حسیب احمد حسیب
محفلین



بائی وربائی جی سوپری والا پارسی ہائی اسکول !
تہذیب ثقافت اور جدت کا حسین امتزاج

بائی وربائی جی سوپری والا پارسی ہائی اسکول
عبدللہ ہارون روڈ کے عین وسط میں خوبصورتی اور قدامت کا حسین نمونہ ایک ایسی عظیم الشان عمارت واقع ہے جس کی تاریخ ڈیڑھ صدی پرانی ہے یہ ١٨٦٩ کی بات ہے کراچی کے قدیمی واسیوں پارسی گجراتی کمیونٹی نے اپنے بچوں کیلئے ایک " بالک شالا " کی ضرورت کو محسوس کیا ٢٣ مائی ١٨٦٩ کو اس عظیم تعلیمی درس گاہ کا قیام عمل میں آیا .
جون ١٨٦٢ کو سیٹھ شاپرجی ہرمسجی اس درسگاہ کے پہلے سیکریکٹری مقرر ہوے ....
یہ مئی ١٨٧٠ کا قصہ ہے سیٹھ شاپرجی نے اپنی مرحومہ بیوی کی یاد میں فریر اسٹریٹ پر واقع ١٠،٠٠٠ روپے کی مالیت کا دو منزلہ مکان اسکول کیلئے وقف کر دیا ٢٤ ستمبر ١٨٧٠ وہ یادگار دن تھا جب کمشنر سندھ سر ولیم میر ویدر کے ہاتھوں اسکول کی عمارت کا افتتاح ہوا .

١٨٧٥ میں اسکول کی سینیر کلاسز میں انگریزی کی تدریس کا باقاعدہ آغاز ہوا ١٨٠٩٨ میں کنڈر گارٹن کی ابتدا ہوئی اس کے بعد سے اسکول ترقی کی منازل تے کرتا چلا گیا اور کبھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا یہاں تک کہ آج اس اسکول کا شمار پاکستان کے چند بہترین اسکولوں میں کیا جاتا ہے .
جون ١٩١٨ میں گرلز سیکشن ما ما پارسی گرلز کی موجودہ جدید عمارت میں منتقل ہو گیا ١٩٢٢ میں اسکول کو ہائی اسکول کا درجہ حاصل ہوا اور اسکول کا نام " بائی وربائی جی سوپری والا پارسی ہائی اسکول " رکھا گیا .
اس اسکول کی تاریخی حیثیت اس حوالے سے انتہائی اہم ہے کہ یہ کراچی کی قدیم ترین درسگاہوں میں سے ایک ہے اور اس عظیم درس گاہ نے اپنی قومی و ملی ذمےداری اسطرح پوری کی کہ جب ١٩٤٧ میں بر صغیر پاک و ہند کی تقسیم کے وقت جب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم کی تعلیمی ضرورت کے پیش نظر پارسی کمیونٹی سے درخواست کی تو کراچی کے پارسیوں نے انتہائی کشادہ دلی کے ساتھ اسکول کے دروازے تمام مذاہب مکاتب فکر قومیتوں اور طبقات کیلئے کھول دیے آج ہندو ، سکھ ، مسیحی اور مسلمان بچے پارسی بچوں کے ساتھ اسکول کی تعلیمی خدمات سے فیضیاب ہو رہے ہیں.

