بات تو سچ ہے مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔(صبیح الحسن)

sentinel

محفلین

بات تو سچ ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (صبیح الحسن)

یوں تو ڈان کے پیچھے گیارہ ملکوں کی پولیس ہے لیکن جتنے بندے ہمارے پیچھے جوتا لیے ہوتے ہیں اتنے اگر ڈان کے پیچھے ہوتے تو ڈان بھی اب تک گوتم بدھ بن چکا ہوتا۔ گاؤں میں ہمارا گروپ ننھا گروپ کے نام سے مشہور تھا۔ وجہ تسمیہ تھی ہمارے ہر دلعزیز لیڈر ننھے میاں۔ جو ایک اعلیٰ درجہ کے ڈکٹیٹر اور منتظم تھے۔ ان کی گروپ کے لیے شاندا رخدمات کی بدولت ہم عموماً ہر ہفتہ اور بسا اوقات روزانہ جوتا پریڈ سے لطف اندوز ہوتے۔ اسی لیے گروپ کی ایک ذیلی کمیٹی کو ایسے حالات میں ابا اور دادا کے جوتے چھپانے کاکام دیا گیا تھا۔ننھے میاں کے علاوہ ہمارے گروپ میں سکنٹو ، ماٹو، ٹلو خان اور مابدولت خود تھے جو ننھے میاں کے نائب سمجھے جاتے تھے اور ان کی غیر موجودگی میں گروپ کی اعلیٰ روایات کی پاسداری کا بوجھ بھی میرے ہی کندھوں پر آ گرتا تھا۔
یوں تو ہم اکثر ہی کسی نہ کسی سے خار کھائے رہتے لیکن آجکل ہماری اور ہمارے گروپ کی مشترکہ پریشانی ہماری پیدائشی دشمن فوزیہ بیگم المعروف پچھل پیری کی شادی نہ ہونا تھا۔ ہماری زیادہ تر عزت افزائی کے پیچھے فوزیہ بیگم کا ہی ہاتھ ہوتا تھا۔ اس سے پیچھا چھڑانے کی کئی ناکام کوششوں کے بعد یہ طے ہوا کہ اب شادی خانہ بربادی ہی اس مسئلے کا حل ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی خدا نے ہماری سن لی۔ پتہ چلا کہ فوزی کا رشتہ آیا ہے اور متوقع سسرال والے آجکل میں ہی تاریخ پکی کرنے آنے والے ہیں۔ ہم ابھی پوری طرح خوش بھی نہ ہو پائے تھے کہ ایک خبر ہم پر بم بن کر گری کہ ابا حضور ہماری پیاری گائے ریما کو بمع لختِ جگر بیچنے کا اردہ کر چکے ہیں۔ لہٰذا فوزی بیگم کے مسئلے کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ہمارے گروپ کی سیکورٹی کونسل نے ریما بچاؤ قرارداد پاس کی۔ طے پایا کہ بیٹھک میں چل کر خریداروں کو کسی طرح بدظن کر کے بھگایا جائے۔
لہٰذا ہم سب فوراً بیٹھک میں پہنچے ۔ دیکھا تو چند ادھیڑ عمر لوگ اباجی اور فوزی کے ابا کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ ہم بھی سلام کر کے ادب کے ساتھ بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد اباجی فوزی کے والد صاحب کے ساتھ اٹھ کر باہر چلے گئے اور جاتے جاتے ہمیں مہمانوں کا خیال رکھنے کا کہہ گئے۔ ہمارے ہاتھ تو موقع آ گیا۔
ذرا دیر کے بعد ننھے میاں نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور بولے۔
’’چاچاجی! معاملہ طے ہو گیا؟‘‘
’’ ہاں پتر بس بات پکی سمجھو۔‘‘ چاچا جی نے جواب دیا۔
