اے کاش یہ زرداری و گیلانی نہ ہوتے

گیلانی ہیں، زرداری ہیں، کچھ شریف و شریر ہیں اور کچھ دوسرے عزیز ہم وطنوں برانڈ کے قوم کے خادم اور عوام کی محبت میں گھلنے والے، نتیجہ معلوم کہ قوم اک زمانے سے رزق و روزی، معیشت و معاش اور حمیت و غیرت کی تلاش میں ہے۔
وہ اک اور شخص تھا، جو ناپ کے بولتا اور تول کے لب کشادہ کرتا تھا، گفتگو کے لئے اس کے پاس الفاظ کی قلت تھی اور نہ پیرایہ اظہار سے وہ ناواقف تھا۔ وہ زور آور بھی تھا اور زبان آور بھی… اور اتنا کہ اس نے کبھی جو خطاب کئے وہ آج ادب پاروں کی حیثیت رکھتے ہیں مگر وہ کم بولتا کہ اس مختصر زندگی میں اسے حق نے جو ذمہ داریاں عطا کی تھیں وہ اسے بولنے کا وقت نہ دیتی تھیں سو وہ اک ایسا ہی شخص تھا عمل میں کثیر اور قول میں قلیل… نرم دم گفتگو گرم دم جستجو۔ آج دنیا اسے یاد کرتی ہے۔ مورخ لکھتے ہیں وہ ایک ہی تھا اور اگر اس جیسا دوسرا ایک اور ہوتا تو پوری زمین پہ اسی کے نام کا جھنڈا لہرا رہا ہوتا۔ وہ طوفان خیز قدم رکھنے والا تھا، سو یہ کرہ ارض اس کی فتوحات کے آگے سمٹ گیا تھا۔ وہ تیزی سے یلغار اور قوت سے وار کرنے والا تھا۔ شاعروں نے اس کے قصیدے لکھے۔ مورخوں نے اسے فاتح کہا، قانون دانوں نے اس سے قانون اخذ کئے اور عوام نے اس کے وجود سے اپنے لئے سعادتیں، راحتیں اور امیدو امن کشید کئے۔ وہ جب زندہ تھا، تورعایا کو بھی زندگی کا احساس ہوتا تھا اور وہ راتوں کو سو نہ سکتا، وجہ بینک میں پڑے سرمائے یا تجوریوں میں محبوس دولت بچانے کی ہوس نہ تھی کہ جو اسے کالے سانپ کی طرح ڈستی ہو اور نیند اس سے روٹھی رہتی ہو… بلکہ وہ کہتا تھا کہ میں اس لئے جاگتا ہوں تاکہ میری قوم، میری رعایا سکھ بھری نیند کا لطف لے سکے۔
عربی کے ایک شاعر نے اس کی ایک رات کا تذکرہ لکھا۔ قوم سو رہی تھی اور وہ اس کے سونے کی حفاظت میں جاگ رہا تھا۔ بیتتی رات کے اس سناٹے میں پھر اسے کچھ شور سنائی دیا، اس نے کان لگا دیئے، یہ معصوم بچوں کے رونے اور چلانے کی آوازیں تھیں جو کسی قریبی گھر کے سناٹے کو چیر رہی تھیں۔ وہ متجسس ہوا، اور اس نے گھر تلاش کر لیا، پھر اس کے سامنے ایک دلدوز منظر تھا، بھوک سے بلکتے بچے اور غم سے نڈھال مفلس ماں۔ گھر میں ہر طرف حسرتیں بکھری تھیں اور ماں بلبلاتے بچوں کو اگر کچھ دے سکتی تھی تو وہ آہ اور دعا کے سوا کچھ نہ تھا۔ غربت و حسرت کے مرقع اس گھر کو دیکھ کر اس شخص کا سینہ شق ہو گیا۔ وہ انہی قدموں پلٹا اور جب دوبارہ اس در کی دہلیز پار کر رہا تھا تو اس کی پیٹھ آٹے کے بوجھ سے بھری بوری سے دبی ہوئی تھی، اس کے ہاتھوں میں کھجوریں اور شہد تھا۔ اتنا بوجھ پیٹھ پہ لادے وہ چلا آیا تھا اور راستے میں اس کے ساتھی نے اسے کہا تھا، ’’آقا کیوں اتنا بوجھ برداشت کرتے ہو، غلام کس لئے ہے، اسے کام میں لایئے‘‘۔ تب اس نے نہایت نرمی سے کہا تھا ’’اسلم! آج تو میرا بوجھ تم اٹھا لو گے کل جب قیامت آ پڑے گی تب کون اٹھائے گا؟
