باغ و بہار

شمشاد

لائبریرین
یہ ذکر ملکہ نے سن کر فرمایا کہاں ہے؟ اگر شہزادہ ہے تو کیا مضائقہ؟ روبہ رو آوے وہ کوکا وہاں سے اٹھ کر آیا اور مجھے ساتھ لے کر گیا۔ میں ملکہ کے دیکھنے سے نہایت شاد ہوا، لیکن عقل و ہوش برباد ہوئے۔ عالم سکوت کا ہو گیا۔ یہ ہواؤ نہ پڑا کہ کچھ کہوں۔ ایک دم میں ملکہ سدھاری اور کوکا اپنے مکان کو چلا۔ گھر آ کر بولا کہ میں نے تیری سب حقیقت اول سے آخر تک کہہ سنائی اور سفارش بھی کی، اب تو ہمیشہ رات کو بلاناغہ جایا کر اور عیش خوشی منایا کر۔ میں اس کے قدم پر گر پڑا۔ اس نے گلے لگا لیا۔ تمام دن گھڑیاں گنتا رہا کہ کب سانجھ ہو، جو میں جاؤں۔ جب رات ہوئی میں اس جوان سے رخصت ہو کر چلا اور پائیں باغ میں ملکہ کے چبوترے پر تکیہ لگا کے جا بیٹھا۔ بعد ایک گھڑی کے ملکہ تن تنہا ایک خواص کو ساتھ لے کر آہستہ آہستہ آ کر مسند پر بیٹھیں۔ خوش طالعی سے یہ دن میسر ہوا، میں نے قدم بوس کیا۔ انہوں نے میرا سر اٹھا لیا اور گلے سے لگا لیا۔ اور بولیں کہ اس فرصت کو غنیمت جان میرا کہا مان۔ مجھے یہاں سے لے نکل، کسو اور ملک کو چل۔ میں نے کہا چلئے یہ کہہ کر ہم دونوں باغ کے باہر تو ہوئے پر حیرت سے اور خوشی سے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ راہ بھول گئے اور ایک طرف کو چلے جاتے تھے، پر کچھ ٹھکانا نہیں پاتے تھے۔ ملکہ برہم ہو کر بولیں اب میں تھک گئی تیرا مکان کہاں ہے، جلدی چل کر پہنچ۔ نہیں تو کیا کیا چاہتا ہے؟ میرے پاؤں میں پھپھولے پڑ گئے، رستے میں کہیں بیٹھ جاؤں گی۔

میں نے کہا کہ تیرے غلام کی حویلی نزدیک ہے، اب آ پہنچے، خاطر جمع رکھو اور قدم اٹھاؤ۔ جھوٹ تو بولا پر دل میں حیران تھا کہ کہاں لے جاؤں؟ عید راہ پر ایک دروازہ مقفل نظر پڑا۔ جلدی سے قفل کو توڑ کر مکان کے بھتیر گئے۔ اچھی حویلی، فرش بچھا ہوا شراب کے شیشے بھرے، قرینے سے طاق میں دھرے اور باورچی خانے میں نان کباب تیار تھے۔ ماندگی کمال ہو رہی تھی ایک ایک گلاب شراب پرتگالی کی اس گزک کے ساتھ پی اور ساری راہ باہم خوشی کی۔ جب اس چین سے صبح ہوئی، شہر میں غل مچا کہ شہزادی غائب ہوئی۔ محلہ محلہ، کوچہ کوچہ، منادی پھرنے لگی اور کٹنیاں اور ہرکارے چھوٹے کہ جہاں ہاتھ آوے پیدا کریں، اور سب دروازوں پر شہر کے بادشاہی غلاموں کی چوکی آ بیٹھی۔ گزربانوں کو حکم ہوا کہ بغیر پروانگی، چیونٹی باہر شہر کے نہ نکل سکے۔ جو کوئی سراغ ملکہ کا لاوے گا ہزار اشرفی اور خلعت انعام پاوے گا۔ تمام شہر کٹنیاں پھرنے اور گھر گھر میں گھسنے لگیں۔ مجھے جو کم بختی لگی دروازہ بند نہ کیا۔ ایک بڑھیا شیطان کی خالہ، اس کا خدا کرے منہ کالا، ہاتھ میں تسبیح لٹکائے برقع اوڑھے، دروازہ کھلا پا کر ندھڑک چلی آئی اور سامنے ملکہ کے کھڑی ہو کر ہاتھ اٹھا کر دیا دینے لگی کہ الٰہی تیری نتھ جوڑی سہاگ کی سلامت رہے اور کماو کی پگڑی قائم رہے میں غریب رنڈیا فقیرنی ہوں۔ ایک بیٹی میری ہے کہ وہ دو جی سے پورے دونوں درد زہ میں مرتی ہے اور مجھ کو اتنی وسعت نہیں کہ ادھی کا تیل چراغ جلاؤں، کھانے پینے کو تو کہاں سے لاؤں۔ اگر مر گئی تو گورو کفن کیونکر کروں گی؟ آج دو دن ہوئے ہیں کہ بھوکی پیاسی پڑی ہے۔ اسے صاحب زادی! اپنی خیر کچھ ٹکڑا پارچہ دلا تو اس کو پانی پینے کا آدھار ہو۔

ملکہ نے ترس کھا کر اپنے نزدیک بلا کر چار نان اور کباب اور ایک انگوٹھی چھینگیا سے اتار کر حوالے کی کہ اس کو بیچ بانچ کر گہنا پاتا بنا دیجو۔ اور خاطر جمع سے گزران کیجو۔ اور کبھو آیا کیجو، تیرا گھر ہے، اس نے اپنے دل کا مدعا، جس کی تلاش میں آئی تھی بہ جنس پایا۔ خوشی سے دعائیں دیتی اور بلائیں لیتی دفع ہوئی۔ ڈیوڑھی میں نان کباب پھینک دیئے، مگر انگوٹھی کو مٹھی میں لے لیا کہ پتا ملکہ کے ہاتھ کا میرے ہاتھ آیا۔ خدا اس آفت سے جو بچایا چاہے اس مکان کا مالک جواں مرد سپاہی، تازی گھوڑے پر چڑھا ہوا، نیزہ ہاتھ میں لئے شکار بن سے ایک ہرن لٹکائے آ پہنچا، اپنی حویلی کا تالا ٹوٹا اور کواڑ کھلے پائے۔ اس دلالہ کو نکلتے دیکھا، مارے غصے کے ایک ہاتھ سے اس کے جھونٹے پکڑ کر لٹکایا اور گھر میں آیا۔ اس کے دونوں پاؤں میں رسی باندھ کر ایک درخت کی ٹہنی میں لٹکایا۔ سر تلے پاؤں اوپر کئے ایک دم میں تڑپہ تڑپہ مر گئیں۔ اس مرد کی صورت دیکھ کر یہ ہیبت غالب ہوئی کہ ہوائیاں منہ پر اڑنے لگیں اور مارے ڈر کے کلیجہ کانپنے لگا۔ اس عزیز نے ہم دونوں کو بدحواس دیکھ کر تسلی دی کہ بڑی نادانی تم نے کی۔ ایسا کام کیا اور دروازہ کھول دیا۔

ملکہ نے مسکرا کر فرمایا کہ شہزادہ اپنے غلام کی حویلی کہہ کر مجھے لے آیا اور مجھ کو پھسلایا۔ اس نے التماس کیا کہ شہزادے نے بیان واقعی کہا۔ جتنی خلق اللہ ہے بادشاہوں کے لونڈی غلام ہیں۔ انہیں کی برکت اور فیض سے سب کی پرورش اور نباہ ہے۔ یہ غلام بے دام و درم زر خریدہ تمہارا ہے۔ لین بھید چھپانا، عقل کا مقتضا ہے۔ اے شہزادے تمہارا اور ملکہ کا اس غریب خانے میں توجہ فرمانا اور تشریف لانا سعادت دونوں جہان کی ہے۔ اور اپنے فدوی کو سرفراز کیا۔ میں نثار ہونے کو تیار ہوں۔ کسو صورت میں جان و مال سے دریغ نہ کروں گا۔ آپ شوق سے آرام فرمائیے اب کوڑی بھر خطرہ نہیں۔ یہ مردار کٹنی اگر سلامت جاتی تو آفت لاتی۔ اب جب تلک مزاج شریف چاہے بیتھے رہیے اور جو کچھ چاہیے درکار ہو اس خانہ زاد کو کہیے سب حاضر کرے گا اور بادشاہ تو کیا چیز ہے! تمہاری خبر فرشتے کو بھی نہ ہو گی۔ اس جواں مرد نے ایسی ایسی باتیں تسلی کی کہیں کہ تک خاطر جمع ہوئی۔ تب میں نے کہا شاباش تم مرد ہو۔ اس مروت کا عوض ہم سے بھی جب ہو سکے گا تب ظہور میں آوے گا۔ تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا کہ غلام کا اسم بہزاد خاں ہے۔ غرض چھ مہینے تک جتنی شرط خدمت کی تھی۔ بہ جان و دل بجا لایا۔ خوب آرام سے گزری۔

ایک دن مجھے اپنا ملک اور ماں باپ یاد آئے اس لیے نہایت متفکر بیٹھا تھا۔ میرا چہرہ ملین دیکھ کر بہزاد خان روبرو ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اس فدوی سے اگر کچھ تقصیر چرن برداری میں واقع ہو تو ارشاد ہو۔ میں نے کہا از برائے خدا یہ کیا مذکور ہے! تم نے ایسا سلوک کیا کہ اس شہر میں ایسے آرام سے رہے، جیسے اپنی ماں کے پیٹ میں کوئی رہتا ہے۔ نہیں تو یہ ایسی حرکت ہم سے ہوئی تھی کہ تنکا تنکا ہمارا دشمن تھا۔ ایسا دوست ہمارا کون تھا کہ ذرا دم لیتے۔ خدا تمہیں خوش رکھے بڑے مرد ہو۔ تب اس نے کہا اگر یہاں سے دل برداشتہ ہوا ہو۔ تو جہاں خیرعافیت سے پہنچا دوں۔ فقیر بولا کہ اگر اپنے وطن تک پہنچوں تو والدین کو دیکھوں، میری تو یہ صورت ہوئی، خدا جانے ان کی کیا حالت ہوئی جس واسطے جلا وطن ہوا تھا میری آرزو بر آئی۔ اب ان کی بھی قدم بوسی واجب ہے۔ میری خبر ان کو کچھ نہیں کہ مرا یا جیتا ہے؟ ان کے دل پر کیا قلق گزرتا ہو گا۔ وہ جوان مرد بولا کہ بہت مبارک ہے چلئے یہ کہہ کر ایک راس گھوڑا ترکی سو کوس چلنے والا اور ایک گھوڑی جلد جس کے پر نہیں کٹے تھے۔ لیکن شائستہ، ملکہ کی خاطر لایا اور ہم دونوں کو سوار کروایا۔ پھر زرہ بکتر پہن سلاغ باندھ اوپچی بن اپنے مرکب پر چڑھ بیٹھا اور کہنے لگا غلام آگے ہو لیتا ہے، صاحب خاطر جمع سے گھوڑے دبائے چل آویں۔ جب شہر کے دروازے پر آیا ایک نعرہ مارا اور تیرے قفل کر توڑا اور نگہبانوں کو ڈپٹ کر للکارا کہ برچودو! اپنے خاوند کو جا کر کہو کہ بہزاد خان ملکہ مہر نگار اور شہزادہ کا مار کو جو تمہارا داماد ہے ہانکے پکارے لئے جاتا ہے اگر مروی کا کچھ نشہ ہے تو باہر نکلو اور ملکہ کو چھین لو۔ یہ نہ کہیو کہ چپ چاپ لے گیا، نہیں تو قلعے میں بیٹھے آرام کیا کرو۔ کہ خبر بادشاہ کو جلد جا پہنچے۔ وزیر اور میر بخشی کو حکم ہوا کہ ان تینوں ذاد مفسدوں کو باندھ کر لاؤ، یا ان کے سر کاٹ کر حضور میں پہنچاؤ، ایک دم کے بعد رغٹ فوج کا نمودار ہوا اور تمام زمین و آسمان گرد باد ہو گیا۔ بہزاد خاں نے ملکہ کو اس فقیر کو ایک در میں پل کے کہ بارہ پلے اور جون پور کے پل کے برابر کھڑا تھا۔ اور آپ گھوڑے کو تنگیا کر اس فوج کی طرف پھرا اور شیر کی مانند گونج کر مرکب کو ڈپٹ کر فوج کے درمیان گھسا۔ تمام لشکر کائی سا پھٹ گیا اور یہ دونوں سرداروں تلک جا پہنچا۔ دونوں کے سر کاٹ لئے جب سردار مارے گئے لشکر تتر بتر ہو گیا۔ وہ کہاوت ہے سر سے سر واہ جب بیل پھوٹی رائی رائی ہو گی۔ وہ نہیں آپ بادشاہ کتنی فوج بکتر پوشوں کے ساتھ لے کمک کو آئے۔ ان کو بھی لڑائی اس پکا جوان نے مار دی شکست فاس کھائی۔

بادشاہ پسپا ہوئے۔ سچ ہے فتح داد الٰہی ہے لیکن بہزاد خان نے ایسی جوانمردی کی کہ شاید رستم سے بھی نہ ہو سکتی تھی۔ جب بہزاد خان نے دیکھا کہ مطلق صاف ہوا، اب کون باقی رہا ہے جو ہمارا پیچھا کرے گا، بے وسواس ہو کر اور خاطر جمع کر جہاں ہم کھڑے تھے آیا اور ملکہ اور مجھ کو ساتھ لے کر چلا۔ سفر کی عمر کو تاہ ہوتی ہے۔ تھوڑے عرصے میں اپنے ملک کی سرحد میں جا پہنچے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک عرضی صحیح سلامت آنے کی بادشاہ کے حضور میں، جو قبلہ گاہ مجھ فقیر کے تھے، لکھ کر روانہ کی، جہاں پناہ پڑھ کر شاد ہوئے۔ دوگانہ شکر کا ادا کیا، جیسے سوکھے دھان میں پانی پڑا۔ خوش ہو کر سب امیروں کو جلو میں لے کر اس عاجز کے استقبال کی خاطر لب دریا آ کر کھڑے ہوئے۔ اور نواڑوں کے واسطے میر بحر کو حکم ہوا۔ میں نے دوسرے کنارے پر سواری بادشاہ کی کھڑی دیکھی۔ قدم بوسی کی آرزو میں گھوڑے کو دریا میں ڈال دیا۔ ہیلہ مار کر حضور میں حاضر ہوا مجھے مارے اشتیاق گلیجے سے لگا لیا۔ اب ایک اور آفت ناگہانی پیش آئی کہ جس گھوڑے پر میں سوار تھا شاید وہ بچہ اسی مادیان کا تھا جس پر ملکہ سوار تھی۔ باجنسیت کے باعث میرے مرکب کو دیکھ کر گھوڑی نے بھی جلد کر کر اپنے تئیں ملکہ سمیت میرے پیچھے دریا میں گرایا اور پیرنے لگی، ملکہ نے گھبرا کر باگ کھینچی، وہ منہ کی نرم تھی الٹ گئی۔ ملکہ غوطے کھا کر مع گھوڑے دریا میں ڈوب گئی۔ کہ پھر ان دونوں کا نشان نظر نہ آیا۔ بہزاد خان نے یہ حالت دیکھی کہ اپنے تئیں گھوڑے سمیت ملکہ کی مدد کی خاطر دریا میں پہنچایا۔ وہ بھی اس بھنور میں آ گیا، پھر نکل نہ سکا۔ بہترے ہاتھ پاؤں مارے، کچھ بس نہ چلا، ڈوب گیا۔ جہاں پناہ نے یہ واردات دیکھ کر مہاجال منگوا کر پھنکوایا، ملاحوں اور غوطہ خوروں کو فرمایا۔ انہوں نے سارا دریا چھان مارا۔ تھاہ کی مٹی لے لے آئے۔ پر وہ دونوں ہاتھ نہ آئے۔ یا فقرا! یہ حادثہ ایسا ہوا کہ میں سودائی اور جنونی ہو گیا اور فقیر بن کر یہی کہتا پھرتا ان نینوں کا یہی بسیکہ وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ۔ اگر ملکہ کہیں غائب ہو جاتی یا مر جاتی تو دل کو تسلی آتی۔ پھر تلاش کو نکلتا یا صبر کرتا۔ لیکن جب نظروں کے روبہ رو غرق ہو گئی تو کچھ بس نہ چلا۔ آخر جی میں یہی لہر آئی کہ دریا میں ڈوب جاؤں شاید اپنے محبوب کو مر کر پاؤں۔

ایک روز ایک رات کو اسی دریا میں بیٹھا اور ڈوبنے کا ارادہ کر کر گلے تک پانی میں گیا۔ چاہتا ہوں کہ آگے پاؤں رکھوں اور غوطہ کھاؤں۔ وہی سوار برقعہ پوش جنہوں نے تم کو بشارت دی ہے آ پہنچے۔ میرا ہاتھ پکڑ لیا اور دلاسا دیا کہ خاطر جمع رکھ۔ ملکہ اور بہزاد خان جیتے ہیں۔ تو اپنی جان ناحق کیوں کھوتا ہے؟ دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے خدا کی درگاہ سے مایوس مت ہو۔ اگر جیتا رہے گا تو تیری ملاقات ان دونوں سے ایک نہ ایک روز ہو رہے گی۔ اب تو روم کی طرف جا۔ اور بھی دو درویش دل ریش وہاں گئے ہیں۔ ان سے جب ملے گا اپنی مراد کو پہنچے گا۔ یا فقرا! یہ موجب حکم اپنے ہادی کے میں بھی خدمت شریف میں آکر حاضر ہوا ہوں۔ امید قوی ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے مطلب کو پہنچے۔ اس ٹکڑ گدا کا یہ احوال تھا جو تمام کمال کہہ سنایا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سیر چوتھے درویش کی

چوتھا فقیر اپنی سیر کی حقیقت رو رو کر اس طرح دھرانے لگا۔

قصہ ہماری بے سروپائی کا اب سنو
ٹک اپنا دھیان رکھ کر مرا حال سب سنو
کس واسطے میں آیا ہوں یاں تک تباہ ہو
سارا بیان کرتا ہوں اس کا سبب سنو​

یا مرشد اللہ! ذرا متوجہ ہو۔ یہ فقیر جو اس حالت میں گرفتار ہے۔ چین کے بادشاہ کا بیٹا ہے۔ ناز و نعمت سے پرورش پائی اور بخوبی تربیت ہوا۔ زمانے کے برے بھلے سے کچھ واقف نہ تھا۔ جانتا تھا کہ یونہیں ہمیشہ نبھے گی۔ عین بے کفر میں یہ حادثہ روبکار ہوا کہ قبلہ عالم، جو والد اس یتیم کے تھے انہوں نے رحلت فرمائی۔ جان کندنی کے وقت اپنے چھوٹے بھائی کو، جو میرے چچا ہیں، بلایا اور فرمایا کہ ہم نے تو سب مال ملک چھوڑ کر ارادہ کوچ کا کیا۔ لیکن یہ وصیت میری تم بجا لائیو، اور بزرگی کا کام فرمائیو۔ جب تلک شہزادہ جو مالک اس تخت و چھتر کا ہے، جوان ہو اور شعور سنھالے اور اپنا گر دیکھے بھالے، اور اپنا گھر دیکھے بھالے، تم اس کی نیابت کیجو اور سپاہ و رعیت کو خراب نہ ہونے دیجو۔ وہ بالغ ہو، اس کو سمجھا بجھا کر تخت حوالے کرنا اور روشن اختر جو تمہاری بیٹی ہے، اس سے شادی کر کے تم سلطنت سے کنارہ پکڑنا۔ اس بندوبست اور سلوک سی بادشاہت ہمارے خاندان میں قائم رہے گی۔ کچھ خلل نہ آوے گا۔ یہ کہہ کر آپ تو جاں بحق تسلیم ہوئے، چچا بادشاہ ہوئے اور بندوبست ملک کا کرنے لگے مجھے حکم کیا کہ تلک بیگمات اور خواصوں میں پلا کیا اور کھیلا کودا کیا۔ چچا کی بیٹی سے شادی سن کر شاد تھا اور اس امید پر بے فکر رہتا، اور دل میں کہتا کہ اب کوئی دن میں بادشاہت بھی ہاتھ لگے گی اور کتخدائی بھی ہو گی۔ دنیا بہ امید قائم ہے۔ ایک حبشی مبارک نام کہ والد مرحوم کی خدمت میں تربیت ہوا تھا اور اس کا بڑا اعتبار تھا، اور صاحب شعور نمک حلال تھا۔ میں اکثر اس کے نزدیک جا بیٹھا۔ وہ بھی مجھے بہت پیار کرتا اور میری جوانی دیکھ کر خوش ہوتا اور کہتا کہ الحمد للہ اے شاہ زادے اب تم جوان ہوئے انشا اللہ عنقریب تمہارا عموغل سبحانی نصیحت پر عمل کرے گا، اپنی بیٹی اور تمہارے والد کا تخت تمہیں دے گا۔

