باغ و بہار

ماوراء

محفلین
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی
کہ جیسے خوش نما لگتا ہے دیکھو چاند بِن گہنے

خبر گیری میں ضیافت کے لگ رہی ہے اور تاکید ہر ایک کھانے کی کر رہی ہے کہ خبردار بامزہ ہو اور آب و نک بو باس درست رہے، اس محنت سے وہ گلاب سا بدن سارا پسینے پسینے ہو رہا ہے۔

میں پاس جا کر تصدق ہوا اور اس شعور و لیاقت کو راہ کر دعائیں دینے لگا۔ یہ خوشامد سُن کر تیوری چڑھا کر بولی، آدمی سے ایسے کام ہوتے ہیں کہ فرشتے کی مجال نہیں، میں نے ایسا کیا کِیا ہے جو تو اتنا حیران ہو رہا ہے؟ بس بہت باتیں بنانیں مجھے خوش نہیں آتیں۔ بھلا کہ تو یہ آدمیت ہے کہ مہمان کو اکیلا بٹھلا کر اِدھر اُدھر پڑے پھرے؟ وہ اپنے جی میں کیا کہتا ہو گا؟ جلد جا مجلس میں بیٹھ کر مہمان کی خاطر داری کر اور اُس کی معشوقہ کو بھی بُلوا کر اُس کے پاس بٹھلا۔ فقیر وونھیں اُس جوان کے پاس گیا اور گرم جوشی کرنے لگا۔ اتنے میں دو غلام صاحب جمال صراحی اور جام جڑاؤ ہاتھ میں لیے روبرو آئے، شراب پلانے لگے۔ اِس میں میں نے اُس جوان سے کہا، میں سب طرح مخلص اور خادم ہوں بہتر یہ ہے کہ وہ صاحبِ جمال کہ جس کی طرف دِل صاحب کا مائل ہے تشریف لاوے تو بڑی بات ہے۔ اگر فرماؤ تو آدمی بُلانے کی خاطر جاوے۔یہ سُنتے ہی خوش ہو کر بولا بہت اچھا، اِس وقت تم نے میرے دل کی بات کہی۔ میں نے ایک خوجے کو بھیجا، جب آدھی رات گئی وہ چڑیل خاصے چوڈول پر سوار ہو کر بلائے ناگہانی سی آ پہنچی۔

فقیر نے لاچار خاطر سے مہمان کی استقبال کر کر نہایت تپاک سے برابر اُس جوان کے لا بٹھایا۔ جوان اُس کے دیکھتے ہی ایسا خوش ہوا جیسے دُنیا کی نعمت ملی۔ وُہ بُھتنی بھی اُس جوان پری زاد کے گلے لپٹ گئی۔ سچ مچ یہ تماشا ہوا جیسے چودھویں رات کے چاند کو گہن لگتا ہے۔ جتنے مجلس میں آدمی تھے، اپنی اپنی اُنگلیاں دانتوں میں دابنے لگے کہ کیا کوئی بَلا اِس جوان پر مسلط ہوئی؟ سب کی نگاہ اُسی طرف تھی، تماشا مجلس کا بھولکر اُس کا تماشا دیکھنے لگے۔ ایک شخص کنارے سے بولا، یارو ! عِشق اور عقل میں ضد ہے، جو کچھ عقل میں نہ آوے یہ کافر عشق کر دِکھاوے، لیلٰی کو مجنوں کی آنکھوں سے دیکھو، سبھوں نے کہا آمنا، یہی بات ہے۔

یہ فقیر بہ موجب حکم کے مہمان داری میں حاضر تھا، ہر چند جوان ہم پیالہ ہم نوالہ ہونے کو مجوز ہوتا تھا، پر میں ہرگز اُس پری کے خوف کے مارے اپنا دل کھانے پینے یا سیر تماشے کی طرف رجوع نہ کرتا تھا۔ اور عُذر مہمان داری کاکر کے اُس کے شامل نہ ہوتا۔ اسی کیفیت سے تین شبانہ روز گُزرے۔ چوتھی رات وہ جوان نہایت جوشش سے مجھے بُلا کر کہنے لگا، اب ہم بھی رُخصت ہوں گے، تمہاری خاطر اپنا سب کاروبار چھوڑ چھاڑ تین دن سے تمہاری خدمت میں حاضر ہیں۔ تم بھی تو ہمارے پاس ایک دم بیٹھ کر ہمارا دل خوش کرو۔ میں نے اپنے جی میں خیال کیا اگر اس وقت کہا اس کا نہیں مانتا تو آزردہ ہو گا، پس نئے دوست اور مہان کی خاطر رکھنی ضرور ہے، تب یہ کہا، صاحب کا حکم بجا لانا منظور کہ الامر فوق الادب۔ سُنتے ہی اس کو، جوان نے پیالہ تواضع کیا اور میں نے پی لیا۔ پھر تو ایسا پیہم دَور چلا کہ تھوڑی دیر میں سب آدمی مجلس کے کیفی ہو کر بے خبر ہو گئے، اور میں بھی بے ہوش ہر گیا۔

جب صبح ہوئی اور آفتاب دو نیزے بلند ہوا، تب میری آنکھ کھلی تو دیکھا میں نے نہ وہ تیاری ہے نہ وہ مجلس نہ وہ پری، فقط خالی حویلی پڑی ہے مگر ایک کونے میں کمل لپٹا ہوا ادھر ہے۔ جو اُس کو کھول کر دیکھا تو وہ جوان اور اس کی رنڈی دونوں سر کٹے پڑے ہیں۔ یہ حالت دیکھتے ہی حواس جاتے رہے، عقل کچھ کام نہیں کرتی کہ یہ کیا تھا اور کیا ہوا؟ حیرانی سے ہر طرف تک رہا تھا، اتنے میں ایک خواجہ سرا (جسے ضیافت کے کا کاج میں دیکھا تھا) نظر پڑا۔ فقیر کو اُس کے دیکھنے سے کچھ تسلی ہوئی، احوال اس واردات کا پوچھا۔ اُس نے جواب دیا تجھے اس بات کی تحقیق کرنے سے کیا حاصل جو تُو پوچھتا ہے؟ میں نے بھی اپنے دل میں غور کی کہ سچ تو کہتا ہے، پھر ایک ذرا تامل کر کے میں بولا خیر نہ کہو، بھلا یہ تو بتاؤ وہ معشوقہ کس مکان میں ہے؟ تب اُس نے کہا البتہ جو میں جاتا ہوں، سو کہ دوں گا، لیکن تجھ سا آدمی عقل مند بے مرضی حضور کے دو دن کی دوستی پر بے محابا بے تکلف ہو کر صحبت مے نوشی کی باہم گرم کرے، یہ کیا معنی رکھتا ہے؟

فقیر اپنی حرکت اور اُس کی نصیحت سے بہت نادم ہوا۔ سوائے اِس بات کے زبان سے کچھ نہ نکلا، فی الحقیقت اب تو تقصیر ہوئی معاف کیجیئے، بارے محلی نے مہربان ہو کر اُس پری کے مکان کا نشان بتایا اور مجھے رُخصت کیا، اپ اُن دونوں زخمیوں کے گاڑنے داپنے کی فکر میں رہا۔ میں تُہمت سے اُس فساد کے الگ ہوا اور اشتیاق میں اُس پری کے ملنے کے لیے گھبرایا ہوا، گرتا پڑتا ڈھونڈھتا شام کے وقت اُس کوچے میں اسی پتے پر جا پہنچا اور نزدیک دروازے کے ایک گوشے میں ساری رات تلپھتے کٹی، کسو کی آمدورفت کی آہٹ نہ ملی۔ اور کوئی احوال پُرساں میرا نہ ہوا۔ اُسی بے کَسی کی حالت میں صبح ہو گئی، جب سورج نِکلا اُس مکان کے بالا خانے کی ایک کھڑکی سے وہ ماہ رو میری طرف دیکھنے لگی۔ اُس وقت عالم خوشی کا جو مجھ پر گُذرا، دِل ہی جانتا ہے، شکر خدا کا کیا۔

اتنے میں ایک خوجے نے میرے پاس آ کر کہا، اس مسجد میں تو جا کر بیٹھ، شاید تیرا مطلب اس جگہ بر آوے اور اپنے دل کی مراد پاوے۔ فقیر فرمانے سے اُس کے وہاں سے اُٹھ کر اُسی مسجد میں جا رہا، لیکن آنکھیں دروازے کی طرف لگ رہی تھی کہ دیکھیے پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ تما دِن جیسے روزہ دار شام ہونے کا انتظار کھینچتا ہے، میں نے بھی دو روز ویسی ہی بے قراری میں کاٹا۔ بارے جس تس طرح سے شام ہوئی اور دِن پہاڑ سا چھاتی پر سے ٹلا۔ ایک بارگی وہی خواجہ سرا (جن نے اُس پری کے مکان کا پتا بتا دیا تھا) مسجد میں آیا۔ بعد فراغت نماز مغرب کے میرے پاس آ کر اُس شفیق نے (کہ سب راز و نیاز کا محرم تھا) نہایت تسلی دے کر ہاتھ پکڑ لیا اور اپنے ساتھ لے چلا رفتہ رفتہ ایک باغیچے میں مجھے بٹھا کر کہا یہاں رہو جب تک تمہاری آرزو بر آوے، اور آپ رخصت ہو کر شاید میری حقیقت حضور میں کہنے گیا۔ میں اُس باغ کے پھولوں کی بہار اور چاندنی کا عالم اور حوض نہروں میں فوارے ساون بھادوں کے اُچھلنے کا تماشا دیکھ رہا تھا، لیکن جب پھولوں کو دیکھتا تب اُس گلبدن کا خیال آتا، جب چاند پر نظر پڑتی تب اُس مہ رو کا مکھڑا یاد کرتا، یہ سب بہار اُس کے بغیر میری آنکھوں میں خار تھی۔

بارے خدا اُس کے دل کو مہربان کیا، ایک دم کے بعد وہ پری ۔۔۔۔۔


(شمشاد)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 38 سے 47 تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازے سے جیسے چودھویں رات کا چاند بناؤ کیے گلے میں پشواز بادلے کی سنجاف کی موتیوں کا دروامن ٹکا ہو اور سر پر اوڑھنی جس میں آنچل پلو لہر گوکھرو لگا ہوا، سر سے پانو تک موتیوں میں جڑی روش پر آ کر کھڑی ہوئی۔ اُس کے آنے سے تروتازگی نئے سر سے اُس باغ کو فقیر کے دل کو ہو گئی۔ ایک دم اِدھر اُدھر سیر کر کر شہ نشین میں مغرق مسند پر تکیہ لگا کر بیٹھی۔ میں دوڑ کر پروانے کی طرح جیسے شمع کے گرد پھرتا ہے تصدق ہوا اور غلام کے مانند دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوا۔ اس میں وہ خوجہ میری خاطر بہ طور سفارش کے عرض کرنے لگا۔ میں نے اس محلی سے کہا بندہ گنہ گار تقصیروار ہے جو کچھ سزا میرے لائق ٹھہرے، سو ہو۔ وہ پری ازبس کہ ناخوش تھی، بددماغی سے بولی کہ اب اس کے حق میں یہی بھلا ہے کہ سو توڑے اشرفی کے لیوے، اپنا اسباب درست کر کے وطن کو سدھارے۔

میں یہ بات سنتے ہی کاٹھ ہو گیا اور سوکھ گیا کہ اگر کوئی میرے بدن کو کاٹے تو ایک بوند لہو کی نہ نکلے اور تمام دنیا آنکھوں کے آگے اندھیری لگنے لگی، اور ایک آہ نامرادی کی بے اختیار جگر سے نکلی، آنسو بھی ٹپکنے لگے۔ سوائے خدا کے اس وقت کسو کی توقع نہ رہی، مایوسِ محض ہو کر اتنا بولا، بھلاٹک اپنے دل میں غور فرمائیے، اگر مجھ کم نصیب کو دُنیا کا لالچ ہوتا تو اپنا جان و مال حضور میں نہ کھوتا۔ کیا ایک بارگی حق خدمت گزاری اور جاں نثاری کا عالم اُٹھ گیا؟ جو مجھ سے کم بخت پر اتنی بے مہری فرمائی۔ خیر اپ میرے تئیں بھی زندگی سے کچھ کام نہیں، معشوقوں کی بے وفائی سے بے چارے عاشقِ نیم جاں کا تباہ نہیں ہوتا۔

یہ سُن کر تیکھی ہو تیوری چڑھا کر خفگی سے بولی، چہ خوش ! آپ ہمارے عاشق ہیں؟ مینڈکی کو بھی زکام ہوا؟ اے بے وقوف ! اپنے حوصلے سے زیادہ باتیں بنانیں خیالِ خام ہے، چھوٹا منہ بڑی بات۔ بس چپ رہ یہ نکمی بات چیت مت کر، اگر کسی اور نے یہ حرکتِ بے معنی کی ہوتی، پروردگار کی سوں اس کی بوٹیاں کٹوا چیلوں کو بانٹتی، پر کیا کروں؟ تیری خدمت یاد آتی ہے اب اسی میں بھلائی ہے کہ اپنی راہ لے، تیری قسمت کا دانا پانی ہماری سرکار میں یہیں تلک تھا۔ پھر مین نے روتے بسورے کہا، اگر میری تقدیر میں یہی لکھا ہے کہ اپنے دل کے مقصد کو نہ پہنچوں اور جنگل پہاڑ میں سر ٹکراتا پھروں تو لاچار ہوں۔ اس بات سے بھی دِق ہو کہنے لگی، میرے تئیں یہ پُھسا ہندے چوچلے اور رمز کی باتیں پسند نہیں آتیں، اس اشارے کی گفتگو کی جو لائق ہو، اُس سے جا کر کر۔ پھر اُسی خفگی کے عالم میں اُٹھ کر اپنے دولت خانے کو چلی۔ میں نے بہتیرا سر پٹکا، متوجہ نہ ہوئی۔ لاچار میں بھی اُس مکان سے اُداس اور ناُمید ہو کر نکلا۔

غرض چالیس دن تک یہی نوبت رہی۔ جب شہر کی کوچہ گردی سے اُکتاتا، جنگل میں نکل جاتا۔ جب وہاں سے گھبراتا، پھر شہر کی گلیوں میں دیوانہ سا آتا، نہ دن کو کھاتا نہ رات کو سوتا، جیسے دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ زندگی انسان کی کھانے پینے سے ہے۔ آدمی اناج کا کیڑا ہے۔ طاقت بدن میں مطلق نہ رہی، اپاہچ ہو کر اُسی مسجد کی دیوار کے تلے جا پڑا کہ ایک روز وہی خواجہ سرا جمعے کی نماز پڑھنے آیا، میرے پاس سے ہو کر چلا، میں یہ شعر آہستہ ناطاقتی سے پڑھ رہا تھا ؛

اس دردِ دل سے موت ہو یا دل کو تاب ہو
قِسمت میں جو لکھا ہو الٰہی شتاب ہو​

اگرچہ ظاہر میں صورت میری بالکل تبدیل ہو گئی تھی، چہرے کی یہ شکل بنی تھی کہ جن نے مجھے پہلے دیکھا تھا، وہ بھی نہ پہچان سکتا کہ یہ وہی آدمی ہے۔ لیکن وہ محلی آوازِ درد سن کر متوجہ ہوا، میرے تئیں بہ غور دیکھ کر افسوس کیا اور شفقت سے مخاطب ہوا کہ آخر یہ حالت اپنی پہنچائی۔ مین نے کہا، اب تو جو ہوا سو ہوا، مال سے بھی حاضر تھا، جان بھی تصدق کی، اس کی خوشی یوں ہی ہوئی تو کیا کروں؟

یہ سُن کر ایک خدمت گار میرے پاس چھوڑ کر مسجد میں گیا۔ نماز اور خطبے سے فراغت کر کرا جب باہر نکلا، فقیر کو ایک میانے میں ڈال کر اپنے ساتھ خدمت میں اُس پری بے پروا کی لے جا کر چق کے باہر بٹھایا۔ اگرچہ میری روہٹ کچھ باقی نہ رہی تھی پر مدت تلک شب و روز اُس پری کے پاس اتفاق رہنے کا ہوا تھا، جان بوجھ کر بے گانی ہو کر پوچھنے لگی، یہ کون ہے؟ اُس مرد آدمی نے کہا، یہ وہی کم بخت بدنصیب ہے جو حضور کی خفگی اور عتاب میں پڑا تھا۔ اُسی سبب سے اس کے یہ صورت بنی ہے۔ عشق کی آگ سے جلا جاتا ہے۔ ہر چند آنسووں کے پانی سے بجھاتا ہے پر وہ دونی بھڑکتی ہے، کچھ فائدہ نہیں ہوتا، علاوہ اپنی تقصیر کی خجالت سے موا جاتا ہے۔ پری نے ٹھٹھولی سے فرمایا، کیوں جھوٹ بکتا ہے؟ بہت دن ہوئے اُس کی خبر وطن پہنچنے کی مجھے خبرداروں نے دی ہے۔ واللہ اعلم، یہ کون ہے اور تو کس کا ذکر کرتا ہے؟ اُس دم خواجہ سرا نے ہاتھ جوڑ کر التماس کیا، اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔ فرمایا کہ تیری جان تجھے بخشی۔ خوجا بولا، آپ کی ذات قدردان ہے، واسطے خدا کے چِلون کو درمیان سے اُٹھور کر پہچانیے اور اِس کی بے کسی کی حالت پر رحم کیجیئے۔ ناحق شناشی خوب نہیں۔ اب اِس کے احوال پر جو کچھ ترس کھائیے، بجا ہے اور جائے ثواب ہے۔ آگے حدِ ادب جو مزاج مبارک میں آوے سو ہی بہتر ہے۔