عربی شاعر نے لکھا، اس شخص نے پھر آگ جلانے میں اس بوڑھی عورت کی مدد کی، وہ آگ میں پھونکیں مارتے تھے تو تب راکھ اڑ اڑ کر اس کے چہرے اور اس کی ریش مبارک پہ بکھرتی جاتی تھی مگر وہ بے پروائی سے یہ سب کئے جا رہا تھا،بالآخر آگ جلی، کھانا پکا، بچوں کے پیٹ میں نوالے گئے اور وہ سکھ سے سوئے تو تب حسرت بھرے درودیوار میں بستی اس بڑھیا نے کہا: سچی بات یہ ہے کہ خلیفہ ہونے کے اہل تم ہو، ناکہ وہ شخص جو عمر کہلاتا اور خلافت کرتا ہے‘‘
بڑھیا جانتی نہ تھی مگر یہ راکھ اڑانے، آگ جلانے اور سب اپنی پیٹھ پر لاد لانے والا عمر ہی تھا۔ جی ہاں عمرؓ! وہ عمر کہ جو خلیفہ تھا اور لوگوں نے اس کے کرتے پہ بارہ پیوند گنے، بیٹی حفصہ نے کہا، ابا جان! اب نیا کرتا بنوا لیجئے، آخر اور کتنے پیوند لگائیں گے؟ اس نے سنا اور بڑے تحمل سے کہا، ’’باپ کی جان !میں مسلمانوں کے مال میں اس سے زیادہ تصرف نہیں کر سکتا‘‘۔
شام سے واپسی تھی اور راہ میں ایک خیمہ دکھائی دیا۔ اس خیمے میں ایک بیوہ بستی تھی، ملاقات کی اورعمر نے پوچھا ’’اماں! کچھ معلوم ہے کہ امیر المومنین کہاں ہے؟ اس نے اک شان بے نیازی اور بے رخی سے کہا ’’ہاں سنا ہے، وہ شام سے چل پڑا ہے‘‘۔ تعجب بھرے لہجے میں عمر نے کہا: اماں جان! امیر المومنین کے حالات سے اتنی بے خبری؟‘‘ بڑھیا نے پلٹ کے تلخی سے جواب دیا ’’جب امیر المومنین کو ہماری خبر نہیں تو ہمیں اس سے کیا غرض؟‘‘ ضروریات پوری کرنے اور خیال رکھنے کا حکم دینے کے بعد عمر نے یہ کہا ’’مجھے تو خلافت کا مفہوم شام کی اس بڑھیا نے سمجھایا ہے‘‘۔ کیا مطلب؟ یعنی حکمران وہی ہے جسے رعایا کی خبر ہے اور جو اس کی خبر اور خدمت میں لگا رہتا ہے۔ع
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری
یہ وہی عمر تھا، جسے دریائے فرات کے کنارے بے رحم موسموں کے سپرد ہوئے کسی بھوک سے مرتے جانور کی بھی فکر ستاتی تھی اور ادھر دل دکھتا ہے کہ ہمارے ہاں قریشی، گیلانی اور شریف و زردار تو بہت ہیں مگر کسی بڑھیا سے انداز حکمرانی سیکھتا، کسی غریب کے آنسو پونچھتا، کسی بیوہ کا چولہا جلاتا حکمران کوئی نہیں۔ یہاں حامد سعید کاظمی ہیں جن کو کہنے والے قرون اولی کے حجاج کے قافلوں پہ شب خون مارتے لٹیروں سے تشبیہ دیتے ہیں اور یہاں نواز شریف ہیں جو مظفر آباد میں اپنی جماعت کے تاسیسی اجلاس میں فرما رہے تھے کہ اکتوبر کے زلزلے میں میں پاکستان آنا چاہتا تھا مگر مجھے اس شخص نے نہیں آنے دیا جو آج خود باہر بیٹھا ہے۔ یہاں زرداری ہیں جو نوڈیرو میں قبرستان پہ چادریں چڑھاتے اور پھول برساتے ہیں۔
جناب نواز شریف زلزلے میں مشرف نے آنے نہ دیا تھا آج سیلاب متاثرین میں کون جانے نہیں دیتا؟ جناب گیلانی و زرداری صاحبان یہ غریب بھوکے مرتے عوام اور سردی سے رات بھر ٹھھڑتے لوگ تمہاری نوڈیرو کی قبروں سے کچھ زیادہ مستحق نہیں؟کج فہم، کج اندیش اور کج کلاہ…