ایک روز یہ اتفاق ہوا کہ ایک ادنٰی سہیلی نے بے گناہ میرے تئیں ایسا طمانچہ کھینچ کر مارا کہ میری گال پر پانچوں انگلیوں کا نشان اکھڑ آیا۔ میں روتا ہوا مبارک کے پاس گیا۔ ان نے مجھے گلے لگا لیا اور آنسو آستیں سے پونچھے اور کہا کہ چلو آج تمہیں بادشاہ پاس لے چلوں۔ شاید دیکھ کر مہربان ہو۔ اور لائق سمجھ کر تمہارا حق تمہیں دے۔ اسی وقت چچا کے حضور میں لے گیا۔ چچا نے دربار میں نہایت شفقت کی اور پوچھا کہ کیوں دل گیر ہو اور یہاں کیوں کر آئے؟ مبارک بولا کچھ عرض کرنے آئے ہیں یہ سن کر خود بخود کہنے لگا کہ اب میاں کا بیاہ کر دیتے ہیں۔ مبارک نے کہا بہت مبارک ہے۔ وونہیں نجومی اور تالوں کو روبہ رو طلب کیا۔ اوپری دل سے پوچھا کہ اس سال کونسا مہینہ اور کونسا دن اور گھڑی مہورت مبارک ہے کہ سر انجام شادی کا کروں؟ انہوں نے مرضی پا کر گن گنا کر عرض کی کہ قبلہ عالم یہ برس سارا نحس ہے۔ کسی چاند میں کوئی تاریخ سعد نہیں ٹھہرتی۔ اگر یہ سال تمام بخیر و عافیت کٹے تو آئندہ کار خیر کے لیے بہتر ہے۔

بادشاہ نے مبارک کی طرف دیکھا اور کہا شاہ زادے کو محل میں لے جا۔ خدا چاہے اس سال کے گزرنے سے اس کی امانت اس کے حوالے کر دوں گا۔ خاطر جمع رکھی اور پڑھے لکھے۔ مبارک نے سلام کیا اور مجھے ساتھ لیا۔ محل میں پہنچا دیا۔ دو تین دن کے بعد میں مبارک کے پاس گیا، مجھے دیکھتے ہی رونے لگا۔ میں حیران ہوا اور پوچھا کہ دادا خیر تو ہے۔ تمہارے رونے کا کیا باعث ہے؟ تب وہ خیر خواہ کہ مجھے دل و جان سے چاہتا تھا بولا کہ میں اس روز تمہیں اس ظالم کے پاس لے گیا کاش کہ اگر یہ جانتا تو نہ لے جتا۔ میں نے گھبرا کر کہا۔ میرے جانے میں کیا ایسی قباحت ہوئی؟ کہو تو سہی۔ تب اس نے کہا کہ سب امیر وزیر ارکان دولت، چھوٹے بڑے تمہارے باپ کے وقت کے تمہیں دیکھ کر خوش ہوئے اور خدا کا شکر ادا کرنے لگے کہ اب ہمارا صاحبزادہ جوان ہوا اور سلطنت کے لائق ہوا۔ اب کوئی دن میں حق حق دار کو ملے گا۔ تب ہماری قدر دانی کرے گا اور خانہ زاد مورویوں کی قدر سمجھے گا۔ یہ خبر اس بے ایمان کو پہنچی۔ اس کی چھاتی پر سانپ پھر گیا۔ مجھے خلوت میں بلا کر کہا اے مبارک اب ایسا کام کر کہ شہزادے کو کسو فریب سے مار ڈال۔ اور اس کا خطرہ میرے جی سے نکال جو میری خاطر جمع ہو۔ تب سے میں بے حواس ہو رہا ہوں کہ تیرا چچا تیری جان کا دشمن ہوا۔ جونہیں مبارک سے یہ خبر میں نے سنی، بغیر مارے مر گیا اور جان کے ڈر سے اس کے پاؤں پر گر پڑا کہ واسطے خدا کے میں سلطنت سی گزرا کسو طرح میرا جی بچے۔ اس غلام باوفا نے میرا سر اٹھا کر چھاتی سے لگا لیا اور جواب دیا کہ کچھ خطرہ نہیں۔ ایک تدبیر سوجھی ہے اگر رات آئی تو کچھ پرواہ نہیں زندگی ہے تو سب کچھ ہے۔ اغلب ہے کہ اس فکر سے تیری جان بھی بچے اور اپنے مطلب سے کامیاب ہو۔ یہ بھروسا دے کر مجھے ساتھ لے کر اس جگہ جہاں بادشاہ غفور یعنی والد اس فقیر کے سوتے بیٹھتے تھے، گیا اور میری بہت خاطر جمع کی۔ وہاں ایک کرسی بچھی تھی۔ ایک طرف مجھے کہا اور ایک طرف آپ پکڑ کر صندلی کو سرکایا اور کرسی کے تلے کا فرش اٹھایا اور زمین کو کھودنے لگا۔ ایک بارگی ایک کھڑکی نمودار ہوئی کہ زنجیر اور قفل اس میں لگا ہے مجھے بلایا۔ میں اپنے دل میں مقرر یہ سمجھا کہ میرے ذبح کرنے اور گاڑ دینے کو یہ گڑھا اس نے کھودا ہے۔ موت آنکھوں کے آگے پھر گئی۔ لاچار چپکے چپکے کلمہ پڑھتا ہوا نزدیک گیا دیکھتا ہوں تو اس دریچے کے اندر عمارت ہے اور چار مکان ہیں۔ ہر ایک دالان میں دس دس خمیں سونے کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی لٹکتی ہیں اور ہر ایک گولی کے منہ پر سونے کی اینٹ اور ایک بندر جڑاؤ کا بنا ہوا بیٹھا ہے انتالیس گولیاں چاروں مکان میں گئیں اور ایک خم کو دیکھا کہ مونہا منہ اشرفیاں بھری ہیں۔ اس پر نہ میمون ہے، نہ خشت ہے، اور ایک حوض جواہر سے لبالب بھرا ہوا دیکھا۔ میں نے مبارک سے پوچھا کہ اے دادا یہ کیا طلسم ہے اور یہ کس کام کے ہیں؟ بولا کہ یہ بوزے جو دیکھتے ہو، ان کا یہ ماجرا ہے کہ تمہارے باپ نے جوانی کے وقت سے ملک صادق، جو بادشاہ جنوں کا ہے، اس کے ساتھ دوستی اور آمدورفت پیدا کی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
چناچہ ہر سال میں ایک دفعہ کئی طرح کے تحفے، خوشبوئیں اور اس ملک کی سوغاتیں لے جاتے، اور مہینے کے قریب اس کی خدمت میں رہتے۔ جب رخصت ہوتے تو ملک صادق ایک بندر زمرد کا دیتا، ہمارا بادشاہ اسے لا کر اس تہہ خانے میں رکھتا۔ اس بات سی سوائے میرے کوئی دوسرا مطلع نہ تھا۔ ایک مرتبہ غلام نے عرض کی کہ جہان پناہ! لاکھوں روپے کے تحفے لے جاتے ہیں اور وہاں سے ایک بوزنہ پتھر کا مردہ آپ لے آتے ہیں۔ اس کا آخر فائدہ کیا ہے؟ جواب میری اس بات کا مسکرا کر فرمایا خبردار کہیں ظاہر نہ ہو۔ کیجو خبر شرط ہے۔ یہ ایک میمون بے جان جو تو دیکھتا ہے، ہر ایک کے ہزار دیو زبردست تابع اور فرماں بردار ہیں۔ لیکن جب میرے پاس چالیسوں بندر پورے جمع نہ ہوویں، تب تک یہ سب نکمے ہیں۔ کچھ کام نہ آویں گے۔ سو ایک بندر کی کمی تھی کہ اس بادشاہ نے وفات پائی۔

اتنی محنت کچھ نیک نہ لگی۔ اس کا فائدہ ظاہر نہ ہوا۔ اے شہزادے تیرے یہ حالت بے کسی کی دیکھ کر مجھے یاد آیا اور جی میں ٹھہرایا، کسو طرح تجھ کو ملک صادق کے پاس لے چلوں اور تیرے چچا کا ظلم بیان کروں غالب ہے کہ وہ درستی تمہارے باپ کی یاد کر کر ایک بوزنہ جو باقی ہے تجھے دے۔ تیرا ملک تیرے ہاتھ آوے اور چین ماچین کی سلطنت توبہ خاطر جمع کرے۔ اور بالفعل اس حرکت سے تیری جان بچتی ہے۔ اگر اور کچھ نہ ہوا تو اس ظالم کے ہاتھ سے سوائے اس تدبیر کے اور کوئی صورت مخلصی کی نظر نہیں آتی۔ میں نے اس کی زبانی یہ سب کیفیت سن کر کہا کہ دادا جان اب تو میری جان کا مختار ہے۔ جو میرے حق میں بھلا ہو، سو کر۔ میری تسلی کر کے آپ عطر اور بخور اور جو کچھ وہاں کے لیے جانے کی خاطر مناسب جانا، خرید کرنے بازار میں گیا۔

دوسرے دن میرے اس کافر چچا کے پاس، جو بجائے ابوجہل کے تھا، گیا اور کہا جہاں پناہ! شہزادے کے مار ڈالنے کی ایک صورت میں نے دل میں ٹھہرائی ہے۔ اگر حکم ہو تو عرض کروں۔ وہ کم بخت خوش ہو کر بولا۔ وہ کیا تدبیر ہے؟ تب مبارک نے کہا کہ اس کے مار ڈالنے میں سب طرح آپ کی بدنامی ہے۔ مگر میں اسے باہر جنگل میں لے جار کر اسے ٹھکانے لگاؤں اور گاڑ داب کر چلا آؤں۔ ہر گز کوئی محرم نہ ہو گا کہ کیا ہوا۔ یہ بندش مبارک سے سن کر بولا کہ بہت مبارک۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ سلامت نہ رہے۔ اس کا دغددغہ میرے دل میں ہے۔ اگر مجھے اس فکر سے تو چھیڑ دے گا تو اس خدمت کے عوض کچھ پاوے گا۔ جہاں تیرا جی چاہے لے جا کے کھپا دے، اور مجھے یہ خوشخبری لا دے۔ مبارک نے بادشاہ کی طرف سے اپنی دل جمعی کر کے مجھے ساتھ لیا اور وہ تحفے لیکر آدھی رات کو شہر کوچ کیا اور اتر کی سمت چلا۔ ایک مہینے تک پیہم چلا رکھا۔ ایک روز رات کو چلے جاتے تھے، جو مبارک بولا کہ شکر خدا کا اب منزل مقصود کو پہنچے۔ میں نے سن کر کہا دادا یہ تو نے کیا کہا؟ کہنے لگا کہ اے شہزادے تو جنون کا لشکر کیا نہیں دیکھتا؟ میں نے کہا مجھے تیرے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ مبارک نے ایک سرمہ دانی نکال کر سلیمانی سرمے کی دو سلائیں میری دونوں آنکھوں میں پھیر دیں وونہیں جنوں کی خلقت اور لشکر تنبو قنات نظر آنے لگے، لیکن سب خوش رو اور خوش لباس مبارک کو پہچان کر ہر ایک آشنائی کی راہ سے گلے ملتا اور مزاخیں کرتا۔

آخر جاتے جاتے بادشاہ سراچوں کے نزدیک گئے اور بارگاہ میں داخل ہوئے۔ دیکھتا ہوں تو روشنی قرینے سے روشن ہے اور صندلیاں طرح بہ طرح کی دو رویہ بچھی ہیں۔ اور عالم، فاضل، درویش اور امیر وزیر، میر بخشی، دیوان ان پر بیٹھے ہیں۔ اور یسا دل گرز بردار احدی چپکے چپکے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اور درمیان میں ایک تخت مرصع کا بچھا ہے۔ اس پر ملک صادق تاج اور چارقب موتیوں کی پہنے ہوئے مسند پر تکیے لگائے بڑی شان و شوکت سے بیٹھا ہے۔ میں نے نزدیک جا کر سلام کیا۔ مہربانگی سی بیٹھنے کا حکم کیا۔ پھر کھانے کا چرچا ہوا۔ بعد فراغت کے دسترخوان بڑھایا گیا۔ تب مبارک کی طرف متوجہ ہو کر احوال میرا پوچھا۔ مبارک نے کہا کہ اب ان کے باپ کی جگہ پر چچا ان کی بادشاہت کرتا ہے۔ اور ان کا دشمن جانی ہوا ہے۔ اس لئے میں انہیں وہاں سے لے بھاگ کر آپ کی خدمت میں لایا ہوں کہ یتیم ہیں اور سلطنت ان کا حق ہے۔ لیکن بغیر مربی کسو سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ حضور کی دستگیری کے باعث اس مظلوم کی پرورش ہوتی ہے۔ ان کے باپ کی خدمت کا حق یاد کر کے ان کی مدد فرمائیے اور وہ چالیس بندر عنایت کیجئے جو چالیس پورے ہوں۔ اور یہ اپنے حق پر پہنچ کر تمہارے جان و مال کو دعا دیں۔ سوائے صاحب کی پناہ کی خوئی ان کا ٹھکانا نظر نہیں آتا۔ یہ تمام کیفیت سن کر صادق نے تامل کر کے کہا کہ واقعی حقوق خدمت اور دوستی بادشاہ مغفور کے ہمارے اوپر بہت تھے اور یہ بچارہ تباہ ہو کر اپنی سلطنت موروثی چھوڑ کر جان کے واسطے یہاں تلک آیا ہے اور ہمارے دامن دولت میں پناہ لی ہے۔ تامقدور کسی طرح ہم سے کمی نہ ہو گی اور درگز نہ کروں گا۔ لیکن ایک مقام ہمارا ہے اگر وہ اس سے ہو سکا اور خیانت نہ کی اور بخوبی انجام دیا اور اس امتحان میں پورا اترا تو میں قول قرار کرتا ہوں کہ زیادہ بادشاہ سے سلوک کروں گا، اور جو یہ چاہے کام سو دوں گا۔

میں نے ہاتھ باندھ کر التماس کیا کہ اس فدوی سے تابہ مقدور جو خدمت سرکار کی ہو سکے گی بہ سرو چشم بجا لاوے گا۔ اور اس کی خوبی و دیانت داری اور ہوشیار سے کرے گا اور اپنی سعادت دونوں جہاں کی سمجھے گا۔ فرمایا کہ تو ابھی لڑکا ہے اس واسطے بار بار تاکید کرتا ہوں، مبادا خیانت کرے اور آفت میں پڑے۔ میں نے کہا خدا بادشاہ کے اقبال سے آسان کرے گا اور میں حتی المقدور کوشش کروں گا اور امانت حضور تلک لے آؤں گا۔ یہ سن کر ملک صادق نے مجھ کو قریب بلایا اور ایک دستکی سے نکال کر میرے تئیں دکھلایا اور کہا یہ جس شخص کی شبیہہ ہے اسے جہاں سے جانے تلاش کر کے میری خاطر پیدا کر کے لا۔ اور جس گھڑی تو اس کا نام و نشان پائے اور سامنے جاوے، میری طرف سے بہت اشتیاق ظاہر کیجو۔ اگر یہ خدمت تجھ سے سر انجام ہوئی تو جتنی توقعہ تجھے منظور ہے، اس سے زیادہ غور پرداخت کی جائے گی۔ والانہ نہ جیسا کرے گا ویسا پاوے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
بادشاہ کو خبر پہنچی۔ سر پیٹتا ہوا دوڑا۔ تمام ارکان سلطنت کے جمع ہوئے۔ پر کسو کی عقل کام نہیں کرتی کہ اس احوال کو دریافت کرے۔ نہایت کو بادشاہ نے اس خلق کی حالت میں حکم کہا کہ اس کم بخت بھوند پیری دلہن کا بھی سر کاٹ ڈالو۔ یہ بات بادشاہ کی زبان سے جو نکلی، پھر ویسا ہی ہنگامہ برپا ہوا۔ بادشاہ اور اپنی جان کے خطرے سے نکل بھاگا اور فرمایا کہ اسے محل سے باہر نکال دو۔ خواصوں نے اس لڑکی کو میرے گھر میں پہنچا دیا۔ یہ چرچا دنیا میں مشہور ہوا۔ جن نے سنا حیران ہوا اور شہزادے کے مارے جانے کے سب سے خود بادشاہ جتنے باشندے اس شہر کے ہیں میرے جانی دشمن ہوئے۔

جب ماتم داری سے فراغت ہوئی اور چہلم ہو چکا۔ بادشاہ نے ارکان دولت سے صلاح پوچھی کہ اب کیا کیا چاہیے سبھوں نے کہا کہ اور تو کچھ نہیں ہو سکتا پر ظار میں دل کی تسلی اور صبر کے واسطے اس لڑکی کو اس کے باپ سمیت مروا ڈالیے اور گھر بر ضبط کر لیجئے۔ جب میری یہ سزا مقرر کی کوتوال کو حکم ہوا۔ اس نے اگر چاروں طرف سی میری حویلی کو گھیر لیا اور نرسنگا دروازے پر بجایا، اور چاہا کہ اندر گھسیں اور بادشاہ کا حکم بجا لاویں، غیب سے اینٹ پتھر ایسے برسنے لگے کہ تمام فوج تاب نہ لا سکی اپنا سر منہ بچا کر جیدھر تدھر بھاگی۔ اور ایک آواز مہیب بادشاہ نے محل میں اپنے کانوں سنی کہ کیوں کم بختی آئی ہے، کیا شیطان لگا ہے۔ بھلا چاہتا ہے تو اس نازنین کے احوال کا معرض نہ ہوا۔ نہیں تو جو کچھ تیرے بیٹے نے اس سے شادی کر کر دیکھا تو بھی اس کی دشمنی سے دیکھے گا۔ اب اگر ان کو ستاوے گا تو سزا پاوے گا۔

بادشاہ کو مارے دہشت کے تپ چڑھی۔ وونہیں حکم کیا۔ ان بدبختوں سے کوئی مزاحم نہ ہو۔ کچھ کہو نہ سنو۔ حویلی میں پڑا رہنے دو۔ زور ظلم ان پر نہ کرو۔ اس دن سے عامل باؤ بتاس جان کر دعا، تعویذ اور سیانے جنتر منتر کرتے ہیں اور سب باشندے اس شہر کے اسم اعظم اور قرآن مجید پڑھتے ہیں۔ مدت سے یہ تماشا ہو رہا ہے لیکن اب تک کچھ اسرار معلوم نہیں ہوتا۔ اور مجھے بھی ہرگز اطلاع نہیں۔ مگر اس لڑکی سے ایک بار پوچھا تم نے اپنی آنکھوں سے کیا دیکھا تھا؟ یہ بولی کہ اور تو کچھ نہیں جانتی، لیکن یہ نظر آیا کہ جس وقت میرے خاوند نے قصد مباشرت کا کیا، چھت پھٹ کر ایک تخت مرصع کا نکلا۔ اس پر ایک جوان خوبصورت شاہانہ لباس پہنے بیٹھا تھا اور سات بہت سے آدمی اہتمام کرتے ہویئے اس مکان میں آئے اور شہزادے کے قتل کے مستعد ہوئے۔ وہ شخص سردار میرے نزدیک آیا اور بولا کہ کیوں جانی! ہم سے کہاں بھاگو گی؟ ان کی صورتیں آدمی کی سی تھیں لیکن پاؤں بکریوں کے سے نظر آئے۔ میرا کلیجہ دھڑکنے لگا اور خوف سے غش میں آ گئی۔ پھر مجھے کچھ سدھ نہیں کہ آخر کیا ہوا۔

