باجوہ ڈکٹرائین

گزشتہ کچھ دنوں سے ٹیلی میڈیا اور سوشل میڈیا کے کچھ حصوں پر ’باجوہ ڈکٹرائین‘ کے کافی چرچے ہیں۔ کچھ پرنٹ و ٹیلی میڈیائی حلقوں کے بقول جنرل قمر باجوہ نے چالیس کے لگ بھگ جانے مانےلیکن اپنے خاص صحافیوں کو جنرل ہیڈ کوارٹر میں مدعو کیا اور تقریباً تین سے چار گھنٹے اپنے آف دی ریکارڈ نظریات ان تک پہنچائے۔ سوشل میڈیا پر ان نظریات کو لیکر کچھ مخصوص ہائی کلاس حلقوں میں بحث مباحثہ بھی ہو رہا ہے، لیکن کوئی بھی کھل کر اس پر بات نہیں کر پا رہا۔ اکا دکا صحافیوں کی جانب سے اس کے حق میں کچھ کالمز وغیرہ بھی لکھے گئے ہیں جبکہ مخالفت میں بات صرف سوشل میڈیا تک ہی محدود ہے۔

ریاست کے بری سربراہ اور طاقت کے اصل منبع (بدقسمتی سے) کی جانب سے ریاست کے اندرونی و بیرونی معاملات کے لیے نئے نظریات کا اس طرح سے پرچار کرنا کہ سب متعلقین (stake holders) کو کان ہو جائیں، ایک بڑی خبر ہے۔ ہمارے ہاں کیونکہ کسی بھی موضوع پر سنجیدہ گفتگو کرنے (بشمول میرے) کا رواج دن بہ دن کم ہوتا جا رہا ہے تو باوجود چاہنے کے میں بھی اس موضوع پر اپنی گزارشات دل میں ہی دبائے بیٹھا ہوں کہ میرا ان سے کیا لینا دینا لیکن دوسری طرف یہ سوچ بھی ابھرتی ہے کہ اس ریاست کا ایک ادنیٰ سا ہی سہی لیکن ایک فرد تو میں بھی ہوں تو کیوں نا اس پر بات ہی کیجائے۔

سوشل و ٹیلی میڈیا سے اخذ کردہ اس ڈکٹرائین کے چند چیدہ چیدہ نکات کچھ یوں ہیں:-

  1. ضرورت پڑی تو ہم عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہونگے۔
  2. جہادی عناصر کسی صورت قابل قبول نہیں نا اب یہ متعلقہ رہے ہیں۔
  3. حکومت مناسب اقدامات کرتی تو ہم گرے لسٹ میں نا آتے۔
  4. اسحاق ڈار کے بارے میں کہا کہ He has been an Utter disaster for this country
  5. پارلیمنٹ کو پولیس ایکٹ 1861 اور اٹھارویں ترمیم کو واپس کرنا ہو گا تاکہ گورنس کو بہتر کیا جا سکے۔
  6. نیشنل ایکشن پلان پہ فوج نے عمل کیا ہے سویلین قیادت نے کچھ نہیں کیا ۔
  7. قومی مفاد کسی کے ذاتی مفاد سے زیادہ عزیز ہے اور سب کو اپنا اپنا کام اپنے دائرہ میں کرنا چاہئیے ۔
  8. سویلین قیادت اور جماعتوں کو اپنے کردار پہ نظر ڈالنی چاہئیے ہمیشہ ان لوگوں ( سیاست دانوں ) کی وجہ سے تیسری قوت کو دخل اندازی کا موقع ملا۔
  9. عدلیہ یا اس کے فیصلوں پہ تنقید کی کسی صورت اجازت نہیں دیں گے اگر عدلیہ پہ ایسے ہی تنقید ہوتی رہی تو ملک انارکی کی طرف جائے گا۔

فی الحال وقت کی قلت کے باعث میں ان نکات پر اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر رہا لیکن جلد ہی ان سب پر ایک رائے ضرور دوں گا۔ البتہ باقی احباب جو وقت نکال پائیں اور کسی ایک یا کچھ یا تمام نکات پر اپنا نقطہ نظر دینا چاہیں تو ان کا شکر گزار رہوں گا۔
 
