اے وطن کے سجیلے جوانو!

جاسم محمد

محفلین
blasphemy-law-illus670asdasd-890x395_c.jpg


پہلی جنگ عظیم کے دوران فرانس کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ’جنگ جیسے اہم معاملے کو فوجی جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا‘ اس لئے فوج اور فوجی جرنیلوں کی استعداد کار کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جاناضروری ہے۔لیکن فوج کو ہمارے معاشرے میں جو مقام حاصل ہے، اس کے پیش نظر فوجی افسران، خاص طور پر اعلیٰ افسران کی ذہنیت (اور ذہنی استعداد) کے متعلق اردو ذرائع ابلاغ میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ پاکستانی فوج اور اسکی اعلیٰ کمان کی جنگی صلاحیتوں اور منصوبہ بندی پر اک نظر ڈالنے کی خاطر یہ سلسلہ مضامین پیش خدمت ہے۔ ان مضامین کی تیاری میں پاکستان کی تشکیل سے اب تک کے مختلف پاکستانی جرنیلوں اکبر خان، ایوب خان،فضل مقیم خان، موسیٰ خان،امیر عبداللہ خان نیازی، شیر علی خان پٹودی، اصغر خان، گل حسن، عبدالرحمان صدیقی، پرویز مشرف اور شاہدعزیز کی سوانح سے مدد لی گئی ہے۔

جون 1947ء کے اعلان تقسیم ہند کے مطابق مسلمان فوجیوں کو پاکستان جبکہ غیر مسلم افواج کو ہندوستان کی کمان میں دیے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔پاکستان کے حصے میں تینتیس33جبکہ بھارت کے حصے میں اٹھاسی88 فوجی بٹالین آئے
بیسویں صدی میں دنیا بھر میں نئے ممالک جغرافیائی سرحدوں کی بنیاد پر تشکیل پائے اور ریاست کی بنیادی ذمہ داری ان جغرافیائی حدود کا تحفظ ٹھہری۔ ایٹم بم کی ایجاد کے بعد جنگ عظیم اول کی طرز پہ خندقوں میں جنگ یا جنگ عظیم دوم میں وقوع پانے والی ٹینکوں کی جنگیں کافی حد تک متروک ہو گئیں۔ دوسری جنگ عظیم میں جنگی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد تاج برطانیہ اپنی سابقہ نو آبادیوں کو خیر باد کہنے لگا اور برما، سری لنکا کے بعد برصغیر کی باری آئی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی وساطت سے برصغیر میں داخلے اور 1857ء کی جنگ کے بعد تاج برطانیہ نے ہندوستان کو سونے کی چڑیا کے طور پر استعمال کیا۔ ہندوستان کے شمالی اضلاع (موجودہ پنجاب، خیبر پختونخواہ) اور ہمالیہ کی آغوش میں واقع علاقے(موجودہ نیپال) سے انگریز فوج کو انگنت سپاہی حاصل ہوئے اور یہ سلسلہ 1857ء کی جنگ کے بعد بڑھایا گیا کیونکہ پنجابی اور پٹھان فوجی دستوں نے باغیوں سے نپٹنے میں اپنی شجاعت اور وفا داری ثابت کی تھی۔ پہلی جنگ عظیم میں ہندوستانی دستوں کو پہلے افریقہ کے محاذ پر بھیجا گیا اور بعدازا ں یورپ کے مختلف علاقوں میں تعینات کیا گیا۔ حال ہی میں ہندوستانی فوجیوں کے فرانس کے محاذ سے مکتوب منظر عام پر آئے ہیں اور ان خطوط سے ہندوستانی فوجیوں کی ذہنی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس جنگ میں تیرہ لاکھ ہندوستانی فوجیوں نے حصہ لیا جن میں سے چوہتر(74) ہزار سپاہی مارے گئے۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز سے دو سال قبل ہندوستانیوں کو مقامی افواج کا افسر بننے کی اجازت دی گئی اور ڈیرہ دھون میں واقع فوجی تربیت گاہ سے چنیدہ افراد کو مزید تربیت کیلئے انگلستان میں سینڈ ہرسٹ (Sand Hurst) بھیجا جاتا رہا۔

دوسری جنگ عظیم اور ہندوستانی سپاہ
دوسری جنگ عظیم میں ہندوستانی افواج کو افریقہ اور برما کے محاذوں پر بھیجا گیا البتہ ہندوستان کے اندرونی حالات اس وقت تک بدل چکے تھے۔ خطے کی مقبول ترین جماعت کانگرس نے سامراج کی جنگ کے خلاف جدوجہد شروع کر رکھی تھی اور کانگرس کے سابق صدر سبھاش چندر بو س نازی جرمنی کی مدد سے آزاد ہند فوج تخلیق دے چکے تھے۔ اس سیاسی خلا کا فائدہ آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت نے اٹھایا او ر تاج برطانیہ کو جنگ کے دوران اپنی جماعت اور مسلمانوں کی مکمل وفا داری کا یقین دلایا۔ امریکی اور روسی افواج کی شرکت سے قبل برطانیہ اور فرانس کی افواج شکست خوردہ تھیں اور نازی جرمنی کے حمایتی اٹلی اور جاپان جنگ میں برتری حاصل کر چکے تھے۔1944-45میں برما کے محاذ پر ایوب خان نامی ایک مسلمان افسر کو ڈسپلن کی خلاف ورزی اور جنگی قابلیت کی نااہلی کی بنیاد پر جنگ سے واپس ہندوستان بھیجا گیاجبکہ اسی محاذ پر اکبر خان نامی مسلمان افسر کو شجاعت کی بنیاد پر تمغے سے نوازا گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں ستاسی (87) ہزار ہندوستانی فوجی برطانیہ کی جانب سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ فروری سنہ 1946ء میں برطانوی نیوی میں موجود ہندوستانی سپاہیوں نے بغاوت کر دی اور حکومت نے طاقت کے بل بوتے پر اس بغاوت کو کچل دیا۔

آزادی اور تقسیم سپاہ
سنہ 1945ء میں کلیمنٹ ایٹلی نے چرچل کی جماعت کو پارلیمانی انتخابات میں شکست سے دوچار کیا اور سنہ 1946ء میں برطانوی نو آبادیات کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کیلئے سنہ 1947ء میں شاہ برطانیہ کے دور پار کے رشتہ دار اور دوسری جنگ عظیم میں مشرقی محاذ کے سربراہ ماؤنٹ بیٹن کو برصغیر کا وائسرائے منتخب کیا گیا۔ تقسیم ہند کے لیے تجاویز 1942ء میں کرپس مشن کی آمد سے شروع ہو چکی تھیں اور مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں کی نمائندہ جماعتیں اس سلسلے میں دس سال کے وقفے سے لاہور شہر میں قراردادیں پیش کر چکی تھیں۔ برصغیر کی تقسیم کے موقعے پر تاج برطانیہ کیلئے مشکل ترین مرحلہ ہندوستانی فوج کو تقسیم کرنا تھا۔
تقسیم کے موقع پر فسادات سے نبٹنے کیلئے پنجاب باؤنڈری فورس تشکیل دی گئی جس میں پاکستان کی جانب سے بریگیڈیئر ایوب خان جبکہ بھارت کی جانب سے ایک غیر مسلم بریگیڈیر کو کمان کیلئے منتخب کیا گیا۔ بریگیڈیئر ایوب خان مہاراجہ پٹیالہ کی بیگم کی زلف کے اسیر ہوئے اور اپنی ڈیوٹی فراموش کر بیٹھے۔
تم فوجی ہو سیاست کرنا تمہارا کام نہیں
ہندوستانی فوج میں اعلیٰ ترین مسلمان فوجی افسر اعزازی میجر جنرل اکبر خان تھا(برما والے اکبر خان سے انکا کوئی تعلق نہیں )۔ پاکستانی افواج کی سربراہی جنرل میسروی کے سپرد تھی جبکہ متحدہ ہندوستان کی افواج کی اعلیٰ کمان جنرل آکنیلک کے ہاتھ میں تھی۔جناح صاحب فوج کے سیاسی کردار سے متعلق واضح نقطہ نظر رکھتے تھے۔اصغر خان کے مطابق قیام پاکستان کے بعد جناح صاحب اور بر یگیڈئر اکبر خان ایک محفل میں موجود تھے تو اکبر خان نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کو حکومت سے متعلق مشورے دینے شروع کر دیےجس پر قائد اعظم نے اکبر خان کو سختی سے ٹوکا اور کہا کہ تم فوجی ہو، سیاست کرنا تمہارا کام نہیں ہے۔