اتنے کہنے پر مُسکرا کر فرمایا، بھلا، کوئی ہو، اِسے دارالشِفا میں رکھو، جب بھلا چنگا ہو گا تب اس کے احوال کی پرسش کی جائے گی۔ خوجے نے کہا اگر اپنے دستِ خاص سے گلاب اِس پر چھڑکیے اور زبان سے کچھ فرمائیے تو اس کو اپنے جینے کا بھروسا بندھے، ناامیدی بُری چیز ہے، دنیا بہ امید قائم ہے۔ اس پر بھی اُس پری نے کچھ نہ کہا۔ یہ سوال و جواب سن کر میں بھی اپنے جی سے اُکتا رہا تھا۔ نِدھڑک بول اٹھا کہ اب اِس طور کی زندگی کو دل نہیں چاہتا۔ پانو تو گور میں لٹکا چکا ہوں، ایک روز مرنا ہے اور علاج میرا پادشاہ زادی کے ہاتھ میں ہے، کریں یا نہ کریں وہ جانیں۔ بارے مقلب القلوب نے اس سنگ دل کو دل کو نرم کیا۔ مہربان ہو کر فرمایا جلد پادشاھی حکیموں کو حاضر کرو۔ دونھیں طبیب آ کر جمع ہوئے۔ نبض قارورہ دیکھ کر بہت غور کی۔ آخرش تشخیص میں ٹھہرا کہ یہ شخص کہیں عاشق ہوا ہے، سوائے وصلِ معشوق کے اس کا کچھ علاج نہیں۔ جس وقت وہ ملے، یہ صحت پاوے۔ جب حکیموں کی بھی زبانی یہی مرض میرا ثابت ہوا، حکم کیا اس جوان کو گرمابے میں لے جاؤ، نہلا کر خاصی پوشاک پہناکر حضور میں لے آؤ۔ دونھیں مجھے باہر لے گئے۔ حمام کروا اچھے کپڑے پہنا، خدمت میں پری کی حاضر کیا۔ تب وہ نازنین تپاک سے بولی تو نے مجھے بیٹھے بٹھائے ناحق بدنام اور رُسوا کیا، اب اور کیا کِیا چاہتا ہے؟ جو تیرے دل میں ہے صاف صاف بیان کر۔

یافُقرا ! اُس وقت یہ عالم ہو کہ شادیِ مرگ ہو جاؤں، خوشی کے مارے ایسا پھولا کہ جامے میں نہ سماتا تھا اور صورت شکل بدل گئی۔ شُکر خدا کاکیا اُس سے کہا، اِس دم ساری حکیمی آپ پر ختم ہوئی کہ مجھ سے مُردے کو ایک بات میں زندہ کیا، دیکھو تو اُس وقت سے اِس وقت تک میرے احوال میں کیا فرق ہو گیا؟ یہ کہہ کر تین بار گِرد پھرا اور سامنے آ کر کھڑا ہوا اور کہا حضور سے یوں حکم ہوتا ہے کہ جو تیرے جی میں ہو سہ کہہ، بندے کو ہفت اقلیم کی سلطنت سے زیادہ یہ ہے کہ غریب نوازی کر کر اس عاجز کو قبول کینیئے اور اپنی قدم بوسی سے سرفرازی دیجیئے۔ ایک لمحہ تو سُن کر غوطے میں گئی، پھر کن انکھیوں سے دیکھ کر کہا بیٹھو۔ تم خدمت اور وفاداری ایسی ہی کی ہے، جو کچھ کہو سو پھبتی ہے اور اپنے بھی دل پر نقش ہے، خیر ہم نے قبول کیا۔

اسی دن اچھی ساعت سُبھ لگن میں چپکے چپکے قاضی نے نکاح پڑھا دیا۔ بعد اتنی محنت اور آفت کے خدا نے یہ دِن دکھایا کہ میں نے اپنے دل کا مدعا پایا، لیکن جیسی دل میں آرزو اُس پری سے ہم بستر ہونے کی تھی، ویسی ہی جی میں بے کلی اُس وارداتِ عجیب کے معلوم کرنے کی تھی کہ آج تک میں نے کچھ نہ سمجھا کہ یہ پری کون ہے؟ اور وہ حبشی سانولا سجیلا جس نے ایک پُرزے کاغذ پر اتنی اشرفیوں کے بدرے میرے حوالے کیئے، کون تھا؟ اور تیاری ضیافت کی پادشاہوں کے لائق ایک پہر میں کیوں کر ہوئی؟ اور وہ دونوں بے گناہ اُس مجلس میں کس لیے مارے گئے؟ اور سبب خفگی اور بے مروتی کا (باوجود خدمت گزاری اور ناز برداری کے) مجھ پر کیا ہوا؟ اور پھر ایک بارگی عاجز کو یوں سر بلند کیا؟ غرض اسی واسطے بعد رسم رسوماتِ عقد کے آٹھ دن تلک باوصف اس اشتیاق کے قصد مباشرت کا نہ کیا۔ رات کو ساتھ سوتا، دن کو یونہی اُٹھ کھڑا ہوتا۔

ایک دن غسل کرنے کے لیے میں نے خواص کو کہا کہ تھوڑا پانی گرم کر دے تو نہاؤں۔ ملکہ مُسکرا کر بولی کس برتے پر تتا پانی؟ میں خاموش ہو رہا، لیکن وہ پری میری حرکت سے حیران ہوئی۔ بلکہ چہرے پر آثار خفگی کے نمود ہوئے، یہاں تلک کہ ایک روز بولی تم بھی عجب آدمی ہو، یا اتنے گرم یا ایسے ٹھنڈے، اِس کو کیا کہتے ہیں؟ اگر تم میں قوت نہ تھی توکیوں ایسی کچی ہوس پکائی؟ اُس وقت میں نے بے دھڑک ہو کر کہا اے جانی ! منصفی شرط ہے، آدمی کو چاہیے کہ انصاف سے نہ چوکے۔ بولی اب کیا انصاف رہ گیا ہے؟ جو کچھ ہونا تھا سو ہو چکا۔ فقیر نے کہا، واقعی بڑی آرزو اور مُراد میری یہی تھی، سو مجھے ملی، لیکن دل میرا دُبدھے میں ہے اور دو دلے آدمی کی خاطر پریشان رہتی ہے۔ اُس سے کچھ ہو نہیں سکتا، انسانیت سے خارج ہو جاتا ہے۔ میں نے اپنے دل میں یہ قول کیا تھا کہ بعد اس نکاح کے (کہ عین دل کی شادی ہے) بعضی بعض باتیں (جو خیال میں نہیں آتیں اور نہیں کھلتیں) حضور میں پوچھوں گا کہ زبان مبارک سے اُس کا بیان سُنوں تو جی کو تسکین ہو۔ اُس پری نے چیں بہ چیں ہو کر کہا کیا خوب ! ابھی سے بھول گئے۔ یاد کرو بارہا ہم نے کہا ہے کہ ہمارے کام میں ہرگز دخل نہ کیجیو، اور کسی بات کے متعرض نہ ہو جیو۔ خلافِ معمول یہ بے ادبی کرنی کیا لازم ہے؟ فقیر نے ہنس کر کہا جیسی اور بے ادبیاں معاف کرنے کا حکم ہے، ایک یہ بھی سہی۔ وہ پری نظریں بدل کر تیہے میں آ کر آگ بگولا بن گئی اور بولی، اب تو، بہت سر چڑھا، جا اپنا کامکر، ان باتوں سے تجھے کیا فائدہ ہو گا؟ میں نے کہا، دنیا میں اپنے بدن کی شرم سب سے زیادہ ہوتی ہے، لیکن ایک دوسرے کا واقف کار ہوتا ہے، پس جب ایس چیز دل پر روا رکھی تو اور کون سا بھید چھپانے کے لائق ہے؟

میری اس رمز کو وہ پری وقوف سے دریافت کر کر کہنے لگی۔ یہ بات سچ ہے پر جی میں یہ سوچ آتا ہے کہ اگر مجھ نگوڑی کا راز فاش ہو تو بڑی قیامت مچے۔ میں بولا یہ کیا مذکور ہے؟ بندے کی طرف سے یہ خیال دل میں نہ لاؤ اور خوشی سے ساری کیفیت جو بیتی ہے، فرماؤ۔ ہرگز ہرگز مین دل سے زبان تک نہ لاؤں گا، کسو کے کان پڑنا کیا امکان ہے؟ جب اس نے دیکھا کہ اب سوائے کہنے کے اس عزیز سے چھٹکارا نہیں، لاچار ہو کر بولی ان باتوں کے کہنے میں بہت سی خرابیاں ہیں، تو خواہ مخواہ در پہ ہوا۔ خیر تیری خاطر عزیز ہے، اس لیے اپنی سرگزشت بیان کرتی ہوں، تجھے بھی اُس کا پوشیدہ رکھنا ضرور ہے، خبر شرط۔

غرض بہت سی تاکید کر کر کہنے لگی کہ میں بدبخت ملکِ دمشق کے سلطان کی بیٹی ہوں اور وہ سلاطینوں سے بڑا پادشاہ ہے۔ سوائے میرے کوئی لڑکا بالا اُس کے یہاں نہیں ہوا۔ جس دن سے میں پیدا ہوئی ما باپ کے سائے میں ناز و نعمت اور خوشی خرمی سے پلی۔ جب ہوش آیا تب اپنے دل کو خوب صورتوں اور نازنینوں کے ساتھ لگایا۔ چناں چہ سُتھری سُتھری پری زاد ہم جولی اُمرا زادیاں مصاحبت میں، اور اچھی اچھی قبول صورت ہم عمر خواصیں سہیلیاں خدمت میں رہتی تھیں۔ تماشا ناچ اور راگ رنگ کا ہمیشہ دیکھا کرتی، دنیا کے بھلے بُرے سے کچھ سروکار نہ تھا۔ اپنی بے فکری کے عالم کو دیکھ کر سوائے خدا کے شکر کچھ منھ سے نہ نکلتا تھا۔

اتفاقاً طبیعت خود بخود ایسی بے مزہ ہوئی کہ نہ مصاحبت کسو کی بھاوے نہ مجلس خوشی کی خوش آوے۔ سودائی سا مزاج ہو گیا۔ دل اُداس اور حیران، نہ کسو کی صورت اچھی لگے، نہ بات کہنے سننے کو جی چاہے۔ میری یہ حالت دیکھ کر دائی ددا چھو چھوانگا سب کی سب متفکر ہوئیں اور قدم پر گرنے لگیں۔ یہی خواجہ سرا نمک حلال قدیم سے میرا محرم اور ہم راز ہے، اس سے کوئی بات مخفی نہیں، میری وحشت دیکھ کر بولا کہ اگر پادشاہ زادی تھوڑا سا شربت ورق الخیال کو نوش جان فرماویں تو اغلب ہے کہ طبیعت بحال ہو جاوے اور فرحت مزاج میں آوے۔ اُس کے اس طرح کے کہنے سے مجھے بھی شوق ہوا، تب میں نے فرمایا جلد حاضر کر۔

محلی باہر گیا اور ایک صراحی اسی شربت کی تکلف سے بنا کر برف میں لگا کر لڑکے کے ہاتھ لوا کر آیا۔ میں نے پیا اور جو کچھ اُس کا فائدہ بیان کیا تھا، ویسا ہی دیکھا۔ اُسی وقت اُس خدمت کے انعام میں ایک بھاری خلعت خوجے کو عنایت کی اور حکم کیا کہ ایک صراحی ہمیشہ اِسی وقت حاضر کیا کر۔ اُس دن یہ مقرر ہوا کہ خواجہ سرا صراحی اُسی چھوکرے کے ہاتھ لِوا لاوے اور بندی پی جاوے۔ جب اس کا نشہ طلوع ہوتا، تو اس کی لہر میں اُس لڑکے سے ٹھٹھا مزاح کر کر دل بہلاتی تھی۔ وہ بھی جب ڈھیٹھ ہوا تب اچھی اچھی میٹھی باتیں کرنے لگا اور اچنبھے کی نقلیں لانے، بلکہ آہ اوہی بھی بھرنے اور سسکیاں لینے، صورت تو اُس کی طرح دار لائق دیکھنے کی تھی، بے اختیار جی چاہنے لگا، میں دل کے شوق سے اور اٹھکھیلیوں کے ذوق سے ہر روز انعام بخشش دینے لگی، پر وہ کم بخت انھیں کپڑوں سے جیسے ہمیشہ پہن رہا تھا، حضور میں آتا بلکہ وہ لباس بھی میلا کچیلا ہو جاتا۔

ایک دن پوچھا کہ تجھے سرکار سے اتنا کچھ ملا، پر تُو نے اپنی صورت ویسی کی ویسی ہی پریشان بنا رکھی، کیا سبب ہے، وے رُپی کہاں خرچ کیئے یا جمع کر رکھے؟ لڑکے نے یے خاطر داری کی باتیں جو سنیں، اور مجھے احوال پُرساں پایا، آنسو ڈبڈبا کر کہنے لگا جو کچھ آپ نے غلام کو عنایت کیا، سب استاد نے لے لیا، مجھے ایک پیسا نہیں دیا۔ کہاں سے دوسرے کپڑے بناؤں جو پہن کر حضور میں آؤں؟ اِس میں میری تقصیر نہیں، میں لاچار ہوں۔ اِس غریبی کے کہنے اُس کے ترس آیا۔ وونھیں خواجہ سرا کو فرمایا کہ آج سے اِس لڑکے کو اپنی صحبت میں تربیت کر، اور اچھا لباس تیار کروا کر پہنا اور لونڈوں میں بے فائدہ کھیلنے کودنے نہ دے بلکہ اپنی خوشی یہ ہے کہ آداب لائق حضور کی خدمت کے سیکھے اور حاضر رہے۔ خواجہ سرا موافق فرمانے کے بجا لایا اور میری مرضی جو اُدھر دیکھ نہایت اُس کی خبرگیری کرنے لگا۔ تھوڑے دنوں میں فراغت اور خوش خوری کے سبب سے اس کا رنگ و روغن کچھ کا کچھ ہو گیا اور کینچلی سی ڈال دی۔ میں اپنے دل کو ہر چند سنبھالتی پر اُس کافر کے صورت جی میں ایسی کُھب گئی تھی، یہی جی چاہتا کہ مارے پیار کے اُسے کلیجے میں ڈال رکھوں اور اپنی آنکھوں سے ایک پل جُدا نہ کروں۔

آخر اس کو مصاحبت میں داخل کیا، اور خلعتیں طرح بہ طرح کی اور جواہر رنگ بہ رنگ کے پہنا کر دیکھا کرتی۔ بارے اُس کے نزدیک رہنے سے آنکھوں کو سُکھ کلیجے کو ٹھنڈھک ہوئی۔ ہر دم اُس کی خاطر داری کرتی، آخر کو میری یہ حالت پہنچی کہ اگر ایک دم کچھ ضروری کام کو میرے سامنے سے جاتا تو چین نہ آتا۔ بعد کئی برس کے وہ بالغ ہوا۔ مسیں بھیگنے لگیں، چھب تختی درست ہوئی، تب اس کا چرچا ہونے لگا۔ دربان اور رَوَنے، میوڑے، باری دار، اوریساول، چوب دار اُس کو محل کے اندر انے جانے سے منع کرنے لگے۔ آخر اُس کا آنا موقوف ہوا، مجھے تو اس کے بغیر کل نہ پڑتی تھی، ایک دم پہاڑ تھا۔ جب یہ احوال ناامیدی کا سُنا، ایسی بدحواس ہو گئی گویا مجھ پر قیامت ٹوٹی۔ اور یہ حالت ہوئی کہ نہ کچھ کہ سکتی ہوں، نہ اُس بِن رہ سکتی ہوں۔ کچھ بس نہیں چل سکتا، الٰہی کیا کروں ! عجب طرح کا قلق ہوا، مارے بے قراری کے اُسی محلی کو (جو میرا بیدو تھا) بُلا کر کہا کہ مجھے غور اور پرداخت اس لڑکے کی منظور ہے، بالفعل صلاحِ وقت یہ ہے کہ ہزار اشرفی پونجی دے کر چوک کے چوراہے میں دکان جوہری کی کروا دو، تو تجارت کر کے اُس کے نفع سے اپنی گُزران فراغت سے کیا کرے۔ اور میرے محل کے قریب ایک حویلی اچھے نقشے کی رہنے کے لیے بنوا دو۔ لونڈی غلام نوکر چاکر جو ضرور ہوں، مول لے کر اور درماہا مقرر کر رک اُس کے پاس رکھوا دو کہ کسو طرح بے آرام نہ ہو۔ خواجہ سرا نے اُس کی بود و باش کی اور جوہری پنے اور تجارت کی سب تیاری کر دی۔ تھوڑے عرصے میں اس کی دکان ایسی چمکی اور نمود ہوئی کہ جو خلعتیں فاخرہ اور جواہر بیش قیمت سرکار میں پادشاہ کی اور امیروں کی درکار و مطلوب ہوتے، اُسی کے یہاں بہم پہنچتے۔ آہستہ آہستہ یہ دُکان جمی کہ جو تحفہ ہر ایک مُلک کا چاہیے، وہیں ملے، سب جوہریوں کا روزگار اُس کے آگے مندا ہو گیا۔ غرض اُس شہر میں کوئی برابری اُس کی نہ کر سکتا، بلکہ کیس ملک میں ویسا کوئی نہ تھا۔

