(باب) احساس کمتری بنام احساس برتری ۔ یکے از ابواب ہم سب اور وہ ، مصنف دیانند ورما ۔

میر ے دوست نے سامنے والی میز پر بیٹھے چار آدمیوں میں سے ایک کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔
جانتے ہو اسے؟
اس کا اس طرح سے اشارہ کرنے کا ڈھنگ مجھے پسند نہ آیا۔ لیکن جس شخص کو میرے دوست نے انگلی کا نشانہ بنایا تھا اس کی طرف دیکھنا بھی ضروری تھا۔ میں نے دیکھا وہ شخص میرے لئے اجنبی تھا ۔ لہذا مجھ میں اس شخص کو جاننے کا اشتیاق جاگ اٹھا۔
کون ہے وہ؟ میں نے پوچھا۔
ایک معمولی سا بلیک میلر!۔ جواب اس قدر اونچی آواز میں دیا گیا تھا کہ سامنے والی میز پر بیٹھے ہوئے اس شخص نے بھی سن لیا۔ اس کے چہرے پر ناگواری کی ایک لہر سی گزر گئی ۔ اور پھر وہ اپنی باتوں میں مشغول ہو گیا۔
سرگوشیانہ انداز میں اپنے دوست سے میں نے کہا۔
اگر تمہیں اس شخص کا تعارف انہی لفظوں میں کرانا تھا تو کم سے کم سر ہی دھیمے لگانے تھے۔
میرا دوست کھلکھلا کر ہنس دیا اور بولا ۔
بلیک میلر لفظ کا وہ ذرا بھی برا نہیں مانتا۔ بلکہ وہ خود کو بہت بڑا بلیک میلر سمجھتا ہے اور مشہور بھی یہی کرتا ہے ۔ کہو تو ملواؤں؟
نہیں رہنے دو ۔ میں نے کہا۔
اور ساتھ ہی سوچ میں ڈوب گیا کہ اگر وہ خود کو بلیک میلر کہلوانا نامناسب خیال نہیں کرتا تو اسے میرے دوست کی بات ناگوار کیوں گزری تھی؟ اور جب میں نے اس لفظ بلیک میلر کے ساتھ دی گئی صفت پر غور کیا تو مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا۔
میرے دوست نے اگر اسے رنجیدہ کیا تھا تو ۔۔۔ معمولی سا۔۔ کہہ کر ۔ اگر وہ اسے ۔۔ بہت بڑا۔۔ بلیک میلر کہتا تو شایر اس کی آنکھیں بے پناہ خوشی سے چمک اٹھتیں۔
 
در حقیقت ہم معمولی سا کچھ بھی نہیں بننا چاہتے۔ اگر ہم شہری ہوں تو کسی عظیم ملک ، پیروکار ہوں تو کسی عالم گیر مذہب کے ، جواری ہوں تو سب کچھ ہارنے کی ہمت رکھنے والے۔ کسی بھی معاملے میں کسی بھی شعبہ میں غیر اہم بننا ہمیں پسند نہیں ہوتا ۔ اور جب کبھی ہماری اہمیت پر چوٹ پڑتی ہے تو ہم بلبلا اٹھتے ہیں۔
علم نفسیات کے ماہرین نے خود کو غیر معمولی اور اہم تسلیم کروانے والی سرشت کو احساس برتری اور اپنے وجود کے حقیر ہونے کے احساس کو احساس کمتری کا نام دیا ہے۔​
ماہرین نفسیات کے قول کے مطابق انسان کی تعمیری یا تخریبی کارکردگی کا محرک یہی احساس کمتری ہے ۔ لیکن جو لوگ من کی اتھاہ طاقت سے ناواقف ہیں وہ کسی بھی ذہنی ردعمل کو اتنی اہمیت نہیں دینا چاہتے۔ وہ آدمی کی پہلی ضرورت پیٹ بھرنا اور دوسری ضرورت تن ڈھانپنا سمجھتے ہیں۔
ہم ان دونوں ضرورتوں کو بنیادی نہ سمجھتے ہوں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ ہم تو ان میں انسان کی تیسری ضرورت کا بھی اضافہ کرنا چاہتے ہیں ، اور وہ تیسری ضرورت ۔۔ انا۔۔ کی بھوک ہے
 
