کی حدیں عبور کرتے ہوئے کبھی قائداعظم کی جیب میں کھوٹے سکے ڈال دیئے اور کبھی یہ انکشاف کیا کہ قائداعظمؒ کہتے تھے پاکستان ’’میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا‘‘۔ جتنا اور جس قدر میں نے پڑھا ہے اور قائداعظمؒ کی ذات کو سمجھا ہے مجھے یہ دونوں دعوے ان کی شخصیت سے لگا کھاتے اور اُن کے مزاج کے مطابق نہیں لگتے۔ ہاں اس کی ایک نفسیاتی بیک گرائونڈ ہے اور وہ یہ کہ قائداعظمؒ کے اکثر جانشین قابلیت اور کردار کے حوالے سے کم تر تھے چنانچہ ان کے سیاسی مخالفین نے انہیں کھوٹے سکے قرار دے دیا اور وہ لوگ جنہوں نے نہ قائداعظمؒ کو دیکھا، نہ اُن سے ملے یا اگر ملے تو اُن کی حیثیت ایسی نہ تھی کہ قائداعظمؒ سے بے تکلفی سے بات کر سکتے۔ اُنہوں نے قائداعظمؒ سے فقرہ منسوب کر دیا کہ ’’وہ کہتے تھے پاکستان میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا۔‘‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر قائداعظم نہ ہوتے تو شاید پاکستان نہ بنتا۔ پھر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اگر 1945-46کے انتخابات میں مسلم لیگ 75فیصد ووٹ حاصل نہ کرتی تو قائداعظمؒ کی قیادت کے باوجود پاکستان نہ بن سکتا۔ مقصد یہ کہ پاکستان قائداعظمؒ کی قیادت میں مسلمانوں کی حمایت سے بنا اور یہ حمایت حاصل کرنا قائداعظم کی شخصیت اور سیاست کا اہم ترین کارنامہ تھا۔ مجھے تاریخ کی وادیوں میں ان فقروں کا کہیں قابل اعتماد نام و نشان نہیں ملا اور نہ ہی یہ فقرہ قائداعظمؒ کے مزاج کے مطابق ہے۔ ایک کانگریسی ذہن کے مورخ نے سکندر مرزا کی کتاب کا حوالہ دیا تھا تو میں نے پوچھا کہ قیام پاکستان کے بعد قائداعظمؒ، قائداعظمؒ بھی تھےاور گورنر جنرل بھی۔ کیا ایک درمیانے درجے کا سرکاری ملازم قائداعظمؒ سے اتنی لبرٹی لے سکتا تھا کہ اس طرح کا سوال کرتا؟ خدا کے بندوں عقل سلیم کو استعمال کرو اور ذرا آزاد ہو کر سوچو۔ کہاں قائداعظمؒ اور کہاں حکومت پاکستان کا ایک جونیئر اور ادنیٰ ملازم۔ شاید اتنی لبرٹی تو کوئی ڈپٹی یا جائنٹ سیکرٹری میاں نواز شریف سے بھی نہ لے سکے اور تم قائداعظمؒ کی بات کرتے ہو۔
لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، سردار عبدالرب نشتر، چندریگر، راجہ غضنفر علی خان، سردار بہادر خان، چودھری نذیر احمد خان، ڈاکٹر ایم اے مالک وغیرہ وغیرہ کی موجودگی میں قائداعظمؒ کیسے کہہ سکتے تھے کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ڈال دیئے گئے ہیں۔ یہ حضرات پاکستان کی پہلی کابینہ کے چمکتے ستارے تھے جن پر قائداعظمؒ اعتماد کرتے تھے۔ میں نے تاریخ کے اس باب کو بند کر دیا تھا لیکن کچھ عرصہ قبل جناب ابو سلیمان شاہ جہاں پوری نےایک معاصراخبار کے ذریعے میرے نقطہ نظر کو رد کرنے کیلئے جناب اسحاق بھٹی کی کتاب کا حوالہ دیا۔ میرے نزدیک یہ حوالہ مضحکہ خیز تھا اس لئے میں نے اس سے صرف نظر کرنا بہتر جانا لیکن نوید امان جیسے قارئین کا اصرار بڑھتا گیا کہ اس کنفیوژن کو رفع کیا جائے کیونکہ یہ قائداعظم کے احترام کا تقاضا ہے میں اس پہ کیا تبصرہ کروں کیونکہ اس کتاب اور حوالے کے مطابق ’’قیام پاکستان کے بعد قائداعظمؒ میاں عبدالعزیز مالوادہ سے ملے اور تحریک پاکستان کے ممتاز کارکن ملک برکت علی کی موجودگی میں کہا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔‘‘ شاید ابو سلیمان شاہ جہاں پوری کو علم نہیں کہ ملک برکت علی 1946ء میں وفات پا گئے تھے، وہ قیام پاکستان کے بعد قائداعظمؒ سے کیسے مل سکتے تھے؟ اس سے کتاب کے معیار کا اندازہ لگا لیں۔ کانگریسی سوچ گل کھلاتی رہتی ہے بس اسے دیکھتے جایئے اور یہ مصرعہ زیر لب پڑھتے رہئے ؎
جھوٹ بول کہ سچ کو بھی پیار آ جائے۔۔۔

ربط



 
Top