قبائلی لشکر، کشمیر اور اکبر علی خان
امریکہ میں مقیم دفاعی تجزیہ نگار احمد فاروقی کے مطابق پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی کے تین اہم جزو ہیں؛ بھارت کا خوف،دوست ممالک کی امدادکی امید اوراپنی عسکری صلاحیت پر ضرورت سے زیادہ اعتماد۔
اگر پاکستانی عسکری تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو 48 کی جنگ سے اب تک قومی سلامتی کی اس پالیسی کے باعث پاکستان اپنی سلامتی سے متعلق غلط عسکری فیصلے کرتارہا ہے۔
پاکستان نے غیر رسمی افواج (Irregular Forces) کا استعمال 70 ء یا 80ء کی دہائی میں نہیں بلکہ اپنے قیام کے چند ماہ بعد ہی شروع کر دیا تھا۔ کشمیر کے ہندو راجہ کے خلاف مسلمان آبادی کی تحریک سنہ 1931ء سے جاری تھی اور تقسیم کے موقع پر قیاس تھا کہ راجہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرے گا۔ راجہ ابھی فیصلے سے متعلق افہام وتفہیم میں مگن تھا کہ وزیر ستان سے قبائلی لشکر(جو پشاور میں تشکیل دیا گیا) اور کشمیر کے ملحقہ علاقوں (اڑی،پونچھ) سے آزاد ہند فوج کے سابقہ اہلکاروں پر مشتمل فوج نے وادی کشمیر پر ہلہ بول دیا۔ جنگ سے قبل کرنل شیر خان نے فوج کی اعلیٰ کمان کو ایک رپورٹ بھیجی جس کے مطابق پاکستانی لشکروں اور فوجی دستوں کا مقصد، ہندو راجہ کے خلاف کشمیری آبادی کے جذبات کو مزید ہوا دینا، ہونا چاہیے تھا۔کشمیر میں آزاد دستوں کیلئے خصوصی GHQ تشکیل دیا گیا اورلڑائی میں شریک افسران خود ہی اپنے آپ کو ترقی نوازتے رہے اورمہینوں میں میجر سے جنرل بننے لگے۔
اس کارروائی کو پاکستان کی باقاعدہ فوج کی درپردہ حمایت حاصل تھی اور بریگیڈئر اکبر خان (جو اپنے آپ کو طارق بن زیاد کے تتمہ میں جنرل اکبر خان طارق کہلوانا پسند کرتے تھے) پاکستانی فوج اور قبائلی لشکر کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرتے رہے۔ پاکستانی لشکر سری نگر کے مضافات میں پہنچا تو قبائلیوں نے لوٹ مار کا سلسلہ شروع کر دیاجس کے باعث مقامی کشمیری آبادی میں ان کے خلاف منفی جذبات پیدا ہوئے اور فوج کی یلغار بھی رک گئی۔راجہ خورشید انور اور کشمیری لیڈران اس بحث میں مشغول رہے کہ سری نگر کی جانب فاتحانہ مارچ کی قیادت کون کرے گا اور دو روز تک بارامولا سے آگے پیش رفت نہ ہو سکی۔اس اثنا ء میں راجہ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا اور ہندوستانی فوج سری نگر پہنچ گئی جس کے بعد پاکستانی اور ہندوستانی افواج میں باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا جو اقوام متحدہ کی کوشش سے اختتام کو پہنچی۔ بعدازاں اکبر خان صاحب نے پاکستانی حکومت کا تختہ الٹنے اور کشمیر آزاد کروانے کی خاطر ایک منصوبہ ترتیب دیا جو کہ تاریخ میں راولپنڈی سازش کیس کے نام سے مشہور ہے۔
جناح اپنی زندگی میں ایوب خان کو پسند نہیں کرتے تھے اور انہیں مشرقی پاکستان کی کمان سے ہٹانے کا حکم نامہ جاری کر چکے تھے۔ ایوب خان کو ان کی جنگی اہلیت یا ذہانت کی بنیاد پر نہیں بلکہ وفاداری اور سادگی کی بنا پر کمان سونپی گئی۔

پہلا پاکستانی کمانڈر انچیف
جنرل گریسی سنہ 1951ء میں ریٹائر ہوئے تو پہلے پاکستانی کمانڈر ان چیف کی تقرری کا وقت آیا۔کشمیر میں فوجی کارروائی کے دوران انگریز افسران کی ہچکچاہٹ پر بہت سے پاکستانی افسران سیخ پا تھے اور ’پہلے پاکستانی کمانڈر انچیف‘ کے متعلق پیش گوئیاں اور سرگوشیاں فوجی حلقوں میں سنی جا رہی تھیں۔کشمیر میں ایک بٹالین کمانڈر کے مطابق ’ہم میں سے ہر افسر خالد اور طارق ہے‘۔یہ افسران فیلڈ مارشل آکنیلک کے اس خفیہ حکم نامے سے بے خبر تھے کہ برطانوی افسران کو پاک بھارت جنگ کی صورت میں غیر جانب دار رہنا ہو گا۔سول اینڈ ملٹری گزیٹ نامی اخبار میں اپنے چہیتے صحافیوں کے ذریعے بریگیڈئر اکبر خان، بریگیڈئر اعظم اور بریگیڈئر شیر خان انگریز افسران کے خلاف افواہیں پھیلاتے رہے۔اعظم خان کو 1950ء میں میجر جنرل بنا کر لاہور ڈویژن کی کمان دی گئی۔سینئر موسٹ پاکستانی جنرل، اکبر خان نے عہدہ قبول کرنے سے انکار کیا اور انکے بعد انکے بھائی جنرل افتخار سب سے سینئر تھے۔ جنرل افتخار دسمبر 1949ء میں فضائی حادثے کا شکار ہوئے اور سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا کی سفارش پر فوج میں چوتھے نمبر پر سینئر جنرل ایوب خان کو یہ عہدہ نوازاگیا.والی سوات کے مطابق اسکندر مرزا نے اندھوں میں کانا راجا کے مصداق ایوب خان کا چناؤ کیا۔ایوب خان کے فوج کی کمان سنبھالنے کے چند ماہ بعد بھارتی افواج سرحدی علاقوں پر جمع ہوئیں تو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ایوب سے کہا: ہم ان روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آ چکے ہیں، ایک ہی دفعہ جنگ کر کے اس قضیہ کو حل کر دینا چاہئے۔ اس پر ایوب خان نے تبصرہ کیا کہ ایسا کوئی فیصلہ کرنے سے قبل پیشہ ور سپاہیوں کی رائے بھی سن لینی چاہئے۔
(جاری ہے)
 

جاسم محمد

محفلین
مارچ 1951ء میں راولپنڈی سازش کیس منظر عام پر آیا۔ فوجی بغاوت کے ذریعہ قتدار پر قبضہ کا منصوبہ تو اصل میں جہاد اور کشمیر کے سنہرے خواب آنکھوں میں سجانے والے میجر جنرل اکبر خان کا تھا لیکن مقدمہ کی کاروائی کے دوران ملبہ کمیونسٹ پارٹی پر ڈال دیا گیا ( کیونکہ اس دور میں پاکستان کو ایک عالمی پالن ہار کی تلاش تھی اور امریکہ کو رام کرنے کیلئے کمیونزم کا ہوّا استعمال کرنا آسان تھا )۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر اکبرخان کا منصوبہ کامیاب بھی ہو جاتا تو پرولتاریہ کی حکومت قائم ہونے کا کوئی امکان موجود نہ تھا اور پاکستان کمیونسٹ پارٹی اس منصوبے کو ناقابل عمل قرار دے چکی تھی۔ سازش کے حوالےسے دستیاب مواد کے مطابق ملک سے کرپشن کا خاتمہ عبوری حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل تھا۔

سازش کے ابتدائی خدوخال
جنرل اکبر خان کے منصوبے کے تحت تمام اعلیٰ عسکری و سیاسی قیادت کو گرفتار کر کے اقتدار ایک فوجی کونسل کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔نومبر 1949ء میں اکبر خان کی تعیناتی کوہاٹ میں تھی ۔ دسمبر کے پہلے ہفتے میں اٹک کے مقام پر اکبرخان اور ان کے ساتھیوں کے درمیان ملاقات میں یہ طے ہوا کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کو دسمبر میں پشاور کے سرکاری دورے کے دوران گرفتار کر لیا جائے ۔گرفتاری کے بعدلیاقت علی خان سے ریڈیو پر اعلان کروایا جانا تھا کہ انہوں نے ہنگامی حالات کی وجہ سے استعفیٰ دے کر حکومت فوجی کونسل کے سپرد کر دی ہے۔وزیر اعظم کی گرفتاری کے بعد جی ایچ کیو سے کمانڈر انچیف، چیف آف سٹاف، تمام برطانوی افسران اور جنرل رضا کو گرفتار کر نے کے ساتھ تمام کور کمانڈروں کو راولپنڈی بلا کر گرفتار کر نا بھی منصوبے کا حصہ تھا۔اسی دوران لاہور سے گرنرجنرل کو گرفتال کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
سازش کے مطابق میجر جنرل نظیر احمد کو نیا کمانڈر انچیف مقرر کیا جانا تھا جبکہ فوجی کونسل میں بریگیڈیئر اکبر خان، برگیڈیئر صادق، برگیڈیئر لطیف، برگیڈئیر حبیب اللہ، ایئر کموڈور جنجوعہ اور لفٹیننٹ کرنل صدیق راجہ نے شامل ہونا تھا۔ ملٹری کونسل نے اقتدار سنبھالنے کے چھ ماہ کے اندر نئے انتخابات کرانے تھے۔ اکبر خان کے مطابق اس عمل کے محرکات ملک کی ابتر معاشی صورت حال، کشمیر کے معاملے پر حکومت کی کمزوری اور اندرونی وبیرونی حالات میں حکومت کی نااہلی شامل تھے۔ دسمبر کے آخری ہفتے میں وزیر اعظم نے صوبہ سرحد کا دورہ کیا لیکن یہ منصوبہ برگیڈیئر حبیب اللہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔

"حکومت کو جنگ کی الف-ب کا بھی علم نہیں"
انہی دنوں اکبر خان کو حکومت کی جانب سے کورس کیلئے برطانیہ بھیجا گیا اور واپسی پر چیف آف جنرل سٹاف بنا دیا گیا۔ اس دوران سازش کے باقی ارکان نے آپس میں رابطہ برقرار رکھا اور مزید افسران کو اس منصوبے کا حصہ بنایا۔ اکبر خان نے کئی ماہ منصوبے کی نوک پلک سنوارنے میں فروری 1951ء میں پنجاب رجمنٹ کے ایک عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے میجر جنرل اکبر خان نے کہا کہ موجودہ سیاسی حکومت کو جنگ کی الف بے کا بھی علم نہیں، کشمیر کی جنگ ہندو بنیئے کے خلاف تھی، اس میں اقوام متحدہ کو شریک کرنا غلط تھا۔ گزارے اور کچھ سویلین افراد کو بھی اس سازش سے آگاہ کیا۔
فروری 1951ء میں پنجاب رجمنٹ کے ایک عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے میجر جنرل اکبر خان نے کہا کہ موجودہ سیاسی حکومت کو جنگ کی الف بے کا بھی علم نہیں، کشمیر کی جنگ ہندو بنیئے کے خلاف تھی، اس میں اقوام متحدہ کو شریک کرنا غلط تھا۔
تقریر کے اختتام پر اکبر خان نے وہاں موجود افسران سے پوچھا کہ آیا وہ کشمیر کیلئے لڑنا چاہتے ہیں تو تمام افسران نے یک زبان ہو کر اثبات میں جواب دیا۔ 23 فروری 1951ء کو راولپنڈی میں اکبر خان کے گھر منصوبے کے بنیادی ارکان کا اجلاس ہوا۔ اتفاق سے اس روز جی ایچ کیو میں کسی ضروری امر پر اعلیٰ افسران کی میٹنگ ہونی تھی جس میں اکبر خان نے اپنی جگہ برگیڈیئر حبیب اللہ کو بھیج دیا۔ اس ملاقات سے کچھ روز قبل میجر یوسف سیٹھی اور اکبر خان نے سہالہ کیمپ کا دورہ کیا کیونکہ سازش منصوبے کے مطابق گرفتار شدہ افسران کو وہاں رہائش مہیا کی جانی تھی۔ اکبر خان نے کیمپ کی حالت کا مخدوش قرار دیا اور خیال ظاہر کیا کہ اسیران کو کمانڈر انچیف کی رہائش گاہ اور راولپنڈی سرکٹ ہاؤس میں رکھا جائے گا۔

23 فروری کی ملاقات
23 فروری کی ملاقات میں فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، محمد حسین عطا، کیپٹن خضر حیات، یوسف سیٹھی، میجر حسن گل، کیپٹن ظفراللہ پوشنی، لفٹیننٹ کرنل ضیاء الدین، صدیق راجہ اور کرنل ارباب شریک تھے۔ صبح کے ساڑھے دس بجے اکبر خان نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ وہ برما اور شام میں برپا ہونے والی فوجی بغاوتوں سے متاثر ہے اور اسکے خیال میں حکومت پاکستان نااہل اور کرپٹ ہے۔ تازہ منصوبے کے مطابق تین اور چار مارچ کی درمیانی رات کو وزیر اعظم نے راولپنڈی میں صوبائی انتخابات کے سلسلے میں قیام کرنا تھا، اسی رات وزیر اعظم،کمانڈر انچیف، میجر جنرل حیات الدین(کور کمانڈر 7 ڈویژن)، برگیڈیئر الطاف قادر (مقامی برگیڈ کمانڈر)، چیف آف سٹاف جنرل مکے اور دیگر سول وفوجی اہلکاران کو گرفتار کیا جانا تھا۔ تمام کور کمانڈروں کو فی الفور جی ایچ کیو طلب کیا جانا تھا اور انکو گرفتار کرنا مقصود تھا۔ اس دوران محمد حسین عطا کی زیر نگرانی ہزارہ ڈویژن میں موجود پانچ سو کمیونسٹ گوریلوں کو اسلحہ مہیا کرنا تھا تاکہ راولپنڈی میں واقعات پر قابو نہ پایا جا سکے تو گوریلا جنگ کا آغاز کیا جائے۔ کراچی میں ائر کموڈور جنجوعہ کے ذمے گورنر جنرل، وفاقی اور مقامی وزراء، گورنر سندھ اور دیگر سرکاری اہلکاروں کی گرفتاری کا کام لگایا گیا۔ اسکے بعد وزیر اعظم نے پہلے سے لکھی تقریر ریڈیو پر قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے کرنی تھی۔ تقریر کے متن میں یہ بات شامل تھی کہ ہنگامی حالات کے نتیجے میں فوجی کونسل حکومت سنبھال رہی ہے اور میں اپنی کابینہ سمیت مستعفی ہو رہا ہوں، قوم اس نئی فوجی حکومت کے احکام پر عمل درآمد کرے۔
فیض صاحب نے اکبر خان کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام موجودہ سیاسی حکومت سے بیزار ہیں اور فوجی حکومت کی پیروی کریں گے۔ سجاد ظہیر نے مشورہ دیا کہ ’انقلاب‘ کے بعد ملک کی دولت اور وسیع جائیدادیں برابری کے اصول پر تقسیم کی جائیں۔
فیض صاحب نے اکبر خان کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام موجودہ سیاسی حکومت سے بیزار ہیں اور فوجی حکومت کی پیروی کریں گے۔ سجاد ظہیر نے مشورہ دیا کہ ’انقلاب‘ کے بعد ملک کی دولت اور وسیع جائیدادیں برابری کے اصول پر تقسیم کی جائیں۔ صدیق راجہ نے اس منصوبے سے اختلاف کیا اور کہا کہ اس سازش میں مشرقی پاکستان کے رد عمل کو فراموش کر دیا گیا ہے، جسکے باعث یہ منصوبہ قابل عمل نہیں۔

بونا پارٹ افسران
جنرل اکبر خان کے اس منصوبہ کا انکشاف ان کے ایک قریبی دوست اور صوبہ سرحد موجودہ ( خیبر پختونخواہ ) میں سی آئی ڈی کے انسپکٹرعسکر علی نے کیا، جس کے نتیجہ میں عملدرآمد سے قبل ہی جنرل اکبر خان، فیض احمد فیض ، بیگم نسیم ولی سمیت دیگر منصوبہ سازوں کو گرفتار کر لیاگیا۔راولپنڈی سازش کیس کے پیچھے عسکری قیادت میں سیاست دانوں کی صلاحیت اور اہلیت پر عدم اعتماد کا رویہ کارفرما تھا۔کشمیر کی جنگ کے دوران پاکستان کی تاریخ میں پہلی اور شائد آخری دفعہ سیاسی قیادت جنگی فیصلے کرنے کی مختار رہی تھی، لیکن بعدازاںفوج نے یہ اختیار ہمیشہ کیلئے ہتھیا لیا۔ اس سازش میں ملوث تمام اعلیٰ افسران کشمیر آپریشن کا حصہ رہ چکے تھے جو کشمیر کی جنگ پر سیاسی حکومت کے فیصلوں سے ناخوش تھے۔
ایوب خان نے اپنی کتاب میں ذکر کیا کہ اس سازش کے پیچھے پاکستانی افسران کی جلد سے جلد ترقی کی خواہش تھی۔ ان کے مطابق ہر بریگیڈئریا جنرل فوری طور پر کمانڈر انچیف بننا چاہتا تھا۔ ایوب خان نے ایسے افسران کو ’بوناپارٹ‘ قرار دیا(جنرل شیر علی خان نے ایک برطانوی مصور سے اپنی تصویر نپولین بونا پارٹ کی طرز پر بنوائی تھی)۔