یہ سن کر ہمارے کان کھڑے ہو گئے۔ اب میں نے ہمت جٹا کر کہا۔
’’ چاچا جی آپ نے معاملہ تو طے کر لیا لیکن شاید کچھ باتیں آپ کے علم میں نہیں۔‘‘
چاچاجی یہ سن کر ذرا پریشان ہوئے اور بولے۔
’’پتر کونسی باتیں؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’ بس چاچاجی ۔ ہیں کچھ ایسی باتیں جوگھر ولے آپ کو بتانا نہیں چاہتے لیکن ہم بچے جھوٹ نہیں بولتے۔‘‘
یہ سن کر سب لوگوں کے چہرے پر پریشانی کے آثار پیدا ہوگئے اور سب لوگ پوچھنے لگے کہ ایسی کونسی بات ہے۔
پہلے تو ہم انکار کرتے رہے کہ ابا ماریں گے لیکن جب ان لوگوں نے رازداری کا عہد کیا تو ننھے میاں ٹھنڈی سانس بھر کر بولے۔
’’ چاچا جی کیا بتاؤں ۔ ۔ ۔ ۔؟ یہ سب اس منحوس ٹرالی کے ساتھ ٹکر کی وجہ سے ہوا۔ اس کی ٹانگ ٹھیک کرنے کی بہت کوشش کی لیکن افسوس ٹانگ ٹھیک نہ ہو سکی۔‘‘
چاچاجی بولے۔ ’’ تو کیا لنگڑی ہے؟‘‘
ننھے میاں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’کمال ہے اتنی بڑی بات کیوں چھپائی؟‘‘
ایک اور صاحب نے کہا۔ ہم نے دل ہی دل میں ننھے میاں کی عیاری کو داد دی اور ساتھ ہی ہمارا باقی گروپ بھی میدان میں کود پڑا۔
ٹلو خان نے کہا۔ ’’چاچا جی نہ صرف لنگڑی بلکہ بھینگی بھی ہے۔‘‘
سب حضرات کی آنکھیں اس دھوکے پر پھیل گئیں۔
’’اور جی وہ تو ہر وقت غصے میں ہی رہتی ہے۔ کوئی نزدیک جاتا جا ئے کہ مارنے دوڑتی ہے۔‘‘
سکنٹو نے ہانک لگائی۔
ایک حضرت نے تاسف سے سر ہلا کر کہا۔ ’’ میرا گھر تو پہلے ہی کبڈی کا میدان معلوم ہوتا ہے۔ ایسی چیز گھر لے جا کر میں نے کیا کرنا ہے۔‘‘
ہم سمجھ گئے کہ کام بن گیا ہے اور ننھے میاں نے بھی چلنے کا اشارہ کر دیا۔ لیکن ہماری خراب قسمت آڑے آ گئی ۔ اچانک ماٹو کو یاد آیا کہ اس نے تو کچھ کہا ہی نہیں سو وہ بھی بولا۔
’’ آہو جی۔ ایسی چیز کسی نے کیا کرنی ہے جو دودھ بھی پورا نہ دے۔‘‘
یہ سن کر سب لوگ اچھلے اور لگے ہمیں گھورنے۔
چاچاجی نے غصے سے پوچھا۔’’ اوئے کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘
میں نے کہا۔’’چاچا جی اس کا مطلب ہے کہ گائے دودھ بھی کم ہی دیتی ہے۔‘‘
چاچاجی پھنکارے۔ ’’اوئے کونسی گائے اور کہاں کی گائے؟‘‘
ننھے میاں اس بات پر تڑپ اٹھے ۔’’ لو جی خود تو معاملہ بھی طے کر چکے ہیں اور اب کہ رہے ہیں کہ کونسی گائے ۔ ذرا یہ تو سوچیے کہ یہ سب سن کر اس بے زبان گائے پر کیا گزرے گی۔وہ تو آپ کی بے مروتی دیکھ کر صدمے سے مر ہی جائے گی۔اس لیے اسے خریدنے کا خیال دل سے نکال دیجیے۔‘‘
ایک اور صاحب نے زبان کھولی۔ ’’ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو تم لوگ؟‘‘
ہمیں دل ہی دل میں کسی غلطی کا احساس ہوا لیکن ننھے میاں تو جوش میں شروع ہو چکے تھے۔
