بابا عبدالغفار پروانہ ۔۔۔۔از ڈاکٹر ظہور احمد اعوان۔۔۔دل پشوری۔۔۔بشکری اج پشاور

Dilkash

محفلین
آخر بابا عبدالغفار پروانہ کو نامعلوم مجرموں نے مار ڈالا بلاوجہ بے تقصیر۔ قصور اس کا صرف اتنا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کا پروانہ تھا اور غریب تھا‘ ہر دروازہ کھٹکھٹانے پر ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد وہ اکیلا ہی اپنے جوانسال بیٹے کی تلاش میں نکلا اور دس برس تک سائیکل پر بیٹھا کراچی و کوئٹہ تک آتا جاتا رہا۔ چارسدہ کا رہنے والا تھا مگر اس کا کوئی پرسان حال نہ تھا صرف ایک پرانی سی سائیکل اس پر لگی بیٹے کی تصویر اور پاکستان کا جھنڈا‘ پتہ نہیں کھاتا کہاں سے تھا بس ساری دنیا میں اس کا صرف یہی ایک کام تھا کہ وہ بیٹے کو ڈھونڈ نکالے اور جیتے جی دیکھ کر مر جائے۔

چند دن پہلے وہ پشاور کی سڑکوں پر بھی نظر آیا تھا‘ چند سال پہلے پتہ نہیں میرا پتہ کہاں سے پا کر میرے گھر آیا‘ چوکیدار نے سائیکل اندر نہیں چھوڑی اس لئے گیٹ کے پاس کھڑا کر کے اندر آیا اور آنسوؤں کی لڑی اور جھڑی میں اپنا قصہ سنایا۔ میں کیا کر سکتا تھا اس کے ساتھ رو دھو لیا‘ ایک آدھ کالم لکھا مگر کسی حاکم حکمران کے کان پر جوں تک نہ رینگی نہ اس کے بیٹے کے اغوا پر نہ بابا کی موت پر‘ یہی اس ملک میں غریب کا نصیبہ ہے بس روتے دھوتے مر جاؤ۔ مجھے رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ آخر بابا کس لئے پیدا ہوا تھا‘ جہاں کوئی کھانا دیتا کھا لیتا ورنہ گڑ اور پیاز ساتھ تھے۔

پتہ نہیں وہ کون شقی القلب ہیں جنہوں نے اس زخموں اور صدموں سے چور 55 سالہ بابا کو قتل کیا‘ اس کی جیب میں تو گڑ اور پیاز کے سوا کچھ رکھا ہی نہ تھا۔ یہ دنیا کس قدر ظالم ہے جو بابا جیسے بے ضرر بندے کو بھی زندہ نہیں چھوڑتی‘ بھلا کسی کو کیا ملا اس مظلوم کو مار کر وہ تو ویسے ہی مر رہا تھا اس پر ایک عدد گولی ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر وہ دشمن دار ہوتا تو اسے پہلے ہی کوئٹہ و کراچی کی ویران سڑکوں پر مار دیا جاتا۔ آخر دس برس اسے سائیکل چلانے پر مجبور کیا گیا‘ اول دن ہی اس کا کام تمام ہو جاتا‘ مقام حیرت ہے کہ اسے موٹر سواروں نے مارا وہ بے چارہ تو چند پھونکوں میں اڑ جاتا مگر یہ دنیا بے رحم و وحشی جانوروں سے بھری ہے‘ خدا حق ناحق سے بچائے‘ کیا پتہ کس وقت ناگہانی بے تقصیر موت آ لے لاش کا بھی پتہ نہ چلے۔