احمدی مخالف فسادات اور لاہور مارشل لاء
مارچ1953ء میں شہر لاہور میں احمدی مخالف فسادات پر قابو پانے کیلئے محدود پیمانے پر مارشل لاء نافذ کیا گیا۔ جنرل اعظم خان کے زیر قیادت فوجی دستوں نے کچھ ہی دن میں امن وامان کی صورت حال پر قابو پا لیا اور اسکے بعد "صفائی ستھرائی" کی مہم شروع کر دی۔ جنرل اعظم نے مقامی اخبارات کو سنسر کرنا شروع کیا اور ایک موقعے پر کالج ویونیورسٹی اساتذہ سے خطاب کیا اور تعلیمی نظام کی کمزوریوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ سترّ روز جاری رہنے والے مارشل لاء کے دوران اعظم خان نے کسی برطانوی وائسرائے کی طرح عوام پر حکومت کی اور اپنی دھاک بٹھائی۔ اکتوبر 1954ء میں برطانیہ کے دورے کے دوران ایوب خان نے ملک کی تقدیر کا ایک خاکہ تیار کیا جسکے مطابق مشرقی اور مغربی پاکستان کو وفاق کے دو یونٹ بنانے کا منصوبہ موجود تھا۔ اسکے علاوہ ایوب خان چاہتا تھا کہ ملک کی افواج ایک سپریم کمانڈر کے زیر قیادت ہوں او ر وہ کمانڈر بیک وقت وزیر دفاع کا عہدہ بھی رکھتا ہو۔ واشنگٹن میں پاکستان کے پہلے ملٹری اتاشی، برگیڈئر غلام جیلانی کو ایوب خان نے جو ہدایت نامہ لکھا اس میں یہ الفاظ شامل تھے: قومی سلامتی کے اہم معاملات کو ہم اِن سویلینز کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔

امریکی امداد اور افواج کی تنظیم نو
ایوب خان نے امریکی اخبار فارن افیئرز میں لکھا کہ یہ انقلاب جمہوری نظام کے خلاف نہیں بلکہ نظام کو غلط انداز میں چلانے والوں کے خلاف تھا۔
سنہ 1954ء میں وزارت دفاع کا قلم دان ایوب خان کے سپرد کیا گیا۔اسی برس پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مشترکہ دفاع کا معاہدہ اور بعدازاں سیٹو (SEATO) کے معاہدے پر دستخط کیے۔امریکہ کو کمیونزم کا ڈراوا دے کر پاکستان نے بھارت سے نبٹنے کی غرض سے جدید ہتھیار حاصل کیے۔امریکی حکام کو پاکستانی افواج کی بہادری اور نظم وضبط کے سبز باغ دکھا کر کروڑوں ڈالرکےعوض کے ہتھیاروں کا مطالبہ کیا گیا۔ فوجی ہیڈ کوارٹر کی جانب سے ہدایت نامہ جاری کیا گیا کہ امریکیوں کے سامنے بھارت کا نام بھی نہ لیا جائےتا کہ ہتھیار حاصل کرنے کی اصل وجہ کہیں ان پر عیاں نہ ہو جائے۔امریکہ کی جانب سے ابتدائی امداد تین کروڑ ڈالر کے ہتھیاروں کی شکل میں پاکستان آئی تو فوج کی جانب سے اس اقدام کو ناکافی قرار دیا گیا۔ بعدازاں امریکہ کی جانب سے پاکستانی فوج کے پانچ نئے ڈویژن قائم کرنے اور انکی تربیت کرنے کیلئے سترہ (17) کروڑ امریکی ڈالر نوازے گئے۔فوجی امداد کے علاوہ 1954-59 کے دوران پاکستان کو امریکہ سے پچاسی(85) کروڑ ڈالر معاشی امداد کے طور پر بھی ملے۔فوجی امداد کی بدولت پچیس ہزار فوجیوں کیلئے رہائش گاہیں تعمیر کی گئیں اور کھاریاں کے علاوہ جہلم میں چھاؤنیاں بنائی گئیں، فضائیہ کے چھے نئے سکواڈرن تشکیل دیے گئے اور پاک بحریہ نے بارہ نئے جہاز حاصل کیے۔

مارشل لاء سے رن کچھ تک
27 اکتوبر 1958 کو ایوب خان نے اسکندر مرزا کا تختہ الٹا اور اس دن کو یوم انقلاب کا نام بعدازاں ایوب خان نے امریکی اخبار فارن افیئرز میں لکھا کہ یہ انقلاب جمہوری نظام کے خلاف نہیں بلکہ نظام کو غلط انداز میں چلانے والوں کے خلاف تھا۔ انقلاب سے قبل ایوب خان نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان جیسے گرم ممالک کیلئے جمہوریت موزوں نظام نہیں (راولپنڈی سازش کیس والے جنرل اکبر خان کا بھی کم وبیش یہی موقف تھا)۔مارشل لاء کے بعد ایوب نے تحریک پاکستان کے کارکنان اور چوٹی کے سیاست دانوں کو بدنام زمانہ قانون ایبڈو(EBDO) کے ذریعے نااہل قرار دیا۔ اس قانون کی زد میں آنے والوں میں حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، آئی آئی چندریگر، فیروز خان نون، عبدالقیوم خان، میاں ممتاز دولتانہ، ایوب کھوڑو، پیر الہیٰ بخش، جی ایم سید اور قاضی عیسیٰ شامل تھے۔ سیاست دانوں کو منظر عام سے ہٹانے اور انکو ہر برائی کی جڑ قرار دینے کی روایت یہیں سے شروع ہوئی۔
ایوب دور میں ڈیفنس ہاوسنگ سوسائٹیاں بننی شروع ہوئیں اور زرعی اصلاحات (Land Reforms) کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ ایکڑ زمین فوج کے قبضے میں چلی گئی۔
اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ایوب خان نے فوج کا نیا سربراہ چننے کا ارادہ کیا تو ذوالفقار علی بھٹو کے مشورے پر اپنے آپ کو فیلڈ مارشل کا خطاب بھی دے ڈالا، حالانکہ ایوب نے اپنے ملک کے علاوہ کچھ فتح نہیں کیا تھا اور نہ ہی کوئی جنگ جیتی۔ایوب خان نے امریکہ سے تعاون کا سلسلہ جاری رکھا اور سنہ 1961-62 میں پاکستان کے لئے پچاس کروڑ ڈالر امریکی امداد حاصل کی۔ ایوب دور میں ڈیفنس ہاوسنگ سوسائٹیاں بننی شروع ہوئیں اور زرعی اصلاحات (Land Reforms) کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ ایکڑ زمین فوج کے قبضے میں چلی گئی۔ستمبر 1962ء میں بھارت اور چین کے مابین سرحدی جھڑپوں کے نتیجے میں چینی افواج بھارتی حدود میں آسانی سے داخل ہو گئیں اور بھارت کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس تنازعے کے بعد امریکہ نے بھارت کو دی جانے والی فوجی امداد میں اضافہ کر دیا۔
اپریل 1965ء میں پاک بھارت سرحد پر موجود رن کچھ کے مقام پر پاکستانی فوج نے بھارتی دستوں کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔سندھ اور راجھستان کی سرحد پر رن کچھ، ریتلے ٹیلوں اور دلدلوں پر مشتمل علاقہ ہے۔یہ جگہ ماضی میں بحیرہ عرب کا حصہ تھی۔ اس علاقے میں کنجرکوٹ نامی قلعہ موجود تھا اور بھارتی افواج کے مطابق یہ قلعہ بھارتی علاقے میں شامل تھا جبکہ پاکستانی فوج کا بھی اس جگہ پر دعویٰ تھا۔دفاعی ماہرین کے مطابق کچ کے دلدلی علاقے کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی لہٰذا بھارتی فوج نے اس موقعے پر جارحیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔پاکستانی فوج اس ’فتح‘ کی بنا پر خوشی سے پھولے نہ سمائی۔محدود جھڑپوں کے بعد برطانوی وزیر اعظم اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے تصفیہ کرنے پر زور دیا اور ایک تصفیہ کمیشن قائم کیا گیا۔
(جاری ہے)
 