’’ارے وہی گائے جو آپ خریدنے آئے ہیں جو ہمارے دکھ سکھ کی ساتھی ہے۔ اور اس کا فرزند تو ہمارا لنگوٹیا ہے۔‘‘
’’ اور یہ سب تم اپنی گائے کے جوہر بیان کر رہے تھے؟‘‘
چاچاجی نے شاک کی سی کیفیت میں سوال کیا۔ ہمارے اثبات میں سر ہلانے پر وہ کسی بم کی طرح پھٹے۔
’’ دھر لعنت ہے تم لوگوں کی شکل پہ بد شکلو! آنے دو تمہارے ابے کو۔ ہم یہاں فوزیہ پروین کا رشتہ طے کرنے آئے ہیں تمہاری گائے کے سائیں مارنے نہیں۔‘‘
یہ سن کر تو ہمارے ہاتھوں کے طوطے کبوتر اور جو کچھ بھی تھا اڑ گیا اور بھاگتے ہی بنی۔
فوراً جوتا چھپاؤ گروپ کو ایکشن کا حکم دیا گیا لیکن افسوس کہ دادا اور ابا گھر سے باہر تھے اور جوتے ان کے پیروں کے ساتھ۔لہٰذا شام ہونے تک ہم سب چھترول سے مستفیض ہو چکے تھے۔ اور یوں فوزیہ بیگم کچھ نہ کر کے بھی ہم پر قیامت ڈھا چکی تھیں۔
لیکن اس سارے معاملے میں خوشی کا نکتہ یہ تھا کہ فوزی کا رشتہ پکا ہو گیا تھا اور شادی کی تاریخ طے ہوگئی تھی۔ ہم دل ہی دل میں خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ جوں جوں شادی کا دن قریب آ رہا تھا ہمارا جوش بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ پیدائشی دشمن سے چھٹکارے کی خوشی جو تھی۔ اسی وجہ سے ہم نے اپنی خوشی کا مناسب اظہار ضروری سمجھا۔اگرچہ سب گھر والوں نے ہمیں فرداً فرداً جوتے کی یاد دلاتے ہوئے کسی بھی شرارت سے باز رہنے کی ہدایت کی لیکن ہم ایسا سنہری موقع کیسے گنوا سکتے تھے۔ ایک خفیہ گروپ میٹنگ میں کئی تجاویز رد کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ شہر سے بڑے بڑے پٹاخے لائے جائیں اور شادی پر اپنی خوشی کے اظہار کے طور پر چلائے جائیں۔ لہٰذا اگلے ہی دن میں اور ننھے میاں شہر روانہ ہوئے اور ایک آتشبازی کا سامان بنانے والے سے ملاقات کی جو ننھے میاں کے چچا کا جاننے والا بھی تھا۔
اس نے اپنے سب سے بڑے پٹاخے ، جسے وہ ایٹم بم کہتا تھا، کی قیمت سو روپیہ بتائی۔ہم نے آدھے نقد ادا کیے اور باقی ادھار کر کے ایٹم بم ساتھ لے آئے اور رازداری کے ساتھ بھوسے کے کمرے میں چھپا دیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ شادی والے دن ایٹم بم چلایا جائے۔
جو لوگ پنجاب کے دیہات سے واقف ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ زیادہ تر گاؤں میں نکاسیِ آب کے لیے ایک عدد جوہڑ ضرور ہوتا ہے۔ہمارا جوہڑ گاؤں کی مین روڈ کے ساتھ تھا جہاں بارات کا استقبال ہونا تھا۔