تب سے میرا یہ احوال ہے کہ اس پھوٹے مکان میں ہم دونوں جی پڑے رہتے ہیں۔ بادشاہ کے غصے کے باعث اپنے رفیق سب جدا ہو گئے۔ اور میں کدائی کرنے جو نکلتا ہوں تو کوڑی نہیں دیتا بلکہ دکان پر کھڑے رہنے کے روا دار نہیں۔ اس کم بخت لڑکی کے بدن پر لتا نہیں کہ سر چھپاوے اور کھانے کو میسر نہیں جو پیٹ بھر کھاوے۔ خدا سے یہ چاہتا ہوں کہ موت ہماری آوے یا زمین پھاٹے اور یہ ناشدنی سماوے۔ اس جینے سے مرنا بھلا ہے۔ خدا نے شاید ہمارے ہی واسطے تجھے بھیجا ہے جو تو نے رحم کھا کر ایک مہر دی۔ کھانا بھی مزے دار پکا کر کھایا اور بیٹی کی خاطر کپڑا بھی بنایا۔ خدا کی درگاہ میں شکر کیا اور تجھے دعا دی۔ اگر اس پر آسیب جن یا پری کا نہ ہوتا تو تیری خدمت میں لونڈی کی جگہ دیتا اور اپنی سعادت جانتا۔ یہ احوال اس عاجز کا ہے۔ تو اس کے درپے مت ہوا اور اس قصد سے رگزر۔

یہ سب ماجرا سن کر میں نے بہت منت و زاری کی کہ مجھے اپنی فرزندی میں قبول کر، جو میری قسمت بدا ہو گا سو ہو گا۔ وہ پیر مرد ہرگز راضی نہ ہوا۔ شام جب ہوئی اس سے رخصت ہو کر سرا میں آیا۔ مبارک نے کہا لو شہزادے مبارک ہو، خدا نے اسباب تو درست کیا ہے۔ بارے یہ محنت اکارت نہ گئی۔ میں نے کہا آج کتنی خوشامد کی، پر وہ اندھا بے ایمان راضی نہ ہوا۔ خدا جانے دیوے گا یا نہیں پر میرے دل کی یہ حالت تھی کہ رات کاٹنی مشکل ہوئی کہ صبح ہو تو پھر جا کر حاضر ہوں۔ کبھو یہ خیال آتا، اگر وہ مہربان ہو اور قبول کرے تو مبارک ملک صادق کی خاطر لے جائے گا۔ پھر کہتا بھلا ہاتھ تو آوے۔ مبارک کو مناونا کر میں عیش کروں گا پھر جی میں یہ خطرہ آتا کہ اگر مبارک بھی قبول کرے تو جنوں کے ہاتھ سے وہی نوبت میری ہو گی جو بادشاہ زادے کی ہوئی۔ اور اس شہر کا بادشاہ کب چاہے گا کہ اس کا بیٹا مارا جائے اور دوسرا خوشی منائے۔

تمام رات نیند اچاٹ ہو گئی اور اسی منصوبے کے الجھیڑے میں کٹی۔ جب روز روشن ہوا، میں چلا۔ چوک میں سے اچھے اچھے تھان پوشاکی اور گوٹا کناری اور میوہ خشک و تر خرید کر اس بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نہایت خوش ہو کر بولا کہ سب کو اپنی جان سے زیادہ کچھ عزیز نہیں۔ پر اگر میری جان بھی تیرے کام آوے تو دریغ نہ کروں اور اپنی بیٹی ابھی تیرے حوالے کروں۔ لیکن یہی خوف آتا ہے کہ اس حرکت سے تیری جان کو خطرہ نہ ہو کہ یہ داغ لعنت کا میرے اوپر تا قیامت رہے میں نے کہا کہ اب اسی بستی میں بے کس واقع ہوں اور تم میرے دین دنیا کے باپ ہو، میں اس آرزو میں مدت سے کیا کیا تباہی اور پریشانی کھینچتا ہوا اور کیسے کیسے صدمے اٹھاتا ہوا یہاں تلک آیا اور مطلب کا بھی سراغ پایا۔ خدا نے تمہیں بھی مہربان کیا جو بیاہ دینے پر رضا مند ہوئے۔ لیکن میرے واسطے آگا پیچھا کرتے ہو۔ ذرا منصف ہو کر غور فرماؤ تو عشق کی تلوار سے سر بچانا اور اپنی جان کو چھپانا کس مذہب میں درست ہے؟ ہرچہ بادا با۔ میں سب طرح اپنے تئیں برباد دیا ہے۔ معشوق کے وصال کو میں زندگی سمجھتا ہوں۔ اپنے مرنے جینے کی مجھے کچھ پروا نہیں، بلکہ اگر ناامید ہوں گا تو بن اجل مر جاؤں گا اور تمہارا قیامت میں دامن گیر ہوں گا۔

غرض اس گفت و شنید اور ہاں نان میں قریب ایک مہینے کے خوف و رجا میں گزرا۔ ہر روز اس بزرگ کی خدمت میں دوڑا جاتا اور خوشامد برآمد کیا کرتا۔ غرض اس گفت و شنید اور ہاں نان میں قریب ایک مہینے کے خوف و رجا میں گزرا۔ ہر روز اس بزرگ کی خدمت میں دوڑا جاتا اور خوشامد برآمد کیا کرتا۔ اتفاقا وہ بوڑھا کا ہلا ہوا۔ اس کی بیمار داری میں حاضر رہا۔ ہمیشہ قارورہ حکیم پاس لے جاتا۔ جو نسخہ لکھ دیتا، اسی ترکیب سے بنا کر پلاتا۔ اور شولا اور غذا اپنے ہاتھ سے پکا کر کوئی نوالا کھلاتا۔ ایک دن مہربان ہو کر کہنے لگا اے جوان تو بڑا ضدی ہے۔ میں نے ہر چند ساری قباحتیں کہہ سنائیں اور منع کرتا ہوں کہ اس کام سے باز آ۔ جی ہے تو جہان ہے۔ پر خواہ مخواہ کنویں میں گرا چاہتا ہے۔ اچھا آج اپنی لڑکی سی تیرا مذکور کروں گا۔ دیکھوں وہ کیا کہتی ہے؟ یا فقر اللہ! یہ خوشخبری سن کر میں ایسا پھولا کہ کپڑوں میں نہ سمایا۔ آداب بجا لایا اور کہا کہ اب آپ نے میرے جینے کی فکر کی۔ رخصت ہو کر مکان پر آیا اور تمام شب مبارک یہی مذکور رہا۔ کہاں کی نیند اور کہاں کی بھوک؟ صبح کو نور کے وقت پھر جا کر موجود ہو۔ سلام کیا۔ فرمانے لگا کہ لو اپنی بیٹی ہم نے تم کو دی۔ خدا مبارک کرے۔ تم دونو کو خدا کے حفظ و امان میں سونپا۔ جب تلک میرے دم میں دم ہے، میری آنکھوں کے سامنے رہو۔ جب میری آنکھ مند ہو جائے گی جو تمہارے جی میں آوے گا سو کجیو، مختار ہو۔
 

شمشاد

لائبریرین
کتنے دن پیچھے وہ بزرگ جاں بحق تسلیم ہوا۔ روپیٹ کر تجہیز و تکفین کیا۔ بعد تیجے کے اس نازنین مبارک ڈولے کر کارواں سرا میں لے گیا اور مجھ کہا کہ یہ امانت ملک صادق کی ہے۔ خبر دار خیانت نہ کیجو اور یہ محنت مشقت برباد نہ دیجو۔ میں نے ای کاکا! ملک صادق یہاں کہاں ہے، دل نہیں مانتا میں کیونکر صبر کروں؟ جو کچھ ہو سو ہو، جیوں یا مروں، اب تو عیش کر لو۔ مبارک نے دق ہو کر ڈانٹا کہ لڑکپن نہ کرو۔ ابھی ایک دم کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ ملک صادق کو دور جانتے ہو، جو اس کا فرمانا نہیں ہو؟ اس نے چلتے وقت پہلے ہی اونچ نیچ سب سمجھا دی ہے۔ اگر اس کے کہنے پر رہو گے اور صحیح سلامت اس کو وہاں لے چلو گی تو وہ بھی بادشاہ ہے۔ شاید تمہاری محنت پر توجہ کر کے تمہوں کو بخش دے تو کیا اچھی بات ہووے۔ پیت کی پیت رہے اور میت کا میت ہاتھ لگے۔ بارے اس کے ڈرانے اور سمجھانے سے میں حیران ہو کر چپکا ہو رہا۔ دو سانڈنیاں خرید کیں اور کجاؤں پر سوار ہو کر ملک صادق کے ملک کی راہ لی۔ چلتے چلتے ایک میدان میں آواز شور غل کی آنے لگی۔ مبارک نے کہا شکر خدا ہماری محنت نیک لگی۔ یہ لشکر جنوں کا آ پہنچا۔ بارے مبارک نے ان سے مل جل کر پوچھا کہ کہاں کا ارادہ کیا ہے؟ وہ بولے کہ بادشاہ نے تمہارے استقبال کے واسطے ہمیں تعینات کیا ہے۔ اب تمہاری فرماں بردار ہیں۔ اگر کہو تو ایک میں روبرو لے چلیں، مبارک نے کہا دیکھو کس کس محنتوں سے نے بادشاہ کے حضور میں ہمیں سرخ رو کیا اب جلدی ضرور ہے؟ اگر خدانخواستہ کچھ خلل ہو جاوے تو ہمارے محنت اکارت ہو، اور جہاں پناہ کی غضبی میں پڑیں۔ سبھوں نے کہا کہ اس کے ہم تم مختار ہو۔ جس طرح جی چاہے چلو۔ اگرچہ سب طرح کا آرام تھا پر رات دن چلنے سے کام تھا۔

جب نزدیک جا پہنچے۔ میں مبارک کو سوتا دیکھ کر اس نازنین کے قدموں پر سر رکھ کر اپنے دل کی بے قراری اور ملک صادق کے سبب سے لاچاری نہایت منت و زاری سے کہنے لگا کہ جس روز سے تمہاری تصویر دیکھی ہے، خواب و خورش اور آرام میں نے اپنے اوپر حرام کیا ہے۔ اب جو خدا نے یہ دن دکھایا تو محض بے گانہ ہو رہا ہوں۔ فرمانے لگی کہ میرا بھی دل تمہاری طرف مائل ہے کہ تم نے میری خاطر کیا کیا ہرج مرج اٹھایا اور کس کس مشقتوں سے لے آئے ہو۔ خدا کو یاد کرو اور مجھے بھی بھول نہ جائیو۔ دیکھو تو پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے یہ کہہ کر ایسی بے اختیار دھاڑ مار کر روئی کہ ہچکی لگ گئی۔ ایدھر میرا یہ حال، ادھر اس کا وہ احوال۔ اس گفتگو میں مبارک کی نیند ٹوٹ گئی۔ وہ ہم دونوں مشتاقوں کا رونا دیکھ کر رونے لگا اور بولا کہ خاطر جمع رکھو۔ ایک روغن میرے پاس ہے اس گل بدن کے بدن میں مل دوں گا۔ اس کی بو سے ملک صادق کا جی ہٹ جائے گا۔ غالب ہے کہ تمہیں بخش دے۔

مبارک سے یہ تدبیر سنکر دل کا ڈھارس ہو گئی۔ اس کے گلے سے لگ کر لاڈ کیا اور کہا اے دادا اب تو میرا باپ کی جگہ ہے۔ تیرے باعث میری جان بچی۔ اب بھی ایس کام کر جس میں زندگانی ہو۔ نہیں تو اس غم میں مر جاؤں گا۔ اس نے ڈھیر سی تسلی دی۔ جب روز روشن ہوا آواز جنوں کی معلوم ہونے لگی دیکھا تو کئی خواص ملک صادق کے آتے ہیں۔ اور دوسری پاو بھاری ہمارے لئے لائے ہیں اور ایک چودول موتیوں کی توڑ پڑے ہوئی ان کے ساتھ ہے۔ مبارک نے اس نازنین کو وہ تیل مل دیا۔ اور پوشاک پہنا، بناؤ کروا کر ملک صادق کے پاس لے چلا۔ بادشاہ نے دیکھ کر مجھے بہت سرفراز کیا اور عزت و حرمت سے بٹھایا اور فرمانے لگا کہ تجھ سے میں ایسا سلوک کروں گا کہ کسو نے آج تک نہ کیا ہو گا۔ بادشاہت تو تیرے باپ کی موجود ہے، علاوہ اب تو میرے بیٹے کی جگہ ہو۔ یہ توجہ کی باتیں کر رہا تھا، اتنے میں وہ نازنین بھی رو برو آئی۔ اور روغن کی بو سے یک بہ یک دماغ پراگندہ ہوا اور حال بے حال ہو گیا۔ تاب اس باس کی نہ لا سکا۔ اٹھ کر باہر چلا اور ہم دونوں کو بلوایا اور مبارک کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ کیوں جی، خوب شرط بجا لائے۔ میں نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر خیانت کرو گے تو خفگی میں پڑو گی۔ یہ بو کیسی ہے اب دیکھو تمہارا کیا حال کرتا ہوں۔ بہت جزبز ہوا۔ مبارک نے مارے ڈر کے اپنا ازار بند کھول کر دکھایا کہ بادشاہ سلامت جب حضور کے حکم سے اس کام کے ہم معتین ہوئے تھے، غلام نے پہلے اپنی اپنی علامت کاٹ کر ڈبیا میں بند کر کے ربہ مہر سکرار کے خزانچی کے سپرد کر دی تھی اور ہم مرہم سلیمانی لگا کر روانہ ہوا تھا۔

مبارک سے یہ جواب سن کر تب میری طرف آنکھیں نکال کے گھور اور کہنے لگا تو یہ تیرا کام ہے اور طیش میں آ کر منہ سے برابھلا بکنے لگا۔ اس وقت اس کے بت کہاو سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ شاید جان سے مجھ مروا ڈالے گا۔ جب میں نے اس کے بشرے یہ وقت دریافت کیا، اپنے جی سے ہاتھ دھو کر اور جان رکھو کر سر غلاف مبارک کی کمر سے کھینچ کر ملک صادق کی توند میں ماری۔ چھری کے لگتے ہی نہوڑا اور جھوما۔ میں نے حیران ہو کر جانا کہ مقرر مر گیا۔ پھر اپنے دل میں خیال کیا کہ زخم ایسا کاری نہیں لگا۔ یہ کیا سبب ہوا؟ مین کھڑا دیکھتا تھا کہ وہ زمین پر لوٹ لاٹ گیند کی صورت بن کر آسمان کی طرف اڑ چلا۔ ایسا بلند ہوا کہ آخر نظروں سے غائب ہو گیا۔ پھر ایک پل کے بعد بجلی کی طرح کڑکتا اور غصے میں کچھ بے معنی بکتا ہوا نیچے آیا۔ اور مجھ ایک لات ماری کہ میں تیورا کر چاروں شانے چت گر پڑا اور جی ڈوب گیا۔ خدا جانے کتنی دیر میں ہوش آیا۔ آنکھیں کھول کر جو دیکھا تو ایک ایسے جنگل میں پڑا ہوں کہ جہاں سوائے کیکر اور سیٹے اور جھڑبیری کے درختوں کے کچھ اور نظر نہیں آتا۔ اب اس گھری عقل کچھ کام نہیں کرتی کہ کیا کروں اور کہاں جاؤں؟ ناامید سے ایک آہ بھر کر ایک طرف کی راہ لی۔ اگر کہیں کوئی آدمی کی صورت نظر پڑتی تو ملک صادق کا نام پوچھتا۔ وہ دیوانہ جان کر جواب دیتا تو یہ کہ ہم نے اس کا نام بھی نہیں سنا۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک روز پہاڑ پر جا کر میں نے یہی ارادہ کیا کہ اپنے تئیں گرا کر ضائع کروں جو مستعد گرنے کا ہوا، وہی سوار صاحب ذوالفقار برقع پوش آ پہنچا اور بولا کہ کیوں تو اپنی جان کھوتا ہے؟ آدمی پر دکھ درد سے ہوتا ہے۔ اب تیری برے دن گئے اور بھلے دن آئے۔ جلد روم کو جا۔ تین شخص ایسی ہی آگے گئے ہیں۔ اس سے ملاقات کر اور وہاں کے شیطان سے مل۔ تم پانچوں کا مطلب ایک ہی جگہ ملے گا۔

اس فقیر کی سیر کا یہ ماجرا ہے، جو عرض کیا۔ بارے بشارت سے اپنے مولا مشکل کشا کی مرشدوں کی حضور میں آ پہنچا ہوں اور بادشاہ ظل اللہ کی بھی ملازمت حاصل ہوئی چاہیے کہ اب سب کی خاطر جمع ہو۔

یہ باتیں چار درویش اور بادشاہ آزاد بخت میں ہو رہی تھی کہ اتنے میں ایک محل بادشاہ کے محل میں سے دوڑتا ہوا آیا اور مبارک باد کی تسلیمیں بادشاہ کے حضور بجا لایا اور عرض کی کہ اس وقت شاہ زادہ پیدا ہوا کہ آفتاب و مہتاب اس کے حسن کے روبرو شرمندہ ہیں۔ بادشاہ نے متعجب ہو کر پودھا کہ ظاہر میں تو کسو کو حمل نہ تھا۔ یہ آفتاب کس برج حمل سے نمود ہوا؟ اس انے التماس کیا کہ ماہ رو خواص جو بہت دنوں سے غضب بادشاہی میں پڑی تھی بے کسوں کی مانند ایک کونے میں رہتی تھی۔ اور مارے ڈر کے اس کے نزدیک کوئی نہ جاتا نہ احوال پوچھتا تھا اس پر یہ فضل الٰہی ہوا کہ چاند سا بیٹا اس کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ بادشاہ کو ایسی خوشی حاصل ہوئی کہ شاید شادی مرگ ہو جائے۔ چاروں فقیر نے بھی دعا دی کہ بھلا بابا تیرا گھر آباد رحے اور اس کا قدم مبارک ہے۔ تیریث سائے کے تلے بوڑھا بڑا ہو۔ بادشاہ نے کہا یہ تمہارے قدم کی برکت ہے۔ والا تو اپنے سان گمان میں بھی یہ بات نہ تھی۔ اجازت ہو تو جا کر دیکھوں درویشوں نے کہا بسم اللہ سدھاریے بادشاہ محل میں تشریف لے گئے، شہزادے کو گود میں لیا اور شکر پروردگار کی جناب میں کیا کلیجہ ٹھنڈا ہوا وونہیں چھاتی سے لگائے ہوئے لا کر فقیروں کے قدموں پر ڈالا۔ درویشوں نے دعائیں پڑھ کر جھاڑ کر پھونک دیا۔ بادشاہ نے جشن کی تیاری کی۔ دہری نوبتیں چھڑنے لگیں۔ خزانے کا منہ کھول دیا۔ داد دہش سے ایک کوڑی کے محتاج کو لکھ پتی کر دیا۔ ارکان دولت جتنے تھے۔ سب کو دوچند جاگیر و منصب کے فرمان ہو گئے۔ جتنا لشکر تھا، انہیں پانچ برس کی طلب انعام ہوئی۔ مشائخ اور اکابر کو مدد معاش اور المعنا عنایت ہوا، بے نواؤں کے میتے اور ٹکڑ گداؤں کے چملے اشرفی اور روپیوں کی کھچڑی سے بھر دیئے، اور تین برس کا خزانہ رعیت کو معاف کیا کہ جو کچھ بوویں جوتیں، دونوں حصے اپنے گھروں میں اٹھا لے جائیں۔ تمام شہر میں ہزاری بزاری کے گھروں میں جہاں دیکھوں وہاں تھئی تھئی ناچ ہو رہا ہے، مارے خوشی کے ہر ایک ادنی اعلی بادشاہ وقت بن بیٹھا۔ عین شادی میں ایک بارگی اندرون محل سے رونے پیٹنے کا غل اٹھا۔ خواصیں اور ترکنیاں اور اردا بیگساں اور محلی، خوبے سر میں خاک ڈالتے ہوئے باہر نکل آئے اور بادشاہ سے کہا کہ جس وقت شہزادے کو نہلا دھلا کر دائی کی گود میں دیا ایک ابر کا ٹکڑا آیا اور دائی کو گھیر لیا۔ بعد ایک دم کے دیکھیں تو انگا بے ہوش پڑی ہے اور شہزادہ غائب ہو گیا۔ یہ کیا قیامت ٹوٹی! بادشاہ تعجبات سن کر حیران ہو رہا اور تمام ملک میں واویلا پڑی۔ دو دن تلک کسو کے گھر میں ہانڈی نہ چڑھی۔ شہزادے کا غم کھاتے اور اپنا لہو پیتے تھے۔