جاسم محمد

محفلین
کشمیر سیل اور آپریشن جبرالٹر
1964ء میں پاکستانی فوج میں ’کشمیر سیل‘ قائم کیا گیا۔ایوب خان نے اس سیل کی سربراہی میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کی۔جنرل اختر نے کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے ایک خفیہ منصوبہ تشکیل دیا۔ مارچ 1965ء میں بھارت نے کشمیر کو اپنے وفاق کا باقاعدہ حصہ بنا لیا جس کے بعدمئی اور جون 1965 میں پاکستانی فوج کی 19 بلوچ رجمنٹ سے خصوصی انسٹرکٹر آزاد کشمیر بھیجے گئے۔ ان انسٹرکٹرزنے دس سے بیس ہزار کشمیری رضاکاروں کو عسکری تربیت دی ۔ اس ’جبرالٹر فورس‘ کی ذمہ داری کشمیر یوں کو بغاوت پر اکسانا اور ایک عارضی انقلابی حکومت کا قیام تھا۔ پاکستان پالیسی سازوں کے مطابق اس موقعے پر کشمیری مسلمانوں کو بھارتی حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسانا آسان تھا۔ 24 جولائی 1965ء کو پاکستانی کمانڈوز کی سربراہی میں رضا کاروں نے کشمیر کی سرحد پار کرنی شروع کی۔ رضاکاروں کو طارق، غزنوی،صلاح الدین، قاسم اور خالد نامی یونٹس میں تقسیم کیا گیا تھا۔
منصوبے کے مطابق ان رضا کاروں نے 8 اگست کو پیر دستگیر صاحب کے عرس میں شریک ہونا تھا اور اگلے روز شیخ عبداللہ کی گرفتاری کے خلاف کشمیری رہنماؤں کی منعقد کردہ احتجاجی ریلی کا حصہ بننا تھا۔ اس ریلی کی آڑ میں انہوں نے ہوائی اڈے اور ریڈیو سٹیشن پر قبضہ کرنا تھا اور اس موقعے پر ’نصرت‘ نامی یونٹ نے بھارتی افواج کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنا تھا۔ان ’مجاہدین‘ کی حمایت کیلئے راولپنڈی میں ایک ’انقلابی کشمیری حکومت‘ قائم کی گئی اور ایک ’آزاد کشمیر ریڈیو‘ بھی شروع ہوا۔ اس منصوبے کی خبر صرف چند جرنیلوں اور اعلیٰ حکومتی ارکان کو تھی اور کشمیری رہنما ؤں سمیت پاکستانی فوج کے فارمیشن کمانڈر اس منصوبے سے بے خبر تھے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل موسیٰ اور چیف آف جنرل سٹاف، جنرل شیر بہادر اس منصوبے کو جنرل اختر ملک اور ذوالفقار بھٹو کی ناجائز اولاد قرار دیتے تھے۔ رضاکاروں کی قیادت کرنے والے کمانڈو کشمیر زبان بولنا تک نہیں جانتے تھے۔
بھارت نے پاکستان کی جانب سے جارحانہ کارروائی کی صورت میں جوابی حملے کا منصوبہ سنہ 1949ء سے تشکیل دے رکھا تھا اور اس منصوبے کو اس وقت کی بھارتی کابینہ نے بھی منظور کیا تھا۔
رضاکاران کسی قسم کی بغاوت برپا کرنے میں ناکام رہے، بلکہ اُلٹا کشمیری شہریوں نے اِس کارروائی کی خبر بھارتی حکومت کو دے دی۔کشمیر میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا اور جبرالٹر میں شریک زیادہ تر رضا کاروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ بھارتی فوج نے دو ہفتے کے اندر حاجی پیر پاس (جہاں سے پاکستانی رضاکار سرحد پار کر چکے تھے) پر پوزیشن سنبھال لی۔7 اگست کو پاکستانی فوج کے دستوں نے کارگل چوٹی پر قبضہ کر لیا جسے کچھ دن بعد بھارتی فوج نے شدید لڑائی کے بعد re-claim کر لیا۔ ا س صورت حال کے پیش نظر جنرل اختر نے آپریشن گرینڈ سلیم (Operation Grand slam) کے آغاز کی اجازت طلب کی، جو حاصل کرتے ہوئے ایک ہفتہ لگ گیا کیونکہ صدر ایوب خان سوات میں چھٹیاں منا رہے تھے۔ ایوب نے اجازت نامے پر دستخط کرتے ہوئے کہا کہ ہندوؤں کا مورال صحیح وقت پر لگائی گئی ضربیں نہیں سہہ سکے گا۔

65 کی جنگ؛ چند تلخ حقائق
میجر جنرل اختر ملک کی قیادت میں نوے پیٹن ٹینک اکھنور پر قبضے کیلئے روانہ کئے گئے۔ اس کارروائی کے دوران حیران کن طور پر میجر جنرل اختر کی جگہ میجر جنرل یحییٰ کو کمان سونپ دی گئی اور اس تاخیر کا فائدہ اٹھا کر بھارتی افواج نے اکھنور کا دفاع مضبوط کر لیا۔ جوابی کارروائی کے طور پر بھارتی فوج کی جانب سے Operation Riddle شروع کیا گیا جسکے مطابق لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کیا گیا۔آپریشن جبرالٹر کے منصوبہ سازوں نے بھارت کی جانب سے بین الاقوامی سرحد پر حملے کا تصور ہی نہیں کیا تھا۔بھارت نے پاکستان کی جانب سے جارحانہ کارروائی کی صورت میں جوابی حملے کا منصوبہ سنہ 1949ء سے تشکیل دے رکھا تھا اور اس منصوبے کو اس وقت کی بھارتی کابینہ نے بھی منظور کیا تھا۔پاکستانی فوج اس جوابی حملے کیلئے تیار نہیں تھی اور ہنگامی حالت میں قصور کی جانب سے امرتسر پر حملہ شروع کیا گیا۔اس حملے میں پیٹن ٹینک استعمال ہوئے لیکن بھارتی فوج نے نہری پانی کا رخ موڑ کر ٹینکوں کو بے اثر کر دیا اور کھیم کرن کے اس معرکے میں چالیس سے زائد پاکستانی ٹینک ناکارہ بنا دیے گئے۔کھیم کرن کے محاذ پر دو پاکستانی رجمنٹیں دو مرتبہ فاتحانہ پوزیشن سے واپس بلائی گئیں اور اس دوران بھارتی دفاع مضبوط کیا جا چکا تھا۔سیالکوٹ محاذ پر پاکستانی انٹیلی جنس کا حال یہ تھا کہ اعلیٰ افسران کو بھارتی حملے کے درست مقام (Exact Location) کابھی علم نہیں تھا۔ موقعے پر موجود افسران کو جنرل ہیڈ کوارٹر GHQ کی جانب سے افرا تفری کے عالم میں غلط ملط پیغامات اور معلومات موصول ہو رہے تھے۔

بارود ختم ہو گیا
اس جنگ کے دوران فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل نور خان نے کشمیر سیل کا منصوبہ سنتے ہی استعفیٰ دینے کا ارادہ کیا لیکن ان کو اس عمل سے روکا گیا۔ ان کے مطابق جنگ کا یہ منصوبہ صرف چند جرنیلوں کے علم میں تھا اور اس منصوبے میں بھارت کی جانب سے جوابی کارروائی کا خدشے کو سرے سے نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ جنگ کے چوتھے روز جنرل موسیٰ نے ایوب خان کو مطلع کیا کہ فوج کے پاس بارود ختم ہو چکا ہے۔ اس دوران امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے امداد بند کرنے کا اعلان کیا جا چکا تھا اور ایوب خان نے اس لڑائی کو ختم کروانے کی کوشش شروع کر دی۔ پاک فضائیہ کے پاس صر ف دو ہفتے کا ایندھن موجود تھا جبکہ بہت سے پیدل دستوں کے پاس ہیلمٹ تک نہیں تھے۔ ایک فوجی بٹالین کو سامان کی ترسیل کیلئے اونٹ استعمال کرنے پڑے۔جنگ کے دوران پاکستانی صدر اور وزیر خارجہ چین کے خفیہ دورے پر روانہ ہوئے جہاں انہیں پہاڑوں پر ٹھکانہ بنا کر گوریلا جنگ لڑنے کی تلقین سننے کو ملی۔ جنگ میں پاک فضائیہ اور بحریہ کی شاندار کارکردگی کے باعث پاک فوج صریح شکست کا شکار ہونے سے بچ گئی۔ بالآخر 23 ستمبر کو جنگ بندی کا اعلان ہوا، اس جنگ کے دوران فریقین کے ایک ہزار فوجی ہلاک ہوئے اور دونوں جانب فتح کا دعویٰ کیا گیا۔
بریگیڈیئر عبدالرحمان صدیقی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا کہ 60ء کی دہائی میں چھاؤنی کی لائبریریوں میں انگریزمصنفین کی کتابیں کم اور نسیم حجازی جیسے تاریخی فکشن نگاروں کی کتابیں بڑھنا شروع ہو گئیں۔