ضرورت پڑی تو ہم عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہونگے۔
باجوہ صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی؟
حکومت مناسب اقدامات کرتی تو ہم گرے لسٹ میں نا آتے۔
گرے لسٹ کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہے پاکستان پہلے بھی رہا ہے اور اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا
پارلیمنٹ کو پولیس ایکٹ 1861 اور اٹھارویں ترمیم کو واپس کرنا ہو گا تاکہ گورنس کو بہتر کیا جا سکے۔
گورننس بہتر کرنے کے لئے اور بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے، سب سے پہلے تو صوبوں کی تعداد کو بڑھایا جائے پھر پولیس کے ادارے کو نئے سرے سے بنایا جائے۔
قومی مفاد کسی کے ذاتی مفاد سے زیادہ عزیز ہے اور سب کو اپنا اپنا کام اپنے دائرہ میں کرنا چاہئیے ۔
باجوہ صاحب سمیت؟
سویلین قیادت اور جماعتوں کو اپنے کردار پہ نظر ڈالنی چاہئیے ہمیشہ ان لوگوں ( سیاست دانوں ) کی وجہ سے تیسری قوت کو دخل اندازی کا موقع ملا۔
متفق ۔ جو ارکان پارلمنٹ بلوں کو پڑھے بغیر دستخط کردیتے ہوں اور اسمبلی کا اجلاس ان کی وجہ سے بار بار کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے خراب ہوجاتا ہو وہ کس منہ سے جمہوریت اور پارلیمان کی بالا دستی کی بات کرتے ہیں ؟
 
لیکن ابھی تک گڈ جہادی بیڈ جہادی کا پرانا سسٹم برقرار ہے۔
کسی نا کسی حد تک یہ ہمیشہ موجود رہے گا۔
لیکن اس سے زیادہ خطرناک کام ان مذہبی شدت پسندوں کو قومی سیاست میں آگے لانا ہے جو ریاست کے اندر کوئی مسلح کارروائی نہیں کرتے۔
 
سب سے پہلے تو مجھے حیرت ہے کہ فوج کے سربراہ کو ان تمام معاملات پر بولنے کی ضرورت کیا ہے؟ ان کا کام ریاست کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، وہ کریں اور بس۔ باقی تمام قضیے ان کے متعلقہ نہیں ہیں لیکن ان پر لب کشائی کا سیدھا سیدھا مطلب ہے کہ ریاست میں غیر اعلانیہ مارشل لا لگا دیا گیا ہے۔
ضرورت پڑی تو ہم عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہونگے۔
عوام کی ایک بڑی اکثریت کو پہلے شک تھا کہ بابا رحمتا کو عسکریوں کی آشیر باد حاصل ہے لیکن کیا اب ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ’بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے‘ !
جہادی عناصر کسی صورت قابل قبول نہیں نا اب یہ متعلقہ رہے ہیں۔
شاید اب بریلوی مکتبہ فکر کی باری ہے اور اس کے لیے خادم رضوی صاحب ہی کافی ہیں، جو حال ہی میں ایک کامیاب ٹیسٹ/ ٹرائل دے چکے ہیں۔
حکومت مناسب اقدامات کرتی تو ہم گرے لسٹ میں نا آتے۔
مناسب اقدامات کو فوج، اس کی حاشیہ بردار سیاسی جماعتوں اور میڈیا کے ایک بڑے حصے نے ڈان لیکس کا نام دے کر چھ ماہ تک ٹی وی سکرینوں پر چڑھائے رکھا۔ شاید باجوہ صاحب کا اشارہ ایسی باتوں سے اجتناب ہے جس میں ان کے ادارے کو اپنا رویہ اور طریقہ کار بدلنے کا مشورہ دیا گیا ہو۔
اسحاق ڈار کے بارے میں کہا کہ He has been an Utter disaster for this country
سبحان اللہ۔ اسحاق ڈار نے ملک کے ساتھ کونسا کھلواڑ کیا ہے ؟ زرمبادلہ کو ۲۲ ارب ڈالر تک شاید باجوہ صاحب کا ادارہ لے کر گیا تھا ؟

کیا خادم رضوی صاحب نے دارلحکومت پر حملہ اسحاق ڈار کے کہنے پر کیا ؟ ملی مسلم لیگ اسحاق ڈار نے بنائی ؟ احسان اللہ احسان کو سرکاری ریسٹ ہاؤس میں اسحاق ڈار نے اپنی مہمانداری میں رکھا ہوا تھا ؟ شاید سیاستدان سب سے آسان ہدف ہیں جو ہر قسم کا ملبہ ان پر ڈال دیا جائے ۔
پارلیمنٹ کو پولیس ایکٹ 1861 اور اٹھارویں ترمیم کو واپس کرنا ہو گا تاکہ گورنس کو بہتر کیا جا سکے۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اٹھارہویں ترمیم سے فوج کو کیا مسئلہ ہے ؟ کیا کچھ معاملات میں صوبائی خود مختاری دینا جرم ہے ؟ ان کے ایک سابقہ پیشرو تو خود مختاری اور طاقت کو ضلعی لیول تک لے گئے تھے اور ناظمین کا نظام اے سی اور ڈی سی والے سسٹم سے بدرجہا بہتر تھا لیکن یہ پھر سے سب کچھ سینٹرلائیزڈ کرنا چاہ رہے ہیں۔
نیشنل ایکشن پلان پہ فوج نے عمل کیا ہے سویلین قیادت نے کچھ نہیں کیا ۔
نیشنل ایکشن پلان جن کے لیے بنا تھا ان کے مائی باپ کون تھے ؟

