باتیں ہماری رہ گئیں - حسین اعظمی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


سرگوشیاں



22 مارچ 1997ء میری زندگی کا اہم ترین دن تھا۔ اس دن میرے والد اچانک ہی ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے۔ میری دنیا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اس دن اندھیری ہو گئی۔ میرے چاروں طرف گہرا سناٹا تھا۔ کچھ یاد نہیں کہ شام 5 بجے کے بعد کیا ہوا۔ کس طرح اور کس نے ان کے کفن دفن کا انتظام کیا؟ کس نے قبر کھدوائی اور کس طریقے سے ہم سب نے مل کر اس عظیم شخص کو قبر کے اندھیروں میں پہنچایا کہ جس کا وجود ہمارے لئے روشنی کا ایک مستقل اور مسلسل منبع تھا۔ اس دن اس شخص کو موت آ گئی کہ جس کے پور پور سے زندگی پھوٹتی تھی۔ جس کی آواز میں زندگی کی رونقیں تھیں۔ جس کی ہنسی زندگی کی علامت تھی۔ مجھے نہیں یاد کہ اس دن میں کس کس سے لپٹ کر رویا۔ کس کس کو دیکھ کر مجھے ڈیڈی یاد آجاتے اور صبر کا دامن چھوٹ چھوٹ جاتا لیکن رفتہ رفتہ صبر آنے لگتا۔ تاریکی چھٹتی گئی۔ سناٹا دور ہونے لگا۔ اسی دور ہوتے ہوئے سناٹے میں مجھے ڈیڈی کی سرگوشیوں کی آوازیں آنے لگیں حالانکہ ڈیڈی کبھی سرگوشیوں میں بات نہیں کرتے تھے۔ بالکل واضح انداز میں زندگی سے بھر پور لہجے میں بات کہنے کے عادی تھے لیکن اب مجھ کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اب مجھ سے سرگوشیوں میں مخاطب ہیں۔ ایسی سرگوشیاں جو بالکل صاف اور واضح ہیں۔ مجھے ادب اور شاعری سے لگاؤ کبھی بھی نہیں رہا لیکن ڈیڈی کی تمام زندگی ادب ، صحافت اور شاعری میں گذری۔ وہ سرگوشیوں میں مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ میری شاعری کو دیکھو۔ میری شاعری لفاظی نہیں ہے، نہ ہی خوبصورت لیکن بے مقصد الفاظ کا ایک بے معنی ہجوم ہے بلکہ اس شوعری میں میرے زندگی بھر کے تجربات اور مشاہدات پوشیدہ ہیں ان میں صرف وہ سوزِ دل ہی نہیں جو دلوں کو گرما دےبلکہ زندگی کا وہ ساز بھی ہے جو زندگی کی علامت ہے۔ اس میں ایک پیغام بھی ہے کہ محبت کرو، سب انسانون سے محبت کرو۔ رنگ و نسل ، فرقہ اور مذہب سے بالا تر ہو کر انسانوں سے محبت کرو۔ محبت کچھ حاصل کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ محبت ایک جذبہ ہے۔ اپنی ذات کے حصار سے باہر آکر انسانیت کے سمندر میں مل جانے کا۔۔۔۔
 
Top