بحران سے نکل کر مستحکم دور میں داخل ہوگئے، مشیر خزانہ

جاسم محمد

محفلین
بحران سے نکل کر مستحکم دور میں داخل ہوگئے، مشیر خزانہ
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 16 ستمبر 2019

مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کی معاشی و اقتصادی صورت حال بحران سے نکل کر مستحکم دور میں داخل ہوچکی ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومتی اخراجات کم کیے گئے اور دفاعی بجٹ کو گزشتہ سطح پر برقرار رکھا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ جس وقت موجودہ حکومت وجود میں آئی تو معاشی اشاریے پریشان کن تھے جس کو مد نظر رکھتے ہوئے فوری طور پر معاشی اصلاحات کے ذریعے صورتحال کو بہتر کیا گیا۔

’580 ارب روپے کے ٹیکسز وصولی‘
عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ٹیکس وصولی میں گزشتہ سال کی نسبت اضافہ ہوا اور فائلرز کی تعداد بڑھائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 70 فیصد تک کمی لائی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں سال جولائی اور اگست میں 580 ارب روپے کے ٹیکسز جمع کیے گئے جبکہ 23 اگست سے ٹیکس ریفنڈ کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔

مشیر خزانہ نے اعلان کیا کہ نجکاری کا عمل تیزی کے ساتھ مکمل کیا جائے گا اور مسائل کا شکار بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کی بھی نجکاری کی جائے گی۔

عبدالحفیظ شیخ نے بتایا کہ حکومت نے اخراجات پر کنٹرول کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک سے ادھار نہیں لیا۔

6 لاکھ اضافی ٹیکس فائلرز کا اضافہ
انہوں نے بتایا کہ ملک میں امیر طبقہ ٹیکس کی ادائیگی سے گریز کرتا ہے، گزشتہ برس تک ٹیکس فائلرز کی تعداد 19 لاکھ تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اضافی 6 لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں شامل کر لیا ہے‘۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ ’2015 سے اب تک 22 ارب روپے پر مشتمل سیلز ٹیکس ریفنڈز کے آر پی او تشکیل دے دیے اور اب حکومت کے اوپر کوئی سیلز ٹیکس کی آرپی او نہیں ہے‘۔

عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ’حکومت نے اپنا ایک وعدہ پورا کیا‘۔

ایکسپورٹرز کے ریفنڈز کی ادائیگی
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے عوام سے کیا گیا ایک اور وعدہ پورا کر دیا جس کے تحت ایکسپورٹرز کو ہر ماہ کی 16 تاریخ کو ریفنڈز مل جائے گا‘۔

انہوں نے بتایا کہ ایکسپورٹرز چاہتے ہیں کہ ان کا ریفنڈز جلدی دیا جائے اس مقصد کے لیے 23 اگست سے نیا نظام شروع کیا جس کے تحت فوری اور مکمل ریفنڈز ہوجائےگا۔

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ نظام کے تحت جیسے ہی ایکسپورٹرز اپنا ڈیٹا ڈالے گا ہر مہینے کی 16 تاریخ کو ریفنڈ بن جائےگا۔

خسارے سے دوچار مالیاتی اداروں کی نجکاری کا فیصلہ
مشیر خزانہ نے کہا کہ ’جو سرکاری مالیاتی ادارے خسارے سے دور چار ہیں انہیں پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کیا جائے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’حکومت نے اس ضمن میں دو اہم فیصلے کیے ہیں، نجکاری کے عمل کو تیز کرنے کے لیے 10 نئی کمپنیاں آئیں اور اس عمل کو فاسٹ ٹریکٹ پر کیا جائے گا تاکہ پیدوارای لاگت بڑھے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کے 20 مالیاتی اداروں میں بہتری کی گنجائش ہے اور اس مقصد کے لیے سرمایہ پاکستان نامی ادارے کو فعال کردیا گیا ہے جو اداروں کی از سر نو تنظیم سازی کرے گا۔

مشیر خزانہ نے بتایا کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں سمیت بڑے اداروں نیشنل بینک آف پاکستان اور اسٹیٹ لائف بھی نجکاری کے دائرے میں آسکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بجلی کی چوری کی مد میں ماہانہ 38 ارب گردشی قرضوں کا اضافہ ہورہا تھا، اب 100 ارب روپے کی چوری پر قابو پایا گیا اور گزشتہ جولائی میں 10 ارب روہے سے کم کی بجلی چوری کی گئی۔

نان ٹیکس ریونیو کے ذرائع
نان ٹیکس ریونیو کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ٹیکس کے بغیر آمدنی کے ذرائع بڑھانے پر غور کیا ہے اور اس ضمن میں موبائل فون کمپنیوں سے 140 ارب روپے حاصل کیے جا چکے ہیں تاہم مزید 70 ارب روپے ملنے کی توقع ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آر ایل این جی کی پلانٹ کی نجکاری دسمبر میں ہوجائے گی اور اس مد میں 300 ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے۔

