بات مولوی مدن کی

مولوی اور داڑھی لازم و ملزوم ہیں۔ ہر مولوی داڑھی والا ضرور ہوتا ہے حالانکہ ہر داڑھی والا مولوی نہیں ہوتا۔ مثلاً سکھ اور شیخ صاحب داڑھی ہونے کے باوجود مولوی نہیں ہوتے کیوں کہ :

بڑھائی شیخ نے داڑھی، گرچہ سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی

مولوی مدن ہوں یا مولوی عبد القدوس، ہمیں تو بس ایک عدد مولوی درکار ہے، جس پر خاکہ لکھا جا سکے یا بالفاظ دیگر خاکہ اڑایا جا سکے۔ مولوی اور حلوہ دونوں ایک دوسرے کی وجہ شہرت ہیں۔ مشہور ہے کہ ایک مولوی صاحب کسی کے گھر اس کے بچے کو قائدہ پڑھاتے ہوئے بولے : ح سے حلوہ۔۔ ہلوہ نہیں حلوہ۔۔ آواز حلق سے نکالو۔۔۔ حلوہ۔۔۔ اندر زنان خانے سے آواز آئی، مولبی صاب، اب بچے کے حلق سے تو حلوہ نہ نکالو۔ میں آپ کے لئے اور حلوہ بھجواتی ہوں۔

کبھی مولوی علم و فضل کی شان سمجھا جاتا تھا۔ آج کل یہ محض مولانا فضل الرحمن گردانا جاتا ہے۔ یہ پروفیشنلزم کا دور ہے۔ اس دور میں مولوی وہ واحد پروفیشنل ہے۔ جو بہت کم پیسوں میں تیار ہو جاتا ہے۔ البتہ ایک مولوی کو مارنے پر بڑا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ شنید ہے کہ ایک ایک مولوی کو مارنے کے لئے لاکھوں روپے کی سپاری دی جاتی ہے۔ مولوی جب زیر تربیت ہوتا ہے تو پیسے پیسے کو محتاج ہوتا ہے لیکن جب یہ کسی مسجد مکتب کی بنیاد رکھتا ہے تو اس پر پیسہ ہن کی طرح برسنے لگتا ہے۔اور پھر جب یہ پیسوں سے بے نیاز ہو کر اپنے اصل کام کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو یار لوگ پیسہ خرچ کر کے اسے خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ اگر ایک مولوی کو مارو تو دس مولوی اور پیدا ہو جاتے ہیں۔ مولوی کے دشمن کتنے احمق ہیں کہ ایک مولوی کو مار کر دس مولوی بھی پیدا کرتے ہیں، اپنی عاقبت بھی خراب کرتے ہیں اور مولوی کو مفت میں شہادت کی سعادت سے بھی نواز دیتے ہیں۔

ہمارے ہاں کی ریت ہے کہ جب کوئی ناکارہ طالب علم کچھ نہ بن پائے تو استاد بن جاتا ہے کہ : روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر ع، اسی طرح جب کوئی اولاد کسی قابل نظر نہ آئے تو والدین اسے مولوی بنانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تاکہ یہ ازخود کچھ کھا کما سکے۔ حالانکہ تربیتی مدارس میں اسے کھانے کو برائے نام ہی ملتا ہے لیکن جب مولوی اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاتا ہے تو کھانا اس کی کمزوری بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولوی کی صحت کبھی کمزور نہیں ہوتی ۔ وہ کھانے کے بعد میٹھا کھانا کبھی نہیں بھولتا، نتیجہ کے طور پر خوب پھلتا پھولتا ہے۔ ایک اچھا مولوی کھانے کے ذکر سے کبھی بدمزہ نہیں ہوتا حتیٰ کہ گالیاں کھا کر بھی بدمزہ نہیں ہوتا۔
ہمارے معاشرے میں جتنی گالی مولویوں کو دی جاتی ہے اتنی تو شاید شیطان کو بھی نہی دیجاتی۔ مولوی بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں۔ ان کا جینا اور مرنا سب کھانے سے منسلک ہوتا ہے۔ یعنی حلوہ اور گالی کھا کر جیتے ہیں تو گولی کھا کر مرتے ہیں۔ مولوی ہمارے معاشرے کے لئے بڑی رحمت ہیں۔ ناکارہ اولاد کو کھپانا ہو تو مولوی بنا دو۔ کھانا فالتو ہو تو مولوی کی دعوت کر دو۔ جب کوئی خوف تنگ کرنے لگے تو صدقہ و خیرات کے نام پر مولوی اور اس کے اداروں کو نواز دو۔ لیکن جب یہی مولوی ہم سے دین کے راستے پر چلنے کا تقاضہ کرنے لگے تو ہم انہیں گالیاں دینے لگتے ہیں اور مولوی کا اسلام نامنظور کا نعرہ لگاتے ہیں۔ حالانکہ ان بے چاروں کے پاس اتنی صلاحیت کہاں ہوتی ہے کہ اپنا دین وضع کر سکیں۔ یہ تو بس قال اللہ اور قال رسول اللہ ﷺ کے سہارے گذارہ کرتے ہیں۔ ذرا سوچیں اگر یہ مولوی نہ ہوتے تو کیا ہم نعوذ باللہ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو گالیاں دیتے۔ مولوی لاکھ برا سہی لیکن وہ بلاتا تو ہمیں شریعت ہی کی طرف ہے۔

ہم مولوی کے اتنے ہی محتاج ہیں جتنا کہ مولوی ہمارا۔ بچے کی پیدائش کی خوشخبری سنتے ہی ہم لڈو کے ساتھ ایک عدد مولوی کا بھی آرڈر دے دیتے ہیں تاکہ بچے کے کان میں اذان تو دی جا سکے، ہم تو اس کے بھی اہل نہیں۔ کسی مولوی کی مدد کے بغیر دلہا، سیج تک اور مردہ اپنی قبر تک نہیں پہنچ سکتا کہ نکاح اور جنازہ پڑھانا صرف ایک مولوی ہی کو آتا ہے۔ اور تو اور صدر مملکت کی تقریر ہو یا ناچ گانے کا ثقافتی پروگرام، افتتاحی تقریب میں تلاوت کلام پاک کے لئے کسی مولوی ہی کو ڈھونڈا جاتا ہے تاکہ فرمان خداوندی کو ادا کرنے کا ذمہ دار بھی مولوی ہی قرار پائے اور ہم اس سے مطلقاً بری الذمہ ہوں۔ یا اللہ اگر ہمارے درمیان مولوی نہ ہوتا ہمارا کیا حشر ہوتا۔ ہم کیسے پیدا ہوتے اور کیسے مرتے۔ کیا ہمارا آغاز و انجام بھی، ہماری زندگی کے بقیہ عرصہ حیات کی طرح ملحدانہ ہی ہوتا۔ شکر ہے کہ ابھی ہمارے معاشرے میں مولوی کی نعمت موجود ہے۔ شکریہ مولوی صاحب بہت بہت شکریہ۔
 
Top