بارک اوباما اور عالم اسلام

بارک اوباما اور عالم اسلام......ثروت جمال اصمعی
بارک حسین اوباما اگر اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق دنیا میں واقعی مثبت اور خوشگوار تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو انہیں کیا کرنا ہوگا،اس کی ایک مختصر فہرست ممتاز برطانوی صحافی رابرٹ فسک نے یوں پیش کی ہے : ”اوباما کو گوانتامو کا عقوبت خانہ بند کرنا ہوگا۔ انہیں اپنے پیش رَو کے جرائم پر دنیا سے معافی مانگنے کا کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ اگرچہ یہ اس آدمی کے لیے آسان کام نہیں ہے جسے اپنے ملک کے حوالے سے لازماً فخر کا اظہار کرنا ہو۔تاہم جس ”تبدیلی“ کی وہ ملک کے اندر بات کررہے ہیں، اگرامریکاکی سرحدوں سے باہر بھی اسے کچھ بامعنی بنانا ہے تو بین الاقوامی سطح پر انہیں یہ معافی مانگنی ہوگی۔انہیں پوری” وار آن ٹیرر“ کو ازسرنو سوچنا اور اسے جڑ بنیاد سے اکھاڑ پھینکنا (deconstruct) ہوگا۔انہیں عراق سے نکلنا ہوگا۔ انہیں عراق میں دیوہیکل امریکی فضائی اڈوں اور چھ سو ملین کی لاگت سے بنائے جانے والے سفارت خانے کی تعمیر کو روکنا ہوگا۔ انہیں اُن خونی فضائی حملوں کو ختم کرنا ہوگا جن کے مرتکب ہم جنوبی افغانستان میں ہورہے ہیں۔آہ ، آخر ہم کیوں شادی کی تقریبات کو مقتل بناتے چلے آرہے ہیں؟․․․ اور انہیں اسرائیل کو یہ داخلی حقائق بتانے ہوں گے کہ امریکا اسرائیلی افواج کی درندگی اور عرب سرزمین پر صرف اور صرف یہودیوں کی آبادکاری پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔اوباما کو بالآخر اسرائیلی لابی کے مقابلے میں اٹھنا ہوگا(جو درحقیقت اسرائیل کی لیکود پارٹی کی لابی ہے) اور 2004 ء میں بش کی جانب سے مغربی کنارے کے اہم حصے پر اسرائیل کے دعوے کے تسلیم کیے جانے سے اظہار برأت کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں امریکی حکومت کو ایرانی حکام اور حماس کے ذمہ داروں سے بات کرنا ہوگی ۔ اوباما کو پاکستان اور شام پر حملے بند کرنے ہوں گے۔“
جارج بش اور ان کا ٹولہ مسلم دنیا میں اپنے استعماری ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جعلی نعرے کو جس بھونڈے پن سے استعمال کررہا ہے، رابرٹ فسک نے اس کی دونہایت دلچسپ مثالیں بھی اپنے حالیہ تجزیے میں دی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ”اس ہفتے واشنگٹن میں چھ الجزائریوں کے حبس بے جا کے مقدمے کی سماعت میں ان کادفاع کرنے والے امریکی وکیلوں کو نائن الیون کے بعد کی امریکی انٹلیجنس کے بارے میں کچھ انتہائی بھونڈی باتوں کا پتہ چلا۔امریکی جاسوسوں اور دنیا بھر میں ان کے معاونین کی لاکھوں ”کچی“ رپورٹوں میں سے بعض کے ذریعے سی آئی اے پر اس خطرے کا انکشاف ہوا کہ مشرق وسطیٰ میں جنوبی بحرالکاہل کے ایک جزیرے پر واقع امریکی بحریہ کے اڈے پر کامی کازی طرز کے فضائی حملے کا امکان ہے۔تاہم اس حوالے سے واحد مسئلہ یہ تھا کہ اس جزیرے پر نہ تو امریکی بحریہ کا کوئی اڈہ ہے اور نہ ساتویں امریکی بیڑے کا کوئی جنگی جہاز کبھی وہاں تک پہنچا ہے۔“ رابرٹ فسک کی دی ہوئی دوسری مثال اس سے بھی زیادہ پرلطف ہے۔ لکھتے ہیں ” اس سے پہلے ایک امریکی ملٹری انوسٹی گیشن ٹیم پوری سنجیدگی کے ساتھ یہ اطلاع دے چکی ہے کہ اسامہ بن لادن مشرقی ایشیا میں ایک امریکی ملٹری بیس پر ایک پوسٹ آفس میں خریداری کرتے پائے گئے ہیں۔“ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جاری امریکا کی یہ جعلی اور منافقانہ استعماری مہم، مغرب کے باخبر حلقوں کے نزدیک ٹھوس اسباب کی بناء پر جس قدر مضحکہ خیز حیثیت اختیار کرچکی ہے، رابرٹ فسک جیسے بہت سے حقیقت پسند اور بے لاگ تجزیہ کار مسلسل اس کی وضاحت کررہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا بارک اوباما مسلم دنیا میں امریکا کے استعماری عزائم کی تکمیل کے لیے جاری اس ظالمانہ کھیل کو بند کرسکیں گے؟ اوباما کا ایجنڈا بظاہر اس سے بالکل مختلف ہے۔ وہ عراق سے امریکی فوج کو اس لیے نکالنا چاہتے ہیں تاکہ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکا کے استعماری عزائم کی مزاحمت کرنے والے عناصر کو زیادہ قوت سے کچلنے کی کوشش کی جاسکے۔ وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اوباما کی یہ پالیسی القاعدہ کی قیادت کی خواہشات کے عین مطابق ہے۔ایسا نہ ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ نائن الیون کے سات سال بعد جب عالمی رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق دنیا بھر میں لوگ ان واقعات کو امریکا کا اپنا کھیل قرار دے رہے تھے، عین اس وقت القاعدہ کے رہنما مصطفی ابوالیزید عرف شیخ سعید باقاعدہ اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں خود امریکی محققین کی مسترد کردہ امریکی انتظامیہ کی ناقابل یقین سرکاری کہانی کی سو فی صد توثیق کرتے ہوئے دعویٰ کرتے کہ ٹریڈ ٹاورز اور پنٹاگون کی عمارتوں کو نشانہ بنانے والے القاعدہ کے انیس کارکن تھے۔ پھر ابھی اسی ہفتے اسلام آباد میں ڈنمارک کے سفارت خانے پر خود کش حملے کی ویڈیو اور حملہ آور کے بارے میں تفصیلات جاری کرکے بھی بظاہر دنیا کو یہی پیغام دیا گیا ہے کہ القاعدہ مغربی دنیا کے لیے آج بھی ایک بھرپور خطرہ ہے اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کو اس سے جنگ جاری رکھنی ہوگی۔
القاعدہ کی قیادت اس حکمت عملی سے جو کچھ حاصل کرنا چاہتی ہے وہ اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کے سنگلاخ پہاڑوں اور وادیوں میں ، جہاں تیس کھرب ڈالر پھونک دینے اور اپنی معیشتوں کو ایک مہلک بھونچال سے دوچار کرلینے کے باوجود یہ استعماری قوتیں اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکی ہیں، انہیں مزید الجھائے رکھا جائے تاکہ ان کی جنگی صلاحیت اور اقتصادی قوت دونوں کو مزید نقصان پہنچایا جاسکے۔ دوسری طرف بارک اوباما نے انتخابی فتح کے بعد پہلا عملی قدم ایک ایسے شخص کو اپنا چیف آف اسٹاف مقرر کرنے کی شکل میں اٹھایا ہے جسے اسرائیل کے معروف روزنامے معارف (Ma'ariv) نے ”وائٹ ہاوٴس میں ہمارا آدمی“ قرار دیا ہے۔ راہم ایمانوئیل نامی ان صاحب کے نومنتخب امریکی صدر کے چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے تقرر پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز امریکی صحافی اور دانشور الیگزینڈر کاک برن لکھتے ہیں :
”تبدیلی کا پہلا دھماکا راہم ایمانوئیل کے چیف آف اسٹاف اور دربان کے طور پر تقرر کی شکل میں گونجا ہے۔یہ وہ آدمی ہے جو نئے امریکی صدر کی تمام مصروفیات کے بارے میں طے کرے گا۔یہ تقرر یقینی طور پر اتنا ہی نامبارک اور منحوس(sinister) ہے جتنا 1977ء میں کارٹر کے دور میں تبدیلی کے دعووں کے ساتھ بننے والی ان کی انتظامیہ کی عین ابتداء میں قومی سلامتی کے مشیر کی حیثیت سے برزنسکی جیسے انتہائی سردمزاج جنگجو کا تقرر تھا۔“ ایما نوئیل کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے الیگزینڈر کاک برن بتاتے ہیں کہ”وہ ایک سابق اسرائیلی شہری ہیں۔انہوں نے 1991ء میں اسرائیل کے لیے رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دینے کی پیش کش کی اور وال اسٹریٹ میں بڑی چابکدستی سے دسیوں لاکھ بنائے۔ وہ لیکود پارٹی کے نظریات کے زبردست حامی (super-Likudnik hawk) ہیں۔ان کے والد 1940ء کی دہائی کے اواخر میں فلسطینیوں کے منظم اور سفاکانہ قتل عام کی ذمہ دار فاشسٹ تنظیم اِرگن میں شامل تھے۔ والد کا پر تعصب طرز فکر روزنامہ معارف میں ان کے اس حالیہ تبصرے میں یاد رکھنے کے لائق انداز میں جھلک رہا ہے کہ ”یہ بات واضح ہے کہ وہ (راہم) اسرائیل کی حمایت کے لیے صدر پر اثر انداز ہوگا ․․․ وہ آخر کیوں اثر انداز نہ ہو؟ وہ کیا ہے، کیا وہ کوئی عرب ہے؟ وہ وائٹ ہاوٴس کا فرش صاف کرنے کیلئے وہاں نہیں گیا ہے۔“