اِسی کاروبار میں اُس نے تو لاکھوں رُپی کمائے، پر جدائی اُس کی روز بروز نقصان میرے تن بدن کا کرنے لگی۔ کوئی تدبیر نہ بن آئی کہ ۔۔۔۔۔۔۔ صفحہ 47 ختم شد۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
باغ وبہار

کا کہہ سُنایا۔ فرمانے لگی، آدمی کو اپنا قول قرار پورا کرنا واجب ہے، ہمیں خُدا کی نگہبانی میں چھوڑ کراپنے وعدے کو وفا کر، ضییا فت قبول کرنی سُنت رسُول کی ہے۔ تب میں نے کہا، میرا دل چاہتا نہیں کہ تمھیں اکیلا چھوڑ کر جاؤں اور حکم یوں ہوتا ہے، لاچار جاتا ہوں، جب تلک آؤں گا دل یہیں لگا رہے گا۔ یہ کہہ کر پھر اس جوہری کی دُکان پر گیا، وہ مونڈھے پر بیٹھا میرا انتظار کھینچ رہا تھا۔ دیکھتے ہی بولا “آؤ مہربان، بڑی راہ دکھائی۔“
وہیں اُٹھ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور چلا، جاتے جاتے ایک باغ میں لے گیا وہ بڑی بہار کا باغ تھا، حوض اور نہروں کے فوراے چھوٹتے تھے، میوے طرح بہ طرح کے پھل رہے تھے، ہر ایک درخت مارے بوجھ کے جھوم رہا تھا۔رنگ برنگ کے جانور اُن پر بیٹھے چہچہے کر رہے تھے، اور ہر مکان عالی شان میں فرش سُتھرا بچھا تھا۔ وہاں لبِ نہر ایک بنگلے میں جا کر بیٹھا۔ ایک دم کے بعد آپ اُٹھ کر چلا گیا، پھر دوسری پوشاک معقول پہن کر آیا۔ میں نے دیکھ کر کہا“ سبحان اللہ! چشمِ بددور۔“ سُن کر مُسکرایا اور بولا“ مناسب یہ ہے کہ صاحب بھی اپنا لباس بدل ڈالیں۔ اُس کی خاطر میں نے بھی دوسرے کپڑے پہنے اُس جون نے بڑی ٹیپ ٹاپ سے تیاری ضیافت کی کی، اور سامان خوشی کا جیسا چاہیے موجود کیا۔ اور فقیر سے صحبت بہت گرم کر مزے کی باتیں کرنے لگا۔ اتنے میں ساقی صراحی و پیالہ بلور لے کر حاضر ہوا اور گزک کئی قسم کی لا کے رکھی۔ نمک دان چُن دیے، دورشراب کاشروع ہُوا۔ جب دو جام کی نوبت پہنچی چار لڑکے امرد صاحبِ جمال زلفیں کھولے ہوئے مجلس میں آئے، گانے بجانے لگے۔ یہ عالم ہُوا اور ایسا سماں بندھا اگر تان سین اس گھڑی ہوتا، تو اپنی تان بھول جاتا، اور بیجو باؤرا سُن کر باؤلا ہو جاتا۔ اس مزے میں ایک بارگی وہ نوجوان آنسو بھر لایا، دو چار قطرے بے اختیار نکل پڑے اور فقیر سے بولا۔ اب ہماری تمھاری دوستی جانی ہوئی، پس دل کا بھید دوستوں سے چُھپانا کسو مذہب میں درست نہیں۔ ایک بات بے تکلف آشنائی کے بھروسے کہتا ہوں اگر حُکم کرو تو اپنی معشوقہ کو بُلوا کر اِس مجلس میں تسلی اپنے دل کی کروں۔ اُس کی جُدائی سے جی نہیں لگتا۔
یہ بات ایسے اشتیاق سے کہی کہ بغیر دیکھے بھالے فقیر کا دِل بھی مشتاق ہوا۔ میں نے کہا، مجھے تمھاری خوشی درکار ہے، اس سے کیا بہتر؟ دیر نہ کیجیے ، سچ ہے معشوق بِن کچھ اچھا نہیں لگتا۔ اِس جوان نے چلون کی طرف اشارت کی ، دونھیں ایک عورت کالی کلوٹی بھتنی سی جس کے دیکھنے سے انسان بے اجل مر جاوے، جوان کے پاس آن بیٹھی۔ فقیر اس کے دیکھنے سے ڈر گیا۔ دل میں کہا یہی بَلا محبوبہ ایسے جوان پری زاد کی ہے جس کی اتنی تعریف اور اشتیاق ظاہر کیا! میں لاحول پڑھ کر چُپ ہو رہا، اُسی علم میں تین دن رات مجلس شراب اور راگ رنگ جمی رہی، چوتھی شب کو غلبہ نشے اور نیند کا ہوا۔میں خوابِ غفلت میں بے اختیار سو گیا جب صبح ہوئی اُس جوان نے جگایا ، کئی پیالے خمار شکنی پلا کر اپنی معشوقہ سے کہا، اب زیادہ تکلیف مہمان کو دینی خوب نہیں۔
دونوں ہاتھ پکڑے اُٹھے، میں نے رُخصت مانگی خوشی بہ خوشی اجازت دی، تب میں نے جلد اپنے قدیمی کپڑے پہن لیے اپنے گھر کی راہ لی، اور اس پری کی خدمت میں جا حاضر ہوا۔ مگر ایسا اتفاق کبھو نہ ہوا کہ اُسے تنہا چھوڑ کر شب باش کہیں ہوا ہوں۔ اس تین دن کی غیر حاضری سے نہایت خجل ہو کر عذر کیا ، اور قصہ ضیافت کا اور اُس کے نہ رخصت کرنے کا سارا عرض کیا۔ وُہ ایک دانا زمانے کی تھی، تبسم کر کے بولی، کیا مضائقہ اگر ایک دوست کی خاطر رہنا ہوا؟ ہم نے معاف کیا، تیری کیا تقصیرہے؟ جب آدمی کسو کے گھر جاتا ہے تب اُس کی مرضی سے پھر آتا ہے، لیکن مُفت کی مہمانیاں کھا پی کر چُپکے ہو رہو گے یا اس کا بدلا بھی اُتارو گے؟ اب یہ لازم ہے کہ جا کر اُس سوداگر بچے کو اپنے ساتھ لے آؤ، اور اُس سے دو چند ضیافت کرو۔ اور اسباب کا کچھ اندیشہ نہیں، خدا کے کرم سے ایک دم میں سب لوازمہ تیار ہو جاوے گا اور بہ خوبی مجلس ضیافت کی رونق پاوے گی۔ فقیر موافق حکم کے جوہری پاس گیا اور کہا، تمھارا فرمانا تو میں سر آنکھوں سے بجا لایا، اب تُم بھی مہربانی کی راہ سے میری عرض قبول کرو۔ اُس نے کہا جان و دل سے حاضر ہوں۔
تب میں نے کہا اگر اس بندے کے گھر تشریف لے چلو، عین غریب نوازی ہے، اُس جوان نے بہت عذر اور حیلے کیے، پرمیں نے پِنڈ نہ چھوڑا جب تلک وہ راضی ہوا، ساتھ ہی ساتھ اُس کو اپنے مکان پر لے چلا۔ لیکن راہ میں یہی فکر کرتا تھا کہ اگر آج اپنے تئیں مقدور ہوتا تو ایسی تواضع کرتا کہ یہ بھی خوش ہوتا۔ اب میں اسے لئے جاتا ہوں، دیکھیے کیا اتفاق ہوتا ہے۔ اِسی حیض بیض میں گھر کے نزدیک پہنچا، تو کیا دیکھتا ہوں؟ کہ دروازے پر دھوم دھام ہو رہی ہے۔ گلیارے میں جھاڑو دے کر چھڑکاؤ کیا ہے۔ یسا ول اور عصٰی بردار کھڑے ہیں۔ میں حیران ہوا لیکن اپنا گھر جان کر قدم اندر رکھا۔ دیکھا تو تمام حویلی میں فرشِ مکلف لائق ہر مکان کے جا بجا بچھا ہے اور مسندیں لگی ہیں۔ پان دان، گلاب پاش ، عِطر دان، پیک دان، چنگرین، نرگس دان قرینے سے دھرے ہیں۔ طاقوں میں رنگترے، کبنولے ، نارنگیاں اور گلابیاں ، رنگ برنگ کی چُنی ہیں، ایک طرف رنگ آمیز ابرک کی ٹٹیوں میں چراغاں کی بہار ہے۔ ایک طرف جھاڑ اور سروکنول کے روشن ہیں، اور تمام دالان اور شہ نشینوں میں طلائی شمع دان پر کافوری شمعیں چڑھی ہیں اور جڑاؤ فانوسیں اوپر دھری ہیں۔ سب آدمی اپنے اپنے عہدوں پر مستعد ہیں، باورچی خانے میں دیگیں ٹھنٹھنا رہی ہیں، آب دار خانے کی ویسی ہی تیاری ہی، کوری کوری ٹھلیاں روپے کی گھڑونچیوں پر صافیوں سے بندھیں اور بُجھروں سے ڈھکی رکھی ہیں۔ آگے چوکی پر ڈونگے کٹورے بمع تھالی، سر پوش، دھرے برف کے آب خورے لگ رہے ہیں اور شورے کی صراحیاں ہل رہی ہیں۔
غرض سب اسباب پادشاہانہ موجود ہے، اور کنچنیاں، بھانڈ، بھگتیے ، کاونت، قوال، اچھی پوشاک پہنے ساز کے سُر ملائے حاضر ہیں۔ فقیر نے اُس جوان کو لے جا کر مسند پر بٹھایا اور دل میں حیران تھا کہ یا الٰہی ! اتنے عرصے میں یہ سب تیاری کیوں کر ہوئی؟ ہر طرف دیکھتا پھرتا تھا لیکن اُس پری کا نشان کہیں نہ پایا۔ اسی جستجو، میں ایک مرتبہ باورچی خانے کی طرف جا نِکلا، دیکھتا ہوں تو وہ نازنیں ایک مکان میں گلے میں کُرتی ، پانو میں تہ پوشی، سر پر سفید رومالی اوڑھے ہوئے سادی خوزادی بِن گہنے پاتے بنی ہوئی ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
چمڑے کی جوتیاں بنا کر تجھے پہناؤں اور کلیجے میں ڈال رکھوں۔ اب یہ صلاح ہے کہ سفر کا قصد کرو۔ خدا چاہے تو دن پھریں اور اس حیرانی و مفلسی کے بدلے خاطر جمعی اور خوشی حاصل ہو۔ یہ بات سُن کر مجھے بھی غیرت آئی، اس کی نصیحت پسند کی۔ جواب دیا ، اچھا اب تم ماں کی جگہ ہو، جو کہو سو کروں۔ یہ میری مرضی پا کر گھر میں جا کے پچاس توڑے اشرفی کے اصیل لونڈیوں کے ہاتھوں میں لِوا کر میرے آگے لا رکھے اور بولی ایک قافلہ سوداگروں کا دمشق کو جاتا ہے، تم ان روپوں سے جنس تجارت کی خرید کرو۔ ایک تاجر ایماندار کے حوالے کر کے، دستاویز پکی لکھوا لو، اور آپ بھی قصد دمشق کا کرو۔ وہاں جب خیریت سے جا پہنچو، اپنا مال مع منافع سمجھ بوجھ لیجیو یا آپ بیچیو۔ میں وہ نقد لے کر بازار میں گیا، اسباب سوداگری کا خرید کر کر ایک بڑے سوداگر کے سپرد کیا۔ نوشت و خواند سے خاطر جمع کر لی۔ وہ تاجر دریا کی راہ سے جہاز پر سوار ہو کر ورانہ ہوا۔ فقیر نے خُشکی کی راہ چلنے کی تیاری کی۔ جب رُخصت ہونے لگا، بہن نے ایک سری پاؤ بھاری اور ایک گھوڑا جڑاؤساز سے تواضع کیا، اور مٹھائی پکوان ایک خاص دان میں بھر کر ہرنے سے لٹکا دیا، اور چھاگل پانی کی شکار بند میں بندھوا دی۔ امام ضامن کا روپیہ میرے بازو پر باندھا، دہی کا ٹیکا ماتھے پر لگا کر آنسو پی کر بولی، سدھارو! تمھیں خدا کو سونپا، پیٹھ دکھائے جاتے ہو، اسی طرح جلد اپنا منہ دکھائیو۔ میں نے فاتحہ خیر کی پڑھ کر کہا، تمھارا بھی اللہ حافظ ہے۔ میں نے قبول کیا۔ وہاں سے نکل کر گھوڑے پر سوار ہوا، اور خدا کے توکل پر بھروسہ کر کےدو منزل کی ایک منزل کرتا ہوا دمشق کے پاس جا پہنچا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
غرض جب شہر کے دروازے پر گیا، بہت رات جا چکی تھی۔ دربان اور نگاہ بانوں نے دروازہ بند کیا تھا۔ میں نے بہت منت کی کہ مسافر ہوں، دور سے دھاوا مارے آتا ہوں، اگر کواڑ کھول دو شہر میں جا کر دانے گھاس کا آرام پاؤں۔ اندر سے گھڑک کر بولے، اس وقت دروازہ کھولنے کا حکم نہیں، کیوں اتنی رات گئے تم آئے؟ جب میں نے جواب صاف اُن سے سنا، شہر پناہ کی دیوار کے تلے گھوڑے پر سے اُتر زین پوش بچھا کر بیٹھا۔ جاگنے کی خاطر ادھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ جس وقت آدھی رات اِدھر اور آدھی رات اُدھر ہوئی، سنسان ہوگیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک صندوق قلعے کی دیوار پر سے نیچے چلا آتا ہے۔ یہ دیکھ کر میں اچنبھے میں ہوا کہ یہ کیا طلسم ہے؟ شاید خدا نے میری حیرانی و پریشانی پر رحم کھا کر خزانہ غیب سے عنایت کیا۔ جب وہ صندوق زمین پر ٹھہرا، ڈرتے ڈرتے میں پاس گیا، دیکھا تو کاٹھ کا صندوق ہے۔ لالچ سے اُسے کھولا۔ ایک معشوق، خوب صورت، کامنی سی عورت (جس کے دیکھنے سے ہوش جاتا رہے) گھایل، لہو میں تربتر، آںکھیں بند کئے پڑی کُلبلاتی ہے، آہستہ آہستہ ہونٹھ ہلتے ہیں، اور یہ آواز منہ سے نکلتی ہے۔ ای کم بخت بے وفا! ای ظالمِ پُرجفا! بدلا اس بھلائی اور محبت کا یہی تھا جو تُو نے کیا؟ بھلا ایک زخم اور بھی لگا، میں نے اپنا تیرا انصاف خدا کو سونپا۔ یہ کہہ کر اُسی بے ہوشی کے عالم میں دوپٹے کا آنچل منہ پر لے لیا۔ میری طرف دھیان نہ کیا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
فقیر اُس کو دیکھ کر اور یہ بات سُن کر سُن ہوا، جی میں آیا، کسی بے حیا ظالم نے کیوں ایسے نازنین صنم کو زخمی کیا، کیا اُس کے دل میں آیا؟ اور ہاتھ اُس پر کیوں کر چلایا؟ اُس کے دل میں تو محبت اب تلک باقی ہے جو اس جان کنی کی حالت میں اُس کو یاد کرتی ہے، میں آپ ہی آپ یہ کہہ رہا تھا، آواز اس کے کان میں گئی، ایک مرتبہ منہ سرکا کر مجھ کو دیکھا۔ جس وقت اس کی نگاہیں میری نظروں سے لڑیں، مجھے غش آنے اور جی سنسنانے لگا۔ بہ زور اپنے تئیں تھانبا۔ جُرات کر کے پُوچھا، سچ کہو تم کون ہو اور یہ کیا ماجرا ہےِ اگر بیان کرو تو میرے دل کو تسلی ہو۔ یہ سُن کر اگرچہ طاقت بولنے کی نہ تھی آہستے سے کہا، شکر ہے۔ میری حالت زخموں کے مارے یہ کچھ ہو رہی ہے۔ کیا خاک بولوں؟ کوئی دم کی مہمان ہوں، جب میری جان نکل جاوے تو خدا کے واسطے جواں مردی کر کےمجھ بدبخت کو اسی صندوق میں کسی جگہ گاڑ دیجو۔ تو میں بھلے بُرے کی زبان سے نجات پاؤں، اور تُو داخل ثواب کے ہو۔ اتنا بول کر چُپ ہوئی۔