شادی والے دن ہم صبح اٹھے ۔ نہا دھو کر نئے کپڑے پہنے اور باہر نکل آئے۔ باقی گروپ کو ساتھ لیا اور پہنچ گئے استقبال کی جگہ پر۔ جب دور سے بارات آتی دیکھی تو ٹلو خان کو بھگایا کہ جاایٹم بم لے آؤ۔کچھ دیر کے بعد ایٹم بم آ گیا۔بارات کے آگے آگے گھوڑے پر سوار دلہا تھا اور پیچھے باقی باراتی تھے۔اتفاقِ رائے سے بم کوآگ دکھائی گئی اور فیتہ ذرا لمبا رکھا گیا تاکہ بھاگنے کا وقت مل جائے۔ لیکن ہائے ری ہماری قسمت۔ ۔۔۔ عین وقت پر ننھے میاں کے چچا ہمیں تلاش کرتے وہاں آ گئے۔ اب ہم بہت گھبرائے کہ اگر پٹاخہ دیکھ لیا تو بہت پٹیں گے۔ننھے میاں نے ہڑبڑاکربم پھینکا جوہڑ میں اور خود دوڑ لگا دی۔ ہمارے پاس بھی سوائے تقلید کے کوئی اور چارہ نہیں تھا۔
اب شومئی قسمت کہ بارات جوہڑ کے کنارے پہنچی اور دلہن کے ابا دلہے کو گلے لگانے کے لئے آگے بڑھے کہ اچانک ۔۔۔۔۔۔۔بینگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔جب ہوش بحال ہوئے تو دیکھا کہ دلہن کے ابا زمین پر پیٹ دبائے پڑے ہیں اور دلہا میاں نہ جانے کیسے جوہڑ میں غوطے کھا رہے ہیں۔ پتہ چلا کہ گھوڑے نے دھماکے سے گھبرا کر ایک دولتی دلہن کے ابا کے پیٹ میں رسید کی اور پھر دلہے کو جوہڑ میں گرا کر فرار ہوگیا۔
تمام باراتیوں کے چہروں اور کپڑوں پر کیچڑ نقش و نگار بنا چکا تھا اور بے چارے باراتی اس انوکھے استقبال پر حیران پریشان کھڑے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ اچانک ایک نسوانی چیخ سنائی دی۔ ’’ہائے ربا! ۔۔۔۔۔۔۔میرا گڈو کدھر ہے۔۔۔۔؟‘‘
قریب پڑا کیچڑ کا ایک چھوٹا سا ڈھیر ہلا اور گڈو نے سر نکال کر جواب دیا۔ ’’ اماں میں یہاں ہوں۔‘‘
گڈو کی ماں نے ایک اور فلک شگاف چیخ ماری اور جھپٹ کر گڈو کو بر آمد کیا۔ چند لوگ دلہا کو جوہڑ سے نکالنے بھاگے اور کچھ باراتیوں کی جانب لپکے۔
سب سے زیادہ ظلم تو اس جوہڑ میں رہنے والے مینڈکوں کے ساتھ ہوا۔ کہ کچھ تو صدمے سے ہی دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اور کچھ دھماکے کی وجہ سے محوِ پرواز ہو کر نئی دنیاؤں کے سفر پر روانہ ہو گئے۔پتہ چلا کہ چند مینڈک اس ٹب میں بھی پڑے ٹرا رہے ہیں جس میں باراتیوں کے لیے دودھ اکٹھا کیا گیا تھا۔ مرغ پلاؤ کی ایک دیگ مینڈک بریانی میں تبدیل ہو چکی تھی۔
جوہڑ کا واحد کچھوہ ایک باراتی خاتون کی جھولی میں پڑا اپنی خانماں بربادی پر نوحہ کناں تھا۔تبھی دلہے کی ایک رشتہ دار خاتون نے عجیب طرح اچھلنا کودنا شروع کر دیا۔ غور کرنے پر کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ اس اچھل کود کا مقصد اظہارِ خوشی نہیں بلکہ ان چند برخوردار مینڈکوں سے نجات حاصل کرنا ہے جو ان کے لہنگے کو کسی محبوبہ کی بل سمجھ کر پناہ لینے جا پہنچے تھے۔اب خاتون گلی میں اچھلتی کودتی پھر رہی تھیں اور گاؤں کے سب سب مویشی بمع گھوڑے گدھے ’’محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی‘‘ کی عملی تفسیر بنے یہ ماجرا دیکھ رہے تھے۔ بہت کوششوں کے بعد انہیں اس بلائے ناگہانی سے نجات دلائی گئی۔