مشیر خزانہ نے بتایا کہ ’اگر ایکسچینج ریٹ میں بہتر رہے تو اسٹیٹ بینک کی آمدنی کو 400 ارب روپے کا فائدہ دیکھ رہے ہیں'۔

حکومتی پریس کانفرنس جھوٹ کا پلندہ قرار
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ملکی معیشت پر حکومتی پریس کانفرنس کو ’جھوٹ‘ قرار دے دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’نالائق اور نااہل حکومت جھوٹ پہ جھوٹ بول کر معیشت ٹھیک کرنے کے لیے پرعزم ہے‘۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ ’حکومت کی سب سے بڑی اور نمایاں ترجیحات میں جھوٹ بولنا، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہے‘۔

انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرکے کہا کہ ’عمران خان ٹی وی لگالیں آپ کی حکومت نے قوم کو مقروض کرنے کا نیا تاریخی ریکارڈ قائم کردیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مطابق کہ 5.5کھرب کا ریونیو ہدف حاصل نہیں ہوسکتا اور حکومت نے گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں کم ترین ریونیو جمع کرنے کا تاریخی ریکارڈ قائم کیا۔

ترجمان مسلم لیگ نے سوال اٹھایا کہ حکومت نے جولائی میں گزشتہ برس سے 159 فیصد زائد قرض کیوں لیا؟۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ جولائی میں حکومتی قرضوں میں 12 کھرب 37 ارب کا اضافہ نالائقی اور نااہلی کا اعلان ہے۔

انہوں نے حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’روپے کی 34 فیصد بے قدری کے باوجود گزشتہ جولائی میں برآمدات صرف ایک ارب 90 کروڑ ڈالر تھی۔

علاوہ ازیں ان کا کہنا تھا کہ صرف جولائی میں1.23کھرب روپے ریکارڈ قرض بڑھا ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ جبکہ کرنٹ اکاونٹس خسارے میں کمی پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ جات کے لیے سامان کی ترسیل بند ہونے سے آئی ہے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ اسٹیٹ بتارہا ہے کہ قرضوں کا حجم 330 کھرب 24 ارب تک پہنچ چکا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پرسوں تک تو یہ کچھ اور کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔ دو دن میں اچانک یہ کیا ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔ تبدیلی ائی رے
یہ بھی پڑھیں

مہنگائی، روپے کی قدر میں کمی کے سنگین سماجی اثرات ہونگے
فراز احمد پير 16 ستمبر 2019
شرح سود میں اضافے، کرنسی کو آزاد چھوڑ دینے کے سنگین سماجی نتائج برآمد ہوں گے فوٹو : فائل

کراچی: پاکستان کی معیشت ایک بار پھر بیمار ہوچکی ہے اور آئی ایم ایف نے اس کے لیے ایک بار پھر وہی نسخہ تجویز کیا ہے کہ ’ زہر کو زہر ہی مارتا ہے ۔‘

پبلک فنانسز کی بدانتظامی اور حد سے زیادہ قرضے لینے کے ’ مرض‘ کا علاج آئی ایم ایف سے مزید قرض لے کر کیا جارہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے بھی قرض لیا جارہا ہے۔ 2019ء میں آئی ایم ایف سے 22 ویں بار قرض لیا گیا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت شرح سود میں اضافہ، کرنسی کو آزاد چھوڑ دینے کے سنگین سماجی اثرات برآمد ہوں گے۔

اگرچہ اسٹیٹ بینک اور کیو بلاک کی جانب سے یقینی دہانی کرائی جارہی ہے کہ معیشت بحران سے نکل رہی ہے تاہم آئی ایم ایف سے معاہدے کے طویل مدتی اثرات ابھی واضح نہیں ہوئے۔ اس ضمن میں ہمیں مصر کی صورتحال کو پیش نظر رکھنا ہوگا جہاں آئی ایم ایف سے قرض لینے کے بعد تنخواہوں اور فیول سبسڈیز میں کٹوتیوں اور ملازمتوں کے خاتمے کی صورت میں سماجی بحران جنم لے رہا ہے۔

ورلڈ بینک کی اپریل 2019 میں شائع شدہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مصر کی 60 فیصد آبادی غریب ہے اور وہاں معیار زندگی تیزی سے گر رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے ڈیل کے اثرات میکرو لیول پر دیکھے جاتے ہیں مگر معاشی اصلاحات کے فوائد اس وقت تک عام افراد کو منتقل نہیں ہوتے جب تک کہ حکومت سنجیدہ اقدام نہیں کرتی۔
 
Top