جاسم محمد
محفلین

پہلی جنگ عظیم کے دوران فرانس کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ’جنگ جیسے اہم معاملے کو فوجی جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا‘ اس لئے فوج اور فوجی جرنیلوں کی استعداد کار کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جاناضروری ہے۔لیکن فوج کو ہمارے معاشرے میں جو مقام حاصل ہے، اس کے پیش نظر فوجی افسران، خاص طور پر اعلیٰ افسران کی ذہنیت (اور ذہنی استعداد) کے متعلق اردو ذرائع ابلاغ میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ پاکستانی فوج اور اسکی اعلیٰ کمان کی جنگی صلاحیتوں اور منصوبہ بندی پر اک نظر ڈالنے کی خاطر یہ سلسلہ مضامین پیش خدمت ہے۔ ان مضامین کی تیاری میں پاکستان کی تشکیل سے اب تک کے مختلف پاکستانی جرنیلوں اکبر خان، ایوب خان،فضل مقیم خان، موسیٰ خان،امیر عبداللہ خان نیازی، شیر علی خان پٹودی، اصغر خان، گل حسن، عبدالرحمان صدیقی، پرویز مشرف اور شاہدعزیز کی سوانح سے مدد لی گئی ہے۔
جون 1947ء کے اعلان تقسیم ہند کے مطابق مسلمان فوجیوں کو پاکستان جبکہ غیر مسلم افواج کو ہندوستان کی کمان میں دیے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔پاکستان کے حصے میں تینتیس33جبکہ بھارت کے حصے میں اٹھاسی88 فوجی بٹالین آئے
بیسویں صدی میں دنیا بھر میں نئے ممالک جغرافیائی سرحدوں کی بنیاد پر تشکیل پائے اور ریاست کی بنیادی ذمہ داری ان جغرافیائی حدود کا تحفظ ٹھہری۔ ایٹم بم کی ایجاد کے بعد جنگ عظیم اول کی طرز پہ خندقوں میں جنگ یا جنگ عظیم دوم میں وقوع پانے والی ٹینکوں کی جنگیں کافی حد تک متروک ہو گئیں۔ دوسری جنگ عظیم میں جنگی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد تاج برطانیہ اپنی سابقہ نو آبادیوں کو خیر باد کہنے لگا اور برما، سری لنکا کے بعد برصغیر کی باری آئی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی وساطت سے برصغیر میں داخلے اور 1857ء کی جنگ کے بعد تاج برطانیہ نے ہندوستان کو سونے کی چڑیا کے طور پر استعمال کیا۔ ہندوستان کے شمالی اضلاع (موجودہ پنجاب، خیبر پختونخواہ) اور ہمالیہ کی آغوش میں واقع علاقے(موجودہ نیپال) سے انگریز فوج کو انگنت سپاہی حاصل ہوئے اور یہ سلسلہ 1857ء کی جنگ کے بعد بڑھایا گیا کیونکہ پنجابی اور پٹھان فوجی دستوں نے باغیوں سے نپٹنے میں اپنی شجاعت اور وفا داری ثابت کی تھی۔ پہلی جنگ عظیم میں ہندوستانی دستوں کو پہلے افریقہ کے محاذ پر بھیجا گیا اور بعدازا ں یورپ کے مختلف علاقوں میں تعینات کیا گیا۔ حال ہی میں ہندوستانی فوجیوں کے فرانس کے محاذ سے مکتوب منظر عام پر آئے ہیں اور ان خطوط سے ہندوستانی فوجیوں کی ذہنی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس جنگ میں تیرہ لاکھ ہندوستانی فوجیوں نے حصہ لیا جن میں سے چوہتر(74) ہزار سپاہی مارے گئے۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز سے دو سال قبل ہندوستانیوں کو مقامی افواج کا افسر بننے کی اجازت دی گئی اور ڈیرہ دھون میں واقع فوجی تربیت گاہ سے چنیدہ افراد کو مزید تربیت کیلئے انگلستان میں سینڈ ہرسٹ (Sand Hurst) بھیجا جاتا رہا۔
دوسری جنگ عظیم اور ہندوستانی سپاہ
دوسری جنگ عظیم میں ہندوستانی افواج کو افریقہ اور برما کے محاذوں پر بھیجا گیا البتہ ہندوستان کے اندرونی حالات اس وقت تک بدل چکے تھے۔ خطے کی مقبول ترین جماعت کانگرس نے سامراج کی جنگ کے خلاف جدوجہد شروع کر رکھی تھی اور کانگرس کے سابق صدر سبھاش چندر بو س نازی جرمنی کی مدد سے آزاد ہند فوج تخلیق دے چکے تھے۔ اس سیاسی خلا کا فائدہ آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت نے اٹھایا او ر تاج برطانیہ کو جنگ کے دوران اپنی جماعت اور مسلمانوں کی مکمل وفا داری کا یقین دلایا۔ امریکی اور روسی افواج کی شرکت سے قبل برطانیہ اور فرانس کی افواج شکست خوردہ تھیں اور نازی جرمنی کے حمایتی اٹلی اور جاپان جنگ میں برتری حاصل کر چکے تھے۔1944-45میں برما کے محاذ پر ایوب خان نامی ایک مسلمان افسر کو ڈسپلن کی خلاف ورزی اور جنگی قابلیت کی نااہلی کی بنیاد پر جنگ سے واپس ہندوستان بھیجا گیاجبکہ اسی محاذ پر اکبر خان نامی مسلمان افسر کو شجاعت کی بنیاد پر تمغے سے نوازا گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں ستاسی (87) ہزار ہندوستانی فوجی برطانیہ کی جانب سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ فروری سنہ 1946ء میں برطانوی نیوی میں موجود ہندوستانی سپاہیوں نے بغاوت کر دی اور حکومت نے طاقت کے بل بوتے پر اس بغاوت کو کچل دیا۔
آزادی اور تقسیم سپاہ
سنہ 1945ء میں کلیمنٹ ایٹلی نے چرچل کی جماعت کو پارلیمانی انتخابات میں شکست سے دوچار کیا اور سنہ 1946ء میں برطانوی نو آبادیات کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کیلئے سنہ 1947ء میں شاہ برطانیہ کے دور پار کے رشتہ دار اور دوسری جنگ عظیم میں مشرقی محاذ کے سربراہ ماؤنٹ بیٹن کو برصغیر کا وائسرائے منتخب کیا گیا۔ تقسیم ہند کے لیے تجاویز 1942ء میں کرپس مشن کی آمد سے شروع ہو چکی تھیں اور مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں کی نمائندہ جماعتیں اس سلسلے میں دس سال کے وقفے سے لاہور شہر میں قراردادیں پیش کر چکی تھیں۔ برصغیر کی تقسیم کے موقعے پر تاج برطانیہ کیلئے مشکل ترین مرحلہ ہندوستانی فوج کو تقسیم کرنا تھا۔
تقسیم کے موقع پر فسادات سے نبٹنے کیلئے پنجاب باؤنڈری فورس تشکیل دی گئی جس میں پاکستان کی جانب سے بریگیڈیئر ایوب خان جبکہ بھارت کی جانب سے ایک غیر مسلم بریگیڈیر کو کمان کیلئے منتخب کیا گیا۔ بریگیڈیئر ایوب خان مہاراجہ پٹیالہ کی بیگم کی زلف کے اسیر ہوئے اور اپنی ڈیوٹی فراموش کر بیٹھے۔
تم فوجی ہو سیاست کرنا تمہارا کام نہیں
ہندوستانی فوج میں اعلیٰ ترین مسلمان فوجی افسر اعزازی میجر جنرل اکبر خان تھا(برما والے اکبر خان سے انکا کوئی تعلق نہیں )۔ پاکستانی افواج کی سربراہی جنرل میسروی کے سپرد تھی جبکہ متحدہ ہندوستان کی افواج کی اعلیٰ کمان جنرل آکنیلک کے ہاتھ میں تھی۔جناح صاحب فوج کے سیاسی کردار سے متعلق واضح نقطہ نظر رکھتے تھے۔اصغر خان کے مطابق قیام پاکستان کے بعد جناح صاحب اور بر یگیڈئر اکبر خان ایک محفل میں موجود تھے تو اکبر خان نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کو حکومت سے متعلق مشورے دینے شروع کر دیےجس پر قائد اعظم نے اکبر خان کو سختی سے ٹوکا اور کہا کہ تم فوجی ہو، سیاست کرنا تمہارا کام نہیں ہے۔
قبائلی لشکر، کشمیر اور اکبر علی خان
امریکہ میں مقیم دفاعی تجزیہ نگار احمد فاروقی کے مطابق پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی کے تین اہم جزو ہیں؛ بھارت کا خوف،دوست ممالک کی امدادکی امید اوراپنی عسکری صلاحیت پر ضرورت سے زیادہ اعتماد۔
اگر پاکستانی عسکری تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو 48 کی جنگ سے اب تک قومی سلامتی کی اس پالیسی کے باعث پاکستان اپنی سلامتی سے متعلق غلط عسکری فیصلے کرتارہا ہے۔
پاکستان نے غیر رسمی افواج (Irregular Forces) کا استعمال 70 ء یا 80ء کی دہائی میں نہیں بلکہ اپنے قیام کے چند ماہ بعد ہی شروع کر دیا تھا۔ کشمیر کے ہندو راجہ کے خلاف مسلمان آبادی کی تحریک سنہ 1931ء سے جاری تھی اور تقسیم کے موقع پر قیاس تھا کہ راجہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرے گا۔ راجہ ابھی فیصلے سے متعلق افہام وتفہیم میں مگن تھا کہ وزیر ستان سے قبائلی لشکر(جو پشاور میں تشکیل دیا گیا) اور کشمیر کے ملحقہ علاقوں (اڑی،پونچھ) سے آزاد ہند فوج کے سابقہ اہلکاروں پر مشتمل فوج نے وادی کشمیر پر ہلہ بول دیا۔ جنگ سے قبل کرنل شیر خان نے فوج کی اعلیٰ کمان کو ایک رپورٹ بھیجی جس کے مطابق پاکستانی لشکروں اور فوجی دستوں کا مقصد، ہندو راجہ کے خلاف کشمیری آبادی کے جذبات کو مزید ہوا دینا، ہونا چاہیے تھا۔کشمیر میں آزاد دستوں کیلئے خصوصی GHQ تشکیل دیا گیا اورلڑائی میں شریک افسران خود ہی اپنے آپ کو ترقی نوازتے رہے اورمہینوں میں میجر سے جنرل بننے لگے۔