غرض زندگی سے لاچار تھے جو اس طرح جیتے تھے۔ جب تیسرا دن ہوا، وہی بادل کھول کر پڑھا تو شقے کا تھا۔ یہی دو سطریں لکھی تھیں کہ ہمیں بھی اپنا مشتاق جانیئے، سواری کے لئے تخت جاتا ہے۔ اس وقت اگر تشریف لایے تو بہتر ہے۔ باہم ملاقات ہو۔ سب اسباب عیش و طرب کا مہیا ہے صاحب ہی کی جگہ خالی ہے، بادشاہ آزاد بخت درویشوں کو ہمراہ لے کر تخت پر بیٹھے۔ وہ تخت حضرت سلیمان کے تخت کے مانند ہوا چلا۔ رفتہ رفتہ ایسے مکان پر جا اترے کہ عمارت عالی شان اور تیاری کا سامان نظر آتا ہے لیکن معلوم نہیں ہوتا کہ یہاں کوئی ہے یا نہیں۔ اتنے میں کسو نے ایک ایک سلائی سلیمانی سرمے کی ان پانچوں کی آنکھوں میں پھیر دی۔ دو دو بوندیں آنسو کی ٹپک پڑیں۔ پریوں کا اکھاڑا دیکھا کہ استقبال کی خاطر گلاب پاشیں لئے ہوئے اور رنگ برنگ کے جوڑے پہنے ہوئے کھڑا ہے۔ آزاد بخت آگے چلے تو وہ رویہ ہزاروں پری زاد مودب کھڑے ہیں اور صدر میں ایک ایک تخت زمرد کا دھرا ہے۔ اس پر ملک شہبال شاہ رخ کا بیٹا تکیے لگائے بڑے تزک سے بیٹھا ہے اور ایک پری زاد لڑکی رو برو بیٹھی شہزادہ بختیار کے ساتھ کھیل رہی ہے اور دونوں بغل میں کرسیاں اور صندلیاں قرینے سے بچھی ہیں۔ ان پر عمدہ زاد بیٹھے ہیں۔ ملک شہبال بادشاہ کو دیکھتے ہین سروقد اٹھا اور تخت سے اتر کر بغل گیر ہوا اور ہاتھ میں ہاتھ پکڑے اپنے برابر تخت پر لا بٹھایا اور بڑے تپاک اور کرم جوشی سے باہم گفتگو ہونے لگی۔ تمام دن ہنسی خوشی، کھانے اور میوے اور خشبوؤں کی ضیافت رہی اور راک رنگ سنا کئے دوسرے دن پھر دونوں بادشاہ جمع ہوئے۔ شہبال بے بادشاہ سے درویشوں کے ساتھ لانے کی کیفیت پوچھی۔

بادشاہ نے چاروں بے نواؤں کا ماجرا جو سنا تھا مفصل بیان کیا۔ اور سفارش کی اور مدد چاہی کہ انہوں نے محنت اور مصیبت کھینچی ہے۔ اب صاحب کی توجہ سے اگر اپنے اپنے مقصد کو پہنچیں تو ثواب عظیم ہے۔ اور یہ مخلص بھی تمام عمر شکر گزار رہے گا۔ آپ کی نظر توجہ سے ان سب کا بیڑا پار ہوتا ہے۔ ملک شہبال نے سن کر کہا پھر آیا اور ایک پنگھولا جڑاؤ موتیوں کی توڑ پڑے ہوئی لایا۔ اسے محل میں رکھ کر آپ ہوا ہوا لوگوں نے شہزادے کو اس میں انگوٹھا چوستے ہوئے پایا۔ بادشاہ بیگم نے جلدی بلائیں لے ہاتھوں میں اٹھا کر چھاتی سے لگا لیا۔ دیکھا تو کرتا آب رواں کا موتیوں کا درد امن ٹکا ہوا گلے میں ہے اور اس پر شلوکا تمامی کا پہنایا ہے، اور ہاتھ پاؤں میں کھڑدے مرصع کے اور گلے میں ہیکل نورتن کی پڑی ہے جھنجھنا، چسنی، چٹے پٹے جڑاؤ دھرے ہیں۔ سب مارے خوشی کے واری پھری ہونے لگیں اور دعائیں دینے لگیں کہ تیری ماں کا پیٹ ٹھنڈا رہے اور تو بوڑھا آڑھا ہو۔
 

شمشاد

لائبریرین
بادشاہ نے ایک بڑا محل تعمیر کروا کر اور فرش بچھوا اس میں درویشوں کو رکھا جب سلطنت کے کام سے فراغت ہوئی تب آ بیٹھے اور سب طرح سے خدمت اور خبر گیری کرتے۔ لیکن ہر چاند کی نوچندی جمعرات کو وہی پارہ ابر آتا اور شہزادے کو لے جاتا۔ بعد دو دن کے تحفہ کھلونے اور سوغاتیں ہر ایک ملک کی اور ہر ایک قسم کے شہزادے کے ساتھ لے آتا۔ جن کے دیکھنے سے عقل انسان کی حیران ہو جاتی۔ اسی قاعدے سے بادشاہ زادے نے خیریت سے ساتویں برس میں پاؤں دیا۔ عین سالگرہ کے روز بادشاہ آزاد بخت نے فقیروں سے کہا کہ سائیں اللہ! کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ شہزادے کو کون لے جاتا ہے اور پھر دے جاتا ہے؟ بڑا تعجب ہے دیکھئے انجام اس کا کیا ہوتا ہے؟ درویشوں نے کہا ایک کام کرو ایک شقہ شوقیہ اس مضمون کا لکھکر شہزادے کے گہوارے میں رکھ دو کہ تمہاری مہربانی اور مھبت دیکھ کر اپنا بھی دل مشتاق ملاقات کا ہوا ہے۔ اگر دوستی کی راہ سے اپنے احوال کی اطلاع دیجئے تو خاطر جمع ہو اور حیرانی بالکل رفع ہو۔ بادشاہ نے موافق اصلاح درویشوں کے افشانی کاغذ پر ایک رقعہ اسی عبارت کا رقیم کیا اور مہد زریں میں رکھ دیا۔

شہزادہ بہ موجب قاعدہ قدیم کے غائب ہوا۔ جب شام ہوئی آزاد بخت درویشوں کے بستروں پر آ بیٹھے اور کلمہ کلام ہونے لگا۔ ایک کاغذ لپٹا ہوا بادشاہ کے پاس آ پڑا۔

بہ سرو چشم، میں تمہارے فرمانے سے قاصر نہیں۔ یہ کہہ کر نگاہ کرم سے دیوؤں اور پریوں کی طرف دیکھا اور بڑے بڑے جن جو جہاں سردفار تھے، ان کو نامے لکھی کہ اس فرمان کو دیکھتے ہی اپنے تئیں حضور پر نور میں حاضر کرو۔ اگر کسی کے آنے میں توقف ہو گا تو اپنی سزا پاوے گا اور پکڑا ہوا آوے گا۔ اور آدم زاد خواہ عورت، خواہ مرد جس کے پاس ہو اسے اپنے ساتھ لئے آوے۔ اگر کوئی پوشیدہ کر رکھے گا اور ٹافی الحال ظاہر ہو گا تو اس کا زن و بچہ کولہو میں پیڑا جائے گا اور جاس کا نام نشان باقی نہ رہے گا۔

یہ حکم نامہ لے کر دیو چاروں طرف متعین ہوئے۔ یہاں دونوں بادشاہ میں صحبت گرم ہوئی اور باتیں اختلاط کی ہونے لگیں۔ اس میں ملک شہبال درویشوں سے مخاطب ہو کر بولا کہ اپنے تئیں بھی بڑی آرزو لڑکے ہونے کی تھی اور دل میں عہد کیا تھا کہ اگر خدا بیٹا دے یا بیٹی تو اس کی شادی بنی آدم کے بادشاہ کے یہاں جو لڑکا پیدا ہو گا۔ اس سے کروں گا۔ اس نیت کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ بادشاہ کے بیگم پیٹ سے ہیں۔ بارے دن اور گھڑیاں اور مہینے گنتے گنتے پورے دن ہوئے اور یہ لڑکی پیدا ہوئی موافق وعدے کے تلاش کرنے کے واسطے عالم جنیات کو میں نے حکم کیا کہ چار دانگ دنیا میں جستجو کرو۔ جس بادشاہ یا شہنشاہ کے یہاں فرزند پیدا ہوا ہو، اس کو بہ جنس احتیاط سے جلد اٹھا کر لے آؤ۔ وونہیں بہ موجب فرمان کے پری زاد چارون سمت پراگندہ ہوئے۔ بعد دیر کے اس شہزادہ کو میرے پاس لے آئے۔ میں نے شکر خدا کا کیا اور اپنی گود میں لے لیا۔ اپنی بیٹھی سے زیادہ اس کی محبت میرے دل میں پیدا ہوئی۔ جی نہیں چاہتا کہ ایک دم نظروں سے جدا کروں۔ لیکن اس خاطر بھیج دیتا ہوں کہ اگر اس کے ماں باپ نہ دیکھیں گے تو ان کا کیا احوال ہو گا۔ لٰہذا ہر مہینے میں ایک بار منگا لیتا ہوں۔ کئی دن اپنے نزدیک رکھ کر پھر بھیج دیتا ہوں۔ انشا اللہ تعالٰی اب ہمارے تمہارے ملاقات ہوئی۔ اس کی کتخدائی کر دیتا ہوں۔ موت حیات سب کو لگی پڑی ہے۔ بھلا جیتے جی اس کا سہرا دیکھ لیں۔

بادشاہ آزاد بخت یہ باتیں ملک شہبال کی سن کر اور اس کی خوبیاں دیکھ کر نہایت محظوظ ہوئے اور بولے۔ پہلے ہم کو شہزادے کے غائب ہو جانے اور پھر آنے سے عجب عجب طرح کے خطرے دل میں آتے تھے۔ لیکن اب صاحب کی گفتگو سے تسلی ہوئی۔ یہ بیٹا اب تمہارا ہے۔ جس میں تمہاری خوشی ہو سی کیجئے۔ غرض دونوں بادشاہوں کی صحبت مانند شکر شیر کے رہتی اور عیش کرتے۔ دس پانچ کے عرصے میں بڑے بڑے بادشاہ گلستان ارم کے اور کوہستان کے اور جزیروں کے، جن کے طلب کی خاطر لوگ تعنیات ہوئے تھے، سب آ کر حضور میں حاضر ہوئے۔ پہلے ملک صادق سے فرمایا کہ تیرے اس جو آدم زاد ہے حاضر کر۔ اس نے نپٹ غم و غصہ کھا کر لاچار اس گلعزار کو حاضر کیا۔ اور ولایت عمان کے بادشاہ سے زادی جن کی جس کے واسطے شہزادہ ملک نیم روز کا گاؤ سوار ہو کر سودائی بنا تھا، مانگی اس نے بہت سی غذر معذرت کر کے حاضر کی۔ جب بادشاہ فرنگ کی بیٹی اور بہزاد خان کو طلب کیا سب منکر پاک ہوئے اور حضرت سلیمان کی قسم کھانے لگے۔ آخر دریائے قلزم کے بادشاہ سب جب پوچھنے کو نوبت آئی تو وہ سر نیچا کر کے چپ ہو رہا۔ ملک شہبال نے اس کی خاطر کی اور قسم دی اور امیدوار سرفرازی کا کیا اور کچھ دھونش دھڑکا بھی دیا۔ تب وہ بھی ہاتھ جوڑ کر عرض کرنے لگا کہ بادشاہ سلامت حقیقت یہ ہے کہ جب بادشاہ اپنے بیٹے کے استقبال کی خاطر درپا پر آیا اور شہزادے نے مارے جلدی کے گھوڑا دریا میں ڈالا۔ اتفاقا میں اس روز سیر و شکار کی خاطر نکلا تھا۔ اس جگہ میرا گزر ہوا۔ سواری کھڑی کر کے یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ اس میں شہزادی کو بھی گھوڑی دریا میں لے گئی۔ میری نگاہ جو اس پر پڑی، دل بے اختیار ہوا۔ پری زادوں کو حکم کیا کہ شہزادی کو مع گھوڑی لے آؤ۔ اس کے پیچھے بہزاد خان نے گھوڑا پھینکا۔ جب وہ غوطے کھانےلگا۔ اس کی دلاوری اور مردانگی پسند آئی۔ اس کو بھی ہاتھوں ہاتھ پکڑ لیا۔ ان دونوں کو لیکر میں نے سواری پھیری۔ سو وہ دونوں صحیح سلامت میرے پاس موجود ہیں۔

یہ احوال کہہ کر دونوں کو روبرو بلایا۔ اور سلطان شام کی شہزادی کی تلاش بہت کی اور سبھوں سے بہ سختی و ملائمت استفسار کیا لیکن کسو نے حامی نہ بھوری اور نہ نام و نشان بتایا۔ تب ملک شہبال نے فرمایا، کہ کوئی بادشاہ یا سردار غیر حاضر بھی ہے یا سب آ چکے؟ جنوں نے عرض کی کہ جہاں پناہ سب حضور میں آئے ہیں، مگر ایک مسلسل جادوگر جس نے کوہ قاف کے پردے میں ایک قلعہ جادو کے علم سے بنایا ہے وہ اپنے غرور سے نہیں آیا ہے۔ اور ہم غلاموں کو طاقت نہیں جو بہ زور اس کو پکڑ لاویں وہ بڑا قلب مکان ہے اور خود بھی بڑا شیطان ہے۔

یہ سن کر ملک کو طیش آیا اور لڑکی فوج جنوں اور عفریتوں اور پری زادوں کی تعینات کی اور فرمایا۔ اگر راستے میں اس شہزادی کو ساتھ لیکر حاضر ہو۔ فبہا والانہ، اس کو زیر و زیر کر کے مشکیں باندھ کر لے آؤ۔ اور اس کے گڑھ اور ملک کو نیست و نابود کر کے گدحے کا ہل پھروا دو۔ ووہیں حکم ہوتے ہی ایسی کتنی فوج روانہ ہوئی کہ ایک آدھ دن کے عرصے میں ویسے جوش خروش والے سرکش کو حلقہ بگوش کر کے پکڑ لائے اور حضور میں دست بستہ کھڑا کیا۔ ملک شہبال نے ہر چند سرزش کر کر پوچھا لیکن اس مغرور نے سوائے ناں کے ہاں نہ کی۔ نہایت غصے ہو کر فرمایا کہ اس مردود کے بند بند جدا کرو اور کھال کھینچ کر کر بھس بھرو۔ اور پری زاد کے لشکر کو تعین کیا کہ کوہ قاف میں جا کر ڈھونڈ ڈھانڈھ کر پیدا کرو۔ وہ لشکر متغیہ، شہزادی کو بھی تلاش کر کے لے آیا۔ اور حضور میں پہنچایا۔ اس سب اسیروں نے اور چاروں فقیروں نے ملک شہبال کا حکم اور انصاف دیکھ کر دعائیں دیں اور شاد ہوئے۔ بادشاہ آزاد بخت بھی بہت خوش ہوا۔ تب ملک شہبال نے فرمایا کہ مردوں کو دیوان خاص میں اور عورتوں کو بادشاہی محل میں داخل کرو اور شہر میں آئینہ بندی کا حکم کرو اور شادی کی تیاری جلدی کرو۔ گویا حکم کی دیر تھی۔

ایک روز نیک ساعت مبارک مہورت دیکھ کر شہزادہ بختیار کا عقد اپنی بیٹی روشن اختر سے باندھا اور خواجہ یمن کی دمشق کی شہزادی سے بیاہا۔ اور ملک فارس کے شہزادے کا نکاح بصرے کی شہزادی سے کر دیا۔ اور عجم کے بادشاہ زادے کے فرنگ کی ملک سے منسوب کیا، اور نیم روز کے بادشاہ کی بیٹی کو بہزاد خان کو دیا۔ اور شہزدہ نیم روز کو جن کی شہزادی کے حوالے کی اور چین کے شہزادے کو اس پیر مرد عجمی کی بیٹی سے، جو ملک صادق کے قبضے میں تھی، کتخدا کیا۔ مگر ایک نامراد بدولت ملک شہبال کے اپنے اپنے مقصد اور مراد کو پہنچا۔ بعد اس کے چالیس دن تلک جشن فرمایا اور عیش و عشرت میں رات دن مشغول رہے۔ آخر ملک شہبال نے ہر ایک بادشاہ زادے کو تحفے و خاطر سوغاتیں اور مال اسباب دے دے کر اپنے اپنے وطن کو رخصت کیا۔ سب بہ خوشی بہزاد خان اور خواجہ زادہ یمن کا اپنی خوشی سے بادشاہ آزاد بخت کی رفاقت میں رہے، یعنی بختیار کی فوج کا کیا۔ جب تلک جیتے رہے، عیش کرتے رہے الٰہی! جس طرح ہر ایک نامراد کا مقصد دلی اپنے کرم اور فضل سے برلا۔ بہ طفیل پنج تن پاک، دوازادہ امام چہاردہ معصوم علیہم الصلوہ والسلام کے۔ آمین یا الہ العالمین۔
 

شمشاد

لائبریرین
باغ و بہار صفحہ 82 تا 92

سیر دوسرے درویش کی

جب دوسرے درویش کے کہنے کی نوبت پہنچی، وہ چار زانو ہو بیٹھا اور بولا۔

اے یارو! اس فقیر کا ٹک ماجرا سنو!
میں ابتدا سے کہتا ہوں تا انتہا سنو!
جس کا علاج کر نہیں سکتا کوئی حکیم
ہے گا ہمارا درد نپت لا دو سنو!​

اے دلق پوش! یہ عاجز بادشاہ فارس کے ملک کا ہے۔ ہر فن کے آدمی وہاں پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ اصفہان نصف جہاں مشہور ہے۔ ہفت اقلیم میں اس اقلیم کے برابر کوئی ولایت نہیں کہ وہاں کا ستارہ آفتاب اور وہ ساتوں کواکب میں نیر اعظم ہے۔ آب و ہوا وہاں کی خوشی اور لوگ روشن طبع اور صاحب سلیقہ ہوتے ہیں۔ میرے قبلہ گاہ نے، جو بادشاہ اس ملک کے تھے لڑکپن سے قاعدے اور قانون سلطنت کی تربیت کرنے کے واسطے بڑے بڑے دانا ہر ایک علم اور کسب کے چن کر میری اتالیقی کے لیے مقرر کیے تھے تو تعلیم کامل ہر نوع کی پا کر قابل ہوں۔ خدا کے فضل سے چودہ برس کے سن و سال میں سب علم سے ماہر ہوا۔ گفتگو معقول نشست و برخاست پسندیدہ اور جو کچھ بادشاہوں کو لائق اور درکار ہے سب حاصل کیا اور یہی شوق شب و روز تھا کہ قابلوں کی صحبت میں قصے ہر ایک ملک کے اور احوال اوالعزم بادشاہوں اور نام آوروں کا سنا کروں۔