جب حکومت فوج کو حکم دے کہ سول انتظامیہ سے دھرنے والوں کے مزاکرات کسی نہج پر نہیں پہنچ پا رہے۔ ریاست کے دارلحکومت اور اس سے ملحقہ علاقوں کے عوام تین ہفتوں سے شدید تکلیف میں ہیں اور فیض آباد کو بزور طاقت خالی کروایا جائے تو آگے سے فرمایا جاتا تھا کہ اپنے لوگوں پر طاقت کا استعمال کیسے کر سکتے ہیں ؟ اب سیاستدان یا سویلین قیادت ہتھیار یا بکتر بند گاڑیاں خود تو چلا کر نہیں لے جا سکتی۔ الٹا فوج دھرنے والوں سے معاہدوں کے ضامن بنی، انتشار پسندوں کو ہزار ہزار روپیہ دیا اور سویلین قیادت کو ان کی اوقات یاد دلائی۔
قومی مفاد کسی کے ذاتی مفاد سے زیادہ عزیز ہے اور سب کو اپنا اپنا کام اپنے دائرہ میں کرنا چاہئیے ۔
مجھے نہیں یاد پڑتا کہ پچھلے ۷۰ سال میں کبھی بھی سویلین قیادت نے فوجی معاملات یا عدلیہ کے معاملات میں ٹانگ اڑائی ہو۔ البتہ دوسری اطراف سے ایسا بارہا ہوچکا ہے تو بہتر ہوتا کہ باجوہ صاحب یہ تنبیہ اپنے ادارے یا عدلیہ کو دیتے۔
سویلین قیادت اور جماعتوں کو اپنے کردار پہ نظر ڈالنی چاہئیے ہمیشہ ان لوگوں ( سیاست دانوں ) کی وجہ سے تیسری قوت کو دخل اندازی کا موقع ملا۔
دور نا جائیے، سینٹ الیکشنز سے پہلے جو کچھ بلوچستان میں کروایا گیا وہ کس کے کردار کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ؟
عدلیہ یا اس کے فیصلوں پہ تنقید کی کسی صورت اجازت نہیں دیں گے اگر عدلیہ پہ ایسے ہی تنقید ہوتی رہی تو ملک انارکی کی طرف جائے گا۔
فوج کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ کسی اور ادارے پر ہوئی تنقید پر ایسا دھمکی آمیز بیان دے؟ کیا عدلیہ کا فوج کے ساتھ کوئی گٹھ جوڑ ہے ؟ کیا سپریم کورٹ کے ججوں نے فوج کو اپروچ کیا اور کہا کہ ہمارے پر تنقید بند کراؤ ؟


خیر اس قبائلی اور مغرور قسم کی سوچ سے چھٹکارا پانا اتنا آسان نہیں، صدیاں بیت جاتی ہیں، تب جا کر قوموں میں موجود ایسے بے لگام صیغے سدھرتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں ہم پاکستانی بحیثیت قوم سویلین سپرمیسی کی طرف کچھوے سے بھی کم رفتار سے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن مجھے امید ہے کہ دیر سے ہی سہی لیکن ہم اس خواب کی تکمیل ہوتے ضرور دیکھیں گے۔
 

یاز

محفلین
ترکی میں دیکھ لیا گیا ہے نا جہاں چند سال پہلے تک استنبول شہر کے سینٹری ورکر بهی فوج کے جنرلز تعینات کیا کرتے تهے... ہم ترکوں جیسے نا سہی لیکن سویلین بالادستی ضرور حاصل کر لیں گے.
ترکی سے تقابل ممکن نہیں۔ نیز یہ کہ چند سال پہلے تک بھی ترکی میں ویسا نہیں تھا، جیسا ہمارے ہاں دعویٰ کیا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
پاکستانی عوام جن سیاست دانوں سے بدظن ہیں، ان میں سے اکثر و بیشتر سلسلہء اسٹیبلشیہ کے بیعت یافتہ رہے ہیں، یعنی کہ یہ سیاست دان ان کے ہی 'عنایت کردہ' ہیں۔ مزید یہ کہ، ان میں سے جنہوں نے ذرا پر پُرزے نکالے، انہیں فوری طور پر کھیل سے باہر نکال دیا گیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حالات کا تیزی سے بدلنا کافی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ تاہم، اتنا ضرور ہے کہ اگر ایک فریق کو اک ذرا زیادہ 'آنچ' لگائی گئی تو معاملات مزید بگڑ جائیں گے۔ اس کے بعد وہی ہو گا کہ جانا سول اور فوجی قیادت کا جدہ اور واشنگٹن، وغیرہ وغیرہ!
 

