اے وقت ÷÷پھر گواہی دینا ذرا

طاھر جاوید

محفلین
چُرا کے وقت کی آنکھ سے خود کو
گُلشنِ لمحاتِ بےگماں میں
ہم بیٹھے رہےبے خود بے دم سے ترے رُوبرُو
اُسی لفظِ مُقرر سے شروع
اُسی لفظِ مُقرر پہ ختم
ہوئی تیری میری گُفتگُو

پھر گواہی دینا ذرا

دُوری و قُربت کے سلسلے وہی
وہی معیت اپنے سائے کی
اور اپنے آپ سے وہی رجوع
پھر کُچھ نئی محرومیاں
پھر اک نئی سی جستجو
یقیں و نا یقینیاں
ایکدوسرے سے یونہیں دیکھو جاناںہمیشہ کی طرح دُوبدُو

پھر گواہی دینا ذرا

اِس جُنجھٹ و جُنجال میں بھی
تِرے لفظِ مکرر کی خوشبو
صحنِ خیالِ جان میں
اُڑتی نظر آئے کوبکواور
تصورِمنظرِ خوش گُماں میں
اب تو معلق ہے چہار سوُ

پھر گواہی دینا ذرا

اِسی لفظِ مکرر کی خُوشبو
اس گُذرتے عرصے میں
ترے مرے درمیاں
اسقدر پھیلتی جُدائی سے
اک خوف کی دُھند میں لِپٹی
کیسے معدوم ہو رہی ہے

پھر گواہی دینا ذرا

کتنے مہ و سالوں تلک
گنتی رہیں گی تتلیاں
گُل سے جُدائیوں کے دِن
کِتنے برسوں تک ہر پیڑ اب کے
اُن پرندوں کے خواب دیکھے
جو اُس کی شاخِ ہستی پہ
پھر گھونسلے بنانے آئیِں
کبھی رُبرو کبھی کوبکو

پھر گواہی دینا ذرا


 
Top