ایک روز ایک مصاحب دانا نے کہ خوب تواریخ داں اور جہاں دیدہ تھا، مذکور کیا کہ اگرچہ آدمی کی زندگی کا کچھ بھروسا نہیں، لیکن اکثر وصف ایسے ہیں کہ ان کے سبب سے انسان کا نام قیامت تک زبانوں پر بخوبی چلا جائے گا۔ میں نے کہا اگر تھوڑا سا احوال اس کا مفصل بیان کرو تو میں بھی سنوں اور اس پر عمل کروں۔ تب وہ شخص حاتم طائی کا ماجرا اس طرح سے کہنے لگا۔
 

شمشاد

لائبریرین
قصہ حاتم طائی کا۔

حاطم طائی کے وقت میں ایک بادشاہ عرب کا نوفل نام تھا۔ اس کو حاتم کے ساتھ بہ سبب نام آوری کے دشمنی مکال ہوئی۔ بہت سا لشکر فوج جمع کرکر لڑائی کی خاطر چڑھ آیا۔ حاتم تو خدا ترس اور نیک مرد تھا، یہ سمجھا کہ اگر میں بھی جنگ کی تیاری کروں تو خدا کے بندے مارے جائیں گے۔ اور بڑے خوں ریزی ہو گی۔ اس کا عذاب میرے نام لکھا جائے گا۔ یہ بات سوچ کر تن تنہا اپنی جان لے کر پہاڑ کی کھوہ میں جا چھپا۔

جب حاتم کے غائب ہونے کی خبر نوفل کو معلوم ہوئی، سب اسباب گھر بار حاتم کا قرق کیا اور منادی کرا دی جو کوئی حاتم کو ڈھونڈ کر پکڑ لاوے پانچ سو اشرفی بادشاہ کے سرکار سے انعام پاوے۔ یہ سن کر سب کو لالچ آیا اور جستجو حاتم کی کرنے لگے۔ اور روز ایک بوڑھا اس کی بڑھیا دو تین بچے چھوٹے چھوٹے ساتھ لیے ہوئے لکڑیاں توڑنے کے واسطے اس غار کے پاس جہاں حاتم پوشیدہ تھا، پہنچے اور لکڑیاں اس جنگل سے چننے لگے، بڑھیا بولی کہ اگر ہمارے کچھ دن بھلے آتے تو حاتم کو کہیں ہم دیکھ پاتے اور اس کو پکڑ کر نوفل کے پاس لے جاتے تو وہ پانچ سو اشرفی دیتا ہم آرام سے کھاتے اس دکھ دھندے سے چھوٹ جاتے۔ بوڑھے نے کہا۔ کیا ٹر ٹر کرتی ہے؟ ہماری طالع میں یہی لکھا ہے کہ روز لکڑیاں توڑیں اور سر پر دھر کر بازار میں بیچیں، تب لون روٹی میسر آوے یا ایک روز جنگل سے باگھ لے جاوے۔ لے اپنا کام کر۔ ہمارے ہاتھ حاتم کاہے کو آوے گا اور بادشاہ روپے دلاوے گا؟ عورت نے ٹھنڈی سانس بھری اور چپکی ہو رہی۔

یہ دونوں کی باتیں حاتم نے سنیں، مرومی اور مروت سے بعید جانا کہ اپنے تئیں چھپائے اور جان کو بچائے اور ان دونوں بے چاروں کو مطلب تک نہ پہنچائے۔ سچ ہے اگر آدمی میں رحم نہیں تو وہ انسان نہیں، اور جس کی جی میں درد نہیں وہ قصائی ہے۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں​

غرض حاتم کی جواں مردی نے نہ قبول کیا کہ اپنے کانوں سے سن کر چپکا ہو رہے۔ وونہیں باہر نکل آیا اور اس بوڑھے سے کہ اے عزیز! حاتم میں ہی ہوں۔ میرے تئیں نوفل کے پاس لے چل۔ وہ مجھے دیکھے گا اور جو کچھ روپے دینے کا اقرار کیا ہے تجھے دیوے گا۔ میر مرد نے کہا، سچ ہے کہ اس صورت میں بھلائی اور بہبودی البتہ ہے، لیکن وہ کیا جانے تجھ سے سلوک کرے، اگر مار ڈالے تو میں کیا کروں؟ یہ مجھ سے ہر گزر نہ ہو سکے گا کہ تجھ سے انسان کو طمع کی خاطر دشمنی کے حوالے کروں۔ وہ مال کتنے دن کھاؤں گا اور کب تک جیئوں گا؟ آخر مر جاؤں گا، تب خدا کو کیا جواب دوں گا۔

حاتم نے بہتیری منت کی کہ مجھے لے چل۔ میں اپنے خوشی سے کہتا ہوں اور ہمیشہ اسی آرزو میں رہتا ہوں کہ مرا جان مال کسو کے کام آوے تو بہتر ہے۔ لیکن وہ بوڑھا کسی طرح راضی نہ ہوا کہ حاتم کو لے جاتا تو میں آپ سے آپ بادشاہ پس جا کر کہتا ہوں کہ اس بوڑھے مجھے جنگل میں ایک پہاڑ کی کوہ میں چھپا رکھا تھا۔ وہ بوڑھا ہنسا اور بولا۔ بھلائی کے بدلے برائی ملے، تو یا نصیب اس رد و بدل کے سوال جواب میں آدمی اور بھی آ پہنچے، بھیڑ لگ گئی۔ افسوس کرتا ہوا پیچھے پیچھے ساتھ ہو لیا۔ جب نوفل کے رو برو لے گئے تو اس نے پوچھا کو اس کو کون پکڑ لایا؟ ایک بدذات سنگ دل بولا کہ ایسا کام سوائے ہماری اور کون کر سکتا ہے؟ یہ فتح ہماری نام ہے ہم نے عرش پر جھنڈا گاڑا ہے۔ ایک لن ترانی والا ٹینگ مارنے لگا کہ میں کئی دن سے دوڑ دھوپ کر کر جنگل سے پکڑ لیا ہوں۔ میری محنت پر نظر کیجئے اور جو قرار ہے، سو دیجئے۔ اسی طرح اشرفیوں کے لالچ سے ہر کوئی کہتا تھاکہ یہ کام مجھ سے ہوا۔ وہ بوڑھا چپکا ایک کونے میں لگتا ہوا سب کی شیخیاں سن رہا تھا اور حاتم کی خاطر روتا تھا۔ جب اپنی اپنی دلاوری اور مردانگی سب کہہ چکے۔ تب حاتم نے بادشاہ سے کہا اگر سچ بات پوچھو تو یہ ہے کہ وہ بوڑھا جو الگ سب سے کھڑا ہے، مجھ کو لایا ہے، اگر قیافہ پہچان جانتے ہو تو دریافت کرو اور میرے پکڑنے کی خاطر جو قبول کیا ہے پورا کرو کہ ساری ڈیل میں زبان حلال ہے۔ مرد کو چاہیے جو کہے سو کرے۔ نہیں تہ جیبہ حیوان کو بھی خدا نے دی ہے۔ پھر حیوان اور انسان میں کیا تفاوت ہے؟ نوفل نے اس لکڑہارے بوڑھے کو پاس بلا کر پوچھا کہ سچ کہہ، اصل کیا ہے؟ حاتم کو کون پکڑ لایا؟ اس بیچارے نے سر سے پاؤں تک جو گزرا تھا راست کہہ سنایا اور کہا حاتم میری خاطر آپ سے چلا آیا ہے۔ نوفل یہ ہمت حاتم کی سن کر متعجب ہوا کہ بل بے تیری سخاوت اپنی جان کا بھی خطر نہ کیا۔ جتنے جھوٹ دعوے حاتم کو پکڑ لانے کے کرتے تھے، حکم ہوا کہ ان کی ٹنڈیاں کس کر پانچ سو اشرفی کے بدلے پانچ پانچ سو جوتیاں اس کے سر پر لگاؤ کہ ان کی جان نکل پڑے۔ وونہیں تڑ تڑ بیزا سریں پڑنے لگیں کہ ایک دم میں سر ان کے گنجے ہو گئے۔ سچ ہے، جھوٹ بولنا ایسی ہی گناہ ہے کہ کوئی گناہ اس نہیں پہنچتا۔ خدا سب کو اس بلا سے محفوظ رکھے اور جھوٹ بولنے کا چسکا نہ دے۔ بہت آدمی جھوٹ موٹ بکے جاتے ہیں لیکن آزمائش کے وقت سزا پاتے ہیں۔ غرض ان سب کو موافق ان کے انعام دے کر، نوفل نے اپنے دل میں خیال کیا کہ حاتم سے شخص سے کہ ایک عالم کو اس سے فیض پہنچتا ہے اور محتاجوں کی خاطر جان اپنی دریخ نہیں کرتا اور خدا کی راہ میں سرتاپا حاضر ہے دشمنی رکھنی اور اس کا مدعی ہونا مرد آدمیت اور جواں مردی سے بعید ہے۔ ووہنیں حاتم کا ہاتھ بڑی دوستی اور گرم جوشی سے پکڑ لیا اور کہا کیوں نہ ہو جب ایسی ہو تب ایسی ہو تواضع تعظیم کر کر پاس بٹھلایا اور حاتم کو ملک و املاک اور مال و اسباب جو ضبط کیا وونہیں چھوڑ دیا، نئے سر سے سرداری قبیلہ طے کی اسے دی اور اس بوڑھے کو پانچ سو اشرفیاں خزانے سے دلوا دیں وہ دعا دیتا ہوا چلا گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
جب یہ ماجرا حاتم کا میں نے تمام سنا جی میں غیرت آئی اور یہ خیال گزرا کہ ھاتم اپنی قوم کا رئیس تھا، جن نے سخاوت کے باعث یہ نام پیدا کیا کہ آج تلک مشہور ہے۔ میں خدا کے حکم سے بادشاہ تمام ایران کا ہوں، اگر اس نعمت سے محروم رہوں تو بڑا افسوس ہے۔ فی الواقع دنیا میں کوئی بڑا داد و دہش سے نہیں۔ اس واسطے کہ آدمی جو کچھ دنیا میں دیتا ہے اس کو عوض عاقبت میں لیتا ہے۔ اگر کوئی ایک دانہ بوتا ہے تو اس جتنا کچھ پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات دل میں ٹھہرا کر میر عمارت کو بلوا کر حکم کیا کہ ایک مکان عالی شان جس کے چالیس دروازے بلند اور بہت کشادہ ہوں، باہر شہر کے جلد بنواؤ۔ تھوڑے عرصے میں ویسی ہی عمارت جیسا دل چاہتا تھا بن کر تیار ہوئی اور اس مکان میں ہر روز ہر وقت فجر سے شام تک محتاجوں اور بے کسوں کے تئیں روپے اشرفیاں دیتا، اور جو کوئی جس چیز کا سوال کرتا، میں اسے مالا مال کرتا۔

غرض چالیس دروازوں سے حاجت مند آتے اور جا چاہتے سو لے جاتے۔ ایک روز کا یہ ذکر ہے کہ ایک فقیر سامنے کے دروازے سے آیا اور سوال کیا۔ میں نے اسے ایک اشرفی دی۔ پھر وہی دوسرے دروازے سے ہو کر آیا، دو اشرفیاں مانگیں۔

میں نے پہچان کر درگزر کی اور دیں۔ اسی طرح اس نے ہر ایک دروازے سے اور ایک ایک اشرفی بڑھانا شروع کیا اور میں بھی جان بوجھ کر ان جان ہوا، اور اس کے سوا موافق دیا گیا۔ آخر چالیس دروازے کی راہ سے آ کر چالیس اشرفیاں مانگیں۔ وہ بھی میں نے دلوادیں اتنا کچھ لے کر وہ درویش پھر پہلے دروازے سے گھس آیا اور سوال کیا۔ مجھے بہت برا معلوم ہوا۔ میں نے کہا سن اے لالچی تو کیسا فقیر ہے کہ ہر گز فقیر کے تینوں حرفوں سے واقف نہیں؟ فقیر کا عمل ان پر چاہیے۔ فقیر بولا۔ بھلا داتا تم ہی بتاؤ میں نے کہا " ف " سے فاقہ، " ق " سے قناعت " ر " سے ریاضت نکلتی ہے، جس میں یہ باتیں نہ ہوں وہ فقیر نہیں۔ اتنا جو تجھے ملا ہے، اس کو کھا پی کر پھر آئیو اور جو مانگے گا لے جائیو۔ یہ خیرات احتیاج رفع کرنے کے واسطے ہے نہ جمع کرنے کے لیے۔ اے حریص! چالیس دروازوں سے تو نے ایک اشرفی سے چالیش اشرفیوں تک لیں، اس کا حساب تو کر کہ ریوڑی کے پھیری طرح کتنی اشرفیاں ہوئیں اور اس پر بھی تجھے حرص پھر پہلے دروازے سے لے آئی۔ اتنا مال جمع کر کے کیا کرے گا؟ فقیر کو چاہیے کہ ایک روز کی فکر کر لے اور دوسرے دن پھر نئی روزی رازق دینے والا موجود ہے۔ اب حیا و شرم پکڑ اور صبر و قناعت کا کام فرما۔ یہ کیسی فقیری ہے جو تجھے مرشد نے بتائی ہے؟

فقیر یہ میری بات سن کر خفا اور بد دماغ ہوا اور جتنا مجھ سے لے کر جمع کیا تھا سب زمیں میں ڈال دیا اور بولا۔ بس بابا اتنے گرم مت ہو۔ اپنی کائنات لے کر رکھ چھوڑو، پھر سخاوت کا نام لیجئو۔ سخی ہونا بہت مشکل ہے۔ تم سخاوت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ اس منزل کو کب پہنچو؟ ابھی دلی دور ہے۔ سخی کے بھی تین حروف ہیں۔ پہلے ان پر عمل کرو تب سخی کہلاؤ گے۔ جب میں ڈرا اور کہا بھلا داتا! اس کے معنی مجھے سمجھاؤ۔ کہنے لگا۔ س سے سمائی اور خ سے خوف الٰہی اور ی سے یاد رکھنا اپنی پیدائش اور مرنے کو، جب تلک اتنا نہ ہو لے، تو سخاوت کا نام لے، اور سخی کا درجہ ہے کہ اگر بدکار ہو، تو بھی دوست خدا کا ہے، اس فقیر نے بہت ملکوں کے سیر کی ہے، لیکن سوائے بصرے کی بادشاہ زادی کے کوئی سخی دیکھنے میں نہ آیا۔ سخاوت کا خاصہ خدا نے اس عورت پر قطع کیا ہے اور سب نام چاہتے ہیں، پر ویسا کام نہیں کرتے۔ یہ بھی سن کر میں نے بہت منت کی اور قسمیں دیں کہ میری تقصیر معاف کرو اور جو چاہیے سو اور میر دیا ہرگز نہ لیا اور یہ بات کہتا ہوا چلا۔ اب اپنی ساری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد صفحہ 92
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
نے بتائی ہے ؟

فقیر یہ میری بات سن کر خفا اور بد دماغ ہوا اور جتنا مجھ سے لے کر جمع کیا تھا سب زمین میں ڈال دیا اور بولا ۔ بس بابا اتنے گرم مت ہو۔ اپنی کائنات لے کر رکھ چھوڑو ، پھر سخاوت کا نام نہ لیجئو۔ سخی ہونا بہت مشکل کام ہے ۔ تم سخاوت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے ۔ اس منزل کو کب پہنچو ؟ ابھی دلی دور ہے۔ سخی کے بھی تین حرف ہیں۔ پہلے ان پر عمل کروا تب سخی کہلاؤ گے۔ جب میں ڈرا اور کہا بھلا داتا ! اس کے معنی مجھے سمجھاؤ۔ کہنے لگا س سے سمائی اور خ سے خوف خوفِ الہی اور ی سے یاد رکھنا اپنی پیدائش اور مرنے کو ، جب تلک اتنا نہ ہو لے ، تو سخاوت کا نام لے اور سخی کا درجہ ہے کہ اگر بدکار ہو ، تو بھی دوست خدا کا ہے ، اس فقیر نے بہت سے ملکوں کی سیر کی ہے ، لیکن سوائے بصرہ کی باشاہ زادی کے کوئی سخی دیکھنے میں نہ آیا۔ سخاوت کا خاصہ خدا نے اس عورت پر قطع کیا ہے اور سب نام چاہتے ہیں ، پر ویسا کام نہیں کرتے ۔ یہ بھی سن کر میں نے بہت منت کی اور قسمیں دیں کہ میری تقصیر معاف کرو اور جو چاہیے لو۔ میرا دیا ہرگز نہ لیا اور یہ بات کہتا ہوا چلا۔ اب اپنی ساری بادشاہت مجھے دے تو اس پر بھی نہ تھوکوں اور نہ دھر ماروں ، وہ تو چلا گیا پر بصرے کی بادشاہ زادی کی یہ تعریف سننے سے دل بے کل ہوا۔ کسی طرح کل نہ تھی۔ اب یہ آرزو ہوئی کہ کسو صورت سے بصرے چل کر اس کو دیکھا چاہیے۔

اس عرصے میں بادشاہ نے وفات پائی اور تخت پر میں بیٹھا۔ سلطنت ملی پر وہ خیال نہ گیا ۔ وزیر اور امیروں سے ، جو پائے تختِ سلطنت کے اور کان مملکت کے تھے ، مشورت کی کہ سفر بصرے کا کیا چاہتا ہوں۔ تم اپنے کام میں مستعد رہو۔ اگر زندگی ہے تو سفر کی عمر کوتاہ ہوتی ہے، جلد پھر میں آتا ہوں۔ کوئی میرے جانے پر راضی نہ ہوا۔ لاچار دل تو اداس ہو رہا تھا۔ ایک دن بغیر سبب کے کہے سنے ، چپکے سے وزیرِ با تدبیر کو بلا کر مختار اور وکیل مطلق اپنا کیا اور سلطنت کا مدار المہام بنایا۔ پھر میں نے گیروا بسر پہن فقیر بھیس کر ، اکیلے راہ بصرے کی لی۔ تھوڑے دنوں میں اس کی سرحد میں جا پہنچا۔ تب سے یہ تماشا دیکھنے لگا کہ جہاں رات کو جا کر مقام کرتا ، نوکر چاکر اسی ملکہ کے استقبال کر کر ایک مکان معقول میں اتارتے ، اور جینا لوازمہ ضیافت کا ہوتا ہے ، بخوبی موجود ہو کر اور خدمت میں دست بستہ تمام رات حاضر رہتے ، دوسرے دن دوسری منزل مین یہی صورت پیش آتی۔ اسی آرام سے مہینوں کی راہ طے کی۔ آخر بصرے میں داخل ہوا۔ وونہیں ایک جواں شکیل ، خوش لباس ، نیک خُو ، صاحبِ مروت کہ دانائی اس کے قیافے سے ظاہر تھی ، میرے پاس آیا اور نپٹ شیریں زبانی سے کہنے لگا کہ میں فقیروں کا خآدم ہوں ، ہمیشہ اسی تلاش میں رہتا ہوں کہ جو کوئی مسافر ، فقیر یا دنیا دار اس شہر میں آوے ، میرے گھر میں قدم رنجہ فرماوے، سوائے ایک مکان کے یہاں بدیسی کے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ آپ تشریف لے چلئے اور مقام کو زینت بخسئے اور مجھے سرفراز کیجئے۔