رات کو مجھ سے کچھ تدبیر نہ ہوسکی، وہ صندوق اپنے پاس اُٹھا لایا اور گھڑیاں گننے لگا کہ کب اتنی رات تمام ہو تو فجر کو شہر میں جاکر جو کچھ علاج اس کا ہو سکے بہ مقدور اپنی کروں۔ وہ تھوڑی سی رات ایسی پہاڑ ہوگئی کہ دل گھبرا گیا۔ بارے خُدا خُدا کر کے صبح جب نزدیک ہوئی، مُرغ بولا، آدمیوں کی آواز آنے لگی۔ میں نے فجر کی نماز پڑھ کر صندوق کو خورجی میں کسا۔ جونہیں دروازہ شہر کا کُھلا، میں شہر میں داخل ہوا ہر ایک آدمی اور دکان دار سے حویلی کرائے کی تلاش کرنے لگا۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک مکانِ خوش قطع نیا فراغت کا بھاڑے لے کر جا اُترا۔ پہلے اس معشوق کو صندوق سے نکال کر روئی کے پہلوں پر ملائم بچھونا کر کے ایک گوشے میں لٹایا، اور آدمی اعتباری وہاں چھوڑ کر فقیرِ جراح کی تلاش میں نکلا۔ ہر ایک سے پوچھتا پھرتا تھا کہ اس شہر میں جراح کاری گر کون ہے اور کہاں رہتا ہے؟ ایک شخص نے کہا، ایک حجام جراحی کے کسب اور حکیمی کے فن میں پکا ہے، اور اس کام میں نپٹ پکا ہے، اگر مُردے کو اُس پاس لے جاؤ، خُدا کے حُکم سے ایسی تدبیر کرے کہ ایک بار وہ بھی جی اُٹھے ۔ وہ اس محلے میں رہتا ہے اور عیسیٰ نام ہے۔

میں یہ مُژدہ سُن کر بے اختیار چلا۔ تلاش کرتے کرتے پتے سے اُس کے دروازے پر پہنچا۔ ایک مردِ سفید ریش کو دہلیز پر بیٹھا دیکھا اور کئی آدمی مرہم کی تیاری کے لئے کچھ پیس پاس رہے تھے۔ فقیر نے مارے خوشامد کے ادب سے سلام کیا اور کہا، میں تُمھارا نام اور خُوبیاں سُن کر آیا ہوں۔ ماجرا یہ ہے کہ میں اپنے مُلک سے تجارت کے لئے چلا، قبیلے کو بہ سبب محبت ساتھ لیا۔ جب نزدیک اس شہر کے آیا، تھوڑی سی دُور رہا تھا کہ شام پڑ گئی۔ اَن دیکھے مُلک میں رات کو چلنا مناسب نہ جانا۔ میدان میں ایک درخت کے تلے اُتر پڑا۔ پچھلے پہر ڈاکا آیا، جو کچھ مال و اسباب پایا لُوٹ لیا، گہنے کے لالچ سے اس بی بی کو بھی گھایل کیا۔ مجھ سے کچھ نہ ہوسکا، رات جو باقی تھی جُوں تُوں کر کے کاٹی، فجر ہی شہر میں آن کر ایک مکان کرائے لیا، اُن کو وہاں رکھ کر میں تمھارے پاس دوڑا آیا ہوں۔ خُدا نے تمھیں یہ کمال دیا ہے، اس مسافر پر مہربانی کرو، غریب خانے تشریف لے چلو، اُس کو دیکھو اگر اس کی زندگی ہوئی تو تمھیں بڑا جس ہوگا اور میں ساری عمر غلامی کروں گا۔ عیسٰی جراح بہت رحم دل اور خُدا پرست تھا۔ میری غریبی کی باتوں پر ترس کھا کر میرے ساتھ اُس حویلی تک آیا۔ زخموں کو دیکھتے ہی میری تسلی کی، بولا کہ خُدا کے کرم سے اِس بی بی کے زخم چالیس دن بھر آویں گے، غسل شفا کا کروا دوں گا۔

غرض اُس مردِ خُدا نے سب زخموں کو نیم کے پانی سے دھودھا کر صاف
 

ماوراء

محفلین
کیا۔ جو لائق ٹانکوں کے پائے انھیں سیا، باقی گھاؤں پر اپنی کھیسے سے ایک ڈبیا نکال کر کتنوں میں پٹی رکھی، اور کتنوں پر پھائے چڑھا کر پٹی سے باندھ دیا اور نہایت شفقت سے کہا، میں دونوں وقت آیا کروں گا، تو خبردار رہیو ایسی حرکت نہ کرے جو ٹانکے ٹوٹ جائیں۔مرغ کا شوربا بجائے غذا اسں کے حلق میں چوایئو اور اکژ عرق بید مشک گلاب کے ساتھ دیا کیجیو جو قوت رہے- یہ کہ کر رخصت چاہی۔میں نے بہت منت کی اور ہاتھ جوڑ کر کہا، تمھاری تشفی دینے سے میری بھی زندگی ہوئی، نہیں تو سوائےمرنے کے کچھ سوجھتا نہ تھا، خدا تمھیں سلامت رکھے۔ عطر پان دے کر رخصت کیا میں رات دن خدمت میں اس پری کے حاضر رہتا، آرام اپنے اوپر حرام کیا۔ خدا کی درگاہ سے روز روز اس کے چنگے ہونے کی دعا مانگتا۔
اتفاقاً وہ سوداگر بھی آ پہنچا، اور میرا مال امانت میرے حوالے کیا۔ میں نے اسے اونے پونے بیچ ڈالا، اور دارودرمن میں خرچ کرنے لگا۔ وہ مرد جراح ہمیشہ آتا جاتا، تھوڑے عرصے میں سب زخم بھر کر انگور کر لائے۔ بعد کئی دن کے ٍسل شفا کیا، عجب طرح کی خوشی حاصل ہوئی۔ خلعت اور اشرفیاں عیٰسی حجام کے آگے دھریں، اور اس پری کو ملکلف فرش بچھا کر مسند پر بٹھایا۔ فقیر غریبوں کو بہت سی خیر خیرات کی۔ اس دن گویا بادشاہت ہفت اقلیم کی اس فقیر کے ہاتھ لگی، اور اس پری کا شفا پانے سے ایسا رنگ نکھرا کہ مکھڑا سورج کے مانند چمکنے اور کندن کی طرح دمکنے لگا۔ نظر کی مجال نہ تھی جو اس کے جمال پر ٹھہرے۔ فقیر بہ سروچشم اس کے حکم میں حاضر رہتا، جو فرماتی سو بجا لاتا۔ وہ اپنے حسن کے غرور اور سرداری کے دماغ میں جو میری طرف کبھو دیکھتی تو فرماتی، خبردار، اگر تجھے ہماری خاطر منظور ہے تو ہر گز ہماری بات میں دم نہ مارئیو، جو ہم کہیں سو بلا عذر کیے جائیو، اپنا کسی بات میں دخل نہ کریو، نہیں تو پچتاوے گا۔ اس کی وضع سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ حق میری خدمت گزاری اورفرماں برداری کا اسے البتہ منظور ہے۔ فقیر بھی اس کی بے مرضی ایک کام نہ کرتا، اس کا فرمانا بہ سرد چشم بجا لاتا۔
ایک مدت اسی رازونیاز میں کٹی، جو اس نے فرمائش کی، وونھیں میں نے لا کر حاضر کی۔ اس فقیر پاس جو کچھ جنس اور نقد اصل و نفع کا تھا، سب صرف ہوا۔ اس بیانے ملک میں کون اعتبار کرے جو قرض دام سے کام چلے؟ آخر تکلیف روزمرے کے خرچ کی ہونے لگی، اس سے دل بہت گھبرایا، فکر سے دبلا ہوتا چلا، چہرے کا رنگ کلجھواں ہو گیا، لیکن کس سے کہوں؟ جو کچھ دل پر گزری سو گزری، قہر درویش برجانِ درویش۔ ایک دن اس پری نے اپنے شعور سے دریافت کر کے کہا۔ “اے فلانے! تیری خدمتوں کا حق ہمارے جی میں نش کالحجر ہے۔ پر اس کا عوض بالفعل ہم سے نہیں ہو سکتا۔ اگر واسطے خرچ ضروری کے کچھ درکار ہو تو اپنے دل میں اندیشہ نہ کر، ایک ٹکڑا کاغذ اور دوات قلم حاضر کر۔ میں نے تب معلوم کیا کسی ملک کی پادشاہ زادی ہے جو اس دل و دماغ سے گفتگو کرتی ہے۔ فی الفور قلم دان آگے رکھ دیا۔ اس نازنین نے ایک شقہ دستخط خاص سے لکھ کر میرے حوالے کیا اور کہا، قلعے کے پاس تر پو لیا ہے۔ وہاں اس کوچے میں ایک حویلی بڑی سی ہے۔ اس مکان کے مالک کا نام سیدی بہار ہے۔ تو جا کر اس رقعے کو اس تلک پہنچا دے۔“
فقیر موافق فرمانے اس کے اسی نام و نشان پر منزلِ مقصود تک جا پہنچا۔ دربان کی زبانی کیفیت خط کی کہلا بھیجی۔ وونھیں سنتے ہی ایک
 

ماوراء

محفلین
صفحہ : 28

ایک حبشی جوان خوب صورت ایک پھینٹا طرح دار سجے ہوئے باہر نکل آیا۔ اگرچہ رنگ سانولا تھا پر گویا نمام نمک بھرا ہوا۔ میرے ہاتھ سے خط لے لیا، نہ بولا نہ کچھ پوچھا۔ انھیں قدموں پھر اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں گیارہ کشتیاں سر بہ مہر زربفت کی تو رہ پوش پڑے ہوئے غلاموں کے سر پر دھرے باہر آیا۔ کہا اس جوان کے ساتھ جا کر چو گوشے پہنچا دو۔ میں بھی سلام کر رخصت ہو اپنے مکان میں لایا آدمیوں کو دروازے کے باہر سے رخصت کیا۔ دو کشتیاں امانت حضور میں اس پری کے گزار رانیاں دیکھ کر فرمایا “یہ گیارہ بدرے اشرفیوں کی لے اور خرچ اور خرچ میں لا خدا رزاق ہے۔ فقیر اس نقد کو لے کر ضروریات میں خرچ کرنے لگا۔ اگرچہ خاطر جمع ہوئی پر دل میں یہ خلش رہی یا الہٰی! یہ کیا صورت ہے؟ بغیر پوچھے گچھے اتنا مال نا آشنا صورت اجنبی نے ایک پرزے کاغذ پر میرے حوالے کیا، اگر اس پری سے یہ بھید پوچھوں، تو اس نے پہلے ہی منع کر رکھا تھا۔ مارے ڈر کے دم نہیں مار سکتا تھا۔

بعد آٹھ دن کے وہ معشوقہ مجھ سے مخاطب ہوئی کہ حق تعالٰی نے آدمی کو انسانیت کا جامہ عنایت کیا ہے کہ نہ پھٹے نہ میلا ہو۔ اگر چہ پرانے کپڑے سے اس کی آدمیت میں فرق نہیں آتا، پرظاہر میں خلق اللہ کی نظروں میں اعتبار نہیں پاتا۔ دو توڑے اشرفی کے ساتھ لے کر چوک کے چوراہے پر یوسف سوداگر کی دکان میں جا اور کچھ رقم جواہر کے بیش قیمت اور دو خلعتیں زرق برق کی مول لے آ۔ “فقیر دو نہیں سوار ہو کر اس کی دکان پر گیا۔ دیکھا تو ایک جوان شکیل زعفرانی جوڑا پہنے گدی پر بیٹھا ہے، اور اس کا یہ عالم ہے کہ ایک عالم دیکھنے کے لیے دکان سے بازا تک کھڑا ہے۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ : 29

فقیر کمال شوق سے نزدیک جا کر سلام علیک کر کر بیٹھا اور جو جو چیز مطلوب تھی، طلب کی۔ میری بات چیت اس شہر کے باشندوں کی سی نہ تھی۔ اس جوان نے گرم جوشی سے کہا، جو صاحب کو چاہیے موجود ہے، لیکن یہ فرمائیے کس ملک سے آنا ہوا؟ اور اس اجنبی شہر میں رہنے کا کیا باعث ہے؟ اگر اس حقیقت سے مطلع کیجئے تو مہربانی سے بعید نہیں، میرے تئیں اپنا احوال ظاہر کرنا منظور نہ تھا۔ کچھ بات بنا کر اور جواہر پوشاک لے کر اور قیمت اس کو دے کر رخصت چاہی۔ اس جوان نے روکھے پھیکے ہو کر کہا، اے صاحب! اگر تم کو ایسی ہی ناآشنائی کرنی تھی، تو پہلے دوستی اتنی گرمی سے کرنی کیا ضرور تھی؟ بھلے آدمیوں میں صاحب سلامت کا پاس بڑا ہوتا ہے۔ یہ بات اس مزے اور انداز سے کہی بے اختیار دل کو بھائی اور بے مروت ہو کر وہاں سے اٹھنا انسانیت کے مناسب نہ جانا۔ اس کی خاطر پھر بیٹھا اور بولا، تمھارا فرمانا سر آنکھوں پر، میں حاضر ہوں۔
اتنے کہنے سے بہت خوش ہوا، ہنس کر کہنے لگا، اگر آج کے دن غریب خانے پر کرم کیجئے تو تمھاری بدولت مجلس خوشی کی جما کر دو چار گھڑی دل بہلاویں۔ اور کچھ کھانے پینے کا شغل باہم بیٹھ کر کریں۔ فقیر نے اس پری کو کبھو اکیلا نہ چھوڑا تھا، اس کی تنہائی یاد کر کر چند در چند غدر کیے، پر اس جوان نے ہر گز نہ مانا۔ آخر وعدہ ان چیزوں کو پہنچا کر میرے پھر آنے کا لے کر اور قسم کھلا کر رخصت دی۔ میں دکان سے اٹھ کر جواہر اور خلعتیں اس پری کی خدمت میں لایا۔ اس نے قیمت جواہر کی اور حقیقت جوہری کی پوچھی۔ میں نے سارا احوال مول تول کا اور مہمانی کے بجد ہونے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
باغ و بہار - صفحہ 192 تا 328