جب تاریخ مسخ کی گئی
بریگیڈیئر عبدالرحمان صدیقی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا کہ 60ء کی دہائی میں چھاؤنی کی لائبریریوں میں انگریزمصنفین کی کتابیں کم اور نسیم حجازی جیسے تاریخی فکشن نگاروں کی کتابیں بڑھنا شروع ہو گئیں۔آپریشن جبرالٹر کی منصوبہ بندی کسی اعلیٰ درجے کے فوجی دماغ کی بجائے نسیم حجازی سے متاثر شدہ افسران کی حرکت لگتی تھی۔ منصوبہ بندی، حکمت عملی (Strategy) اور عملی کارکردگی(Execution) کے پیمانے پر آپریشن جبرالٹر اور ستمبر 1965ء کی جنگ ایک صریح ناکامی تھی، پاکستانی فوجی صرف پروپیگنڈے کے میدان میں کامیاب ہوئی۔جنگی ترانوں اور چنگھاڑتی اخباری سرخیوں نے قوم کو آخری وقت تک دھوکے میں رکھا، کئی معروف شعراء اور دانشور وں نے فوج کی قصیدہ گوئی جاری رکھی۔ سبط حسن نے فیض صاحب پر لکھی کتاب ’سخن در سخن‘ میں کہا: ’ایسی لغو اور مہمل جنگ کی رجز خوانی وہی شخص کر سکتا تھا جس نے اپنی عقل وفہم کو احمقوں کے حوالے کر دیا ہو۔ اس نام نہاد سترہ روزہ جنگ کے زمانے کا لٹریچر یکجا کر کے اگر خود ان ادیبوں، دانش وروں کے سامنے رکھ دیا جائے جو اس لٹریچر کے خالق تھے تو اُن کی گردنیں بھی شرم سے جھک جائیں مگر اس وقت تو اہلِ خرد پر دیوانگی کا عالم طاری تھا۔ کوئی سنجیدگی سے سوچنے یا گفتگو کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ مفاد پرست اخبار گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہے تھے اور فیض صاحب سے حُب الوطنی کا دستاویزی ثبوت طلب کیا جا رہا تھا۔‘
’جون 1964 ء کے بعد سے انٹیلی جنس ایجنسیاں انتخابی مہم کے دوران سیاسی راہنماؤں کی سرگرمیوں کی جاسوسی کرنے پر مامور ہیں، انکے لیے بھارتی فوج کی نقل وحرکت کی اطلاع رکھنا مشکل ہے‘۔
’بزدل،مکار دشمن نے رات کے اندھیرے میں ہم پر حملہ کر دیا‘ جیسے جملے ہر دوسرے اخباری کالم اور نصابی کتاب میں موجود ہیں لیکن آپریشن جبرالٹر کا ذکر بھولے سے بھی کسی سرکاری دستاویز میں نہیں ملتا۔ چونڈہ کی جنگ کے کارنامے زبان زدِ عام ہیں لیکن کھیم کھرن میں پاکستانی ٹینکوں کی المناک ناکامی کی جانب کوئی اشارہ موجود نہیں۔ پاک فضائیہ اور جونیئر افسران کی ثابت قدمی کی عدم موجودگی میں پاکستانی فوج کشمیر آزاد کرانے کے چکر میں لاہور اور سیالکوٹ گنوا بیٹھتی۔ انٹیلی جنس کی ناکامی پر ایوب خان نے ISI کے سربراہ سے 7 ستمبر کو جواب طلبی کی تو بتایا گیا کہ ’جون 1964 ء کے بعد سے انٹیلی جنس ایجنسیاں انتخابی مہم کے دوران سیاسی راہنماؤں کی سرگرمیوں کی جاسوسی کرنے پر مامور ہیں، انکے لیے بھارتی فوج کی نقل وحرکت کی اطلاع رکھنا مشکل ہے‘۔

معجزوں کی دریافت
چند غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق تو سادہ کپڑوں میں ملبوس چند بھارتی افسران اصل میں لاہو ر جم خانہ پہنچ بھی چکے تھے اور ہماری دلیر افواج کو خبر تک نہیں تھی۔ وطن کی حفاظت کی خاطر جنگ کو بلا وجہ مذہبی رنگ دیا گیا، اور اس وجہ سے ہر تیسرے بندے کو کوئی غیر مرئی مخلوق پاکستان کی حفاظت کرتی نظر آئی(لاہور میں لوگوں نے داتا صاحب کو بھارتی فضائیہ کے حملے روکتے دیکھا تو سیالکوٹ میں عینی شاہدین کے مطابق امام علی الحق صاحب بھارتی توپوں کے گولے واپس پھینکتے رہے)۔بریگیڈیئر گلزار کی اس جنگ کے بعد لکھی گئی کتاب کے مطابق: ’اس جنگ میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جنہوں نے ہمیں اسلام کے اولین ایام کی یاد تازہ کروا دی، جب جنگ بدر اور جنگ احد کے دوران لازوال قربانیاں دی گئی تھیں‘۔
سرکاری قصیدہ نویس الطاف گوہر نے جنگ کے بعد مختلف یونٹس کا دورہ کیا اور لکھا: ’مجھے ان دلیر مجاہدوں کی آنکھوں میں ایمان کی جھلک نظر آتی ہے‘۔ کرنل زیڈ اے سلہری نے ڈان اخبار میں لکھا: پاکستانی فوج کو صرف ایک جذبے نے آخری دم تک دشمن سے برسرپیکار رکھا اور اس جذبے کا نام اسلام ہے۔ ان قصے کہانیوں سے تنگ آ کر بریگیڈیئر قیوم شیر نے عبدالرحمان صدیقی کو بتایا: معجزے روز روز رونما نہیں ہوتے، یہ قصیدہ نویس ہماری فوج کے دماغ خراب کر رہے ہیں، کہ پاکستانی فوج غیر مرئی بزرگوں کی مدد سے ہی کسی کو شکست دے سکتی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ قسمت نتیجے پر اثر انداز ہوتی ہے لیکن یہ مت بھولیں کہ بھارتی فوجی بھی اتنے ہی پرجوش اور پیشہ ور ہیں جتنے پاکستانی فوجی۔ ہمیں برتری صرف اس لئے حاصل ہوئی کیونکہ ہم اپنی دھرتی پر لڑ رہے تھے۔

مشرقی پاکستان تنہا تھا
اس جنگ کے دوران مشرقی پاکستان کو خدا کے رحم وکرم پر چھوڑا گیا تھا اور بھارت نے چینی رد عمل کے خوف سے مشرقی محاذ پر پیش قدمی نہ کی۔ اس سوتیلے پن کے باعث مشرقی پاکستان میں بے اعتنائی کے جذبات پیدا ہوئے۔ مرکزی حکومت کے مطابق مشرق کا دفاع مغرب کے ذریعے کیا جانا تھا، یعنی بھارت کو مغربی محاذ پر اتنا مصروف کر لیا جائے کہ وہ مشرقی محاذ کھولنے سے پرہیز کرے۔ یہ حکمت عملی بھی مجنوں کے خواب سے زیادہ قابل عمل نہیں تھی اور ستمبر 1965ء کے معرکے نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان کے لیے مغربی محاذ کی حفاظت بھی مشکل ہےیہی وجہ ہے کہ مشرقی حصے کی حفاظت عملی طور پر ناممکن تھی۔ اس جنگ کی باقاعدہ رپورٹ جنرل اختر ملک سے لکھوائی گئی جو آج تک جی ایچ کیو کے کسی تہہ خانے میں پڑی گل سڑ رہی ہے۔
(جاری ہے)
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان کے قیام کے بعد سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان معاشی اور سیاسی عدم توازن کا مسئلہ موجود تھا اورمشرقی پاکستان میں برطانوی سامراج کی جگہ لینے والے پنجابی سامراج کی حکمرانی کے خلاف عوامی جذبات پائے جاتے تھے۔ ایوب خان کے بعد ایک اورفوجی آمریحییٰ خان نے ملک کی کمان سنبھالی تو بنگالی دانشوروںاورعوام میں پاکستان اورفوج مخالف جذبات عروج پر تھےیہی وجہ ہے کہ دسمبر 1970ء میں ہونے والے انتخابات میں چھے نکات کی بنیاد پر انتخابی مہم چلانے والی عوامی لیگ کو صوبائی اور قومی انتخابات میں واضح کامیابی حاصل ہوئی۔ فوج اورمغربی پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ عوامی لیگ کو اقتدارمنتقل نہیں کرنا چاہتی تھی اورمجیب الرحمان اپنے موقف سے ہٹنے کو تیارنہ تھے۔ کسی غیرمعمولی صورت حال کیلئے فوج نے پہلے سے تیار ی کر رکھی تھی۔

فوجی آپریشن کی تیاری
انتخابات سے قبل عوامی لیگ کی کامیابی کی صورت میں افراتفری پھیلنے سے نمٹنے کیلئے جرنیلوں نے فوجی آپریشن کی منصوبہ بندی کا آغازکررکھا تھا۔ لیفٹنٹ جنرل یعقوب علی خان کی ہدایت کے تحت آپریشن Blitz کی منصوبہ بندی دسمبر 1970 تک مکمل کی جا چکی تھی۔ منصوبے کے مطابق مارشل لاء کی خلاف ورزی، آزاد بنگلہ دیش کے قیام کی بات کرنے، یحییٰ خان کے LFO کی مخالفت کرنے یا عوامی لیگ کا اپنے مطالبات کی خاطر احتجاج کرنے کی صورت میں فوجی آپریشن شروع کیا جانا طے پایا۔ منصوبہے میں طے پایا تھا کہ چوبیس گھنٹوں کے اندرعوامی لیگ اور کمیونسٹ جماعتوں کے چنیدہ ارکان کو گرفتارکرکےامن وامان کی صورت حال پر قابو پالیا جائے گا۔
منصوبے کے مطابق مارشل لاء کی خلاف ورزی، آزاد بنگلہ دیش کے قیام کی بات کرنے، یحییٰ خان کے LFO کی مخالفت کرنے یا عوامی لیگ کا اپنے مطالبات کی خاطر احتجاج کرنے کی صورت میں فوجی آپریشن شروع کیا جانا طے پایا۔
فروری اورمارچ 1971ء تک یحییٰ خان اورعوامی لیگ کےمابین مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا اور فریقین اپنے موقف پرثابت قدم رہے، مذاکرات کے دوران مشرقی بنگال میں ہنگامہ آرائی اور مغربی پاکستان کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری جاری رہا۔احتجاجی مظاہروں پر قابو پانے کی بہیمانہ کوششوں کے دوران پاکستانی فوج نےمارچ کے پہلےہفتے کے دوران ایک سو بہّتر (172) بنگالیوں کےمارےجانےکی تصدیق کی۔ حالات قابو سے باہر ہوتے دیکھ کر فوجی آپریشن کے لئے مزید فوجی دستےمارچ کے مہینے میں مغربی پاکستان سے ڈھاکہ پہنچے۔ روزانہ دس سے پندرہ پروازیں مغربی پاکستان سے فوجیوں کو لےکرڈھاکہ کے ہوائی اڈے پراترتیں۔ اسی دوران یعقوب علی خان نے فوجی آپریشن سے دستبرداری کا اعلان کیا اوراپنےعہدے سےاستعفیٰ دیدیاجن کے بعدمنصوبے کو حتمی شکل جنرل فرمان اور خادم راجہ نے دی۔اگرچہ اس فوجی آپریشن کی تیاری کافی عرصہ سے جاری تھی لیکن اس وقت کے چیف آف جنرل سٹاف جنرل گل حسن نےاس منصوبے سےمکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔ مارچ کے آخری ہفتے تک تیس سے چالیس ہزار پاکستانی فوجی مشرقی پاکستان میں تعینات کیے جا چکے تھے۔ یعقوب خان کی جگہ جنرل ٹکا خان کو مشرقی پاکستان میں موجود فوج کا سربراہ تعینات کیا گیا۔ ٹکا خان نے سنہ 1958ء میں بلوچ سردارنوروزخان کی تائید سے شروع ہونے والی علیحدگی پسندمہم کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا تھا اوراس کو’بلوچستان کا قصائی‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔25مارچ کو باقاعدہ مذاکرات بےنتیجہ رہے تویحیی خان نےمغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے والے ذوالفقارعلی بھٹو کی حمایت سے فوجی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس رات جس لمحے یحییٰ خان کا طیارہ مغربی پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوا، اسی وقت باقاعدہ آپریشن کا آغاز ہوگیا۔