فقیر نے پوچھا ، صاحب کا اسمِ شریف کیا ہے۔ بولا اس گمنام کا نام بیدار بخت ہے۔ اس کی خوبی اور تملق دیکھ کر یہ عاجز اس کے ساتھ چلا اور اس کے مکان میں گیا۔ دیکھا تو ایک عمارت عالی لوازم شاہانہ سے تیار ہے۔ ایک دالان میں اس نے لے جا کر بٹھایا اور گرم پانی منگوا کر ہاتھ پاؤں دھلوائے اور دستر خوان بچھوا کر مجھ تن تنہا کے روبرو بکاول نے ایک تاورے کا تورا چن دیا۔ چار بشقاب ، ایک میں یخنی پلاؤ ، دوسری میں قورما پلاؤ ، تیسری میں متنجن پلاؤ اور چوتھی میں کوکو پلاؤ اور ایک قاب زردے کی اور کئی طرح کے قلئے ، دو پیازہ ، نرگسی ، بادام ، روغن جوش اور روٹیاں کئی قسم کی باقر خانی ، تنکی شیرمال ، گاؤدیدہ ، گاؤ زبان ، نعمت نان ، پراٹھے ، اور کباب کوفتے کے ، مرچ کے تکے ، خاگینہ ، ملغوبہ شب دیگ ، دم پُخت ، حلیم ، ہریسا ، سموسے ، ورتی ، قبولی ، فرنی ، شیر برنج ، ملائی ، حلوہ ، فالودہ ، پن بھتا ، نمش ، آب شورہ ، ساق عروس ، لوزیات ، مربہ اچار دان ، دہی کی قلفیاں ، یہ نعمتیں دیکھ کر روح بھر گئی ۔ جب ایک ایک نوالہ ہر ایک سے لیا ، پیٹ بھی بھر گیا ، تب کھانے سے ہاتھ کھینچا ۔ وہ شخص مجوز ہوا کہ صاحب نے کیا کھایا؟ کھانا تو سب امانت دھرا ہے بے تکلف اور نوشِ جان فرمائیے ۔ میں نے کہا شرم کیا ہے خدا تمہارا خانہ آباد رکھے ۔ جو کچھ میرے پیٹ میں سمایا سو میں نے کھایا اور ذائقے کی اس کے کیا تعریف کروں کہ اب تک جزبان چاٹتا ہوں اور جو ڈکار آتی ہے سو معطر۔ لو اب مزید کرو۔ جب دسترخوان اٹھا تو زیر انداز کا شانی مخمل کا مقیش بچھا کر چلمچی ، آفتابہ طلائی لا کر بیس دان میں سے خوشبو دار بیس دے کر گرم پانی سے میرے ہاتھ دھلائے۔ پھر پان دان جڑاؤ میں گلوریاں سونے کی بھر کر پکھروٹوں میں بندھی ہوئیں اور چو گھروں میں گلوریاں ، چکنی سپاریاں اور لونگ الائچیاں ، روپہلے ورقوں میں منڈھی ہوئی لا کر رکھیں۔ جب میں پانی پینے کو مانگتا تب صراحی برف میں لگی ہوئی آب دار لے آتا ۔

جب شام ہوئی فانوسوں میں کافوری شمعیں روشن ہوئیں۔ وہ عزیز بیٹھا ہوا باتیں کرتا رہا۔ جب پہر رات بیت گئی ، بولا اب اس چھپر کھٹ میں کہ جس کے آگے دلدار پیش گیر کھڑا ہے ، آرام کیجئے ۔ فقیر نے کہا اے صاحب ! ہم فقیروں کو ایک بوریا یا مرگ چھار بستر کے لئے بہت ہے۔ یہ خدا نے تم دنیا داروں کے واسطے بنایا ہے۔ کہنے لگا۔ یہ سب اسباب درویشوں کی خاطر ہے۔ کچھ میرا مال نہیں ۔ اس کے بجد ہونے سے ان بچھونے پر۔ کہ پھولوں کی سیج جیسی بھی نرم تھے ، جا کر لیٹا۔ دونوں پٹیوں کی طرف گلدان اور چنگیریں پھولوں کی چنی ہوئیں اور عود سوز اور لخلخے روشن تھے ، جیدھر کی کروٹ لیتا دماغ معطر ہو جاتا۔ اس عالم میں سو رہا۔

جب صبح ہوئی ناشتے کو بھی بادام ، پستے ، انگور ، انجیر ، ناشپاتی ، انار ، کشمش ، چھوہارے اور میوے کا شربت لا کر حاضر کیا ۔ اسی طور سے تین دن رہا۔ چوتھے روز میں نے رخصت مانگی۔ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا شاید اس گنہگار سے صاحب کی خدمت گاری میں کچھ قصور ہوا کہ جس کے باعث مزاج تمہارا مکدر ہوا، میں نے حیران ہو کر کہا برائے خدا یہ کیا مذکور ہے ؟ لیکن مہمانی کی شرط تین دن تلک ہے سو میں رہا ۔ زیادہ رہنا خوب نہیں اور علاوہ یہ فقیر واسطے سیر کے نکلا ہے ۔ اگر ایک ہی جگہ زیادہ رہ جاوے تو مناسب نہیں ۔ اس لئے اجازت چاہتا ہے نہیں تو تمہاری خوبیاں ایسی نہیں کہ جدا ہونے کو جی چاہے ۔ تب وہ بولا جیسی مرضی لیکن ایک سماعت توقف کیجئے کہ بادشاہ زادی کے حضور میں جا کر عرض کروں۔ اورتم جو جایا چاہتے ہو تو جو کچھ اسباب اوڑھے بچھانے کا اور کھانے کے باسن روپے سونے کے اور جڑاؤ کے اس مہمان خانے میں ہیں ، یہ سب تمہارا مال ہے ، اس کے ساتھ لے جانے کی خاطر جو فرماؤ تدبیر کی جائے ۔ میں نے کہا لا حول پڑھو ، ہم فقیر نہ ہوئے نئے بھاٹ ہوئے ۔ اگر یہی حرص دل میں ہوتی تو فقیر کاہے کو ہوتے ، دنیا داری کیا بری تھی۔

اس عزیز نے کہا اگر یہ احوال ملکہ سے سنے تو خدا جانے مجھے اس خدمت سے تغیر کر کر کیا سلوک کرے ۔ اگر تمہیں ایسی ہی بے پروائی ہے تو ان سب کو ایک کوٹھڑی میں امانت بند کر کر دروازے کو سر بہ مہر کر دو پھر جو چاہو سو کیجو ۔

میں قبول نہ کرتا تھا اور وہ مانتا بھی نہ تھا ۔ لاچار یہی صلاح ٹھہری کہ سب اسباب کو گند کر کر قفل کر دیا اور منتظر رخصت کا ہوا۔ اتنے مین ایک خواجہ سرا معتبر سر پر سر پیچ اور گوش پیچ اور کمر بندی ، باندھے ایک عصا سونے کا جڑاؤ ہاتھ میں اور ہاتھ اس کے کئی خدمت گار ، معقول عہدے لیے ہوئے اس شان و شوکت سے میرے نزدیک آیا ۔ ایسی ایسی مہربانی اور ملائمت سے گفتگو کرنے لگا کہ جس کا بیان نہیں کر سکتا ۔ پھر بولا ، اے میاں ، اگر توجہ اور کرم کر اس مشتاق کے غریب خانے کو اپنے قدم کی برکت سے رونق بخشو تو بندہ نوازی اور غریب پروری سے بعید نہیں۔ شاید شہزادی سنے کہ کوئی مسافر یہاں آیا تھا ۔ اس کی تواضع مدارت کسے نے نہ کی ، وہ یوں ہی چلا گیا ۔ اس واسطے واللہ اعلم مجھ پر کیا آفت لاوے اور کیسی قیامت اٹھاوے ،
 

شمشاد

لائبریرین
سیر پہلے درویش کی

پہلا درویش دو زانو ہو بیٹھا اور اپنی سیر کا قصہ اس طرح سے کہنے لگا۔ یا معبود اللہ! ذرا ادھر متوجہ ہو، اور ماجرا اس بے سروپا کا سنو!

یہ سر گزشت میری ذرا کان دھر سُنو!
مجھ کو فلک نے کر دیا زیر و زبر سُنو!
جو کچھ کہ پیش آئی ہے شدت مری تئیں
اُس کا بیان کرتا ہوں تم سر بہ سر سُنو!​

اے یاران! میری پیدایش اور وطن بزرگوں کا ملکِ یمن ہے۔ والد اس عاجز کا ملک التجار خواجہ احمد نام بڑا سوداگر تھا۔ اس وقت میں کوئی مہاجن یا بیپاری ان کے برابر نہ تھا۔ اکثر شہروں میں کوٹھیاں اور گُماشتے خرید و فروخت کے واسطے مقرر تھے، اور لاکھوں روپے نقد اور جنس ملک ملک کی گھر میں موجود تھی۔ اُن کے یہاں دو لڑکے پیدا ہوئے، ایک تو یہی فقیر جو کفنی سیلی پہنے ہوئے مرشدوں کے حضوری میں حاضر اور بولتا ہے، دوسری ایک بہن جس کو قبلہ گاہ نے اپنے جیتے جی اور شہر کے سوداگر بچے سے شادی کر دی تھی۔ وہ اپنی سُسرال میں رہتی تھی۔ غرض جس کے گھر میں اتنی دولت اور ایک لڑکا ہو، اُس کا لاڈ پیار کا کیا ٹھکانا ہے؟ مجھ فقیر نے بڑے چاؤ چوز سے ماں باپ کے سائے میں پرورش پائی اور پڑھنا لکھنا سپاہ گری کاکسب و فن، سوداگری کا بہی کھاتہ، روزنامہ، سیکھنے لگا۔ چودہ برس تک نہایت خوشی اور بے فکری میں گزرے، کچھ دُنیا کا اندیشہ دل میں نہ آیا۔ یک بہ یک ایک ہی سال میں والدین قضائے الٰہی سے مر گئے۔

عجب طرح کا غم ہوا، جس کا بیان نہیں کر سکتا۔ ایک بارگی یتیم ہو گیا۔ کوئی سر پر بوڑھا بڑا نہ رہا۔ اس مصیبتِ ناگہانی سے رات دن رویا کرتا، کھانا پینا سب چھوٹ گیا۔ چالین دن جوں توں کر کٹے، چہلم میں اپنے بیگانے چھوٹے بڑے جمع ہوئے۔ جب فاتح سے فراغت ہوئی، سب نے فقیر کر باپ کی پگڑی بندھوائی، اور سمجھایا۔ دُنیا میں سب کے ماں باپ مرتے آئے ہیں، اور اپنے تئیں بھی ایک روز مرنا ہے۔ پس صبر کرو۔ اپنے گھر کو دیکھو، اب باپ کی جگہ تم سردار ہوئے، اپنے کاروبار لین دین سے ہوشیار رہو۔ تسلی دے کر وے رخصت ہوئے۔ گماشتے کاروباری نوکر چاکر جتنے تھے آن کر حاضر ہوئے، نذریں دیں اور بولے کوٹھی نقد و جنس کی اپنی نظرِ مبارک سے دیکھ لیجیئے۔ ایک بارگی جو اس دولتِ بے انتہا پر نگاہ پڑی، آنکھیں کُھل گئیں۔ دیوان خانے کی تیاری کو حکم کیا۔ فراشوں نے فرش فروش بچھا کر چھت پردے چلونیں تکلف کی لگا دیں، اور اچھے اچھے خدمت گار دیدار و نوکر رکھے۔ سرکار سے زرق برق کی پوشاکیں بنوا دیں۔ فقیر مسند پر تکیہ لگا کر بیٹھا۔ ویسے ہی آدمی غنڈے بھانکڑے مفت پر کھانے پینے والے جھوٹے خوشامدی آ کر آشنا ہوئے اور مصاحب بنے۔ اُن سے آٹھ پہر کی صحبت رہنے لگی۔ ہر کہیں کی باتیں اور زٹلیں واہی تباہی ادھر اُدھر کی کرتے اور کہتے اس جوانی کے عالم میں کیتکی کی شراب یا گلِ گلاب کھنچوائیے، نازنین معشوقوں کو بُلوا کر اُن کے ساتھ پیجیئے اور عیش کیجیئے۔

غرض آدمی کا شیطان آدمی ہے۔ ہر دم کے کہنے سُننے سے اپنا بھی مزاج بہک گیا۔ شراب ناچ اور جوے کا چرچا شروع ہوا۔ پھر تو یہ نوبت پہنچی کہ سوداگری بھول کر تماش بینی کا اور دینے لینے کا سودا ہوا۔ اپنے نوکر اور رفیقوں نے جب یہ غفلت دیکھی جو جس کے ہاتھ پڑا، الگ کیا گویا لوٹ مچا دی۔ کچھ خبر نہ تھی کتنا رپیہ خرچ ہوتا ہے، کہاں سے آتا اور کیدھر جاتا ہے؟ مالِ مفت دلِ بے رحم۔ اس در خرچی کے آگے اگر گنج قارون کا ہوتا تو بھی وفا نہ کرتا۔ کئی برس کے عرصے میں ایک بارگی یہ حالت ہوئی کہ فقط ٹوپی اور لنگوٹی باقی رہی۔ دوست آشنا جو دانت کاٹی روٹی کھاتے تھے اور چمچا بھر خون اپنا ہر بات میں زبان سے نثار کرتے تھے، کافور ہو گئے۔ بلکہ راہ باٹ میں اگر کہیں بھینٹ ملاقات ہو جاتی تو آنکھیں چُرا کر منھ پھیر لیتے، اور نوکر چاکر خدمت گار بہلیے ڈھلیت خاص بردار ثابت خانی سب چھوڑ کر کنارے لگے۔ کوئی بات کا پوچھنے والا نہ رہا جو کہے یہ کیا تمھارا حال ہوا، سوائے غم اور افسوس کے کوئی رفیق نہ ٹھہرا۔

اب دمڑی کی ٹھڈیاں میسر نہیں جو چبا کر پانی پیوں۔ دو تین فاقے کڑا کے کھینچے، تاب بھوک کی نہ لا سکا۔ لاچار بے حیائی کا برقعہ منھ پر ڈال کر قصد کیا۔ کہ بہن کے پاس چلیے۔ لیکن یہ شرم دل میں آتی تھی کہ قبلہ گاہ کی وفات کے بعد نہ بہن سے کچھ سلوک کیا، نہ خالی خط لکھا، بلکہ اس نے خط خطوط ماتم پُرسی اور اشتیاق کے جو لکھے، ان کا بھی جواب اِس خوابِ خرگوش میں نہ بھیجا۔ اِس شرمندگی سے جی تو نہ چاہتا تھا، پر سوائے اُس گھر کے اور کوئی ٹھکانا نظر میں نہ ٹھہرا۔ جوں توں پا پیادہ خالی ہاتھ گرتا پڑتا ہزار محنت سے وہ کئی منزلیں کاٹ کر ہمشیر کے شہر میں جا کر اُس کے مکان پر پہنچا۔ وہ ماجائی میرا یہ حال دیکھ کر بلائیں لی اور گلے مِل کر بہت روئی۔ تیل ماش اور کالے ٹکے مجھ پر سے صدقے کیے۔ کہنے لگی "اگرچہ ملاقات سے دل بہت خوش ہوا، لیکن بھیا، تیری یہ کیا صورت بنی؟" اُس کا جواب میں کچھ نہ دے سکا۔ آنکھوں میں آنسو، ڈبڈبا کر چُپکا ہو رہا۔ بہن نے جلدی سے پوشاک سِلوا کر حمام میں بھیجا۔ نہا دھو کر وو کپڑے پہنے۔ ایک مکان اپنے پاس سے بہت اچھا تلکف کا میرے رہنے کو مقرر کیا۔ صبح کو شربت اور لوزیات حلوا سوہن پستہ مغزی ناشتے کو، اور تیسرے پہر میوے خشک و تر پھل پھلاری، اور رات دن دونوں وقت پلاؤ نان قلیے کباب تحفہ تحفہ مزے دار منگوا کر اپنے روبرو کھلا کر جاتی۔ سب طرح خاطرداری کرتی۔ میں نے ویسی تصدیع کے بعد جو یہ آرام پایا۔ خدا کی درگاہ میں ہزار ہزار شکر بجا لایا۔ کئی مہینے اس فراغت سے گُزرے کہ پانو اس خلوت سے باہر نہ رکھا۔

ایک دن وہ بہن جو بجائے والدہ کے میری خاطر رکھتی تھی، کہنے لگی، اے بیرن! تو میری آنکھوں کی پُتلی اور ماں باپ کی موئی مٹی کی نشانی ہے۔ تیرے آنے سے میرا کلیجا ٹھنڈھا ہوا۔ جب تجھے دیکھتی ہوں، باغ باغ ہوتی ہوں۔ تو نے مجھے نہال کیا، لیکن مردوں کو خدا نے کمانے کے لیے بنایا ہے گھر میں بیٹھے رہنا اُن کو لازم نہیں۔ جو مرد نکھٹو ہو کر گھر سیتا ہے، اُس کو دُنیا کے لوگ طھنہ مِہنا دیتے ہیں، خصوصا اس شہر کے آدمی چھوٹے بڑے بے سبب تمھارے رہنے پر کہیں گے، اپنے باپ کی دولتِ دُنیا کھو کھا کر بہنوئی کے ٹکڑوں پر آ پڑا۔ یہ نہایت بے غیرتی اور میری تمہاری ہنسائی اور ماں باپ کے نام کو سبب لاج لگنے کا ہے۔ نہیں تو میں اپنے ۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
باغ و بہار - صفحہ 99، 100 اور 101

باغ و بہار صفحہ 99 تا 101

بلکہ حرف زندگی پر ہے۔ میں نے ان باتوں پر نہ مانا۔ تب خواہ مخواہ منتیں کر کرے میرے تئیں اور ایک حویلی میں، کہ پہلے مکان سے بہتر تھی، لے گیا۔ اسی پہر شربت اور تفنن کی خاطر میوے کھلائے اور باسن نقرئی و طلائی فرش فروش اور اسباب جو کچھ وہاں تھا مجھے سے کہنے لگا کہ ان سب کے تم مالک مختار ہو۔ جو چاہو سو کرو۔ میں یہ باتیں سن کر حیران ہوا اور چاہا کہ کسی نہ کسی طرح یہاں سے رخصت ہو کر بھاگوں۔ میرے بشرے کو دیکھ کر وہ محلی بولا اے خدا کے بندے، جو تیرا مطلب یا آرزو ہو، سو مجھ سے کہہ، تو حضور میں ملکہ کے جا کر عرض کروں۔ میں نے کہا۔ میں فقیری کے لباس میں دینا کا مال کیا مانگوں کہ تم بغیر مانے دیتے ہو اور میں انکار کرتا ہوں۔ تب وہ کہنے لگا کہ حرص دنیا کی کسی کے جی سے نہیں گئی۔ چنانچہ کسو کب نے کبت کہا ہے :

نکھ بن کٹا دیکھے، سمیں بھاری جٹا دیکھے
جوگی کن پتھا دیکھے، چھار لائے تن میں
موتی انمول دیکھے، سیوڑا سر چھول دیکھے
کرت کلول دیکھے، بن کھنڈی بن میں
بیر دیکھے، سور دیکھے، سب گئی اور کوڑ دیکھے
مایا کہ پور دیکھے، پھول رہے، دھن میں
اوی انت سکھی دیکھے، جنم ہی کے دکھی دیکھے
پردے نہ دیکھے، جن کے لوبھ ناہیں من من​

