فارسی شاعری بحر طویل از زبان امام حسین علیہ السلام - حاج غلامرضا سازگار

حسان خان

لائبریرین
اگر از خنجر خونریز لبِ تشنه ببرند سرم را، اگر از تیغ شکافند در این عرصه ی خونین جگرم را، اگر از تیر سه شعبه بدهند آب عوض شیر گل نوثمرم را، اگر از داغ برادر شکند خصم ستمگر کمرم را، اگر از چار طرف خصم زند بر جگرم تیر، اگر آید به سر و کتف و تنم ضربت شمشیر، اگر از سنگ شود غرقه به خون روی منیرم، اگر آتش عوض آب دهد خصم شریرم، اگر از داغ پسر سوزم و صد بار بمیرم، به خدایی که مرا خواسته با پیکر صدچاک ببیند به تنم زخم دوصد نیزه وشمشیر نشیند، به ستمگر نکنم کرنش و ذلت نپذیرم، اگر آرند به جنگم همه ی اهل زمین را و سما را
انا مظلوم حسین
اگر خنجر خونریز سے تشنہ لب میرا سر کاٹ ڈالیں، اگر اس خونیں میدان میں تلوار سے میرا جگر چیر ڈالیں، اگر میرے نئے کھِلے پھول کو دودھ کے بجائے تین منہ والے تیر سے پانی دیں، اگر بھائی کے داغ سے دشمن میری کمر توڑ ڈالے، اگر چاروں طرف سے دشمن میرے جگر پر تیر زنی کرے، اگر میرے سر، کندھوں اور بدن پر شمشیر کی ضربت آئے، اگر میرا روئے منیر پتھر سے خون میں غرق ہو جائے، اگر مجھے شریر دشمن پانی کے بجائے آگ دے، اگر اپنے بیٹے کے داغ سے جلوں اور سو بار مروں، اُس خدا کی قسم کہ جس نے چاہا ہے کہ وہ مجھے پیکرِ صد چاک کے ساتھ دیکھے اور میرے تن پر دو سو نیزے اور شمشیر کے زخم نمودار ہوں، میں ستمگر کے آگے کورنش بجا لا کر ذلت نہیں قبول کروں گا، چاہے مجھ سے جنگ کرنے لیے تمام زمین اور آسمان والوں کو ہی کیوں نہ لے آئیں​
میں مظلوم حسین ہوں!​
منم و عهد الستم، نه گسستم نه شکستم، به خدا غیر خدا را نپرستم، به خدا من پسر شیر خدا و پسر فاطمه هستم، همه ی دار و ندارم همه هفتاد و دو یارم به فدای ره جانان، منم و سرخی رویم، منم و خون گلویم، منم و حنجر عطشان، منم و داغ جوانان، منم و خاک بیابان، منم و سُمِ ستوران، من و رگ های بریده، منم و قلب دریده، منم وطفل صغیرم، منم و کودک شیرم، منم و دخت اسیرم، منم و حیّ قدیرم، منم و زخم فراوان، منم و آیه ی قرآن، منم و زخم زبان ها، منم و تیغ و سنان ها، همه آیید و ببینید مقام و شرف و عزت ما را
انا مظلوم حسین