آپریشن سرچ لائٹ
آپریشن شروع ہوتے ہی دھان منڈی میں واقع مجیب الرحمان کے گھر کو زیادہ مزاحمت کے بغیر ہی فتح کر لیا گیا البتہ بنگالی طلبہ کی مزاحمت کے باعث ڈھاکہ یونیورسٹی میدان ِ جنگ میں تبدیل ہو گیا۔یونیورسٹی کے اقبال ہال پر توپ کے گولے برسائے گئے جبکہ جگن ناتھ ہال میں موجود طلباء اوراساتذہ کو بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ صدیق سالک نےجب اگلے روزیونیورسٹی کا دورہ کیا تو وہاں گولہ باری کے باعث زمین میں شگاف پڑ چکے تھے۔ 25مارچ کو چٹا گانگ کی بندرگاہ پر بنگالی عوام نے ایک جہاز سے پاکستانی فوج کیلئے آنےوالے اسلحےکو اتارنےمیں مزاحمت کی تو فوج کی جانب سے جوابی کا رروائی میں پندرہ افراد مارے گئے۔
آپریشن کا دائرہ محضں مزاحمت کاروں تک محدود نہ تھا بلکہ ہر بنگالی قوم پرست کو فوجی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔عوامی لیگ کی حمایت کرنے کی پاداش میں بنگالی اخبارات کے دفاتر پرحملےکیےگئے جن میں دی پیپل اور اتفاق اخبار شامل تھے۔ایک عینی شاہد کے مطابق اتفاق اخبار کے دفتر پر ٹینک سے حملہ کیا ،شدید گولہ باری کے نتیجے میں دودن تک اخباری کاغذ راکھ ہوتا رہا۔
پاکستانی فوجی بنگالی شہریوں کو قتل کرتے وقت انہیں’بنگلہ دیش پہنچانے‘کی خوش خبریاں اسی طرح سناتے رہے جیسے تقسیم ہندکے وقت ہندواورمسلمان بلوائی ایک دوسرے کو پاکستان اور ہندوستان کی راہ دکھاتے رہے۔
آپریشن کے دوران ہلاکتوں کے حوالے سے مختلف اعدادوشمار سامنے آچکے ہیں ؛ڈھاکہ میں تعینات اس وقت کے امریکی کونسل جنرل کےاندازےکےمطابق آپریشن شروع ہونے کےایک ہفتے تک صرف ڈھاکہ میں چھے ہزارسےزائدلوگ مارےگئے۔ جنرل ٹکا خان نے حمود الرحمان کمیشن کو بتایا کہ اسکےاندازےکےمطابق آپریشن کے دوران پاکستانی افواج نے تیس ہزار سے زائد بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔بنگالی افسران اور سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے مزاحمت کے پیش نظر آپریشن کےآغازپرہی بنگالی سپاہ اورپولیس اہلکاروں سےہتھیار واپس لینے کی کوشش کی گئی لیکن سترہ ہزارمیں سےصرف چارہزارافراد سے ہتھیار واپس لئے جاسکے۔
مجھے لوگ نہیں علاقہ چاہیے
مشرقی پاکستان میں شروع کیا جانے والا آپریشن اپنے بیشتر اہداف پورے نہ کر سکا۔چٹا گانگ ریڈیو سٹیشن پربروقت قبضہ نہ ہو سکا اوروہاں سےمیجرضیا الرحمان نے بنگلہ دیش کی آزادی کےاعلانات شروع کر دیے۔ چٹا گانگ کے حصول کیلئے پاکستانی فوج کو دومہینے لڑائی کرنی پڑی۔اس فوجی کارروائی کےدوران بنگالیوں کو فوج کی جانب سے نسلی تعصب کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔ پاکستانی فوجی بنگالی شہریوں کو قتل کرتے وقت انہیں’بنگلہ دیش پہنچانے‘کی خوش خبریاں اسی طرح سناتے رہے جیسے تقسیم ہندکے وقت ہندواورمسلمان بلوائی ایک دوسرے کو پاکستان اور ہندوستان کی راہ دکھاتے رہے۔
پاکستانی فوج نے آپریشن کے حوالے سے آزاد ذرائع ابلاغ تک اطلاعات کی فراہمی کے عمل میں روکاوٹ ڈالنے کے لیے بھی طاقت کا استعمال کیا۔ 26 مارچ کو غیر ملکی صحافیوں پرInter-Continental Hotel سے نکلنے پر پابندی لگا دی گئی۔ جب ایک ضدی رپورٹر نے باہر نکلنے کی کوشش کی تو پہرے پر مامور سپاہی للکارا:’ہم تو اپنے ہم وطنوں کو نہیں بخش رہے، تمہیں مارنا تو کوئی مسئلہ نہیں، چپ کر کے اندر بیٹھے رہو‘۔ اس فوجی آپریشن اور بعد ازاں کھلی جنگ کے دوران غیر جانبدارانہ تجزیوں اور خبروں کے لیے بی بی سی یا دیگر عالمی ذرائع ابلاغ پر انحصار کرنا پڑا۔
پاکستانی فوج کے لیے بنگالیوں سے زیادہ سرزمین بنگال اہم تھی۔ ٹکا خان نے ماتحت افسران کو حکم دیا کہ ’مجھے لوگ نہیں، علاقہ چاہیے‘ اور میجر جنرل فرمان راؤ نے اپنی ڈائری میں لکھا: ہم مشرقی بنگال کی سبزسرزمین کو سرخ رنگ دیں گے۔"
لیفٹنٹ کرنل عزیز احمد نے بتایا کہ جنرل نیازی مئی کے مہینے میں ہماری یونٹ کے دور ے پرآیا اورہم سے دریافت کیا کہ ہم نے اب تک کتنے ہندوؤں کوکیفرکردارتک پہنچایا؟
لیفٹیننٹ کرنل منصور الحق نےمحمود الرحمان کمیشن کو بتایاکہ افسروں اور جوانوں میں بنگالیوں اور خاص طورپرہندوؤں کے بارےمیں نفرت کے جذبات پائے جاتے تھے۔ کمیشن کے سامنے انہوں نے اعتراف کیا کہ جوانوں کو زبانی ہدایات ملی تھیں کہ ہندوؤں کو صفحہ ہستی سےمٹا دیاجائےجس کے بعد صرف سلداندی کے علاقےمیں ہم نے چھےسولوگوں کوموت کے گھاٹ اتارا۔ قصبوں اوردیہاتوں پرقابو پانےکے دوران ہم نے سب کچھ جلا دیا۔ برگیڈیئرتسکین کے مطابق فوج کا ڈسپلن بالکل ختم ہو چکا تھا اورجوانوں نے قانون کواپنےہاتھ میں لیا ہوا تھا۔ لیفٹنٹ کرنل عزیز احمد نے بتایا کہ جنرل نیازی مئی کے مہینے میں ہماری یونٹ کے دور ےپرآیا اورہم سے دریافت کیا کہ ہم نے اب تک کتنے ہندوؤں کوکیفرکردارتک پہنچایا؟
تشدد اور بربریت کا یہ سلسلہ یک طرفہ نہیں تھا بلکہ بنگالی قوم پرستوں کی جانب سے بھی ظلم وبربریت کی انتہا کی گئی۔مختلف مقامات پر پاکستانی فوج کےاہلکاروں اورانکے خاندان کےافراد کومارا گیا اوراسکےعلاوہ بہاری مہاجرین کو خاص طورپرنشانہ بنایا گیا۔ بنگالی قوم پرستوں کی متشدد کاروائیوں کے دوران بوگرہ اورچٹا گانگ میں ہزاروں بہاریوں کو قتل کیا گیا۔
مغربی پاکستان میں اس دوران چین کی بنسی بجتی رہی اورحکومت کے زیراختیاراخبارات میں بنگال کی خونچکاں داستان کا ذکر موجود نہیں تھا۔ شعراء اورادیبوں میں ترقی پسند گروہ نےفوجی آپریشن کی شدید مخالفت کی اورعوامی لیگ سےوابستہ چند سیاسی ارکان کےعلاوہ سیاسی جماعتوں نے فوجی حکومت کےاس وحشیانہ اقدام پرچوں تک نہ کی۔ حقائق سے آگاہ کرنے کی بجائے مغربی پاکستان کی عوام کو حکومتی مشینری نے آپریشن کی تفصیلات سے بے خبر رکھا اورسرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر بنگالیوں کے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا۔پی ٹی وی پر اسلم اظہرکے زیرنگرانی ایک ڈاکومنٹری The Great Betrayal بنائی اورنشرکی گئی۔ اس دستاویزی فلم میں بنگالی علیحدگی پسندوں کی بہاری افراد پرمظالم کی تصاویراوراخباری فوٹیج موجود تھی۔
نومبر کے اواخر تک بھارتی فوج نے تراسی(83) ہزاربنگالیوں کوان کیمپوں میں تربیت دی تھی اوران میں سے پچاس ہزارسےزائد مشرقی بنگال میں تعینات کئے جا چکے تھے۔