شاہد شاہ

محفلین
سب سے پہلے تو مجھے حیرت ہے کہ فوج کے سربراہ کو ان تمام معاملات پر بولنے کی ضرورت کیا ہے؟
جب بھاری مینڈیٹ سے منتخب شدہ حکومت ان مسائل پر افواج کو آن بورڈ نہیں لے گی تو ایسے ہی ہوگا۔ اسمیں حیرت کی کیا بات ہے؟ کیا فوج ملک کی بگڑتی معاشی صورت حال پر خاموش رہے؟ خاص کر جب اس سے ملک کی دفاعی و عسکری طاقت پر اثر پڑ رہا ہوں۔
 
آخری تدوین:

شاہد شاہ

محفلین
عوام کی ایک بڑی اکثریت کو پہلے شک تھا کہ بابا رحمتا کو عسکریوں کی آشیر باد حاصل ہے لیکن کیا اب ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ’بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے‘ !
جب منتخب حکومت خود مختلف خطرات کے تحت عدلیہ کو بچانے کیلئے افواج کو طلب کر لیتی ہے، تب یہ بلی تھیلے سے باہر کیوں نہیں آتی؟ نا اہل شریف ماضی میں اپنے غنڈوں کو لیکر عدلیہ پر حملے کر چکے ہیں۔ ان خطرات کے پیش نظر افواج کا عدلیہ کو تحفظ دینا کوئی حیرت کی بات نہیں۔
 

شاہد شاہ

محفلین
شاید اب بریلوی مکتبہ فکر کی باری ہے اور اس کے لیے خادم رضوی صاحب ہی کافی ہیں، جو حال ہی میں ایک کامیاب ٹیسٹ/ ٹرائل دے چکے ہیں۔
انسداد دہشت گرد عدالت کی طرف سے انکے خلاف وارنٹ گرفتاری نکل چکے ہیں۔ افواج انکو بچائے گی؟
 

شاہد شاہ

محفلین

شاہد شاہ

محفلین
فیض آباد کو بزور طاقت خالی کروایا جائے تو آگے سے فرمایا جاتا تھا کہ اپنے لوگوں پر طاقت کا استعمال کیسے کر سکتے ہیں ؟
تاریخ سے سبق سیکھیں۔ مشرف نے یہی کام جامعہ حفصہ کے جہادیوں کیخلاف کیا تھا۔ جسکے بعد عوامی رد عمل جہادیوں کے حق میں شفٹ ہو گیا۔ فوج یہی غلطی دوبارہ کیوں دہراتی؟
 

شاہد شاہ

محفلین

شاہد شاہ

محفلین
فوج کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ کسی اور ادارے پر ہوئی تنقید پر ایسا دھمکی آمیز بیان دے؟
اداروں پر کوئی تنقید نہیں ہورہی۔ ان ججوں پر ہو رہی ہے جنہوں نے نواز شریف کو نااہل شریف کیا۔ یہی کام وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کیساتھ بھی کیا گیا تھا۔ اسوقت نا اہل شریف نےانہیں عدلیہ کا فیصلہ نہ ماننے پر کھری کھری سنائی تھی۔ آج خودو ہی حرکتیں کر رہے ہیں:
 

عباس اعوان

محفلین
سبحان اللہ۔ اسحاق ڈار نے ملک کے ساتھ کونسا کھلواڑ کیا ہے ؟ زرمبادلہ کو ۲۲ ارب ڈالر تک شاید باجوہ صاحب کا ادارہ لے کر گیا تھا ؟
اس سے وہ ایک کہانی یاد آتی ہے جو کہیں پڑھی تھی:
باپ کے چارپائی پڑنے کے بعد، ایک بندے پر گھر کی ذمہ داری پڑی۔ اس نے ماں کا سارا زیور بنک میں گروی رکھوایا، قرضہ لیا، گھر میں پینٹ کروایا، نئی چمچماتی موٹر سائیکل نکلوائی اور لوگوں سے کہتا پھرا "بس جی اللہ نے ہتھ پھڑ لیا اے"۔
 
Top