باغ و بہار​

سیر پہلے درویش کی
ص 48 تا 52

اُس کو دیکھ کر اپنے دل کی تسلی کروں۔ندان صلاح کی خاطر اُسی واقف کار محلّی کو بُلایا اور کہا کہ کوئی ایسی صورت بن نہیں آتی کہ ذرا اس کی صورت میں دیکھوں اور اپنے دل کو صبر دوں۔ مگر یہ طرح ہے کہ ایک سرنگ اُس کی حویلی سے کھدوا کر محل میں ملوا دو۔حُکم کرتے ہی تھوڑے دنوں میں ایسی نقب تیار ہوئی کہ جب سانجھ ہوتی چپکے ہی وہ خواجہ سرا اُس جوان کو اسی راہ سے لے آتا۔ تمام شب شراب و کباب و عیش و عشرت میں کٹتی، میں اس کے ملنے سے آرام پاتی ، وہ میرے دیکھنے سے خوش ہوتا۔ جب فجر کا تارا نکلتا اور مؤذن اذان دیتا، محلی اسی راہ سے اُس جوان کو اُس کے گھر پہنچا دیتا۔ ان باتوں سے سوائے اُس خوجے کے اور دو دائیوں کے(جنھوں نے مجھے دودھ پلایا اور پالا تھا) چوتھا آدمی کوئی واقف نہیں تھا۔
مدت تلک اسی طرح سے گُزری۔ ایک روز یہ اتفاق ہُوا کہ موافق معمول خواجہ سرا جو اُس کو بلانے گیا ،دیکھے تو وہ جوان فکر مند سا چُپکا بیٹھا ہے۔محلّی نے پوچھا آج خیر ہے کیوں ایسے دل گیر ہو رہے ہو؟ چلو حضور میں یاد فرمایا ہے۔ اُس نے ہر گز کچھ جواب نہ دیا، زبان نہ ہلائی۔ خواجہ سرا اپنا مُنھ لے کر اکیلا پھر آیا اور احوال اُس کا عرض کیا۔ میرے تئیں شیطان جو خراب کرے، اس پر بھی محبت اُس کی دل سے نہ بُھولی ، اگر یہ جانتی کہ عِشق اور چاہ ایسے نمک حرام بے وفا کی آخر بدنام اور رُسوا کرے گی اور ننگ و ناموس سب ٹھکانے لگے گا تو اُسی دم اُس کام سے باز آتی اور توبہ کرتی، پھر اس کا نام نہ لیتی نہ اپنا دل اُس بے حیا کو دیتی۔ پر ہونا تو یوں تھا اس لیے حرکتِ بے جا اُس کی خاطر میں نہ لائی۔ اور اس کے نہ آنے کو معشوقوں کا چوچلا اور ناز سمجھا۔ اُس کا نتیجہ یہ دیکھا کہ اس سرگزشت سے بغیر دیکھے بھالے تُو بھی واقف ہوا، نہیں تو میں کہاں اور تُو کہاں؟ خیر جو ہوا سو ہوا۔ اس خردماغی پر اُس گدھے کی خیال نہ کرو۔دوبارہ خوجے کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ اگر تُو اس وقت نہیں آوے گا تو میں کسو نہ کسو ڈھب سے وہیں آتی ہوں، لیکن میرے آنے میں بڑی قباحت ہے۔ اگر یہ راز فاش ہُوا تو تیرے حق میں بہت بُرا ہے۔ تب ایسا کام نہ کر جس سے سوائے رُسوائی کے اور کچھ پھل نہ ملے۔ بہتر یہی ہے کہ جلد چلا آ نہیں تو مجھے پہنچا جان۔ جب یہ سندیسا گیا اور اشتیاق میرا نپٹ دیکھا، بھونڈی سی صُورت بنائے ہوئے ناز نخرے سے آیا۔
جب میرے پاس بیٹھا تب میں نے اُس سے پُوچھا کہ آج رکاوٹ اور خفگی کا کیا باعث ہے؟ اتنی شوخی اور گُستاخی تُو نے کبھو نہ کی تھی، ہمیشہ بلاعذر حاضر ہوتا تھا۔ تب اُس نے کہا کہ میں گُم نام غریب حضور کی توجہ اور دامنِ دولت کے باعث اِس مقدُور کو پہنچا، بہت آرام سے زندگی کٹتی ہے، آپ کی جان و مال کی دُعا کرتا ہوں، یہ تقصیر پادشاہ زادی کے معاف کرنے کے بھروسے اس گنہگار سے سرزد ہوئی، امیدوار عفو ہوں۔ میں تو جان و دل سے اُسے چاہتی تھی، اُس کی بناوٹ کی باتوں کو مان لیا اور شرارت پر نظر نہ کی، بلکہ پھردل داری سے پوچھا کہ کیا تجھ کو ایسی مُشکل کٹھن پیش آئی جو ایسا متفکر ہو رہا ہے؟ اس کو عرض کر، اُس کی تدبیر ہوجائے گی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
غرض اُس نے اپنی خاکساری کی راہ سے یہی کہا کہ مجھ کو سب مُشکل ہے آپ کے رُوبرُو سب ہی آسان ہے۔ آخر اس کے فحواے کلام اور بت کھاؤ سے یہی ُکھلا کہ ایک باغ نہایت سر سبز اور عمارت عالی حوض تالاب کوئی پُختہ سمیت غلام کی حویلی کے نزدیک نافِ شہر میں بکاؤ ہے اور اُس باغ کے ساتھ ایک لونڈی بھی گائن کہ علمِ موسیقی میں خوب سلیقہ رکھتی ہے، یہ دونوں باہم بکتے ہیں نہ اکیلا باغ، جیسے اونٹ کے گلے میں بلی۔ جو کوئی وہ باغ لے وے اُس کنیز کی قیمت بھی دے وے، اور تماشا یہ ہے کہ باغ کا مول پانچ ہزار رُپے اور اس باندی کا بہا پانچ لاکھ۔ فدوی سے اِتنے رُپے بالفعل سر انجام نہیں ہو سکتے۔ میں نے اس کا دِل بہت بے اختیار شوق میں اُن کی خریداری کے پایا کہ اسی واسطے دل حیران اور خاطر پریشان تھا۔ باوجودے کہ رُوبربرُو میرے بیٹھا تھا، تب بھی اُس کا چہرہ ملیّن اور جی اُداس تھا۔ مجھے تو خاطر داری اُس کی ہر گھڑی اور ہر پل منظور تھی، اُسی وقت خواجہ سرا کو حُکم کیا کہ کل صبح کو قیمت اُس باغ کی لونڈی سمیت چُکا کر قبالہ باغ ا اور خط کنیزک کا لکھوا کر اس شخص کے حوالے کرو اور مالک کو زرِ قیمت خزانہء عامرہ سے دلوا دو۔
اس پروَانگی کے سنتے ہی جوان نے آداب بجا لایا اور منھ پر روہٹ آئی۔ ساری رات اُسی قاعدے سے جیسے ہمیشہ گزرتی تھی، ہنسی خوشی سے کٹی۔ فجر ہوتے ہی وہ رُخصت ہوا، خوجے نے موافق فرمانے کے اُس باغ اور لونڈی کو خرید کر دیا، پھر وہ جوان رات کو موافق معمُول کے آیا جایا کرتا۔ ایک روز بہار کے موسم میں کہ مکان بھی دل چسپ تھا ، بدلی گھمنڈ رہی تھی، پھونھیاں پڑ رہی تھیں، بجلی بھی کوندھ رہی تھی، اور ہَوا نرم نرم بہتی تھی، غرض عجب کیفیت اُس دم تھی۔ جونہیں رنگ بہ رنگ کے حباب اور گلابیاں طاقوں پر چُنی ہوئی نظر پڑیں ۔ دل للچایا کہ ایک گھونٹ لوں، جب دو تین پیالوں کی نوبت پہنچی دونہیں خیال اُس باغِ نوخرید کا گُذرا۔ کمال شوق ہُوا کہ ایک دم اِس عالم میں وہاں کی سیر کِیا چاہیے۔ کم بختی جو آوے، اونٹ چڑھے کتا کاٹے۔ اطھی طرح بیٹھے بٹھائے ایک دائی کو ساتھ لے کر سرنگ کی راہ اُس جوان کے مکان کو گئی، وہاں سے باغ کی طرف چلی۔ دیکھا تو ٹھیک اُس باغ کی بہار بہشت کی برابری کر رہی ہے۔ قطرے مینھ کے درختوں کے سر سبز پتوں پر جو پڑے ہیں، گویا زمرد کی پڑیوں پر موتی جڑے ہیں، اور سُرخی پھولوں کی اُس ابر میں ایسی چہچہی ( چہچی) لگتی ہے جیسے شام میں شفق پُھولی ہے اور نہریں لبا لب مانند فرشِ آئینے کے نظر آتی ہیں اور موجیں لہراتی ہیں۔
غرض اُس باغ میں ہر طرف سیر کرتی پھرتی تھی کہ دن ہو چکا ، سیاہی شام کی نمودار ہوئی۔ اتنے میں وہ جوان ایک روش پر نظر آیا، اور مجھے دیکھ کر بہت ادب اور گرم جوشی سے آگے بڑھ کر میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ پر دھر کر بارہ دری کی طرف لے چلا۔ جب وہاں میں گئی تو وہاں کے عالم نے سارے باغ کی کیفیت کو دل سے بُھلا دیا۔ یہ روشنی کا ٹھاٹھ تھا جا بجا قمقمے سرد چراغاں کنول اور فانوس خیال شمع مجلس حیران اور فانوسیں روشن تھیں کہ شبِ برات باوجود چاندنی اور چراغاں اُس کے آگے اندھیری لگتی۔ ایک طرف آتش بازی پھلجڑی انار داؤدی بُھچنپا مروارید مہتابی ہوائی چرخی ہتھ پھول جاہی جوہی پٹاخے ستارے چھٹتے تھے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اس عرصے میں بادل پھٹ گیا اور چاند نکل آیا بعینہ جیسے نافرمانی جوڑا پہنے ہوئے کوئی معشوق نظر آجاتا ہے۔ بڑی کیفیت ہوئی چاندنی چھٹکتے ہی جوان نے کہا کہ اب چل کر باغ کے بالا خانے پر بیٹھیے۔ میں ایسی احمق ہو گئی تھی کہ جو وہ نگوڑا کہتا سو میں مان لیتی، اب یہ ناچ نچایا کہ مُجھ کو اُوپر لے گیا۔ وہ کوٹھا ایسا بلند تھا کہ تمام شہر کے مکان اور بازار کے چراغاں گویا اُس کے پائیں باغ تھے۔ میں اُس جوان کے گلے میں بانہہ ڈالے ہوئے خوشی کے عالم میں بیٹھی تھی ۔ اتنے میں ایک رنڈی نہایت بھونڈی سی، صُورت نہ شکل چولھے میں سے نکل، شراب کا شیشہ ہاتھ میں لِیے ہوئے آپہنچی۔ مجھے اُس وقت اُس آنا نپ بُرا لگا اور اُس کی صُورت دیکھنے سے دل میں ہول اُٹھی۔
تب میں نے گھبرا کر جوان سے پوچھا کہ یہ تحفہ علّت کون ہے؟ تُو نے کہاں سے پیدا کی؟ وہ جوان ہاتھ باندھ کر کہنے لگا کہ یہ وہی لونڈی ہے کو اِس باغ کے ساتھ حضور کی عنایت سے خرید ہوئی۔ میں نے معلوم کیا کہ اس احمق نے بڑی خواہش سے اِس کو لیا ہے۔ شاید اس کا دل اس پر مائل ہے۔ اسی خاطر سے پیچ و تاب کھا کر میں چُپکی ہو رہی، لیکن دل اُسی وقت سے مکدّر ہوا اور ناخوشی مزاج پر چھا گئی، تس پر قیامت اُس ایسے تیسے نے یہ کی کہ ساقی اُسی چھنال کو بنایا۔ اُس وقت میں اپنا لہُو پیتی تھی اور جیسے طوطی کو کوئی کوّ ے کے ساتھ ایک پنجرے میں بند کرتا ہے، نہ جانے کی فرصت پاتی تھی اور نہ بیٹھنے کو جی چاہتا تھا۔ قصہ مختصر وہ شراب بوند کی بوند تھی جس کے پینے سے آدمی حیوان ہو جاوے۔ دوچار جام پے در پے اُسی تیز آب کے جوان کو دیے اور آدھا پیالہ جوان کی منت سے میں نے زہر مار کیا۔ آخر وہ پلشت بے حیا بھی بدمست ہو کر اُس مردود سے بے ہُودہ ادائیں کرنے لگی، اور وہ چبلا بھی نشے میں بے لحاظ ہو چلا اور نامعقول حرکتیں کرنے لگا۔
مجھے یہ غیرت آئی اگر اُس وقت زمین پھاٹے تو میں سما جاؤں۔ لیکن اس کی دوستی کے باعث میں بللّی اس پر بھی چُپ ہو رہی۔ پر وہ تو اصل کا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

فاتح

لائبریرین
باغ و بہار - صفحہ 53

صفحہ 53 تا 56
پر وہ تو اصل کا پاجی تھا، میرے اس درگزرنے کو نہ سمجھا، نشے کی لہر میں اور بھی دو پیالے چڑھا گیا کہ رہتا سہتا ہوش جو تھا، وہ بھی گُم ہوا۔ اور میری طرف سے مطلق دھڑکا جی سے اُٹھا دیا۔ بےشرمی سے شہوت کے غلبے میں میرے روبرو اُس بے حیا نے اُس بندوڑ سے صحبت کی۔ اور وہ پچھل پائی بھی اُس حالت میں نیچے پڑی ہوئی نخرے تلّے کرنے لگی اور دونوں میں چُوما چاٹی ہونے لگی۔ نہ اِس بے وفا میں وفا نہ اُس بے حیا میں حیا، جیسی روح ویسے فرشتے۔ میری اس وقت یہ حالت تھی جیسے اوسر چو کے ڈومنی گاوے تال بے تال، اپنے اوپر لعنت کرتی تھی کہ کیوں تو یہاں آئی جس کی یہ سزا پائی؟ آخر کہاں تک سہوں، میرے سر سے پاؤں تک آگ لگ گئی اور انگاروں پر لوٹنے لگی، اس غصّے اور طیش میں یہ کہاوت (بیل نہ کوُدا کُودے گون، یہ تماشا دیکھے کون) کہتی ہوئی وہاں سے اُٹھی۔
وہ شرابی اپنی خرابیِ دل میں سوچا کہ اگر پادشاہ زادی اس وقت ناخوش ہوئی تو کل میرا کیا حال ہو گا اور صبح کو کیا قیامت مچے گی؟ اب یہ بہتر ہے کہ شاہ زادی کو مار ڈالوں۔ یہ ارادہ اس غیبانی کی صلاح سے جی میں ٹھہرا کر گلے میں پٹکا ڈال میرے پاؤں آ کر پڑا، اور پگڑی سر سے اُتار کر منّت و زاری کرنے لگا۔ میرا دل تو اُس پر لٹّو ہو رہا تھا، جدھر لئے پھرتا تھا، پھرتی تھی اور چکی کی طرح میں اس کے اختیار میں تھی۔ جو کہتا تھا سو کرتی تھی، جوں توں مجھے پُھسلا پنڈھلا کر پھر بٹھلایا اور اُسی شراب دو آتشہ کے دو چار پیالے بھر بھر کر آپ بھی پیے اور مجھے بھی دیے، ایک تو غصّے کے مارے جل بھن کر کباب ہو رہی تھی، دوسرے ایسی شراب پی جلد بے ہوش ہو گئی، کچھ حواس باقی نہ رہے۔ تب اُس بے رحم نمک حرام کٹّر سنگ دل نے تلوار سے مجھے گھایل کیا بلکہ اپنی دانست میں مار چکا۔ اُس دم میری آنکھ کُھلی تو مُنہ سے یہی نکلا، خیر، جیسا ہم نے کیا، ویسا پایا لیکن تُو اپنے تئیں میرے اس خونِ ناحق سے بچائیو۔
مبادا ہو کوئی ظالم تِرا گریباں گیر
مرے لہُو کو تو دامن سے دھو، ہُوا سو ہُوا​
کسی سے یہ بھید ظاہر نہ کیجیو، ہم نے تو تجھ سے جان تک بھی درگزر نہ کی، پھر اس کو خدا کے حوالے کر کے مرا جی ڈوب گیا، مجھے اپنی سُدھ بُدھ کچھ نہ رہی شاید اُس قصائی نے مجھے مُردہ خیال کر اُس صندوق میں ڈال کر قلعے کی دیوار کے تلے لٹکا دیا، سو تُو نے دیکھا میں کسی کا برا نہ چاہتی تھی لیکن یہ خرابیاں قسمت میں لکھی تھیں، مٹتی نہیں کرم کی ریکھا، ان آنکھوں کے سبب یہ کچھ دیکھا۔ اگر خوب صورتوں کے دیکھنے کا دل میں شوق نہ ہوتا تو وہ بدبخت میرے گلے کا طوق نہ ہوتا۔ اللہ نے یہ کام کیا کہ تجھ کو وہاں پہنچا دیا اور سبب میری زندگی کا کیا۔ اب حیا جی میں آتی ہے کہ یہ رُسوائیاں کھینچ کر اپنے تئیں جیتا نہ رکھوں یا کسی کو مُنہ نہ دکھاؤں۔ پر کیا کروں، مرنے کا اختیار اپنے ہاتھ میں نہیں، خدا نے مار کر پھر جِلایا، آگے دیکھیے کہ کیا قسمت میں بدا ہے۔ ظاہر میں تو تیری دوڑ دھوپ اور خدمت کام آئ جو ویسے زخموں سے شفا پائ۔ تُو نے جان و مال سے میری خاطر کی اور جو کچھ اپنی بساط تھی، حاضر کی۔ اُن دنوں تجھے بے خرچ اور دو دلا دیکھ کر وہ شقّہ سیدی بہار کو (جو میرا خزانچی ہے) لکھا، اُس میں یہی مضمون تھا کہ میں خیر و عافیت سے اب فلانے مکان میں ہوں مجھ بد طالع خبر والدہ شریفہ کی خدمت میں پہنچائیو۔ اُس نے تیرے ساتھ دو کشتیاں نقد کی خرچ کی خاطر بھیج دیں۔ اور جب تجھے خلعت اور جواہر خرید کرنے کو یوسف سوداگر بچّے کی دکان کو بھیجا، مجھے یہ بھروسا تھا کہ وہ کم حوصلہ ہر ایک سے جلد آشنا ہو بیٹھتا ہے، تجھے بھی اجنبی جان کر اغلب ہے کہ دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا، سو میرا منصُوبہ ٹھیک بیٹھا، جو کچھ میرے دل میں خیال آیا تھا اُس نے ویسا ہی کیا۔ تُو جب اُس سے قول قرار پھر آنے کا کر کر میرے پاس آیا اور مہمانی کی حقیقت اور اُس کا بَجِد ہونا مجھ سے کہا، میں دل میں خوش ہوئی کہ جب تُو اس کے گھر میں جائکر کھاوے پیوے گا، تب اگر تُو بھی اُس کو مہمانی کی خاطر بلاوے گا، وہ دوڑا چلا آوے گا۔ اِس لئے تُجھے جلد رُخصت کیا۔ تین دن کے پیچھے جب تُو وہاں سے فراغت کر کے آیا اور میرے رُوبرُو عذر غیرحاضری کا شرمندگی سے لایا، میں نے تیری تشفّی کے لئے فرمایا، کچھ مضائقہ نہیں، جب اُس نے رضا دی تب تُو آیا، لیکن بے شرمی خوب نہیں کہ دُوسرے کا احسان اپنے سر پر رکھئے اور اُس کا بدلا نہ کیجیے، اب تُو بھی جا کر اُس سے استدعا کر اور اپنے ساتھ ہی ساتھ لے آ۔ جب تُو اُس کے گھر گیا تب میں نے دیکھا کہ یہاں کچھ اسباب مہمان داری کا تیّار نہیں اگر وہ آ جاوے تو کیا کروں؟ لیکن یہ فرصت پائی کہ اس ملک میں قدیم سے پادشاہوں کا یہ معمُول ہے کہ آٹھ مہینے کاروبار مُلکی اور مالی کے واسطے ملک گیری میں باہر رہتے ہیں اور چار مہینے موسِمِ برسات کے قلعہء مبارک میں جلوس فرماتے ہیں۔ اُن دنوں دو چار مہینے سے پادشاہ یعنی ولی نعمت مجھ بدبخت کے بندوبست کی خاطر ملک میں تشریف لے گئے تھے۔
جب تک تُو اُس جوان کو ساتھ لے کر آوے کہ سیدی بہار نے میرا احوال خدمت میں پادشاہ بیگم کی (کہ والدہ مجھ ناپاک کی ہیں) عرض کیا۔ پھر میں اپنی تقصیر اور گُناہ سے خجل ہو کر اُن کے رُوبرُو جا کر کھڑی ہوئ اور جو سرگزشت تھی سب بیان کی۔ ہر چند اُنہوں نے میرے غائب ہونے کی کیفیت دُور اندیشی اور مہرِ مادری سے چُھپا رکھی تھی کہ خدا جانے اس کا انجام کیا ہو، ابھی یہ رُسوائی ظاہر کرنی خوب نہیں، میرے بدلے میرے عیبوں کو اپنے پیٹ میں رکھ چھوڑا تھا، لیکن میری تلاش میں تھیں۔ جب مجھے اس حالت میں دیکھا اور سب ماجرا سُنا، آنسُو بھر لائیں اور فرمایا اے کم بخت ناشدنی! تُو نے جان بُوجھ کر نام و نشان بادشاہت کا سارا کھویا، ہزار افسوس! اور اپنی زندگی سے ہاتھ دھویا۔ کاش کہ تیرے عوض میں پتھر جنتی تو صبر آتا! اب بھی توبہ کر، جو قسمت میں تھا سو ہُوا، اب آگے کیا کرے گی؟ جیوے گی یا مرے گی؟ میں نے نہایت شرمندگی سے کہا کہ مُجھ بے حیا کے نصیبوں میں یہی لکھا جو اس بدنامی اور خرابی میں ایسی ایسی آفتوں سے بچ کر جیتی رہوں۔ اِس سے مرنا ہی بھلا تھا، اگرچہ کلنک کا ٹیکا میرے ماتھے پر لگا، پر ایسا کام نہیں کیا جس میں ماں باپ کے نام کو عیب لگے۔
اب یہ بڑا دکھ ہے کہ وہ دونوں بے حیا میرے ہاتھ سے بچ جاویں اور آپس میں رنگ رلیاں مناویں اور میں اُن کے ہاتھوں سے یہ کچھ دُکھ دیکھوں۔ حیف ہے مجھ سے کچھ نہ ہو سکے۔ یہ امیدوار ہوں کہ خانساماں کو پروانگی ہو، تو اسباب ضیافت کا بخوبی تمام اس کم بخت کے مکان میں تیّار کرے تو میں دعوت کے بہانے سے اُن دونوں بدبختوں کو بُلوا کر اُن کے عملوں کی سزا دُوں اور اپنا عوض لُوں۔ جس طرح اُس نے مجھ پر ہاتھ چھوڑا اور گھایل کیا، میں بھی دونوں کے پُرزے پُرزے کرُوں، تب میرا کلیجہ ٹھنڈا ہو، نہیں تو اِس غصّے کی آگ میں پُھک رہیں ہوں، آخر جل بل کر بھوبل ہو جاؤں گی۔
 