میں ہوں اور میرا عہدِ الست، جسے نہ میں نے پارہ پارہ کیا ہے نہ توڑا ہے، خدا کی قسم غیرِ خدا کی پرستش نہیں کروں گا، بخدا میں پسرِ شیرِ خدا اور پسرِ فاطمہ ہوں، میرا سب کچھ اور میرے تمام بہتر یار رہِ جاناں میں فدا ہوں۔ میں ہوں اور میرے چہرے کی سرخی، میں ہوں اور میرے گلے کا خون، میں ہوں اور پیاسا حلق، میں ہوں اور جوانوں کا داغ، میں ہوں اور خاکِ بیاباں، میں ہوں اور چوپایوں کے سُم، میں ہوں اور بریدہ رگیں، میں ہوں اور قلبِ دریدہ، میں ہوں اور میرا طفلِ صغیر، میں ہوں اور میرا دودھ پیتا بچہ، میں ہوں اور میری اسیر بیٹی، میں ہوں اور میرا حی و قدیر (خدا)، میں ہوں اور اتنے زخم، میں ہوں اور قران کی آیت، میں ہوں اور زبانوں کے زخم، میں ہوں اور تیغ اور سنانیں، تم سب لوگ آؤ اور ہمارا مقام، شرف اور عزت دیکھو۔​
میں مظلوم حسین ہوں!​
به خدا و به رسول و به علی ابن ابی طالب و زهرای بتول و حسن آن سید ابرار، به هفتاد و دو یارم به حبیبم به زهیرم به طرماح و به جون و وهب پاک سرشتم، به جلال و شرف عابس و عباس و به عثمان و به جعفر، به شهیدان عقیل و به خلوص دل عبد اللَّه و قاسم، به علی اکبر و داغش به علی اصغر و خونش به گل یاس مدینه، به رقیه به سکینه، به دل سوخته ی زینب کبرا و دو فرزند شهیدش، به لب تشنه ی اطفال صغیرم، به تن خسته ی سجاد عزیزم، من از این قوم ستمگر نگریزم، نکنم بیعت و با خصم ستمگر بستیزم، من و ذلت، من و تسلیم، من و خواری و خفت، سر من بر سر نی راه خدا پوید و با دوست سخن گوید و گردد هدف سنگ و خورد چوب، نبینم به خدا غیر خدا را
انا مظلوم حسین
خدا کی قسم، رسول کی قسم، علی ابن ابی طالب کی قسم، زہرائے بتول اور اس سیدِ ابرار حسن کی قسم، میرے بہتر ساتھیوں کی قسم، میرے حبیب کی قسم، میرے زہیر کی قسم، میرے طرماح، جون، اور پاک سرشت وہب کی قسم، عابس و عباس کے جلال و شرف کی قسم، عثمان و جعفر کی قسم، شہیدانِ عقیل اور عبداللہ اور قاسم کے خلوصِ دل کی قسم، علی اکبر اور اس کے داغ کی قسم، علی اصغر اور اس کے خون کی قسم، مدینے کے گلِ یاس کی قسم، رقیہ کی قسم، سکینہ کی قسم، زینبِ کبریٰ کے دلِ سوختہ کی اور اس کے دو شہید فرزندوں کی قسم، میرے چھوٹے بچوں کے پیاسے ہونٹوں کی قسم، میرے عزیز سجاد کے تنِ خستہ کی قسم، میں اس قومِ ستمگر سے گریزاں نہیں ہونگا، میں بیعت نہیں کروں گا اور ستمگر دشمن سے لڑتا رہوں گا۔۔ میں اور ذلت؟ میں اور تسلیم؟ میں اور خواری و خفت؟۔۔۔ میرا سر نیزے پر خدا کی راہ میں چلے اور دوست سے باتیں کرے، اور سنگ کا نشانہ بنے اور لکڑی کی ضربیں کھائے ۔۔ میں خدا کی قسم غیرِ خدا کو نہیں دیکھوں گا۔۔​
میں مظلوم حسین ہوں​
(حاج غلام رضا سازگار)
 