23مئی 2009ء کو پاکستان کے محکمہ ڈاک نے کراچی کے معروف تعلیمی ادارے بی وی ایس (بائی ویربائی جی سپاری والا) پارسی ہائی اسکول کے قیام کی ایک سوپچاسویں سالگرہ کے موقع پر ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرا کیا جس پر اس اسکول کا لوگو اور عمارت کی تصویر شائع کی گئی تھی اورانگریزی میں 1859-2009 150 YEARS OF BAI VIRIBAIJI SOPARIVALA PARSI HIGH SCHOOL, KARACHI کے الفاظ تحریرتھے۔ اس ڈاک ٹکٹ کی مالیت پانچ روپے تھی اور اس کا ڈیزائن فیضی امیر صدیقی نے تیارکیا تھا۔
جدید تعلیمی نظام سے وابستہ رہنے کیلئے آج اسکول میں آغا خان اور کیمبرج سسٹم کے تحت انتہائی قابل اساتذہ اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اسکول چونکہ ایک چیریٹی ادارہ ہے اسلئے ایسے دور میں جب تعلیمی صرف اور صرف تجارت بن کر رہ گئی ہے اسکول کی فیس انتہائی مناسب ہے جو مڈل کلاس کیلئے بھی برداشت کرنی ممکن ہے .
اسکول کی انتہائی معروف اور ہر دلعزیز پرنسپل آنجہانی دینا مستری کے سورگ واسی ہونے کے بعد ٢٠٠٥ سے اسکول کا انتظام کرمین پاریکھ صاحبہ کے ہاتھ میں ہے جو انتہائی کامیابی کے ساتھ اس کو چلا رہی ہیں ہیں ان کی دن رات کی انتھک محنت کی وجہ سے اسکول نے ترقی کی مزید کئی منازل تے کی ہیں اور کر رہا ہے .
اسکول میں متعدد معروف لوگوں نے تعلیم حاصل کی ہے جنہوں نے اگر جاکر طب ، تعلیم ، سیاست ، صحافت ، تجارت اور مختلف شعبوں میں اپنی خدمات سر انجام دی ہیں لیکن ناموں کی اس طویل فہرست میں سب سے اوپر جس شخصیت کا نام لکھا دکھائی دیتا ہے وہ ہیں آنجہانی اردشير کاوﺳﺠﻰ (13 اپریل 1926- 24 نومبر، 2012) مشہور پاکستانی کالم نگار صحافی اور سماجی شخصیت جو انگریزی اخبار ڈان سے منسلک رہے .

آپ اسکول میں داخل ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ کے اوراق میں کسی افسانوی سفر پر ہیں اسکول کے قدیم طرز تعمیر کو برقرار رکھا گیا ہے اور جدید تعمیر بھی قدیم انداز پر کی گئی تاکہ عمارت کی حقیقی خوبصورتی برقرار رہے دوسری طرف عمارت میں موجودہ دور کی تمام جدید سہولیات موجود ہیں .
اسکول کا ماحول انتہائی خوشگوار ہے ایک طرف ڈسپلن کی انتہائی پابندی تو دوسری طرف بچوں کی تفریح کیلئے مختلف تقریبات اور بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشونما کیلئے مختلف کھیلوں کا خاص انتظام کیا گیا ہے چاہے وہ ہاکی ہو فٹبال ہو کرکٹ ہو یا پیراکی یا پھر اسکریبل ہو شطرنج ہو اسپیلنگ بی کمپیٹیشن بی وی ایس کے بچے سب سے ممتاز دکھائی دیتے ہیں .

اسکول کا ماحول یہاں کام کرنے والوں کے لیے انتہائی دوستانہ ہے یہ درسگاہ ایک بڑی فیملی کی طرح ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں نئے آنے والوں کیلئے پرنسپل کی شخصیت ایک مربی و محسن کی سی ہے جن کی موجودگی میں آپ ترقی کی منازل خوبی کے ساتھ تے کر سکتے ہیں .
اسکول میں خاص طور پر بچوں کی دینی اور اخلاقی تربیت کا خیال رکھا جاتا ہے تاکہ یہاں سے نکلنے والا بچہ معاشرے میں ایک انتہائی مفید اور کارآمد شہری بن کر شامل ہو سکے ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ دور جدید میں اگر کسی کو ایک ماڈل اسکول کا مشاہدہ کرنا ہو تو بی وی ایس ضرور تشریف لائے.
حسیب احمد حسیب