یہ اس تیسری ضرورت کا ہی شعبدہ سمھجئے جو اشیائے خوردنی کی نسبت پروسنے کے برتنوں کو اور کپڑوں کی نسبت درزیوں کو کہیں زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ اور درزی بھی وہ جو تن کو سردی یا گرمی سے بچانے کی بجائے تن کو زیادہ سے زیادہ برہنہ رکھنے کے ڈھنگ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔
اگر کسی شخص میں اس کی انا کا احساس شدید ہو جائے تو وہ آدمی میں زندہ رہنے کی چاہ کو ختم کر کے اسے مر جانے پر اکسا سکتا ہے لیکن اس موت کی گردن پر کوئی نہ کوئی شرط ضرور سوار رہتی ہے مثلا تاریخ میں سنہرے حرفوں سے نام لکھا جائے یا جنازے کے ساتھ اتنے میل لمبا جلوس ہو یا لواحقین کو اشوک چکر کی قسم کا کوئی تمغہ ضرور ملے۔
برتری حاصل کرنے کی یہ چاہ سب سے پہلے بچپن میں ہم میں جاگتی ہے ۔ ماں کی گود میں بچہ دنیا کی سب سے اہم شخصیت ہوتا ہے۔ بچے کا توتلا پن اس کی خوبی بن کر ماں باپ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرتا ہے۔ہر کام پر شاباش ملتی ہے اور ہر غلطی معصومیت کی اوٹ میں خوبی مان لی جاتی ہے ۔
بالغ ہونے پر وہی بچہ گھر سے باہر بھی ویسی ہی اہمیت چاہتا ہے جیسی اسے بچپن میں مل چکی ہوتی ہے۔ اگر وہ با حوصلہ آدمی ہو تو باہر کی دنیا میں بھی اپنی ممتاز حیثیت بحال کر لیتا ہے۔اگر اس میں اس ہمت کا فقدان ہو تو وہ مایوس ہو جاتا ہے یا پھر غیر فطری ڈھنگ سے بچپن کا سا ماحول بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ مثلا معمولی سے دکھ کا اشتہار اپنے چہرے پر لٹکائے وہ لوگوں کو یہ دعوت دیتا پھرتا ہے کہ وہ اس سے ہمدردی جتائیں ، غم کی اہمیت بڑھانے کے لئے وہ منشیات کا استعمال شروع کر دیتا ہے۔ کہتا یہی ہے کہ وہ دکھ بھلانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ لیکن اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں سے اپنے دکھ کی وجہ پہلیل کی طرح بھجوائے ۔ کبھی معمولی سی بات کو راز بنا کر پراسرار طریقے سے بیان کرتا ہے۔ کبھی راز کی بات کو تقریر کا روپ سے دیتا ہے۔ کبھی بے کار رہ کر گھر والوں کے لئے درد سر بن جاتا ہے ۔ کبھی شادی سے انکار کر کے اپنے خیر اندیش لوگوں کا دھیان اپنے پر مرکوز کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ایسے لوگ اپنی وقعت کو اپنی حقیقی قیمت سے زیادہ سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ اپنے سے کم حیثیت آدمیوں میں جہاں انہیں اہمیت حاصل ہو بیٹھنا وہ پسند کرتے ہیں ۔ اپنی حیثیت سے بڑے آدمیوں میں جہاں انہیں دوسروں کو اہمیت دینا پڑے ، بیٹھتے ہوئے ان کی روح کانپتی ہے ۔
اگر ایسے لوگ صاحبِ وسائل بن جائیں تو کسی ایسی جگہ جہاں پر ان کی بجائے کسی دوسرے کو اہمیت ملتی ہو جانا انہیں اچھا نہیں لگتا۔ ایسے موقعے پر اپنے کسی نمائیندے کو بھیج کر خود کسی محفوظ مقام پر بیٹھے رہنا سب سے بہتر خیال کرتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
کچھ بچوں کی پرورش ان سے مختلف حالات میں ہوتی ہے۔ ان کی خواہشات کو حد سے زیادہ پائمال کیا جاتا ہے اور انہیں ۔۔شاباش ۔۔ سے قطعی نا آشنا رکھا جاتا ہے۔ ماں باپ کو ان کی چاہ نہیں ہوتی ، والدین انہیں بوجھ سمجھ کر پالتے ہیں۔ ان کی ہر معصوم حرکت کو بے وقوفی سمجھتے ہیں اور ارتقاء کی ہر دوڑ پر گانٹھ لگا دیتے ہیں ۔ اپنے بچے کو نا اہل سمجھتے ہوئے وہ اس کے تمام کام گھر کے کسی بڑے فرد کو سونپ دیتے ہیں۔
کئی بار ماں باپ کے بجائے گھر یا پڑوس کا کوئی بڑا بچہ یا رکن کسی نہ کسی طریقے سے انہیں کمتری کا احساس دلاتا رہتا ہے ۔ نا اہل سمجھے جانے کا وہ احساس زندگی بھر ان کے لاشعور میں سمایا رہتا ہے۔ بالغ ہونے پر بھی وہ ہر لمحہ سہمے رہتے ہیں ۔ نئے ماحول اور نئے لوگوں سے خوفزدہ رہتے ہیں ۔ کسی سے ملنے کہیں جانا ہو تو کوئی سہارا ہمراہ لے لیتے ہیں ، کچھ خریدنا ہو تو کسی کا سفارشی خط حاصل کر لیتے ہیں ۔ اپنا وجود اتنا حقیر سمجھتے ہیں جسے ہر کوئی دھتکار سکتا ہے۔ نئی جگہ پر جاتے ہوئے اس انتظار میں رہتے ہیں کہ انہیں کوئی ٹوک دے گا ۔ جب ایسا انتظار لاحاصل ثابت ہوتا ہے تو بے انتہا خوش ہوتے ہیں ، جیسے کسی نے ان کی بے حد عزت کی ہو ۔
خود پر چھا جانے والے شخص سے بات چیت کرتے وقت اپنے آپ کو سمیٹ لیتے ہیں ۔ اس دوران ہر لمحہ یہ خوف ہلکان کئے رہتا ہے کہ وہ جس انداز میں اور جس زاویہ سے کھڑے ہیں وہ اثر انگیز نہیں ہےلہذا اسے بدلنا چاہیئے ۔اسے بدلنے کے لئے عالم اضطراب میں اپنے ہاتھ پاؤں ادھر ادھر پٹکتے رہتے ہیں ۔
ایسے خوف زدہ لوگ اگر صاحب وسائل بن جائیں تو بھی ان کی فطرت میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوتی ۔وہ اپنے کسی کارندے سے براہ راست نہیں ملتے ۔ اپنے اردگرد اپنے نمک حلال ملازمین کا قلعہ بنا کر محفوظ مقام پر بیٹھ کر حکم چلاتے ہیں ۔ان کی ہر دم یہی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی غیر موجودگی کو اپنی موجودگی سے کہیں زیادہ اثر انگیز بنا دیں ۔
 