الف نظامی

لائبریرین
اگر خنجر خونریز سے تشنہ لب میرا سر کاٹ ڈالیں، اگر اس خونیں میدان میں تلوار سے میرا جگر چیر ڈالیں، اگر میرے نئے کھِلے پھول کو دودھ کے بجائے تین منہ والے تیر سے پانی دیں، اگر بھائی کے داغ سے دشمن میری کمر توڑ ڈالے، اگر چاروں طرف سے دشمن میرے جگر پر تیر زنی کرے، اگر میرے سر، کندھوں اور بدن پر شمشیر کی ضربت آئے، اگر میرا روئے منیر پتھر سے خون میں غرق ہو جائے، اگر مجھے شریر دشمن پانی کے بجائے آگ دے، اگر اپنے بیٹے کے داغ سے جلوں اور سو بار مروں، اُس خدا کی قسم کہ جس نے چاہا ہے کہ وہ مجھے پیکرِ صد چاک کے ساتھ دیکھے اور میرے تن پر دو سو نیزے اور شمشیر کے زخم نمودار ہوں، میں ستمگر کے آگے کورنش بجا لا کر ذلت نہیں قبول کروں گا، چاہے مجھ سے جنگ کرنے لیے تمام زمین اور آسمان والوں کو ہی کیوں نہ لے آئیں​
میں مظلوم حسین ہوں!​
میں ہوں اور میرا عہدِ الست، جسے نہ میں نے پارہ پارہ کیا ہے نہ توڑا ہے، خدا کی قسم غیرِ خدا کی پرستش نہیں کروں گا، بخدا میں پسرِ شیرِ خدا اور پسرِ فاطمہ ہوں، میرا سب کچھ اور میرے تمام بہتر یار رہِ جاناں میں فدا ہوں۔ میں ہوں اور میرے چہرے کی سرخی، میں ہوں اور میرے گلے کا خون، میں ہوں اور پیاسا حلق، میں ہوں اور جوانوں کا داغ، میں ہوں اور خاکِ بیاباں، میں ہوں اور چوپایوں کے سُم، میں ہوں اور بریدہ رگیں، میں ہوں اور قلبِ دریدہ، میں ہوں اور میرا طفلِ صغیر، میں ہوں اور میرا دودھ پیتا بچہ، میں ہوں اور میری اسیر بیٹی، میں ہوں اور میرا حی و قدیر (خدا)، میں ہوں اور اتنے زخم، میں ہوں اور قران کی آیت، میں ہوں اور زبانوں کے زخم، میں ہوں اور تیغ اور سنانیں، تم سب لوگ آؤ اور ہمارا مقام، شرف اور عزت دیکھو۔​
میں مظلوم حسین ہوں!​
حق حق حق حق حق حق!!!​
جہاں حسین وہاں لا الہ الا اللہ!
 

نایاب

لائبریرین
" حسین منی و انا من الحسین "
سبحان اللہ!​
بلاشک
کیا شان و جلال و جمالِ​
حسین​
ہے!​
حق حق حق حق حق حق!!!​
جہاں حسین وہاں لا الہ الا اللہ!
 

الف نظامی

لائبریرین
خواجہ حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کی غزل کا ایک شعر ہے

سینہ مالا مال درد است اے دریغا مرہمے
دل ز تنہائی بجاں آمد خدا را ہمدمے

سید مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی رنگ میں فرمایا ہے:

سینہ مالا مال درد است و بجوید ہردمے
درد بر دردے دگر زخمے بجائے مرہمے

قرعہ فالش بنام آدم خاکی زدند
گِل بود نے دل کہ با دردے بجوید مرہمے

دل کند زخمےرفو گر مہربان دارد طلب
نوکِ مژگاں را صبا بارِ دگر گو مرہمے

بستہ شد اند را ازل خاطر بداں شورِ جہاں
کز نسیمِ تاب زلفش نوریاں پیچد ہمے

اکحل العینین املح ازج الحاجبین
سرمہ گیں چشمے ، کماں ابرو ،ملیحے ارحمے

روے تاباں والضحیٰ والیل مویش ذا سجیٰ
و زفتخنائش لوےٰ یسین از متبسمے

دوش در گوشم رسیدہ از سگان کوئے دوست
مہر ما را کے سزد ہر خود پرستے بے غمے

حضرت کی یہ غزل ایک سال پاک پتن شریف کے عرس پر ایام محرم میں پڑھی جارہی تھی ۔ حضرت خود رونق افروز تھے۔ ہندوستان کے ایک بزرگ سجادہ نشین پہلے ہی شعر پر وجد میں آکر رقص کرنے لگے۔ آداب چشتیہ کے مطابق ساری محفل کھڑی ہوگئی۔ روتے جاتے تھے اور لذتِ فریاد میں ان اشعار کی اس طرح تشریح کر رہے تھے:

"سبحان اللہ! پیر صاحب نے کیا خوب مرثیہ کہہ ڈالا ہے۔ حضرت امام حسین تہ خنجر کیا فرما رہے ہیں:
"اے میرے دل و جان اور میری روح کے محبوب! اے میرے ایمان!! اس خنجر کی روانی کو تا قیام قیامت دراز کردے تاکہ تیری محبت میں ذبح کیا جاوں اور زندہ ہوجاوں اور پھر ذبح کیا جاوں"
 
Top