میں نے یہ سن کر جواب دیا کہ یہ سچ ہے، پر میں کچھ نہیں چاہتا۔ اگر فرماؤ تو ایک رقعہ سر بہ مہر اپنے مطلب کا لکھ کر دوں جو حضور ملکہ کے پہنچا دو، تو بڑی مہربانی ہے، گویا تمام دنیا کا مال مجھ کو دیا۔ بولا بسر و چشم کیا مضائقہ میں نے ایک رقعہ لکھا پہلے شکر خدا کیا پھر احوال کہ یہ بندہ خدا کا کئی روز سے اس شہر میں وارد ہے اور سرکار سے سب طرح کی خبر گیری ہوتی ہے۔ جیسی خوبیاں اور نیک نامیاں ملکہ کی سن کر اشتیاق دیکھنے کا ہوا تھا، اس سے چار چند پایا۔ اب حضور کے ارکان دولت یوں کہتے ہیں کہ جو مطلب اور تمنا تیری ہو، سو ظاہر کر۔ اس واسطے بے حجابانہ جو جو دل کی آرزو ہے، سو عرض کرتا ہو کہ دنیا کے مال کا محتاج نہیں۔ اپنے ملک کا میں بھی بادشاہ ہوں۔ فقط یہاں آنا اور محنت اٹھانا آپ کے اشتیاق کے سبب سے ہوا جو تن تنہا اس صورت سے آ پہنچا۔ اب امید ہے کہ حضور کی توجہ سے خاک نشین مطلب دلی کو پہنچے لائق ہے۔ آگے جو مرضی مبارک۔ لیکن اگر یہ التماس خاکسار کا قبول نہ ہو گا، تو اسی طرح خاک چھنتا پھرے گا اور اس جان بے قرار کو آپ کے عشق میں نثار کرتے گا۔ مجنوں اور فرہاد کی مانند جنگل میں یا پہاڑ پر مر رہے گا۔

یہی مدعا لکھ کر اس خوجے کو دیا۔ اس نے بادشاہ زادی تلک پہنچایا۔ بعد ایک دم کے پھر آیا اور میرے تئیں اور اپنے ساتھ محل کی ڈیوڑھی پر لے گیا۔ وہاں جا کر دیکھا تو ایک بوڑھی سی عورت صاحب لیاقت سنہری کرسی پر گہنا پاتا پہنے ہوئے بیٹھی ہے۔ اور کئی خوجے خدمت گار تکلف کے لباس پہنے ہوئے ہاتھ باندھے سامنے کھڑے ہیں۔ میں اسے مختار کا جان کر اور دیرینہ سمجھ ۔۔۔۔۔۔
 

ماوراء

محفلین
باغ و بہار
یعنے
(قصہ چہار درویش)
مولفہ
میر امن دہلوی
مع
مقدمہ و فرہنگ


بسم اللہ الرحمن الرحیم


سبحان اللہ کیا صانع ہے! کہ جس نے ایک مٹھی خاک سے کیا کیا صورتیں اور مٹّی کی مورتیں پیدا کیں! باوجود دو رنگ کے ایک گورا ایک کالا اور یہی ناک کان ہاتھ پاؤ سب دیے ہیں۔ اس پر رند بہ رنگ کی شکلیں جدی جدی بنائیں کہ ایک کی سج دھج سے دوسے کا ڈیل ڈول ملتا نہیں، کڑوڑوں خلقت میں جس کو چاہیے پہچان لیجئے۔ آسمان اس کے دریاے وحدت کا ایک بلبلا ہے، اور زمین پانی کا بتاشا، لیکن یہ تماشا ہی کہ سمندر ہزاروں لہریں مارتا ہے، پر اس کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ جس کی یہ قدرت اور سکت ہو اس کی حمد و ثنا میں زبان انسان کی گویا گونگی ہے۔ کہے! بہتر یوں ہی کہ جس بات میں دم نہ مار سکے، چپکا ہو رہے،
عرش سے لے کر فرش تک جس کا کہ یہ سامان ہے
حمد اس کی گر لکھنا چاہوں، تو کیا امکان ہے!
جب پیمبر نے کہا ہو، “میں نے پہچانا نہیں“
پھر کوئی دعوا کرے اس کا، بڑا نادان ہے
رات دن یہ مہرو مہ پھرتے ہیں صنعت دیکھتے
پر ہر ایک واحد کی صورت دیسہ حیران ہے
جس کا ثانی اور مقابل ہے نہ ہووے گا کبھو
ایسا یکتا کو خدائی سب طرح شایان ہے
عرضی میر امن دٍلی والے کی
مدرسے کے مختار کار صاحبوں کے حضور میں دی گئی
صاحبانٍ والا شان نجیبوں کے قدر دانوں‌کو خدا سلامت رکھے۔اس بے وطن نے حکم اشتہار کا سن کر چاردرویش کے قصے کو ہزار جدوکد سے اردوئے معلاء‌کی زبان میں باغ و بہار بنایا۔ فضلٍ الٰہی سے سب صاحبوں کے سیر کرنے سے باغ سرسبز ہوا۔اب امید وار ہوں کہ اس کا پھل مجھے بھی ملے، تو میرا غنچہء‌دل مانند گل کھلے۔ بقول حکیم فردوسی کے کہ شاہ نامے میں‌کہا ہے
بے رنج بُروم دریں سال سی عجم زندہ کردم بہ ایں‌پارسی
سو اردو کی آراستہ کر زباں کیا میں‌نے بنگالا ہندوستاں
خاوند آپ قدر دان ہیں، حاجت عرض‌کرنے کی نہیں۔ الٰہی تارا اقبال کا چمکتا رہے۔
لیکن اتنا جانتا ہوں خالق و رزاق ہے وہ
ہر طرح سے مجھ پر اس کا لطف اور احسان ہے
اور درود اس کے دوست پر جس کی خاطر زمین اور آسمان کو پیدا کیا اور درجہ رسالت کا دیا
جسمٍ پاک مصطفٰے اللہ کا ایک نور ہے اس لئے پرچھائیں اس قد کی نہ تھی مشہور ہے
حوصلہ میرا کہاں اتنا جو نعت اس کی کہوں پر سخن گویوں کا یہ بھی قاعدہ دستور ہے
اور اس کی آل پر صلواۃ و سلام جو ہیں بارہ امام۔
حمدٍ حق اور نعتٍ احمد کو یہاں کر انصرام
اب میں آغاز اس کو کرتا ہوں جو ہے منظور کام
یا الٰہی واسطے اپنے نبی ص کی آل کے
کر یہ میری گفتگو مقبول طبع خاص و عام
منشا اس تالیف کا یہ ہے کہ سن ایک ہزار دو سو سات سن فصلی کے عہد میں اشرف الاشراف مارکوئس ولزلی گورنر جنرل لارڈ مارننگٹن صاحب(جن کی تعریف میں عقل حیران اور فہم گردان ہے۔ جتنے وصف سرداروں کو چاہیے ان کی ذات میں خدا نے جمع کئے ہیں۔ غرض قسمت کی خوبی اس ملک کی تھی جو ایسا حاکم تشریف لایا جس کے قدم کے فیض سے ایک عالم نے آرام پایا۔ مجال نہیں کہ کوئی کسو پر زبردستی کر سکے، شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں، سارے غریب غرباء دعا دیتے ہیں اور جیتے ہیں) چرچا علم کا پھیلا۔صاحبانٍ ذی شان کو شوق ہوا کہ اردو کی زبان سے واقف ہو کر ہندوستانیوں سے گفت و شنود کریں اور ملکی کام کو بہ آگاہی تمام انجام دیں۔ اس واسطے کتنی کتابیں اسی سال بموجب فرمایش کے تالیف ہوئیں۔
جو صاحبٍ دانا اور ہندوستان کی بولی بولنے والے ہیں۔ ان کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں،کہ یہ قصہ چہار درویش کا ابتداء میں امیر خسرو دہلوی نے اس تقریب سے کہا کہ حضرت نظام الدین اولیا زری زر بخش جو ان کے پیر تھے، اور درگاہ ان کی دلی میں قلعے سے تین کوس لال دروازے سے آگے لال بنگلے کے پاس ہے، ان کی طبیعیت ماندی ہوئی۔ تب مرشد کا دل بہلانے کے واسطے امیر خسرو یہ قصہ ہمیشہ کہتے اور بیمار داری میں حاضر رہتے۔ اللہ نے چند روز میں شفا دی۔ تب انہوں نے غسلٍ صحت کے دن یہ دعا دی کہ جو کوئی اس قصے کو سنے گا، خدا کے فضل سے تندرست رہے گا، جب سے یہ قصہ فارسی میں مروج ہوا۔
اب خداوندٍ نعمت صاحبٍ مروت نجیبوں کے قدر دان جان گلکرسٹ صاحب نے(کہ ہمیشہ اقبال ان کا زیادہ رہے جب تلک گنگا جمنا بہے) لطف سے فرمایا کہ اس قصے کو ٹھینٹھ ہندوستانی گفتگو میں‌جو اردو کے لوگ ہندو، مسلمان، عورت، مرد، لڑکے بالے، خاص و عام آپس میں‌بولتے چالتے ہین، ترجمہ کرو۔ موافق حکم حضور کے میں‌نے بھی اسی محاورے سے لکھنا شروع کیا جیسے کوئی باتیں‌کرتا ہے۔
پہلے اپنا احوال یہ عاصی گنہ گار میر امن دلی والا بیان کرتا ہے کہ میرے بزرگ ہمایوں پادشاہ کے عہد سے ہر ایک پادشاہ کی رکاب میں پشت بہ پشت جان فشانی بجالاتے رہے اور وہ بھی پرورش کی نظر سے قدر دانی جتنی چاہئے فرماتے رہے۔ جاگیر و منصب اور خدمات کی عنایات سے مالامال اور نہال کر دیا، اور خانہ زادٍ موروثی اور منصب دارٍ قدیمی زبانٍ مبارک سے فرمایا، چناں چہ یہ لقب پادشاہی دفتر میں داخل ہوا۔ جب ایسے گھر کی (کہس ارے گھر اس گھر کے سبب آباد تھے) یہ نوبت پہنچی کہ ظاہر ہے (عیاں را چہ بیاں؟) تب سورج مل جاٹ نے جاگیر کو ضبط کر لیا۔ اور احمد شاہ درانی نے گھر بار تاراج کیا۔ ایسی ایسی تباہی کھاکر ویسے شہر سے (کہ وطن اور جنم بھومی میرا ہے اور آنول نال وہیں گڑا ہے) جلا وطن ہوا، اور ایسا جہاز (کہ جس کا ناخدا پادشاہ تھا)غارت ہوا، میں‌بے کسی کے سمندر میں غوطے کھانے لگا، ڈوبتے کو تنکے کا آسرا بہت ہے، کتنے برس بلدہ عظیم آباد میں دم لیا، کچھ بنی کچھ بگڑی۔ آخر وہاں سے بھی پانو اکھڑے، روزگار نے موافقت نہ کی، عیال و اطفال کو چھوڑ کر تنٍ تنہا کشتی پر سوار ہوا، اشرف البلاد کلکتے میں آب دوانے کے زور سے پہنچا۔ چندے بے کاری گزری، اتفاقاً نواب دلاور جنگ نے بُلوا کر اپنے چھوٹے بھائی میر محمد کاظم خاں کی اتالیقی کے واسطے مقرر کیا۔ قریب دو سال کے وہاں رہنا ہوا، لیکن نباہ اپنا نہ دیکھا۔ تب منشی میر بہادر علی جی کے وسیلے سے حضور تک جان گلکرسٹ صاحب بہادر(دام اقبالہ) کے رسائی ہوئی۔ بارے طالع کی مدد سے ایسے جواں‌مرد کا دامن ہاتھ لگا ہے چاہیے کہ دن کچھ بھلے آویں، نہیں تو یہ بھی غنیمت ہے کہ ایک ٹکڑا کھا کر پانو پھیلا کر سو رہتا ہوں، اور گھر میں دس آدمی چھوٹے بڑے پرورش پا کر دعا اس قدر دان کو کرتےہیں، خدا قبول کرے۔
حقیقت اردو کی زبان کی بزرگوں کے منھ سے یوں سنی ہے کہ دلی شہر ہندووں‌کے نزدیک چوجُگی ہے، انھی کے راجا پرجا قدیم سے وہاں رہتے تھے اور اپنی بھاکھا بولتے تھے۔ ہزار برس سے مسلمانوں کا عمل ہوا، سلطان محمود غزنوی آیا، پھر غوری اور لودی بادشاہ ہوے۔اس آمدو رفت کے باعث کچھ زبانوں نے ہندو مسلمان کی آمیزش پائی۔ آخر امیر تیمور نے (جن کے گھرانے میں اب تلک نام نہاد سلطنت کا چلا جاتا ہے)ہندوستان کو لیا۔ ان کے آنے اور رہنے سے لشکرکا بازار شہر میں داخل ہوا، اس واسطے شہر کا بازار اردو کہلایا۔ پھر ہمایوں بادشاہ پٹھانوں کے ہاتھ سے حیران ہو کر ولایت گئے، آخر وہاں سے آن کر پسماندوں کو گوش مالی دی۔ کوئی مفسد باقی نہ رہا کہ فتنہ و فساد برپا کرے۔
جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے تب چاروں طرف کے ملکوں سے قوم قدردانی اور فیض رسانی اس خاندانِ لاثانی کی سن کر حضور میں آ کر جمع ہوئے۔ لیکن ہر ایک کی گویائی اور بولی جدا جدا تھی۔اکھٹے ہونے سے آپس میں لین دین سودا سلف سوال جواب کرتے ایک زبان اردو کی مقرر ہوئی۔ جب حضرت شاہ جہاں صاحب قرآن نے قلعہ مبارک اور جامع مسجد اور شہر پناہ کروایا اور تختِ طاؤس میں جواہر جڑوایا اور دل بادل سا خیمہ چوبوں پر استاد کرطنابوں سے کچھوایا اور نواب علی مردان خان مہر کو لیکر آیا تب بادشاہ نے خوش ہو کر جشن فرمایا اور شہر کو اپنا دارالخلافہ بنایا تب سے شاہجہان آباد مشہور ہوا۔ اگرچہ دلّی جدا ہے وہ پرانا شہر اور یہ نیا شہرکہلاتا ہے۔ اور وہاں کے شہر کو اردوئے معلّیٰ خطاب دیا۔ امیر تیمور کے عہد سے محمد شاہ کی بادشاہت تک بلکہ احمد شاہ اور عالمگیر ثانی کے وقت تک پیڑھی پہ پیڑھی سلطنت یکساں چلی آئی اور زبان اردو کی منتجے منتجے ایسی منجھی کہ کسی شہر کی بولی اس سے ٹکر نہیں کھاتی لیکن قدردان مصنف جو چاہے تجویز کرے سوا اب خدا نے مدّت کے جان گلگرسٹ صاحب بہادر سا دانا نکتہ رس پیدا کیا کہ جنھوں نے اپنے گیان اور اگت سے اور تلاش و محنت سے قاعدوں کی کتابیں تصنیف کیں۔ اب سبب سے ہندوستان کی زبان کا ملکوں میں رواج ہوا اور نئے سر سے رونق زیادہ ہوئی، نہیں تو اپنی استار و گفتار و رفتار کو کوئی برا نہیں جانتا۔ اگر ایک گنوار سے پوچھیے تو شہر والوں کو نام رکھنا ہے۔ اور پانے تئیں سب سے بہتر سمجھتا ہے۔ خیر، عاقلاں خود مید انند۔ جب احمد شاہ ابدالی کابل سے آیا۔ اور شہر کو لٹوایا، شاہ عالم پورب کی طرف تھے، کوئی وارث اور مالک ملک کا نہ رہا، شہر بے سر ہو گیا۔ سچ ہے بادشاہت کے اقبال سے شہر کی رونق تھی۔ ایک بارگی تباہی پڑی رئیس وہاں کے پریشان ہو کر جہاں جس کے سینگ سمائے وہاں نکل گئے۔ جس ملک میں پہونچے وہاں کے آدمیوں کے ساتھ سنگت سے بات چیت میں فرق آیا اور بہت سے لوگ ہیں کہ دس پانچ برس کسی مزہب سے دلی میں گئے اور رہے، وہ بھی کہاں تک بول سکیں گے کہیں نہ کہیں چوک ہی جاویں گے۔ اور جو شخص اپنے آفتیں سہہ کر دلّی کار ڈرا ہو کر رہا اور دس پانچ پستیں اسی شہر میں گزریں اور اس نے دربار امراء کے اور میلے ٹھیلے چھڑیاں سیروتماشا اور کوچہ گردی اپنے شہر کی مدت تلک کی ہو گی اور وہاں سے نکلنے کے بعد اپنی زبان کو لحاط میں رکھا ہو گا اس کا بولنا البتہ ٹھیک ہے۔ یہ عاجز بہی ہر ایک شہر کی سیر کرتا اور تماشا دیکھتا ہوا یہاں تلک پہونچا ہے۔