اسی اثناء میں تمام گاؤں میں ایمرجنسی لگا دی گئی اور تمام لوٹوں کو اکٹھا کرنے کا حکم دیا گیا۔ ساتھ ہی سب کے باتھ روم بھی انگیج کیے گئے۔ اور یہ شاید دنیا کی پہلی بارات تھی جسے رسمِ نکاح سے قبل رسمَ غسل سے لطف اندوز ہونا پڑا بلکہ بعض بے چاروں کو تو کپڑے بھی ادھار مانگنے پڑے۔بڑی مشکل سے حالات معمول پر آئے۔ اور لوگوں کو ڈرتے ڈرتے کھانا پیش کیا گیا کہ کہیں کوئی بوٹی مینڈک نہ نکل آئے۔
اب کھانے پینے کے بعد ایک اور مسئلہ درپیش ہوا کہ شادی کا سارا پروگرام دن کا تھا لیکن اب تو شام بھی گزر چکی تھی۔ گاؤں میں مصنوعی لائٹ کا کوئی انتظام نہ تھا۔بہت سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ چند کم آواز والی موٹرسائیکلوں کو سٹارٹ کر کے ان کی لائٹوں کا رخ پنڈال کی جانب کر دیا جائے۔ ان موٹر سائیکلوں کو چلتا رکھنے کی ذمہ داری ہمیں سونپ دی گئی۔
ہم یہ ذمہ داری بخوبی نبھا رہے تھے اور رخصتی ہو رہی تھی۔ سب کچھ ٹھیک تھا لیکن ہائے رے ہماری قسمت۔ ۔ ۔ ۔ باقی سب تو موٹر سائیکل چلانا جانتے تھے لیکن بے چارہ ماٹو بالکل ہی ناواقف تھا۔ عین جب رخصتی ہو رہی تھی تو نہ جانے کیسے اس کا پاؤں گئیر پر جاپڑا۔
موٹر سائیکل نے کسی ارنے بھینسے کی طرح ڈکرا کر انگڑائی لی اور تیر کی طرح پنڈال کی جانب بڑھی۔ماٹو بے چارہ چیختا ہوا ہینڈل کے ساتھ چمٹا ہوا تھا اور ہم سب منہ کھولے اسے جاتا دیکھ رہے تھے۔
لوگوں نے پہلے تو اس کی چیخ و پکار کو دلہن کے کسی رشتہ دار کی آہ و زاری سمجھا لیکن جب موٹر سائیکل پر نظر پڑی تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ موٹر سائیکل گولی کی طرح ڈولی سے ٹکرائی اور ماٹو صاحب اڑتے ہوئے دلہن کی گود میں جا گرے۔ وہ بے چاری اس حملے کے لیے قطعاً تیار نہ تھی اس لیے وہ دوسری جانب سے باہر جا گری اور دوچار خوبصورت قلابازیاں کھانے کے بعد رکی۔
موٹرسا ئیکل کا غصہ شاید ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا اس لیے اس نے اپنا رخ بدلا اور ایک ٹکر دلہا کے ابا کو رسید کی جو اللہ ہو کا نعرہ لگا کر پیچھے الٹ گئے۔موٹر سائیکل زمین پر گر کر دائرے میں گھیں گھیں کرتی گھومنے لگی جیسے اپنی کارکردگی پر داد کی طالب ہو۔
دلہا کے ابا اپنی ہڈیاں ٹٹولتے اٹھے اور کہا۔ ’’کیوں جی سب کچھ ہو گیا کہ ابھی کچھ باقی ہے؟‘‘
جب جواب نہ ملا تو دلہا اور دلہن کو گاڑی میں ٹھونسا اور بھاگ لیے۔
ہم خوفزدہ تو تھے لیکن جب چند دن تک مجرموں کا سراغ نہ ملا تو ہم نے سکون کا سانس لیا۔ لیکن ہماری قسمت۔۔۔۔۔۔ اگلے دن ایٹم بم کا مالک اپنا ادھار لینے ننھے میاں کے چچا کے پاس پہنچ گیا۔۔۔
بس آگے نہ پوچھئیے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
سب نے مل کر مری جوتوں سے جو دھلائی کی
 
Top