حسان خان
لائبریرین
باغ بابر افغانستان میں کابل شہر کے مضافات میں واقع ایک تاریخی سیاحتی مقام ہے اور یہاں پہلے مغل بادشاہ بابر کا مقبرہ بھی واقع ہے۔ ان باغات کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 1528ء میں تعمیر کیے گئے جب شہنشاہ بابر نے کابل شہر کے لیے راہدری کے طور پر باغات تعمیر کرنے کا حکم جاری کیا۔ اس حکم اور تاریخ باغ بابر کا ذکر شہنشاہ بابر کی یاداشتوں پر مبنی تصنیف بابر نامہ میں بھی ملتا ہے۔
مغل شہزادوں کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں سیر و تفریح کے واسطے ایسے مقامات، باغات وغیرہ تعمیر کروایا کرتے تھے اور انھی مقامات میں سے کسی ایک مقام کو اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر بھی متعین کر دیا کرتے۔ باغ بابر، بابر کی وفات کے بعد بھی مغل شہنشاہوں کا پسندیدہ مقام رہا اور شہنشاہ جہانگیر نے یہاں 1607ء میں دورہ کیا اور حکم جاری کیا کہ کابل میں واقع تمام باغات کے اردگرد چار دیواری تعمیر ، شہنشاہ بابر کے مزار کے باہر مسجد کی تعمیر اور بابر کے مزار کے سر کی جانب تعارفی کتبہ نصب کیا جائے۔ 1638ء میں شہنشاہ شاہ جہاں نے یہاں دورے کے موقع پر مزار بابر کے ارد گرد سنگ مرمر کا احاطہ اور باغات کے باہر بالکونی کی جانب ایک مسجد تعمیر کروائی۔ اسی دورے کے بعد شہنشاہ کے حکم کے مطابق باغ بابر کے عین درمیان ایک فوارہ اور نہر تعمیر کی گئی جو کہ بالکونی کے باہر مسجد میں جا کر نمازیوں کے لیے وضو کے تالاب میں گرتی ہے۔
(بحوالہ ویکیپیڈیا)
مغل شہزادوں کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں سیر و تفریح کے واسطے ایسے مقامات، باغات وغیرہ تعمیر کروایا کرتے تھے اور انھی مقامات میں سے کسی ایک مقام کو اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر بھی متعین کر دیا کرتے۔ باغ بابر، بابر کی وفات کے بعد بھی مغل شہنشاہوں کا پسندیدہ مقام رہا اور شہنشاہ جہانگیر نے یہاں 1607ء میں دورہ کیا اور حکم جاری کیا کہ کابل میں واقع تمام باغات کے اردگرد چار دیواری تعمیر ، شہنشاہ بابر کے مزار کے باہر مسجد کی تعمیر اور بابر کے مزار کے سر کی جانب تعارفی کتبہ نصب کیا جائے۔ 1638ء میں شہنشاہ شاہ جہاں نے یہاں دورے کے موقع پر مزار بابر کے ارد گرد سنگ مرمر کا احاطہ اور باغات کے باہر بالکونی کی جانب ایک مسجد تعمیر کروائی۔ اسی دورے کے بعد شہنشاہ کے حکم کے مطابق باغ بابر کے عین درمیان ایک فوارہ اور نہر تعمیر کی گئی جو کہ بالکونی کے باہر مسجد میں جا کر نمازیوں کے لیے وضو کے تالاب میں گرتی ہے۔
(بحوالہ ویکیپیڈیا)