دل زخم ہوتا ہے جب سرما کی ان سرد راتوں میں سیلاب متاثرین کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ وہ جن کے گھر ڈھے گئے، رقبے دریا برد ہوئے اور تنکا تنکا جمع کر کے بنائے آشیانے ہوا ہو گئے۔ پشتوں سے بچائی متاع اور نسلوں سے جوڑی جن کی زیست کرچی کرچی ہو گئی۔ جب معاملہ نیا اور زخم تازہ تھا تو تب اک عزم تھا اور بہت خروش تھا، جب کراچی لاہور، فیصل آباد اور سیالکوٹ کا تاجر انہیں دال چاول بھیج رہا تھا، مگر اب سیلاب زدگان نہ میڈیا پہ رہے، نہ حکمرانوں کی ترجیح رہے اور نہ تاجر کی یادداشت میں باقی رہے… مگر افسوس وہ اب بھی ویسی ہی اک زندہ حقیقت ہیں اور ان کی تلخ و تند زندگی کہیں بڑی حقیقت!! خیموں میں سسکتے 2 کروڑ انسان!! خیموں میں بیمار اور بوڑھے ہی نہیں معصوم بچے بھی ہیں۔ گلاب کے پھول ایسے سرخ اور صبح کی شبنم ایسے تازہ مگر یخ ہوائوں اور ٹھنڈے ٹھار بگولوں کی زد پہ ہیں… دسمبر کی یخ راتوں میں سیمنٹ گارے اور پتھر سے بنے ہمارے گھروں میں سردی یوں سرایت کر جاتی ہے کہ ہڈیوں کا گودا بھی جمنے لگتا ہے، کوئی تو سوچے تب ان پر کیا بیتتی ہو گی جن کو صحرا میں ایک دیوار بھی میسر نہیں۔ بہاولپور زون کے ذمہ دار حافظ عبدالغفار اور انہی علاقوں کے باسی قاری ابو حمزہ صاحبان سے تازہ حالات جانے۔ کہنے لگے اگرچہ بہت لوگ بے خانماں برباد ہیں مگر کچھ نے اینٹ گارے سے کچھ نہ کچھ آسرا کھڑا کر لیا ہے مگر روح تک کو منجمد کر دیتی اس سردی اور کہر میں بستر کسی کو بھی میسر نہیں۔ عرفان صدیقی صاحب نے ایک دردناک کالم میں عافیہ کے بارے میں لکھا تھا، اس میں کسی فون کا حوالہ دیا تھا اور لکھا تھا کہ میرے لئے مزید دکھ کی بات یہ تھی کہ اس بچی کی آواز میری بیٹی سے ملتی تھی… واللہ نہیں! کوئی دوسرا اپنے بیٹوں جیسا نہیں سمجھا جاتا، ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کے سوچیے … اگر لاہور کے باسی، کراچی کے باشندے اور سیالکوٹ کے رہنے والے ان بے گھر خانماں برباد معصوموں، سرد ہوائوں میں تنکوں کی طرح کانپتے بچوں اور خزاں رسیدہ آنکھوں والے بوڑھوں کو اپنا جانتے تو کیا انہیں راتوں کو نیند آتی، کیا ہمارے لبوں پہ ہنسی مچلتی، کیا ہمارے گھروں میں اضافی سامان اور بے شمار زائد بستر یوں ہی پڑے ہوتے؟؟
عوام پوچھتے ہیں، اگر تمہارے اپنے دامن میں غیرت نہیں تو کیا دہن میں ان درد مندوں کے لئے نوا بھی نہیں، اگر تمہارے پاس کچھ نہیں تو صرف ایک ہفتہ جا کے ان متاثرین میں بیٹھ جائو۔ بخدا تمہاری اتنی سی قربانی اور صدا پہ ہی یہ قوم اپنا سب کچھ نچھاور کر دے گی اور بے ردابچیوں اور بے لباس بچوں کو راتوں میں بستر مہیا ہو جائیں گے۔
سیلاب ہیں، زلزلے ہیں اور نت نئے عذاب ہیں مگر ایک عذاب سب سے سوا ہے… بتانِ آزاری بہت ہیں، حکمران کوئی نہیں، گیلانی و زردار اور شریف و شریر بہت ہیں عمر کوئی نہیں۔اے کاش یہ زرداری و گیلانی نہ ہوتے، یہ شریف و شریر نہ ہوتے بس اک عمر ہوتا!!…؎
اس آشفتگی کے ہاتھوں سر ہے وبال دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں



بشکریہ۔۔ہفت روزہ جرار
 
Top