آغاز قصے کا


اب آغاز قصے کا کرتا ہوں، ذرا کان دھر کر سنو اور مصنفی کرو۔ سیر میں چہار درویش کے یوں لکھا ہے اور کہنے والے نے کہا ہے کہ آگے روم کے ملک میں ایک شہنشاہ تھا۔ کہ نوشیرواں کی سی عدالت اور حاتم کی سی سخاوت اس کی ذات میں تھی۔ نام اسکا آزاد بخت اور شہر قسطنطنیہ(جس کو استنبول کہتے ہیں) اس کا پایہء تخت تھا۔ اس کے وقت میں رعیت آباد، خزانہ معمور، لشکر مرفّہ، غریب غربا آسودہ، ایسے چین سے گذران کرتے اور خوشی سے رہتے کہ ہر ایک کے گھر میں دن عید، اور رات شبِ برات تھی۔ اور جتنے چور چکار، جیب کترے، صبح خیزے اٹھائی گیرے دغاباز تھے، سب کو نیست و بابود کر کر نام و نشان ان کا اپنے ملک بھر میں نہ رکھا تھا۔ ساری رات دروازے گھروں کے بندے نہ ہوتے اور دکانیں بازار کی کھلی رہتیں۔ راہی مشافر جنگل میدان میں سونا اچھالتے چلے جاتے کوئی نہ پوچھتا کہ تمھارے منہ میں دانت ہیں، اور کہاں جاتے ہو؟
اس بادشاہ کے عمل میں ہزاروں شہر تھے، اور کئی سلطان نعلبندی دیتے، ایسی بڑی سلطنت پر ایک ساعت اپنے دل کو خدا کی یاد اور بندگی سے غافل نہ کرتا۔ آرام دنیا کا جو چاہے سب موجود تھا، لیکن فرزند کی طرف سے محروم تھا۔ کہ جو زندگانی کا پھل ہے اس کی قسمت کے باغ میں نہ تھا۔ اس خاطر اکثر فکر مند رہتا۔ پانچوں وقت کی نماز کے بعد اپنے کرم سے کہتا کہ اے اللہ مجھ عاجز کو تو نے اپنی عنایت سے سب کچھ دیا لیکن ایک اس اندھیرے گھر کو دیا نہ دیا۔ یہی ارمان جی میں باقی ہے ایک بیٹا جیتا جاگتا مجھے دے تو تو میرا نام اور اس سلطنت کا نشان باقی رہے۔ اسی امید میں بادشاہ کی عمر چالیس برس کی ہو گئی۔ ایک دن شیش محل میں نماز ادا کر وظیفہ پڑھ رہے تھے کہ ایک بارگی آئینہ کی طرف جو خیال کرتے ہیں تو ایک سفید بال موچھوں میں نظر آیا کہ مانند تارمقیش کے چمک رہا ہے۔ بادشاہ یہ دیکھ کر آبدیدہ ہوئے اور تھنڈی سانس بھری پھر دل میں سوچا کیا کہ افسوس تو نے اتنی عمر ناحق برباد کی اور اس دنیا کی حرص میں ایک عالم کو زیر و زبر کیا اور ملک جو لیا اب تیرے کس کام آئے گا۔ آخر یہ سارا مال و سباب کوئی دوسرا اور آئے گا تجھے تو پیغام موت کا آ چکا۔ اگر کوئی دن جئے بھی تو بدن کی طاقت کم ہو گی۔
اس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ میری تقدیر میں نہیں لکھا کہ وارث چیز اور تضت کا پیدا ہو مجھے ایک روز مرنا ہے اور سب کچھ چھوڑ جانا ہے اس سے یہ بہتر ہے کہ میں ہی اسے چھوڑ دوں اور باقی زندگانی اپنے خالق کی یاد میں کاٹوں۔ یہ بات اپنے دل میں ٹھہرا کر پائیں باغ میں جا کر سب مجرائیوں کو جواب دے کر فرمایا کہ کوئی آج سے میرے پاس نہ آوے۔ سب دیوان عام میں آیا جایا کریں اور اپنے کام میں مستعد رہیں یہ کہہ کر آپ ایک مکان میں جا بیٹھے۔ اور مصلاّ بچھا کر عبادت میں مشغول ہوئے سوائے رونے اور آہ بھرنے کے کچھ کار نہ تھا۔ اسی طرح بادشاہ آزاد بخت کو کئی دن گزرے شام کو روزہ کھولنے کے وقت ایک چھوہارا اور تین گھونٹ پانی پیتے اور تمام دن رات جانماز پر پڑے رہتے۔ اس بات کا باہر چرچا پھیلا رفتہ رفتہ تمام ملک میں خبر ہو گئی کہ بادشاہ نے بادشاہت سے ہاتھ کھینچ کر گوشہ نشینی اختیار کی۔ چاروں طرف سے غنیموں اور مفسدوں نے سر اٹھایا اور قدم اپنی حد سے بڑھایا جس نے چاہا ملک دبا لیا اور سر انجام سر کشی کا کیا ہوا جہاں کہیں حاکم تھے ان کے حکم میں خلل عظیم واقع ہوا۔ ہر ایک صوبے سے غرضی بد عملی کی حضور میں پہنچی۔ درباری امراء جتنے تھے جمع ہوئے اور اصلاح مصلحت کرنے لگے۔ آخر یہ تجویز ٹیرائی کہ نواب وزیر عاقل اور دانا اور بادشاہ کا مقراب اور معتمد ہے اور درجے میں بھی سب سے بڑا ہے اس کی خدمت میں چلیں اور دیکھیں کہ وہ کیا مناسب جان کر کرتا ہے۔ سب ہی امیر وزیر کے پاس آئے اور کہا بادشاہ کی یہ صورت اور ملک کی وہ حقیقت اگر چندے تغافل ہو تو اس محنت کا ملک لیا ہو مفت میں جاتا رہے گا، پھر ہاتھ آنا مشکل ہے۔ وزیر پرانا قدیم نمک حلال اور عقل مند نام بھی خرد مند اسم با مسمّٰی تھا کہا اگر چہ بادشاہ نے حضور میں آنے کو منع کیا ہے۔ لیکن تم چلو میں چلتا ہوں۔ بادشاہ کے خیال میں آوے جو روبرو بلائے۔ یہ کہہ کر سب کو اپنے ساتھ دیوان عام تک لاان کو وہاں چھوڑ کر آپ دیوان خاص میں آیا اور بادشاہ کی خدمت میں محلی کے ہاتھ کہلا بھیجا کہ یہ پیر غلام حاضر ہے۔ کئی دنوں سے جمال جہاں آرا نہیں دیکھا امید وار ہوں کہ ایک نظر دیکھ کر قدم بوسی حاصل کروں تو خاطر جمع ہو۔ یہ عرض وزیر کی بادشاہ نے سنی۔ از بسکہ قدامت اور خیر خواہی اور تدبیر اور جان نثاری اس کی جانتے تھے اور اکثر اسکی بات مانتے تھے۔ بعد تائل کے فرمایا خرد مند کو بلا لو بارے جب پروانگی ہوئی وزیر حضور میں آیا آداب بجا لایا۔ اور دست بستہ کھڑا رہا۔
دیکھا تو بادشاہ کی عجیب صورت بن رہی ہے کہ زار زار رو رہے ہیں اور دبلاپے سے آنکھوں میں حلقے پڑ گئے ہیں اور چہرہ زرد ہو گیا ہے۔
خرد مند کو تاب نہ رہی، بے اختیار دوڑ قدموں پر جا گرا۔ بادشاہ نے ہاتھ سے سر اس کا اٹھایا اور فرمایا لو، مجھے دیکھا، خاطر جمع ہوئی؟ اب جاؤ، زیادہ مجھے نہ ستاؤ، تم سلطنت کرو۔ خرد مند سن کر، ڈاڑھ مار کر رویا اور عرض کی غلام کو آپ کے تصدق اور سلامتی سے ہمیشہ بادشاہت میسر ہے۔ لیکن جہاں پناہ کی یک بیک اس طرح کی گوشہ گیری سے تمام ملک میں تہلکہ پڑ گیا ہے اور انجام اس کا اچھا نہیں۔ یہ کیا خیال مزاج مبارک میں آیا؟ اگر اس خانہ زاد موروثی کو بھی محرم اس راز کا کیجیے تو بہتر ہے۔ جو کچھ عقلِ ناقص میں آوے، التماس کرے۔ غلاموں کو جو یہ سرفرزایاں بخشی ہیں، اسی دن کے واسطے کہ بادشاہ عیش و آرام کریں، اور نمک پرور دے تدبیر میں ملک کی رہیں۔ خدانخواستہ جب فکر مزاج عالی کے لاحق ہوئی تو بند ہائے بادشاہی کس دن کام آویں گے؟
بادشاہ نے کہا سچ کہتا ہے، پر جو فکر میرے جی کے اندر ہے، سو تدبیر سے باہر ہے۔ سن اے خردمند میری ساری عمر اسی ملک گیری کے دردِ سر میں کٹی، اب یہ سِن و سال ہوا، آگے موت باقی ہے، سو اس کا بھی پیغام آیا کہ سیاہ بال سفید ہو چلے۔ وہ مثل ہے، ساری رات سوئے، اب صبح کو بھی نہ جاگیں؟ اب لک ایک بیٹا پیدا نہ ہوا جو میری خاطر جمع ہوتی، اس لیے دل سخت اداس ہوا اور میں سب کچھ چھوڑ بیٹھا، جس کا جی چاہے، ملک لے یا مال لے، مجھے کچھ کام نہیں، بلکہ کوئی دم میں یہ ارادہ رکھتا ہوں کہ سب چھوڑ کر، جنگل اور پہاڑوں میں نکل جاؤں اور منھ اپنا کسو کو نہ دکھاؤں، اسی طرح یہ چند روز کی زندگی بسر کروں۔ اگر کوئی مکان خوش آیا تو وہاں بیٹھ کر بندگی اپنے معبود کی بجا لاؤں گا۔ شاید عاقبت بخیر ہو اور دنیا کو تو خوب دیکھا، کچھ مزہ نہ پایا۔ اتنی بات بول کر، اور ایک آہ بھر کر، بادشاہ چپ ہوئے۔
خرد مند ان کے باپ کا وزیر تھا، جب یہ شہزادے تھے، تب سے محبت رکھتا تھا، علاوہ دانا اور نیک اندیش تھا، کہنے لگا خدا کی جناب سے ناامید ہوبا ہر گز مناسب نہیں۔ جس نے ہیژدہ ہزار عالم کو ایک حکم میں پیدا کیا، تمھیں اولاد دینی اس کے نزدیک کیا بڑی بات ہے؟قبلہ عالم اس تصورِ باطل کو دل سے دور کرو، نہیں تو تمام عالم درہم برہم ہو جائے گا۔ اور یہ سلطنت کس کس محنت اور مشقت سے تمھارے بزرگوں نے اور تم نے پیدا کی ہے؟ ایک ذرا میں ہاتھ سے نکل جائے گی اور بے خبری سے ملک ویران ہو جائے گا۔ خدانخواستہ بدنامی حاصل ہو گی۔ اس پر بھی بازپرس روزِ قیامت کی ہوا چاہے کہ تجھے بادشاہ بنا کر، اپنے بندوں کو تیرے حوالے کیا تھا، تو ہماری رحمت سے مایوس ہوا اور رعیت کو حیران پریشان کیا۔ اس سوال کا کیا جواب دو گے؟ پس عبادت بھی اس روز کام نہ آئے گی۔
اس واسطے کہ آدمی کا دل خدا کا گھر ہے۔ اور بادشاہ فقط عدل کے واسطے پوچھے جائیں گے۔ غلام کی بے ادبی معاف ہو، گھر سے نکل جانا اور جنگل جنگل پھرنا، کام جوگیوں اور فقیروں کا ہے۔نہ کہ بادشاہوں کا۔ تم اپنی جوگا کام کرو، خدا کی یاد اور بندگی جنگل پہاڑ پر موقوف نہیں۔ آپ نے یہ بیت سنی ہو گی۔

خدا اس پاس، یہ ڈھونڈے جنگل میں
ڈھنڈھورا شہر میں، لڑکا بغل میں​

اگر منصفی فرمائیے، اور اس فدوی کی عرض قبول کیجئے تو بہتر یوں ہے کہ جہاں پناہ ہر دم اور ہر ساعت دھیان اپنا خدا کی طرف لگا کر، دعا مانگا کریں۔ اس کی درگاہ سے کوئی محروم نہیں رہا۔ دن کو بندوبست ملک کا اور انصاف، عدالت غریب غربا کی فرمائیں، تو بندے خدا کے دامنِ دولت کے سایے میں امن و امان خوش رہیں، اور رات کو عبادت کیجئے اور درودپیغمبر کی روحِ پاک کو نیاز کر کر درویش گوشہ نشین متوکلوں سے مدد لیجئے، اور روز راتب یتیم اسیر عیال داروں محتاجوں اور رانڈ بیواؤں کو کر دیجئے۔ ایسے اچھے کاموں اور نیک نیتوں کی برکت ہے، خدا چاہے تو امید قوی ہے۔ کہ تمھارے دل کے مقصد اور مطلب سب پورے ہوں۔ اور جس واسطے مزاجِ عالی مکدر ہو رہا ہے۔ وہ آرزو بر آوے، اور خوشی خاطر شریف کو ہو جاوے۔ پروردگار کی عنایت پر نظر رکھیے۔ کہ وہ ایک دم میں جو چاہتا ہے سو کرتا ہے۔ بارے خرد مند وزیر کے ایسی ایسی عرض معروض کرنے سے آزاد بخت کے دل کو ڈھارس بندھی۔ فرمایا، اچھا تو جو کہتا ہے بھلا یہ بھی کر دیکھیں، آگے جو اللہ کی مرضی ہو گی، سو ہو گا۔
جب بادشاہ کے دل کو تسلّی ہوئی، تب وزیر سے پوچھا کہ اور سب امیر و کبیر کیا کرتے ہیں اور کس طرح ہیں؟ اس نے عرض کہ کہ سب ارکانِ دولت قبلہ عالم کے جان و مال کو دعا کرتے ہیں۔ آپ کی فکر سے سب حیران و پریشان ہو رہے ہیں۔ جمال مبارک اپنا دکھائیے تو سب کی خاطر جمع ہووے، چناں چہ اس وقت دیوانِ عام میں حاضر ہیں۔ یہ سن کر بادشاہ نے حکم کیا، انشاءاللہ اللہ تعالٰے کل دربار کروں گا، سب کو کہ دو حاضر رہیں۔ خرد مند یہ وعدہ سن کر خوش ہوا اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا دی کہ جب تلک یہ زمین و آسمان برپا ہیں تمھارا تاج و تخت قائم رہے۔ اور حضور سے رخصت ہو کر خوشی خوشی باہر نکلا، اور یہ خوش خبری امراؤں سے کہی۔ سب امیر ہنسی خوشی گھر کو گئے۔ سارے شہر میں آنند ہو گئی۔ رعیّت پر جامگن ہوئی کہ کل بادشاہ دربارِ عام کرے گا۔ صبح کو سب خانہ زاد اعلٰی ادنٰی، اور ارکانِ دولت چھوٹے بڑے، اپنے اپنے پائے اور مرتبے پر آ کر کھڑے ہوئے، اور منتظر جلوہ بادشاہی کے تھے۔

جب پہر دن چڑھا ایک بارگی پردہ اٹھا اور بادشاہ نے برآمد ہو کر تختِ مبارک پر جلوس فرمایا۔ نوبت خانے میں شادیانے بجنے لگے۔ سبھوں نے نذریں مبارک بادی کی گزرانیں۔ اور مجرے گاہ میں تسلیمات و کورنشات بجا لائے۔ موافق قدرومنزلت کے ہر ایک کو سرفرازی ہوئی۔ سب کے دل کو خوشی اور چین ہوا۔ جب دوپہر ہوئی، برخاست ہو کر اندرونِ محل داخل ہوئے، خاصہ نوشِ جان فرما کر خواب گاہ میں آرام کیا۔ اس دن سے بادشاہ نے یہی مقرر کیا کہ ہمیشہ صبح کو دربار کرنا، اور تیسرے پہر کتاب کا شغل یا درود وظیفہ پڑھنا، اور خدا کی درگاہ میں توبہ استغفار کر کر، اپنے مطلب کی دعا مانگنی۔
ایک روز کتاب میں بھی لکھا دیکھا، کہ اگر کسی شخص کو غم یا فکر ایسی لاحق ہو کہ اس کا علاج تدبیر سے نہ ہو سکے تو چاہیے کہ تقدیر کے حوالے کرے اور آپ گورستان کی طرف رجوع کرے، درود طفیل پیغمبر کی روح کے ان کو بخشے، اور اپنے تئیں نیست و نابود سمجھ کر، دل کو اس غفلت دنیوی سے ہوشیار رکھے، اور عبرت سے رو دے، اور خدا کی قدرت کو دیکھے کہ مجھ سے آگے کیسے کیسے صاحب ملک و خزانہ اس زمین پر پیدا ہوئے؟ لیکن آسمان نے سب کو اپنی گردش میں لا کر خاک میں ملا دیا۔ یہ کہاوت ہے

چلتی چکی دیکھ کر، دیا کبیرا رو
دو پاٹن کے بیچ آ، ثابت گیا نہ کو​

اب جو دیکھیے سوائے ایک مٹی کے ڈھیر کے ان کا کچھ نشان باقی نہیں رہا اور سب دولتِ دنیا گھر بار، آل اولاد، آشنا دوست، نوکر چاکر، ہاتھی گھوڑے چھوڑ کر اکیلے پڑے ہیں۔ یہ سب ان کا کچھ کام نہ آیا، بلکہ ان کوئی نام بھی نہیں جانتا کہ یہ کون تھے اور قبر کے اندر کا احوال معلوم نہیں کہ (کیڑے مکوڑے چیونٹے سانپ ان کو کھا گئے یا) ان پر کیا بیتی اور خدا سے کیسی بنی۔ بے باتیں اپنے دل میں سوچ کر ساری دنیا کو پیکھنے کا کھیل جانے، تب اس کے دل کا غنچہ ہمیشہ شگفتہ رہے گا، کسو حالت میں پژمردہ نہ ہو گا۔ یہ نصیحت جب کتاب میں مطالعہ کی، بادشاہ کو خردمند وزیر کا کہنا یاد آیا اور دونوں کو مطابق پایا۔ یہ شوق ہوا کہ اس پر عمل کروں لیکن سوار ہو کر اور بھیٹ بھاڑ لے کر، پادشاہوں کی طرح سے جانا اور پھرنا، مناسب نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ لباس بدل کر رات کو اکیلے مقبروں میں یا کسی مردِ خدا گوشہ نشین کی خدمت میں جایا کروں، اور شب بیدار ہوں، شاید ان مردوں کے وسیلے سے دنیا کی مراد اور عاقبت کی نجات میسر ہو۔
یہ بات دل میں مقرر کر کے ایک روز رات کو موٹے جھوٹے کپڑے پہن کر روپے اشرفی لے کر، چپکے قلعے سے باہر نکلے اور میدان کی راہ کی، جاتے جاتے ایک گورستان میں پہنچے، نہایت صدق دل سے درود پڑھ رہے تھے، اور اس وقت بادِ تند چل رہی تھی، بلکہ آندھی کہا چاہیے۔ ایک بارگی بادشاہ کو دور سے ایک شعلہ سا نظر آیا کہ مانند صبح کے تارے کے روشن ہے۔ دل میں اپنے خیال کیا کہ اس آندھی اور اندھیرے میں یہ روشنی خالی حکمت سے نہیں۔ یا یہ طلسم ہے کہ اگر پھٹکری اور گندھک کو چراغ میں بتی کے آس پاس چھڑک دیجئے، تو کیسی ہی ہوا چلے، چراغ گل نہ ہو گا۔ یا کسو دلی کا چراغ ہے کہ جلتا ہے، جو کچھ ہو سو ہو، چل کر دیکھا چاہیے شاید اس شمع کے نور سے میرے بھی گھر چراغ روشن ہو اور دل کی مراد ملے۔ یہ نیت کر کے اس طرف کو چلے۔ جب نزدیک پہنچے، دیکھا تو چار فقیر بےنواکفنیاں گلے میں ڈالے اور سر زانو پر دھرے، عالم بے ہوشی میں خاموش بیٹھے ہیں اور ان کا یہ عالم ہے جیسے کوئی مسافر اپنے ملک اور قوم سے بچھڑ کر، بے کسی اور مفلسی کے رنج و غم میں گرفتار ہو کر حیران رہ جاتا ہے۔ اسی طرح سے بے چاروں نقشِ دیوار ہو رہے ہیں۔ اور ایک چراغ پتھر پر دھرا ٹمٹما رہا ہے۔ ہر گز ہوا اس کو نہیں لگتی گویا فانوس اس کا آسمان بنا ہے کہ بے خطرے جلتا ہے۔
آزاد بخت کو دیکھتے ہی یقین آیا کہ مقرر تیری آرزو، ان مردانِ خدا کے قدم کی برکت سے برآوے گی، اور تیری امید کا سوکھا درخت ان کی توجہ سے ہرا ہو کر پھلے گا۔ ان کی خدمت میں چل کر اپنا احوال کہہ اور مجلس کا شریک ہو،
شاید تجھ پر رحم کھا کر دعا کریں جو بے نیاز کے یہاں قبول ہو۔ یہ ارادہ کر کے چاہا کہ قدم آگے دھرے۔ وہیں عقل نے سمجھایا کہ اے بے وقوف جلدی نہ کر، ذرا دیکھ لے۔ تجھے کیا معلوم ہے کہ یہ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟ اور کدھر جاتے ہیں؟ کیا جانیں یہ دیو ہیں یا غولِ بیابانی ہیں کہ آدمی کی صورت بن کر باہم مل بیٹھے ہیں۔ بہ ہر صورت جلدی کرنا اور اس کے درمیان جا کر مخل خوب نہیں۔ ابھی ایک گوشے میں چھپ کر حقیقت ان درویشوں کی جاننا چاہیے۔ آخر بادشاہ نے یہی کیا کہ ایک کونے میں اس مکان کے چپکا جا بیٹھا کہ کسی کو اس کے آنے کی آہٹ کی خبر نہ ہوئی، اپنا دھیان ان کی طرف لگایا کہ دیکھئے آپس میں کیا بات چیت کرتے ہیں۔ اتفاقاً ایک فقیر کو چھینک آئی، شکر خدا کا کیا، وہ تینوں قلندر اس کی آواز سے چونک پڑے، چراغ کو اکسایا، ٹھیپ تو روشن تھا، اپنے اپنے بستروں پر حقًے بھر کر پینے لگے۔ ایک ان آزادوں میں سے بولا: اے یارانِ ہمدرد و رفیقانِ جہاں گرد! ہم چار صورتیں آسمان کی گردش سے اور لیل و نہار کے انقلاب سے در بہ بر خاک بہ سر ایک مدت پھریں۔ الحمداللہ کہ طالع کی مدد اور قسمت کی یاوری سے آج اس مقام پر باہم ملاقات ہوئی اور کل کا احوال کچھ معلوم نہیں کہ کیا پیش آوے، ایک گمت رہیں یا جدا جدا ہو جاویں۔ رات بڑی پہاڑ ہوتی ہے، ابھی سے پڑ پڑ رہنا خوب نہیں۔ اس سے یہ بہتر ہے کہ اپنی اپنی سر گزشت جو اس دنیا میں جس پر بیتی ہو (بشرطے کہ جھوٹ اس میں کوڑی بھر نہ ہو) بیان کرے، تو باتوں میں رات کٹ جائے۔ جب تھوڑی شب باقی رہے تب لوٹ پوٹ رہیں گے۔“ سبھوں نے کہا یا ہادی! جو کچھ ارشاد ہوتا ہے۔ ہم نے قبول کیا۔ پہلے آپ ہی اپنا احوال جو دیکھا ہے شروع کیجئے تو ہم مستفید ہوں۔“
 
Top