کمتری کا احساس اپنے کسی بھی مضمون میں اپنے سے قابل شخص کی موجودگی میں زیادہ ہوتا ہے ۔ کوئی بھی شخص خواہ وہ کتنا ہی حاضر جواب کیوں نہ ہو ، جب اس پر دوسرا شخص حاوی ہو جاتا ہے تو اس کی حاضر جوابی دھری رہ جاتی ہے۔ پہلے سے سوچ کر گھڑے ہوئے جملے شکستہ حالت میں ادا ہوتے ہیں۔
ہکلاہٹ کو تو کمتری کے احساس کی انتہا جانئے لیکن یہی ہکلاجب اونچی کرسی پر بیٹھ کر اپنے سے کم رتبے کے آدمی سے بات کرتا ہے تو اس کی حاضر جوابی بلا خیز ہو جاتی ہے۔
احساس کمتری کے شکار دل ہی دل میں اپنی کمزوری کو سمجھتے ہیں ۔ ساتھ ہی انہیں یہ دھڑکا بھی لگا رہتا ہے کہ کہیں دوسرے ان کی اس کمزوری کو بھانپ نہ لیں ۔ اس لئے وہ اپنے اس احساس کو چھپانے کے لئے ہر دم کوشاں رہتے ہیں ۔
 
Top