اس کارروائی کو پاکستان کی باقاعدہ فوج کی درپردہ حمایت حاصل تھی اور بریگیڈئر اکبر خان (جو اپنے آپ کو طارق بن زیاد کے تتمہ میں جنرل اکبر خان طارق کہلوانا پسند کرتے تھے) پاکستانی فوج اور قبائلی لشکر کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرتے رہے۔ پاکستانی لشکر سری نگر کے مضافات میں پہنچا تو قبائلیوں نے لوٹ مار کا سلسلہ شروع کر دیاجس کے باعث مقامی کشمیری آبادی میں ان کے خلاف منفی جذبات پیدا ہوئے اور فوج کی یلغار بھی رک گئی۔راجہ خورشید انور اور کشمیری لیڈران اس بحث میں مشغول رہے کہ سری نگر کی جانب فاتحانہ مارچ کی قیادت کون کرے گا اور دو روز تک بارامولا سے آگے پیش رفت نہ ہو سکی۔اس اثنا ء میں راجہ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا اور ہندوستانی فوج سری نگر پہنچ گئی جس کے بعد پاکستانی اور ہندوستانی افواج میں باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا جو اقوام متحدہ کی کوشش سے اختتام کو پہنچی۔ بعدازاں اکبر خان صاحب نے پاکستانی حکومت کا تختہ الٹنے اور کشمیر آزاد کروانے کی خاطر ایک منصوبہ ترتیب دیا جو کہ تاریخ میں راولپنڈی سازش کیس کے نام سے مشہور ہے۔
جناح اپنی زندگی میں ایوب خان کو پسند نہیں کرتے تھے اور انہیں مشرقی پاکستان کی کمان سے ہٹانے کا حکم نامہ جاری کر چکے تھے۔ ایوب خان کو ان کی جنگی اہلیت یا ذہانت کی بنیاد پر نہیں بلکہ وفاداری اور سادگی کی بنا پر کمان سونپی گئی۔
پہلا پاکستانی کمانڈر انچیف
جنرل گریسی سنہ 1951ء میں ریٹائر ہوئے تو پہلے پاکستانی کمانڈر ان چیف کی تقرری کا وقت آیا۔کشمیر میں فوجی کارروائی کے دوران انگریز افسران کی ہچکچاہٹ پر بہت سے پاکستانی افسران سیخ پا تھے اور ’پہلے پاکستانی کمانڈر انچیف‘ کے متعلق پیش گوئیاں اور سرگوشیاں فوجی حلقوں میں سنی جا رہی تھیں۔کشمیر میں ایک بٹالین کمانڈر کے مطابق ’ہم میں سے ہر افسر خالد اور طارق ہے‘۔یہ افسران فیلڈ مارشل آکنیلک کے اس خفیہ حکم نامے سے بے خبر تھے کہ برطانوی افسران کو پاک بھارت جنگ کی صورت میں غیر جانب دار رہنا ہو گا۔سول اینڈ ملٹری گزیٹ نامی اخبار میں اپنے چہیتے صحافیوں کے ذریعے بریگیڈئر اکبر خان، بریگیڈئر اعظم اور بریگیڈئر شیر خان انگریز افسران کے خلاف افواہیں پھیلاتے رہے۔اعظم خان کو 1950ء میں میجر جنرل بنا کر لاہور ڈویژن کی کمان دی گئی۔سینئر موسٹ پاکستانی جنرل، اکبر خان نے عہدہ قبول کرنے سے انکار کیا اور انکے بعد انکے بھائی جنرل افتخار سب سے سینئر تھے۔ جنرل افتخار دسمبر 1949ء میں فضائی حادثے کا شکار ہوئے اور سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا کی سفارش پر فوج میں چوتھے نمبر پر سینئر جنرل ایوب خان کو یہ عہدہ نوازاگیا.والی سوات کے مطابق اسکندر مرزا نے اندھوں میں کانا راجا کے مصداق ایوب خان کا چناؤ کیا۔ایوب خان کے فوج کی کمان سنبھالنے کے چند ماہ بعد بھارتی افواج سرحدی علاقوں پر جمع ہوئیں تو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ایوب سے کہا: ہم ان روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آ چکے ہیں، ایک ہی دفعہ جنگ کر کے اس قضیہ کو حل کر دینا چاہئے۔ اس پر ایوب خان نے تبصرہ کیا کہ ایسا کوئی فیصلہ کرنے سے قبل پیشہ ور سپاہیوں کی رائے بھی سن لینی چاہئے۔
(جاری ہے)