فاتح

لائبریرین
صفحہ 57 تا 61
یہ سُن کر امّاں نے آتما کے درد سے مہربان ہو کر میری عیب پوشی کی اور سارا لوازمہ ضیافت کا اُسی خواجہ سرا کے ساتھ (جو میرا محرم ہے) کر دیا۔ سب اپنے اپنے کارخانے میں آ کر حاضر ہوئے۔ شام کے وقت تُو اُس موئے کو لے کر آیا، مُجھے اُس قحبہ باندی کا بھی آنا منظور تھا۔ چنانچہ پھر تجھ کو تَقیّد کر کر، اُسے بھی بُلوایا۔ جب وہ بھی آئی اور مجلس جمی، شراب پی پی کر سب بدمست اور بے ہوش ہوئے اور اُن کے ساتھ تُو بھی کیفی ہو کر مُردا سا پڑا۔ میں نے قلماقنی کو حکم کیا کہ اِن دونوں کا سر تلوار سے کاٹ ڈال۔ اُس نے وَہیں ایک دم میں شمشیر نکال کر دونوں کے سر کاٹ بدن لال کر دیے اور تُجھ پر غصّے کا یہ باعث تھا کہ میں نے اجازت ضیافت کی دی تھی، نہ دو دن کی دوستی پر اعتماد کر کے شریک مے خوری کا ہو۔ البتّہ تیری یہ حماقت اپنے تئیں پسند نہ آئی، اس اس واسطے کہ جب تُو پی پا کر بے ہوش ہوا، تب توقّع رفاقت کی تُجھ سے کیا رہی؟ پر تیری خدمت کے حق ایسے میری گردن پر ہیں کہ جو تجھ سے ایسی حرکت ہوتی ہے تو معاف کرتی ہوں۔ لے میں نے اپنی حقیقت ابتدا سے انتہا تک کہہ سُنائی، اب بھی دل میں کچھ اور ہَوس باقی ہے؟ جیسے میں نے تیری خاطر کر کے تیرے کہنے کو سب طرح قبول کیا، تُو بھی میرا فرمایا اُسی صورت سے عمل میں لا۔ صلاحِ وقت یہ ہے کہ اب اِس شہر میں رہنا میرے اور تیرے حق میں بھلا نہیں۔ آگے تُو مختار ہے۔
یا معبوداللہ! شہزادی اتنا فرما کر چپ رہی۔ فقیر تو دل و جان سے اس کے حکم کو سب چیز پر مقدّم جانتا تھا، اور اُس کی مَحبّت کے جال میں پھنسا تھا۔ بولا جو مرضیِ مبارک میں آوے سو بہتر ہے۔ یہ فدوی بے عذر بجا لاوے گا۔ جب شہزادی نے میرے تئیں فرماں بردار و خدمت گار اپنا پُورا سمجھا، فرمایا دو گھوڑے چالاک اور جاں باز (کہ چلنے میں ہوا سے باتیں کریں) بادشاہ کے خاص اصطبل سے منگوا کر تیّار رکھ۔ میں نے ویسے ہی پری زاد چار گردے کے گھوڑے چُن کر زین بندھوا کر منگوائے۔ جب تھوڑی سی رات باقی رہی بادشاہ زادی مردانہ لباس پہن اور پانچوں ہتھیار باندھ کر ایک گھوڑے پر سوار ہوئی، اور دوسرے مرکب پر میں مسلّح ہو کر چڑھ بیٹھا اور ایک طرف کی راہ لی۔
جب شب تمام ہوئی اور پرچھا ہونے لگا، تب ایک پوکھر کے کنارے پہنچے۔ اُتر کر ہاتھ مُنہ دھوئے، جلدی جلدی کچھ ناشتہ کر کے پھر سوار ہو کر چلے۔ کبھو ملکہ کچھ کچھ باتیں کرتی، اور یُوں کہتی کہ ہم نے تیری خاطر شرم حیا، ملک مال ماں باپ، سب چھوڑا، ایسا نہ ہو کہ تُو بھی اُس ظالم بے وفا کی طرح سلوک کرے۔ کبھو میں کُچھ احوال اِدھر اُدھر کا راہ کٹنے کے لئے کہتا، اور اُس کا بھی جواب دیتا کہ پادشاہ زادی! سب آدمی ایک سے نہیں ہوتے۔ اُس پاجی کے نُطفے میں کُچھ خلل ہو گا جو اُس سے ایسی حرکت واقع ہوئ اور میں نے تو جان و مال تُم پر تصدّق کیا اور تُم نے مُجھے ہر طرح سرفرازی بخشی۔ اب میں بندہ بغیر داموں کا ہُوں۔ میرے چمڑے کی اگر جُوتیاں بنوا کر پہنو تو میں آہ نہ کروں۔ ایسی ایسی باتیں باہم ہوتی تھیں۔ اور رات دن چلنے سے کام تھا۔ کبھو جو ماندگی کے سبب کہیں اُترتے تو جنگل کے چرند پرند شکار کرتے۔ حلال کر کے نمک دان سے لون نکال چکمک سے آگ جھاڑ بھُون بھان کر کھا لیتے اور گھوڑوں کو چھوڑ دیتے۔ وے اپنے مُنہ سے گھاس پات چَر چُگ کر اپنا پیٹ بھر لیتے۔
ایک روز ایسے کفِ دست میدان میں جا نکلے کہ جہاں بستی کا نام نہ تھا اور آدمی کی صورت نظر نہ آتی تھی، اُس پر بھی پادشاہ زادی کی رفاقت کے سبب سے دن عید اور رات شب برات معلوم ہوتی تھی۔ جاتے جاتے انچت ایک دریا (کہ جس کے دیکھنے سے کلیجہ پانی ہو) راہ میں ملا۔ کنارے پر کھڑے ہو کر جو دیکھا تو جہاں تلک نِگاہ نے کام کیا، پانی ہی تھا، کچھ تھل بیڑا نہ پایا۔ یا الٰہی! اب اس سمندر سے کیوں کر پار اُتریں! ایک دم اِسی سوچ میں کھڑے رہے۔ آخر یہ دل میں لہر آئی کہ ملکہ کو یہیں بِٹھا کر میں تلاش میں ناؤ نواڑی کے جاؤں، جب تلک اسباب گزارے کا ہاتھ آوے، تب تلک وہ نازنین بھی آرام پاوے۔ تب میں نے کہا اے ملکہ! اگر حکم ہو تو گھاٹ باٹ اس دریا کا دیکھوں۔ فرمانے لگی بہت تھک گئی ہوں اور بھوکی پیاسی ہو رہی ہوں، میں ذرا دم لے لوں جب تئیں تو پار چلنے کی کچھ تدبیر کر۔
اُس جگی ایک درخت پیپل کا تھا بڑا، چھتر باندھے ہوئے کہ اگر ہزار سو آوے تو دھوپ اور مینہ میں اس کے تلے آرام پاوے۔ وہاں اُس کو بٹھا کر میں چلا اور چاروں طرف دیکھتا تھا کہ کہیں بھی زمین پر یا دریا میں نشان انسان کا پاؤں۔ بہتیرا سر مارا پر کہیں نہ پایا۔ آخر مایوس ہو کر وہاں سے پھر آیا تو اُس پری کو پیڑ کے نیچے نہ پایا۔ اُس وقت کی حالت کیا کہوں کہ سرت جاتی رہی؟ دیوانہ باؤلا ہو گیا۔ کبھو درخت پر چڑھ جاتا اور ڈال ڈال پات پات پھرتا، کبھو ہاتھ پاؤں چھوڑ کر زمین میں گرتا اور اُس درخت کی جڑ کے آس پاس تصدّق ہوتا، کدھو چنگھاڑ مار کر اپنی بے بسی پر روتا۔ کبھو پچھم سے پورب کو دوڑا جاتا، کدھو اُتّر سے دکھن کو پھر آتا۔
غرض بہتیری خاک چھانی لیکن اُس گوہرِ نایاب کی نشانی نہ پائ۔ جب میرا کچھ بس نہ چلا تب روتا اور خاک سر پر اُڑاتا تلاش ہر کہیں کرنے لگا۔
دل میں یہ خیال آیا کہ شاید کوئی جن اُس پری کو اُٹھا کر لے گیا اور مجھے یہ داغ دے گیا، یا اُس کے مُلک سے کوئی اُس کے پیچھے لگا چلا آیا تھا، اس وقت اکیلا پا کر منا منو کر پھر شام کی طرف لے اُبھرا۔ ایسے خیالوں میں گھبرا کر کپڑے وپڑے پھینک پھانک دیے، ننگا منگا فقیر بن کر شام کے مُلک میں صبح سے شام تک ڈھونڈھتا پھرتا اور رات کو کہیں پڑ رہتا۔ سارا جہاں روند مارا، پر اپنی بادشاہ زادی کا نام و نشان کسی سے نہ سُنا، نہ سبب غائب ہونے کا معلوم ہوا۔ تب دل میں خیال آیا کہ جب اس جان کا تُو نے کچھ پتا نہ پایا، تو اب جینا بھی حیف ہے۔ کسی جنگل میں ایک پہاڑ نظر آیا، تب اُس پر چڑھ گیا اور یہ ارادہ کیا کہ اپنے تئیں گرا دوں کہ ایک دم میں سر مُنہ پتھروں سے ٹکراتے ٹکراتے پھُوٹ جاوے گا، تو ایسی مصیبت سے جی چھُوٹ جاوے گا۔
یہ دل میں کہہ کر چاہتا ہوں کہ اپنے تئیں گراؤں، بلکہ پاؤں بھی اُٹھ چُکے تھے کہ کسو نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ اتنے میں ہوش آ گیا، دیکھتا ہوں تو ایک سوار سبز پوش مُنہ پر نقاب ڈالے مجھے فرماتا ہے کہ کیوں تُو اپنے مرنے کا قصد کرتا ہے؟ خُدا کے فضل سے ناامید ہونا کفر ہے۔ جب تلک سانس ہے، تب تلک آس ہے۔ اب تھوڑے دنوں میں روم کے ملک میں تین درویش تُجھ سار کے ایسی ہی مصیبت میں پھنسے ہوئے اور ایسے ہی تماشے دیکھے ہوئے تجھ سے ملاقات کریں گے اور وہاں کے پادشاہ کا آزاد بخت نام ہے، اس کو بھی ایک مشکل درپیش ہے، جب وہ تُم چاروں فقیروں کے ساتھ ملے گا تو ہر ایک کے دل کا مطلب اور مراد جو ہے، بہ خوبی حاصل ہوگی۔
میں نے رکاب پکڑ کر بوسہ دیا، اور کہا اے خدا کے ولی! تمہارے اِتنے ہی فرمانے سے میرے دلِ پُر اضطرار کو تسلّی ہوئ، لیکن خُدا کے واسطے یہ فرمائیے کہ آپ کون ہیں اور اسم شریف کیا ہے؟ تب اُنہوں نے فرمایا کہ مرتضٰی علیؓ میرا نام ہے اور میرا یہی کام ہے کہ جس کو جو ممشکل کٹھن پیش آوے تو میں اس کو آسان کر دوں۔ اتنا فرما کر نظروں سے پوشیدہ ہو گئے۔ بارے اس فقیر نے اپنے مولا مُشکل کشا کی بشارت سے خاطر جمع کر قصد قسطنطنیہ کا کیا۔ راہ میں جو کچھ مصیبتیں قسمت میں لکھی تھیں کھینچتا ہوا اُس پادشاہ زادی کی مُلاقات کے بھروسے خدا کے فضل سے یہاں تک آ پہنچا، اور اپنی خوش نصیبی سے تمہاری خدمت میں مشرّف ہوا۔ ہمارے تمہارے آپس میں ملاقات تو ہوئ، باہم صحبت اور بات چیت میسّر آئی، اب چاہیے کہ پادشاہ آزاد بخت سے بھی رُوشناس اور جان پہچان ہو۔
بعد اس کے مقرّر ہم پانچوں اپنے مقصدِ دلی کو پہنچیں گے۔ تم بھی دعا مانگو اور آمین کہو۔ یا ہادی! اس حیران سرگردان کی سرگزشت یہ تھی جو حضوری میں درویشوں کی کہہ سنائ۔ اب آگے دیکھیے کہ کب یہ محنت اور غم ہمارا پادشاہ زادی کے ملنے سے خوشی و خرّمی سے بدل ہو۔ آزاد بخت ایک کونے میں چھُپا ہُوا چُپکا دھیان لگائے پہلے درویش کا ماجرا سُن کر خوش ہوا، پھر دوسرے درویش کی حقیقت کو سننے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اختتام "سیر پہلے درویش کی" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

