بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی

قمراحمد

محفلین
بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی
مشرف کا احتساب:دیوانے کا خواب

اعجاز مہر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

پاکستان میں بہت سارے لوگوں کو پہلے ہی شبہہ تھا کہ آئین توڑنے کے الزام میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف نہ تو بغاوت کا مقدمہ چلےگا اور نہ ہی انہیں کوئی سزا ملے گی۔ لیکن سعودی عرب کے بادشاہ شاہ عبداللہ کی پرویز مشرف، میاں نواز شریف اور رحمٰن ملک سے ہونے والی حالیہ ملاقاتوں کے بعد یہ یقین ہوگیا ہے کہ سابق صدر کا احتساب اب دیوانے کا خواب بن گیا ہے۔

جن لوگوں کو سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف کارروائی نہ ہونے کا شبہہ تھا ان کی دلیل یہ تھی کہ پاکستان میں دکھاوے کا حکمران کوئی بھی ہو لیکن اصل حکمرانی ’سیکیورٹی ایسٹیبلشمینٹ‘ کی ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ’سیکورٹی سٹیٹ‘ میں فوج کے سابق سربراہ کے خلاف اتنا بڑا مقدمہ بنے؟

090914140029_musharraf.jpg

سابق صدر نے ایکسپریس ٹی وی کو انٹرویو میں صاف صاف کہا کہ انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا

یہ پاکستان جیسے کئی ممالک کا المیہ ہے کہ وہاں ’قومی سلامتی‘ کی آڑ میں سیاہ و سفید کی مالک قوتوں کے اعلٰی افسر تو کجا ان کے کسی جونیئر افسر کے خلاف بھی سرکاری فرائض کے سلسلے میں ان کے خلاف مقدمہ چلے یا انہیں سزا ملے۔

آپ ’مڈنائٹ جیکالز‘ کو ہی دیکھ لیجئے کہ آج بھی سینہ ٹھوک کر کہتے ہیں کہ ’میں نے فلاں کو پیسہ دیا اور فلاں سے یہ کام کروایا‘۔ برگیڈیئر (ر) امتیاز عرف بِلا ہوں یا میجر ریٹائرڈ عامر، جو کچھ وہ اقرار کرچکے ہیں بھلا ان سے کسی نے پوچھا کہ یہ سب کچھ کیوں کیا یا اس میں کون سا قومی مفاد چھپا ہوا تھا؟۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایک نئی کہاوت زباں زد عام ہورہی کہ ’ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی پر تو سزا ملے گی لیکن آئین توڑنے والوں کو سلامی ملے گی‘۔

جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بنانے کی بات چلی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک طوفان اٹھا تو صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے وزیر داخلہ رحمٰن ملک کو راتوں رات اپنا خصوصی ایلچی بنا کر سعودی عرب روانہ کیا اور اگلے ہی روز بادشاہ سلامت نے لندن سے اپنے شاہی طیارے میں سابق صدر پرویز مشرف کو بھی بلا لیا۔ ان کی ملاقات کے بعد یہ خبریں بھی شائع ہوئیں کہ بادشاہ سلامت نے پرویز مشرف سے کہا ہے کہ وہ پاکستانی قوم سے معافی مانگیں اور سیاسی معاملات کے متعلق اپنی زبان بند رکھیں۔

090914141006_mush_1.jpg

’حکمران کوئی بھی ہو لیکن اصل حکمرانی ’سیکیورٹی سٹیبلشمینٹ‘ کی ہے‘

لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی خبریں آئیں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ بادشاہ سلامت نے تو پرویز مشرف کو یقین دلایا ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ ایسی متضاد خبروں کی وجہ سے جو گو مگو والی صورتحال پیدا ہوئی وہ میاں نواز شریف کی شاہ عبداللہ سے ہونے والی ملاقات اور پرویز مشرف کے ایکسپریس ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو سے واضح ہوگئی۔

سابق صدر نے انٹرویو میں صاف صاف کہا کہ انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ ’مجھے شاہ عبداللہ نے بھائی کہا ہے اور یہ یقین دلایا ہے کہ میاں نواز شریف میرے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ نہیں کریں گے‘۔ پرویز مشرف کے اس دعوے کی تاحال مسلم لیگ (ن) نے کوئی تردید نہیں کی۔ میاں نواز شریف کی اپنے صاحبزادے حسین نواز اور سمدھی اسحاق ڈار کے ہمراہ بادشاہ سلامت سے جو ملاقات ہوئی اس میں جو بھی بات چیت ہوئی اس کا علم تو انہیں ہی ہوگا۔

لیکن پرویز مشرف اور میاں نواز شریف سے ہونے والی ملاقات اور دونوں کو ملنے والے پروٹوکول کو اگر دیکھا جائے تو بظاہر پرویز مشرف کے دعوے کو تقویت ملتی ہے۔ پرویز مشرف کو لندن سے لانے کے لیے شاہی طیارہ بھیجا گیا اور چار گھنٹے کی طویل ملاقات ہوئی۔ جبکہ میاں صاحب کی ایک ہفتے تک سعودی عرب میں موجودگی کے باوجود ملاقات نہ ہونے پر ان کے ترجمان پرویز رشید نے پہلے کہا کہ یہ ان کا ’عبادتی دورہ‘ ہے اور میاں صاحب ہر سال اہل خانہ کے ہمراہ رمضان کے آخرے عشرے میں وہاں جاتے ہیں۔

جب ملاقات ہوئی تو ترجمان نے کہا کہ اس میں پاکستان کے سیاسی امور یا پرویز مشرف کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ ان کی ملکی اور علاقائی سلامتی کے امور پر بات ہوئی ہے۔ ان کا یہ بیان سن کر مجھے کراچی کے وہ ملباری ہوٹل یاد آئے جن کی دیواروں پر لکھا ہوتا ہے کہ ’یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے’۔ نصف شب کو ایک گھنٹے کی ملاقات جس میں نصف گھنٹہ عربی ترجمان کا نکالیں تو باقی نصف گھنٹہ اور اس میں بھی عافیت کا حصہ نکالیں تو باقی بچنے والے وقت میں تو صرف چند کلمات ہی بچتے ہیں۔ پتہ نہیں اس میں نصیحت تھی یا فرمائش، گزارش تھی یا کچھ اور۔

بحرحال میاں نواز شریف کی بادشاہ سلامت سے ہونے والی ملاقات کے بعد پرویز مشرف کا احتساب ممکن نہیں کیونکہ اس سارے تماشے میں اس بات کی بھی تقریباً تصدیق ہوگئی کہ موجودہ حکمرانوں نے عوامی طاقت کے بل بوتے پر پرویز مشرف کو نہیں نکالا بلکہ انہیں ان سے ایک اور ’ڈیل‘ کرنی پڑی اور اس نئے معاہدے کے ضامن بھی بظاہر سعودی عرب، امریکہ اور برطانیہ ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اس سارے تماشے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پاکستان اور اس کے کرتا دھرتا چاہے وہ سکرین پر ہوں یا پردے کے پیچھے وہ کتنے آزاد ہیں۔!!

پرویز مشرف کے احتساب کے معاملے میں سپریم کورٹ پہلے ہی گیند پارلیمان میں پھینک چکی ہے۔ کیونکہ اسے پتہ تھا کہ اگر پرویز مشرف کے آئین توڑنے کی بات چِھڑی تو وہ تین نومبر سنہ دو ہزار سات کے اقدامات تک نہیں رُکے گی بلکہ بات نکلے گی تو بارہ اکتوبر سنہ انیس سو ننانوے تک جائے گی۔
 
Top