بابا کی لاش تو نشتر آباد سے مل گئی مگر ہزاروں لوگ ایسے ہیں جن کو کفن بھی نصیب نہیں ہوتا۔ سمجھ نہیں آتی ہم کس زمانے میں رہ رہے ہیں پتھروں یا لوہے کے‘ باہر پتھر ہوں نہ ہوں ہمارے دل ضرور پتھر ہو گئے ہیں۔ بابا غفار بڑا نرم خو Polite اور قابل احترام آدمی تھا‘ آنکھ اٹھا کر بات نہیں کرتا تھا‘ آواز میں دھیما پن اور تہذیب تھی‘ اس کی اپنے بیٹے سے محبت لازوال اور مثالی تھی شاید ہی کوئی باپ اپنے بیٹے سے ایسی محبت کر سکتا ہو۔ وقت ہر زخم کو مندمل کر دیتا تھا یہ بات ہم نے سنی تھی اور اس پر یقین بھی رکھتے تھے مگر بابا غفار کی محبت والہانہ پن استقلال ناقابل فراموش تھا

وہ اپنے جس بیٹے کو ڈھونڈ رہا تھا اب اس کے پاس چلا گیا ہے۔ اپنی اولاد کو ہر کوئی چاہتا ہے مگر عشق کوئی کوئی کرتا ہے‘ بابا کو عشق تھا پھر لوگوں کو ہم نے عشق میں ٹسوے بہاتے تو دیکھا ہے مگر اس طرح گلی گلی خوار اور خشک آنکھوں کی صدمہ باری کرتے کسی کو نہیں دیکھا۔ مجھے تو جب وہ اپنی سائیکل پر بیٹے کی تصویر لگائے سارے پاکستان میں گھومتا نظر آتا تو میں اس کی محبت کے والہانہ پن پر عش عش کر اٹھتا۔ اب اس کی بیوی نے اس قتل پر مقدمہ درج کرایا ہے‘ اس کے جوانسال بیٹے کے قتل کا اب تک سراغ نہیں لگ سکا تو ماں کے آنسو کیا کر سکیں گے‘ ماں تو سائیکل بھی نہیں چلا سکتی۔

اس واقعہ نے معاشرے کی بے دردی اور بہیمیت کا ایسا چرکا لگایا ہے کہ روح تک کانپ اٹھی ہے‘ کوئی انسان اپنی کہاں تک حفاظت کرے گا کہاں تک بے ضرر‘ صبرناک اور خاموش زندگی گزارے گا‘ موت سے کوئی کہاں تک بچے گا‘ ناگہانی موت تعاقب کرتے ہوئےایسے سچے عاشق اور دردمند انسان تک بھی اتنی آسانی سے آ پہنچے گی۔

بابا غفار نے تپسیا کی ہے‘ ایک انمٹ لازوال چاہت کا اظہار کیا ہے اور دنیا پر یہ ثابت کیا ہے کہ انسان اپنی اولاد کی محبت میں کب اور کہاں تک جا سکتا ہے۔ آج تک بابا کے دکھ کا مداوا کسی نے نہ ڈھونڈا‘ وہ ہر صدر‘ وزیراعظم اور حکومت کے دروازے پر دستک دیتا چلا آیا‘ وہ سارے پاکستان کے سامنے اپنی دکھ کی داستان سائیکل پر درج کر کے پھرتا رہا مگر کسی نے نوٹس نہ لیا حکومت نے نہ عدلیہ کے کسی سوموٹو ایکشن نے۔ اس پر اخباروں میں فیچر اور خبریں مع تصاویر شائع ہوتی رہیں‘ پریس نے اس کے غم کا بھرپور ساتھ دیا مگر ہونے والا کام ہو کے رہا‘ انسان تھا مرنا اس نے بہر حال تھا مگر جس طرح وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرا ہے وہ ہمارے معاشرے‘ قانون اور حکومت کے بے درد منہ پر طمانچہ ہے۔
 

Dilkash

محفلین
الف ۔ع صاحب کے لئے جناب ڈاکٹر ظہور اعوان صاحب کا سلام اور پیغام ہے کہ انکی تحریرین اعجاز صاحب اپنے مجلے “سمت“ میں چھاپ سکتا ہے۔
یہ اجازت میں نے ان سے،ہر کسی کے لئے لے لی ہے۔اعجاز صاحب حیدر اباد دکن اور سمت کا نام لیکر انہوں نے جواب سلام بھیجا ہے اور تمام تحریرں چہاپنے کی اجازت دیدی ہے
 
Top