فاتح

لائبریرین
باغ و بہار - صفحہ 192 تا 328

باغ و بہار
ص 112 تا 121​
یہ ساتوں لڑکیاں سولہ سنگار، بارہ ابھرن بال بال گنج موتی پرو کر بادشاہ کے حضور کھڑی تھیں۔ سلطان کے کچھ جی آیا تو بیٹیوں کی طرف دیکھ کر فرمایا۔ اگر تمہارا باپ بادشاہ نہ ہوتا اور کسی غریب کے گھر تم پیدا ہوتیں، تو تمھیں بادشاہ زادی اور ملکہ کون کہتا؟ خدا کا شکر کرو کہ شہزادیاں کہلاتی ہو، تمہاری یہ ساری خوبی میرے دم سے ہے، چھے لڑکیاں ایک زبان ہو کر بولیں کہ جہاں پناہ جو فرماتے ہیں بجا ہے، اور آپ ہی کی سلامتی سے ہماری بھلائی ہے۔ لیکن یہ ملکہ پناہ سب بہنوں سے چھوٹی تھیں، پر عقل و شعور میں اس عمر میں بھی گویا سب سے بڑی تھیں۔ چپکی کھڑی رہیں۔ اس گفتگو میں بہنوں کی شریک نہ ہوئیں۔ اس واسطے کہ یہ کلمہ کفر کا ہے۔
بادشاہ نے نظرِ غضب سے ان کی طرف دیکھا اور کہا کیوں بی بی تم کچھ نہ بولیں اس کا کیا باعث ہے؟ تب ملکہ نے اپنے دونوں ہاتھ رومال سے باندھ کر عرض کی کہ اگر جان کی امان پاؤں اور تقصیر معاف ہو تو یہ لونڈی اپنے دل کی بات گزارش کرے۔ حکم ہوا کہ کیا کہتی ہے؟ تب ملکہ نے کہا کہ قبلہ عالم آپ نے سنا ہے کہ سچ بات کڑوی لگتی ہے سو اس وقت میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو کر عرض کرتی ہوں، اور جو کچھ میری قسمت میں لکھنے والے نے لکھا ہے اس کا مٹانے والا کوئی نہیں۔ کسو طرح نہیں ٹلنے کا۔
خواہ تم پاؤں گھسو یا کہ رکھو سر بسجود
بات پیشانی کی جو کچھ ہے سو پیش آتی ہے
جس بادشاہ علی الاطلاق نے آپ کو بادشاہ بنایا۔ انہیں نے مجھے بھی بادشاہ زادی کہلوایا۔ اس کی قدرت کے کارخانے میں کسو کا اختیار نہیں چلتا۔ آپ کی ذات ہماری ولی نعمت اور قبلہ و کعبہ ہے۔ حضرت کے قدم مبارک کی خاک کو سرمہ کروں تو بجا ہے۔ مگر نصیب ہر ایک کے ہر ایک کے ساتھ ہیں۔ بادشاہ سُن کر طیش میں آئے اور جواب دل پر سخت گراں معلوم ہوا۔ بیزار ہو کر فرمایا۔ چھوٹا منہ بڑی بات، اب اس کی یہی سزا ہے کہ گہنا پاتا جو کچھ اس کے ہاتھ گلے میں ہے، اُتار لو۔ اور ایک میانے میں چڑھا کر ایسے جنگل میں کہ جہاں نام و نشان آدمی آدم زاد کا نہ ہو، پھینک آؤ۔ دیکھیں اس کے نصیبوں میں کیا لکھا ہے۔
بموجب حکم بادشاہ کے اس آدھی رات میں کہ عین اندھیری تھی، ملکہ کو جو نرے بھونرے میں پلی تھیں اور سوائے اپنے محل کے دوسرے جگہ نہ دیکھی تھی، بھولی لے جا کر ایک میدان میں کہ وہاں پرندہ پر نہ مار سکتا، انسان کو تو کیا ذکر ہے، چھوڑ کر چلے آئے۔ ملکہ کے دل پر عجب حالت گزرتی تھی کہ ایک دم میں کیا تھا اور کیا ہو گیا؟ پھر اپنے خدا کی جناب میں شکر کرتیں اور کہتیں تو ایسا ہی بے نیاز ہے، جو چاہا سو ہو گیا۔ اور جو چاہتا ہے سو کرتا ہے اور جو چاہے گا سو کرے گا۔ جب تلک نتھنوں میں دم ہے، تجھ سے نا امید نہیں ہوتی۔ اسی اندیشے میں آنکھ لگ گئی۔ جس وقت صبح ہونے لگی ملکہ کی آنکھ کھُل گئی۔ پُکاریں کہ وضو کا پانی لانا۔ پھر ایک بارگی رات کی بات چیت یاد آئی کہ تو کہاں اور یہ بات کہاں؟ یہ کہہ کر اٹھ کر تیمّم کیا اور دوگانہ شکر کا پڑھا۔ اے عزیز، ملکہ کی اس حالت کے سننے سے چھاتی پھٹتی ہے۔ اس بھولے بھالے جی سے پوچھا چاہیے کہ کیا کہتا ہو گا۔
غرض اس میانے میں بیٹھی خدا سے لو لگائے رہتی تھیں۔ اور یہ کبت اس دم پڑھتی تھیں:
جب دانت نہ تھے تب دودھ دیو، جب دانت دیے کاہے ان نہ دے ہے
جو جل میں تھل میں پنچھی پس کی سدھ لیت، سو تیری بھی لے ہے
کاہے کو سوچ کرے من مورکھ، سوچ کرے کچھ ہاتھ نہ آئے ہے
جان کو دیت، اباجان کو دیت، جہاں کو دیت سو تو کو بھی دے ہے
سچ ہے جب کچھ بن نہیں آتا۔ تب خدا ہی یاد آتا ہے۔ نہیں تو اپنی اپنی تدبیر میں ہر ایک لقمان اور بو علی سینا ہے۔ اب خدا کے کارخانے کا تماشا سنو۔ اسی طرح تین دن رات صاف گذر گئے کہ ملکہ کے مُنہ میں ایک کھیل بھی اُڑ کر نہ گئ۔ وہ پھول سا بدن سوکھ کر کانٹا ہو گیا اور وہ رنگ جو کندن سا دمکتا تھا، ہلدی سا بن گیا۔ مُنہ میں پھپھڑی بندھ گئی، آنکھیں پتھرا گئیں، مگر ایک دم اٹک رہا تھا کہ وہ آتا جاتا تھا۔ جب تلک سانس تب تلک آس۔ چوتھے روز صبح کو ایک درویش، خضر کی سی صورت، نورانی چہرہ، روشن دل آ کر پیدا ہوا۔ ملکہ کو اس حالت میں دیکھ کر بولا اے بیٹی! اگرچہ تیرا باپ بادشاہ ہے لیکن تیری قسمت میں یہ بھی بدا تھا۔ اب اس فقیر بوڑھے کو اپنا خادم سمجھ اور اپنے پیدا کرنے والے کا رات دن دھیان رکھ۔ خدا خوب کرے گا۔ اور فقیر کے کشکول میں جو ٹکڑے بھیک کے موجود تھے، ملکہ کے روبرو رکھے اور پانی کی تلاش میں پھرنے لگا دیکھتے تو ایک کنواں تو ہے پر ڈول رسّی کہاں جس سے پانی بھرے؟ تھوڑے پتّے درخت سے توڑ کر دونا بنایا اور اپنی سیلی کھول کر اس میں باندھ کر نکالا اور ملکہ کو کچھ کھلایا پلایا۔ بارے ٹک ہوش آیا۔ اس مردِ خدا نے بےکس اور بےبس جان کو بہت سی تسلّی دی، خاطر جمع کی اور آپ بھی رونے لگا۔ ملکہ نے جب غم خواری اور دل داری اس کی بےحد دیکھی، تب ان کی رجا کو استقلال ہوا۔
اس روز اس پیر مرد نے یہ مقرّر کیا کہ صبح کو بھیک مانگنے نکل جاتا۔ جو ٹکرا پارچہ پاتا، ملکہ کے پاس لے آتا اور کھلاتا۔
اس طور سے تھوڑے روز گزرے۔ ایک روز ملکہ نے تیل سر میں ڈالنے اور کنگھی چوٹی کرنے کا قصد کیا۔ جوں ہی مباف کھولا، چٹلے میں سے ایک موتی کا دانہ گول آب دار نکل پڑا۔ ملکہ نے اس درویش کو دیا اور کہا کہ شہر میں اسے بیچ لاؤ۔ وہ فقیر اس گوہر کو بیچ کر اس کی قیمت بادشاہ زادی کے پاس لے آیا۔ تب ملکہ نے حکم کیا کہ ایک مکان موافق گزران کے اسی جگہ بنواؤ۔ فقیر نے کہا اے بیٹی! نیو دیوار کی کھود کر تھوڑی سی مٹی جمع کرو۔ ایک دم میں پانی لا کر گارا کر کر گھر کی بنیاد درست کر دوں گا۔ ملکہ نے اس کے کہنے سے مٹی کھودنی شروع کی۔ جب ایک گز عمیق گڑھا کھود گیا۔ زمین کے نیچے سے ایک دروازہ نمودار ہوا، ملکہ نے اس در کو صاف کیا۔ ایک بڑا گھر جواہر اور اشرفیوں سے معمور نظر آیا۔ ملکہ نے پانچ چار لب اشرفیوں کی لے کر پھر بند کر دیا، اور مٹی دے کر اوپر سے ہموار کر دیا۔
اتنے میں فقیر آیا، ملکہ نے فرمایا کہ راج اور معمار کاریگر اور اپنے کام کے استاد اور مزدور جلد بلاؤ جو اس مکان پر ایک عمارت بادشاہانہ کہ طاقِ کسریٰ کا جفت ہو، اور قصرِ نعمان سے سبقت لے جائے اور شہر پناہ اور قلعہ اور باغ اور باؤلی اور ایک مسافر خانہ کہ لاثانی ہو، جلد تیّار کریں، لیکن پہلے نقشہ ان کا ایک کاغذ پر دست کر کے حضور میں لاویں جو پسند کیا جائے۔ فقیر نے ایسے ہی کارکن، کارکردہ، ذی ہوش لا کر حاضر کیے، موافق فرمانے کے تعمیر عمارت کی ہونے لگی۔ اور نوکر چاکر ہر ایک کارخانہ جات کی خاطر چُن چُن کر فہمیدہ اور بادیانت ملازم ہونے لگے۔ اس عمارت عالیشان کی تیار کی خبر رفتہ رفتہ بادشاہ ظل سبحانی کو جو قبلہ ملکہ کے تھے، پہنچی۔ سن کر بہت متعجّب ہوئے اور ہر ایک سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے جس نے یہ محلات بنانے شروع کیے ہیں؟ اس کیفیت سے کوئی واقف نہ تھا جو عرض کرے۔ سبھوں نے کانوں پر ہاتھ رکھے کہ کوئی غلام نہیں جانتا کہ اس کا بانی کون ہے؟ تب بادشاہ نے ایک امیر کو بھیجا اور پیغام دیا کہ میں ان مکانوں کو دیکھنے آیا چاہتا ہوں۔ اور یہ بھی معلوم نہیں تم کہاں بادشاہ زادی ہو اور کس خاندان سے ہو؟ یہ سب کیفیّت دریافت کرنی اپنے تئیں منظور ہے۔ جوں ہی ملکہ نے یہ خوش خبری سنی، دل میں بہت شاد ہو کر عرضی لکھی کہ جہاں پناہ سلامت! حضور کے تشریف لانے کی خبر طرف غریب خانے کی سُن کر نہایت خوشی حاصل ہوئی۔ اور سبب حرمت اور عزّت اس کمترین کا ہوا۔ زہے طالع اس مکان کے! کہ جہاں قدم مبارک کا نشان پڑے، اور وہاں کے رہنے والوں پر دامن دولت سایہ کرے اور نظرِ توجّہ سے وہ دونوں سرفراز ہوویں۔ یہ لونڈی امیدوار ہے کہ کل روز پنج شنبہ مبارک ہے اور میرے نزدیک بہتر نوروز سے ہے۔ آپ کی ذات مشابہ آفتاب کے ہے، تشریف فرما کر اپنے نور سے اس ذرّہ بے مقدار کو قدر و منزلت بخشے۔ اور جو کچھ اس عاجزہ سے میسّر ہو سکے نوش جان فرمائیے۔ یہ عین ریب نوازی اور مسافر پروری ہے، زیادہ حد ادب، اور اس عمدہ کو بھی کچھ تواضع کر رخصت کیا۔
بادشاہ نے عرضی پڑھی اور کہلا بھیجا کہ ہم نے تمہاری دعوت قبول کی، البتّہ آویں گے۔ ملکہ نے نوکروں اور سب کاروباریوں کو حکم کیا کہ لوازمہ ضیافت کا ایسے سلیقے سے تیار ہو کہ بادشاہ دیکھ کر اور کھا کر بہتر محظوظ ہوں اور ادنیٰ اعلیٰ جو بادشاہ کے آویں سب کھا پی کر خوش ہو کر جاویں۔ ملکہ کے فرمانے اور تاکید کرنے سے سب قسم کے کھانے سلونے اور میٹھے ذائقے کے تیّار ہوئے کہ اگر برہمن کی بیٹی کھاتی تو کلمہ پڑھتی۔ جب شام ہوئی بادشاہ منڈے تخت پر سوار ہو کر ملکہ کے مکان کی طرف تشریف لائے۔ ملکہ اپنی جان خواص سہیلیوں کو لے کر استقبال کے واسطے چلیں۔ جوں بادشاہ کے تخت پر نظر پڑے اس آداب سے مجرا شاہانہ کیا کہ یہ قاعدہ دیکھ کر بادشاہ کو اور بھی حیرت نے لیا، اور اسی انداز سے جلوہ کر کر بادشاہ کو تخت مرصع پر لا بٹھایا۔ ملکہ نے سوا لاکھ روپے کا چبوترہ تیّار کروا رکھا تھا اور ایک سو ایک کشتی جواہر اور اشرفی اور پشمینہ اور نوبانی اور ریشمی طلابانی اور زردوزی کی لگا رکھی تھی، اور وہ زنجیر فیل اور دس راس اسپ عراق اور یمنی مرصع کے ساز سے تیّار کر رکھے تھے، نذر گزرانے اور آپ دونوں ہاتھ باندھے روبرو کھڑی رہیں۔ بادشاہ نے بہت مہربانی سے فرمایا کہ تم کس ملک کی شہزادی ہو اور یہاں کس صورت آنا ہوا؟
ملکہ نے آداب بجا کر التماس کیا کہ یہ لونڈی وہی گنہ گار ہے جو غضبِ سلطانی کے باعث جنگل میں پہنچی اور یہ سب تماشے خدا کے ہیں جو آپ دیکھتے ہیں۔ یہ سنتے ہی بادشاہ کے لہو نے جوش مارا۔ اُٹھ کر محبت سے گلے لگا لیا اور ہاتھ پکڑ کر اپنے تخت کے پاس کرسی بچھوا کر حکم بیٹھنے کا کیا، لیکن بادشاہ حیران اور متعجّب بیٹھے تھے، فرمایا کہ بادشاہ بیگم کو کہو کہ بادشاہ زادیوں کو اپنے ساتھ لے کر جلد آویں۔ جب وہ آئیں، ماں بہنوں نے پہچانا اور گلے مل کر روئیں اور شکر کیا۔ ملکہ نے اپنی والدہ اور چھیوں ہمشیروں کو روبرو اتنا کچھ نقد اور جواہر رکھا کہ خزانہ تمام عالم کا اس کے پاسنگ میں نہ چڑھے، پھر بادشاہ نے سب کو ساتھ بٹھا کر خاصہ نوش جان فرمایا۔ جب تلک جہاں پناہ جیتے رہے اسی طرح گزری۔ کبھو کبھو آپ آتے اور ملکہ کو بھی اپنے ساتھ محلوں میں لے جاتے۔
جب بادشاہ نے رحلت فرمائی اس اقلیم کی ملکہ کو پہنچی کہ ان کے سوا دوسرا کوئی لائق اس کے نہ تھا۔ اے عزیز سرگزشت یہ ہے جو تو نے سنی۔ دولت خداداد کو ہر گز زوال نہیں ہوتا، مگر آدمی کی نیّت درست چاہیے۔ بلکہ جتنی خرچ کرو، اس میں اتنی برکت ہوتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
باغ و بہار - صفحہ 192 تا 328