اوباما کے دور کی یہ ابتداء بتارہی ہے کہ مسلم دنیا میں جاری امریکا کی ریاستی دہشت گردی کے خاتمے اور اسرائیل کے مقابلے میں مسلمانوں کے جائز موقف کی حمایت کے حوالے سے ان سے کوئی اچھی امید نہیں رکھی جاسکتی ۔ خصوصاً افغانستان میں امریکا کے استعماری ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے وہ جن عزائم کا کھلا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں، ان کی بناء پر ہمارے خطے میں حالات میں کسی بہتری کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔ اوباماکی اسرائیل نوازی مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کو بھی ان سے کسی منصفانہ رویے کی امید نہ رکھنے کا پیغام دے رہی ہے۔ لہٰذا عالم اسلام کے لیے اپنی جنگ آپ لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔اس جنگ کا اصل محاذ ابلاغ کا میدان ہے۔مسلمانوں کا مقدمہ انتہائی مضبوط ہے۔ وہ دنیا میں کہیں جارح، ظالم اور غاصب نہیں ہیں۔ عراق، افغانستان، فلسطین، کشمیر، چیچنیا سمیت وہ ہر جگہ اپنے جائز حقوق کے لیے ان قوتوں کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں جنہوں نے ان کے حقوق علی الاعلان غصب کررکھے ہیں۔ عدل و انصاف کے ہر اصول اور بین الاقوامی قانون کی ہر شق کی رو سے یہ مزاحمت سو فی صد جائز اور برحق ہے۔ اس مزاحمت کو دہشت گردی قرار دینا استعماری قوتو ں کی گھناوٴنی چال ہے جو بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ آج دنیا میں خود مغربی قوتوں کی صفوں میں ایسے بہت سی نامور شخصیات موجود ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ٹھوس ثبوت و شواہد کی بنیاد پر برملا دھوکا اور فریب قرار دے رہی ہیں۔ ان کے تعاون سے مسلمان اپنا مقدمہ مغربی رائے عامہ کے سامنے پیش کریں تو مغربی پالیسی ساز لازماً اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے پر مجبور ہوں گے۔ جاپان ٹا ئمز کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے دنوں برطانیہ کے سابق وزیر ماحولیات مائیکل میجر نے جاپانی پارلیمنٹ کے رکن یوکی ہی سا فوتیجا کی جانب سے نائن الیون کے وہ حقائق دنیا کے لوگوں کے سامنے بڑے پیمانے پر لانے کے لیے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ خونی ڈراما خودا مریکی حکمرانوں نے مسلم دنیا میں اپنے استعماری مقاصد کے حصول کی راہ ہموار کرنے کے لیے رچایا تھا، عالمی سطح پر مہم چلانے کی ضرورت کا اظہار کیا تو مائیکل میجر نے کہا کہ ”بلیر جاچکے، بش جلد ہی جانے والے ہیں، ہمارا وقت آرہا ہے“۔ اور اب یہ وقت آچکا ہے۔ رابرٹ فسک، الیگزینڈر کاک برن، مائیکل میجر اور فوتیجا جیسے لوگ انتہائی قابل قدر ہیں۔ ان کے تعاون سے مسلمان میڈیا میں اور دانشور ابلاغ کے محاذ پر کام کرکے اور امریکی جنگ کا اصل چہرہ بے نقاب کرکے اس درندگی کے خاتمے کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ مسلم دنیا نیلسن منڈیلا کی اس بات کو اپنے لیے رہنما اصول بنالینا چاہیے کہ ہم نے اپنی جنگ اس لیے جیت لی کیونکہ ہم نے اپنا مقدمہ مغرب کی رائے عامہ کی عدالت میں پیش کیا جبکہ مسلمان اپنے ساتھ جاری نا انصافیوں کا خاتمہ کرانے میں اس لیے ناکام ہیں کیونکہ وہ اپنا مقدمہ مغرب کے حکمرانوں کے سامنے پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔

http://search.jang.com.pk/search_details.asp?nid=315222
 
Top