صفحہ 122 سے 131 تک

اتنی برکت ہوتی ہے۔ خدا کی قدرت میں تعجب کرنا کسی مذہب میں روا نہیں۔

دائی نے یہ بات کہہ کر آپ اگر قصد وہاں کے جانے کا اور اس خبر لانے کا دل میں مقرر رکھتے ہو تو جلد روانہ ہو۔ میں نے کہا اسی وقت میں جاتا ہوں اور خدا چاہے تو پھر آتا ہوں۔ آخر رخصت ہو کر اور فضل الٰہی پر نظر رکھ اس سمت کو چلا۔

برس دن کے عرصے میں ہرج مرج کھینچتا ہوا شہر نیمروز جا پہنچا۔ جتنے وہاں کے آدمی ہزاری اور بزاری نظر پڑے، سیاہ پوش تھے۔ جیسا احوال سنا تھا اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

کئی دن کی بعد چاند رات ہوئی۔ پہلی تاریخ، سارے لوگ اسی شہر کے چھوٹے بڑے لڑکے بالے، امرا، بادشاہ عورت مرد ایک میدان میں جمع ہوئے، میں بھی اپنی حالت میں حیران سرگردان اس کثرت کے ساتھ اپنے مال ملک سے جدا، فقیر کی صورت بنا ہوا کھڑا دیکھتا تھا کہ دیکھیئے پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔ اتنے میں ایک جوان گاؤ سوار منھ میں کف بھرے، جوش خروش کرتا ہوا جنگل میں سے باہر نکلا۔ یہ عاجز جو اتنی محنت کر کے اس کے احوال دریافت کرنے کی خاطر گیا تھا، دیکھتے ہی اسے حواس باختہ ہو کر حیران کھڑا رہ گیا۔ وہ جوان مرد قدیم قاعدے پر جو جو کام کرتا تھا، کر کر پھر گیا اور خلقت شہر کی طرف متوجہ ہوئی۔ جب مجھے ہوش آیا تب میں پچھتایا کہ یہ کیا تجھ سے حرکت ہوئی۔ اب مہینے بھر پھر راہ دیکھنی پڑی۔ لاچار سب کے ساتھ چلا آیا اور اس مہینے کو ماہ رمضان کی مانند ایک ایک دن گن کر کاٹا۔ بارے دوسری چاند رات آئی مجھے گویا عید ہوئی۔ غرے کو پھر بادشاہ خلقت سمیت وہیں آ کر اکٹھے ہوئے۔ تب میں نے دل میں مصمم ارادہ کیا کہ اب کے بار جو ہو سو ہو اپنے تئیں سنبھال کر اس ماجرائے عجیب کو معلوم کیا چاہیے۔

ناگاہ جوان بدستور زرد بیل پر زین باندھے سوار آ پہنچا، اور اتر کر دو زانو بیٹھا، ایک ہاتھ میں ننگی سیف اور ایک ہاتھ میں بیل ناتھ پکڑی اور مرتبان غلام کو دیا۔ غلام ہر ایک کو دکھا کر لے گیا۔ ایک آدمی دیکھ کر رونے لگا۔ اس جوان نے مرتبان پھوڑا، اور غلام کو ایک تلوار ایسی ماری کہ سر جدا ہو گیا اور آپ سوار ہو کر مڑا۔ میں اس کے پیچھے جلد قدم اٹھا کر چلنے لگا۔ شہر کے آدمیوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا یہ کیا کرتا ہے۔ کیوں جان بوجھ کر مرتا ہے؟ اگر ایسا ہی تیرا دم ناک میں آیا ہے تو بہتیری طرحیں مرنے کی ہیں۔ مر رہیو۔ ہر چند میں نے منت کی اور زور بھی کیا کہ کسو صورت سے ان کے ہاتھ سے چھوٹوں، چھٹکارا نہ ہوا۔ دو چار آدمی لپٹ گئے اور پکڑے ہوئے بستی کی طرف لے آئے۔ عجب طرح کا قلق پھر مہینے بھر گزرا۔ جب وہ بھی مہینہ تمام ہوا اور سلخ کا دن آیا۔ صبح کو اسی صورت سے عالم کا وہاں ازدحام ہوا۔ میں الگ سے نماز کے وقت اٹھ کر آگے ہی جنگل میں، جو عین اس طرح کی راہ پر تھا، گھس چھپ رہا کہ یہاں کوئی میرا مزاحم نہ ہو گا۔ وہ شخص اسی قاعدے سے آیا اور وہی حرکتیں کر کرا سوار ہوا اور چلا۔ میں نے اس کا پیچھا کیا اور دوڑتا دھوپتا ساتھ ہو لیا۔ اس عزیز نے آہٹ سے معلوم کیا کہ کوئی چلا آتا ہے۔ ایک بارگی باگ موڑ کر ایک نعرہ مارا اور گھڑکا۔ تلوار کھینچ کر میرے سر پر آ پہنچا۔ چاہتا تھا کہ حملہ کرئے۔ میں نے نہایت ادب سے مہر کر سلام کیا اور دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑا رہ گیا۔ وہ قاعدہ داں متکلم ہوا کہ اے فقیر تو ناحق مارا گیا ہوتا، پر بچ گیا۔ تیری حیات کچھ باقی ہے۔ جا کہاں آتا ہے؟ اور جڑاؤ خنجر موتیوں کا اور آویزہ لگا ہوا کمر سے نکال میرے آگے پھینکا اور کہا۔ اس وقت میرے پاس کچھ نقد موجود نہیں جو تھے دوں۔ اس کو بادشاہ کے پاس لے جا، جو تو مانگے گا ملے گا۔

ایسی ہیبت اور ایسا رعب اس کا مجھ پر غالب ہوا کہ نہ بولنے کی قدرت نہ چلنے کی طاقت۔ منہ میں گھگھی بندھ گئی پاؤں بھاری ہو گئے۔

اتنا کہہ کر وہ غازی جمرد نعرہ بھرتا ہوا چلا۔ میں نے دل میں کہا ہرچہ بادا باد۔ اب رہ جانا تیرے حق میں برا ہے۔ پھر ایسا وقت نہ ملے گا۔ اپنی جان سے ہاتھ دھو کر میں بھی روانہ ہوا۔ پھر وہ پھرا اور بڑے غصے سے ڈانٹا، اور مقرر ارادہ میرے قتل کا کیا، میں نے سر جھکا دیا اور سوگند دی کہ اے رستم وقت کے، ایسی ہی ایک سیف مار کے صاف دو ٹکڑے ہو جاؤں، ایک تسمہ باقی نہ رہے اور اس حیرانی اور تباہی سے چھوٹ جاؤں۔ میں نے اپنا خون معاف کیا؟ وہ بولا کہ اے شیطان کی صورت، کیوں اپنا خون ناحق میری گردن پر چڑھاتا ہے وہ مجھے گنہ گار بناتا ہے؟ جا اپنی راہ لے، کیا جان بھاری پڑی ہے؟ میں نے اس کا کہا نہ مانا اور قدم آگے دھرا پھر اس نے دیدہ و دانستہ آنا کانی دی اور میں پیچھے لگ لیا۔ جاتے جاتے دو کوس وہ جھاڑ جنگل طے کیا۔

ایک چار دیواری نظر آئی۔ وہ جوان دروازے پر گیا اور ایک نعرہ مہیب مارا۔ وہ در آپ سے آپ کھل گیا۔ وہ اندر بیٹھا۔ میں باہر کا باہر کھڑا رہ گیا۔ الٰہی اب کیا کروں، حیران تھا۔ بارے ایک دم کے بعد غلام آیا اور پیغام لایا کہ چل تجھے روبرو بلایا ہے۔ شاید تیرے سر پر اجل کا فرشتہ آیا ہے۔ کیا تجھے کم بختی لگی تھی۔ میں نے کہا زہے نصیب اور بے دھڑک اس کے ساتھ اندر باغ کے گیا۔

آخر مکان میں لے گیا جہاں وہ بیٹھا تھا۔ میں نے اسے دیکھ کر فراشی سلام کیا۔ اس نے اشارت بیٹھنے کی کی۔ میں ادب سے دو زانو بیٹھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ مرد اکیلا ایک مسند پر بیٹھا اور ہتھیار زرگری کے آگے دھرے ہیں۔ اور ایک جھاڑو مرد کا تیار کر چکا ہے۔ جب اس کے اٹھنے کا وقت آیا جتنے غلام اس شہ نشین کے گرد و پیش حاضر تھے، حجروں میں چھپ گئے۔ میں بھی مارے وسواس کے ایک کوٹھڑی میں جا گھسا، وہ جوان اٹھ کر سب مکان کی کنڈیاں چڑھا کر باغ کے کونے کی طرف چلا اور اپنی سواری کے بیل کو مارنے لگا۔ اس کے چلانے کی آواز میرے کانوں میں آئی۔ کلیجا کانپنے لگا لیکن ماجرے کی دریافت کرنے کی خاطر یہ سب آفتیں یہیں تھیں۔ ڈرتے ڈرتے دروازہ کھول کر ایک درخت کے تنے کی آڑ میں جا کر کھڑا ہوا اور دیکھنے لگا۔ جوان نے وہ سونٹا جس سے مارتا تھا۔ ہاتھ سے ڈال دیا اور ایک مکان کا قفل کنجی سے کھولا اور اندر گیا۔ پھر وونہیں باہر نکل کر نرگاؤ کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور منہ چوما اور دانہ گھاس کھلا کر ایدھر کو چلا۔ میں دیکھتے ہی جلد دوڑ کر پھر کوٹھڑی میں جا چھپا۔

اس جوان نے زنجیریں سب دروازوں کی کھول دیں۔ سارے غلام باہر نکلے۔ زیر انداز اور سپلچی، آفتابہ لے کر حاضر ہوئے۔ وہ وضو کر کر نماز کی خاطر کھڑا ہوا۔ جب نماز ادا کر چکا پکارا کہ وہ درویش کہاں ہے؟ اپنا نام سنتے ہی میں دوڑ کر روبرو جا کھڑا ہوا۔ فرمایا بیٹھ۔ میں تسلیم کر کر بیٹھا۔ خاصہ آیا اس نے تناول فرمایا مجھے بھی عنایت کیا۔ میں نے بھی کھایا۔ جب دسترخوان بڑھایا اور ہاتھ دھوائے، غلاموں کو رخصت دی کہ جا کر جو رہو۔ جب کوئی اس مکان میں نہ رہا، تب مجھ سے ہم کلام ہوا اور پوچھا کہ اے عزیز تجھ پر کیا ایسی آفت آئی ہے جو تو اپنی موت کو ڈھونڈھتا پھرتا ہے؟ میں نے اپنا احوال آغاز سے انجام تک جوکچھ گزرتا تھا، تفصیل وار بیان کیا اور کہا۔ آپ کی توجہ سے امید ہے کہ اپنی مراد کو پہنچوں۔

اس نے یہ سنتے ہی ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بے ہوش ہوا اور کہنے لگا بار خدایا عشق کے درد سے تیرے سوا کون واقف ہے۔ جس کی نہ پھٹی ہو، بوائی کیا جانے پیر پرائی۔ اس درد کی قدر درد مند ہو سو جانے۔

آفتوں کو عشق کی عاشق سے پوچھا چاہیے
کیا خبر فاسق کو ہے؟ صادق سے پوچھا چاہیے​

بعد ایک لمحے کے ہوش میں آ کر ایک آہ جگر سوز بھری، سارا مکان گونج گیا۔ تب مجھے یقین ہوا کہ یہ بھی اسی عشق کی بلا میں گرفتار اور اسی مرض کا بیمار ہے۔ تب تو میں نے دل چلا کر کہا میں انے اپنا احوال سب عرض کیا۔ آپ توجہ فرما کر اپنی سرگزشت سے بندے کو مطلع فرمائیے۔ توبہ مقدور اپنے پہلے تمہارے واسطے سعی کروں اور دل کا مطلب کوشش کر ہاتھ میں لاؤں۔

القصہ وہ عاشق صادق مجھ کو اپنا ہمراز اور ہمدرد جان کر اپنا ماجرا اور اس صورت سے بیان کرنے لگا کہ سن اے عزیز میں بادشاہ زاد جگر سوز اس اقلیم نیم روز کا ہوں۔ بادشاہ یعنی قبلہ گاہ نے میرے پیدا ہونے کے بعد بخوبی اور رمال اور پنڈت جمع کیئے اور فرمایا کہ احوال شہزادے کے طالعوں کا دیکھو اور جانچو، اور جنم پتری درست کرو اور جو جو کچھ ہونا ہے حقیقت پل پل گھڑی گھڑی اور پہر پہر، دن دن مہینے مہینے اور برس برس مفصل حضور میں عرض کرو۔ بموجب بادشاہ کے سب نے متفق ہو اپنے اپنے علم کی رو سے ٹھہرا اور سادھ کر التماس کیا۔ خدا کے فضل سے ایسی نیک ساعت اور شبھ لگن میں شہزادے کا تولد اور جنم ہوا ہے کہ چاہیے سکندر کی بادشاہت کرئے اور نوشیرواں سا عادل ہو اور جتنے علم اور ہنر ہیں، ان میں کامل ہو اور جس کام کی طرف دل اس کا مائل ہو، وہ بخوبی حاصل ہو۔ سخاوت شجاعت میں ایسا نام پیدا کرے کہ حاتم اور رستم کو لوگ بھول جاویں، لیکن چودہ برس تلک سورج اور چاند کے دیکھنے سے ایک بڑا خطرہ نظر آتا ہے بلکہ یہ وسواس ہے کہ جنونی اور سودائی ہو کر بہت آدمیوں کا خون کرے اور بستی سے گھبراوے، جنگل میں جاوے اور چرند پرند کے ساتھ دل بہلاوے، اس کا قید رہے کہ رات دن آفتاب ماہتاب کو نہ دیکھے، بلکہ آسمان کی طرف بھی نگاہ نہ کرنے پاوے، جو اتنی مدت خیر و عافیت سے کٹے تو پھر سارے عمر سکھ اور چین سے سلطنت کرے۔

یہ سن کر بادشاہ نے اس لیے اس باغ کی بنا ڈالی، اور مکان متعدد ہر ایک نقشے کے بنوائے۔ میری تئیں تہ خانے میں پلنے کا حکم کیا اور اوپر ایک برج نمدے کا تیار کروا دیا تو دھوپ اور چاندی اس مین سے چھنے۔ میں دائی دودھ پلائی اور انگاچھو اور کئی خواص کے ساتھ اس محافظت سے اس مکان عالی میں پرورش پانے لگا، اور ایک استاد دانا، کار آزمودہ واسطے میری تربیت کی متعین کیا تو تعلیم ہر علم اور ہنر کی اور مشق ہفت قلم لکھنے کی کرے اور جہاں پناہ ہمیشہ میری خبر گیراں رہتے۔ دم بہ دم کی کیفیت روز مرہ حضور میں عرض ہوتی۔ میں اس مکان ہی کو عالم دنیا جان کر کھلونوں اور رنگ بہ رنگ پھولوں سے کھیلا کرتا اور تمام جہان کی نعمتیں کھانے کے واسطے موجود رہتیں۔ جو چاہتا سو کھاتا۔ دس برس کی عمر تک جتنی صنعتیں اور قابلیتیں تھیں، تحصیل کیں۔

ایک روز اس گنبد کے نیچے روشن دان سے ایک پھول اچنبھے کا نظر پڑا کی دیکھتے دیکھتے بڑا ہوتا جاتا تھا۔ میں نے چاہا کہ ہاتھ سے پکڑ لوں۔ جوں جوں میں ہاتھ لمبا کرتا تھا وہ اونچا ہوتا جاتا تھا۔ میں حیران ہو کر اسے جاتا تک رہا تھا۔ وونہیں ایک آواز قہقہے کی میرے کان میں آئی۔ میں نے اس کے دیکھنے کو گردن اٹھائی دیکھا کہ نمدا چیر کر ایک مکھڑا چاند کا سا نکل رہا ہے۔ دیکھتے ہی اس کے میرے عقل و ہوش بجا نہ رہے۔ پھر اپنے تئیں سنبھال کر دیکھا تو ایک مرصع کا تخت پری زادوں کا کاندھے پر معلق کھڑا ہے اور ایک تخت نشین تاج و جواہر کا سر پر اور خلعت جھلا بور بدن میں پہنے، ہاتھ میں یاقوت کا پیالہ لئے اور ۔۔۔۔۔ (ختم شد صفحہ 131)۔
 
Top