بھارتی مداخلت
بھارتی صحافی پراوین سوامی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا کہ یکم مئی 1971ء کو بھارتی فوج کے سربراہ نے مشرقی پاکستان پر حملے کا منصوبہ تیار کیا۔ اس منصوبے کو آپریشن جبرالٹر کی طرز پر تیار کیا گیا تھا اوراس کا نام آپریشن Instruction تجویز کیا گیا۔منصوبہ یہ تھاکہ تربیت یافتہ گوریلا افواج کی مدد سے اس علاقے میں انتشار پھیلایا جائے اوراس انتشار کا فائدہ اٹھا کررسمی جنگ کا میدان سجایا جائے۔ منصوبے کے تحت بنگالی گوریلا افواج کی تربیت کا ذمہ بھارتی فوج پرتھااوران گوریلوں کومشرقی پاکستان کے زمینی حقائق کی روشنی میں تربیت دینا اہم تھا۔ اس مقصد کیلئے سات تربیتی کیمپ تیار کئے گئے جن میں سےدومغربی بنگال، دومیگھالیا جبکہ ایک ایک کیمپ بہار، آسام اور تری پورہ میں موجود تھا۔ ہر کیمپ میں ایک ہزار رضاکاروں کی تربیت کا اہتمام کیا گیا۔ ان کیمپوں میں بھرتی کیلئے امیدواروں کی چھانٹی کا کام عوامی لیگ کے رہنماؤں کو سونپا گیا۔ ستمبر 1971ء تک ہرماہ ان کیمپوں سےبیس ہزارگوریلا سپاہی تیاری کے بعد سرحد کی دوسری جانب بھیجے جا رہے تھے۔ نومبر کے اواخر تک بھارتی فوج نے تراسی(83) ہزاربنگالیوں کوان کیمپوں میں تربیت دی تھی اوران میں سے پچاس ہزارسےزائد مشرقی بنگال میں تعینات کئے جا چکے تھے۔ اس کے علاوہ بھارت نے خصوصی کمانڈوز پرمشتمل یونٹ کو پاکستانی فوج کے خلاف غیر رسمی لڑائی کیلئے تعینات کیا ،اس یونٹ میں دو ہزارکے قریب کمانڈو شامل تھے۔
دسمبر کے وسط میں اندرا گاندھی نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا جس کو پاکستانی قیادت نے reciprocate کیا اورڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈال دیے۔

جب پلٹن گراونڈ میں ہتھیار ڈالے گئے
تین دسمبر 1971ء کو پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے شمال میں واقع ہوائی اڈوں پر حملے کی کوشش کی لیکن پاکستانی ہوا بازوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور وہ بھارت کا ایک بھی جہاز تباہ کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ بھارت نے ملک کے دونوں حصوں کے خلاف جنگ شروع کی اور امریکی سرزنش کی وجہ سے مغربی پاکستان کو ایک حد سے زیادہ نقصان پہنچانے سے گریز کیا۔ مشرقی پاکستان میں جنرل نیازی کی ناقص منصوبہ بندی اورمقامی آبادی کی شدید مخالفت کے باعث پاکستانی فوج کے پاس ہتھیار ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ چھے سال پہلے چھڑنے والی جنگ میں پاک فضائیہ کی بدولت کچھ بچت ہو گئی تھی لیکن مشرقی پاکستان میں مٹھی بھر طیاروں کی موجودگی کے باوجود فضائیہ کا استعمال نہ کیا جا سکا۔ جنرل نیازی نے بھارتی مزاحمت روکنے کیلئے دس مقامات پر قلعہ بندی کا منصوبہ بنایا۔ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی سے نبٹنے کیلئے بیلجیم نےبھی ایسا ہی منصوبہ بنایا تھا،لیکن دونوں مواقع پر یہ دفاعی منصوبہ ناکام ٹھہرا۔ دسمبر کے وسط میں اندرا گاندھی نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا جس کو پاکستانی قیادت نے reciprocate کیا اورڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈال دیے۔اگرچہ پاکستانی سپاہ بھارتی افواج کا مقابلہ نہیں کر پائیں لیکن آخری دم تک بنگالی اساتذہ اور دانشوروں کے خلاف مہم جاری رہی، پہلے سے تیار شدہ فہرست میں موجود افراد کو چن چن کر مارا گیا۔بنگال میں قتل وغارت پربنگلہ اوردو میں بہت سے ادب تخلیق کیا گیا، فیض صاحب کی ایک نظم سے ا قتباس قارئین کی نذر؛

چارہ گر ایسا نہ ہونے دے
کہیں سے لا کوئی سیلاب اشک
آب وضو
جس میں دھل جائیں تو شائد دھل سکے
میری آنکھوں، میری گرد آلود آنکھوں کا لہو
(جاری ہے)
 

جاسم محمد

محفلین
زمانہ جدید میں جمہوری بندوبست سیاسی لغت میں داخل ہوا تو یہ بات واضح کر دی گئی کہ داخلی و خارجی مسائل سے نبٹنے کیلئے فوج استعمال کرنے کا اختیار منتخب سیاسی قیادت کی صوابدید پر ہے ۔ امریکہ میں لڑی جانی والی سول وار ہو یا بیسویں صدی کی پہلی اور دوسری جنگ عظیم، یہ بندوبست یونہی قائم رہا اور اسکی خلاف ورزی کرنے پر سیاسی قیادت نے فوجی قیادت کی باز پرس کی۔ روس جیسا طاقت ور اور وسیع وعریض ملک سنہ1905ء میں برپا ہونے والی جنگ میں جاپان جیسے قلیل الجثہ ملک کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوا۔اس صورت حال کے پیش نظر روسی فوج کی اعلیٰ کمان نے تین سو سے زائد جرنیلوں اور لگ بھگ چار سو کرنیلوں کو فارغ کردیاتو کسی سورما کے کان پر جوں تک نہ رینگی(حالانکہ روس میں جمہوری بندوبست قائم نہیں تھا)۔ کوریا کی جنگ کے دوران امریکی جرنیل میک آرتھر نے امریکی صدر کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چین کو ایٹمی حملے کی دھمکی دے ڈالی جس کی پاداش میں صدر نے جنرل میک آرتھرکو فوری وطن واپسی کا حکم دیا لیکن پاکستانی جرنیلوں نے سیاسی قیادت کو کبھی یہ موقع ہی نہیں دیا۔
سولہ دسمبر 71ء کو ہتھیار ڈالے گئے اور اسکے چند ہی روز بعد راولپنڈی میں یہ بحث جاری تھی کہ جنگ میں شجاعت دکھانے پر جو تمغے دیے جانے تھے ان کا ڈیزائن کچھ ایسا رکھا جائے کہ رقص کے دوران کہیں ہم رقص کو چبھ نہ جائے۔

تمغوں کا ڈیزائن کیسا ہو؟
پاکستان میں اب تک فوجی جرنیلوں کا احتساب ممکن نہیں ہو سکا یہی وجہ ہے کہ وہ مشرقی پاکستان کے دفاع میں ناکام رہے اور بعدازاں ان فوجی افسران نے تزویراتی گہرائی جیسی ناکام دفاعی حکمت عملی اپنانے کی حماقت کی۔ بنگال میں ہونے والی خوفناک ناکامی اور بھارت کے آگے ہتھیار ڈالنے کے باوجود پاکستانی جرنیل اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔ کند ذہنی کا یہ عالم تھا کہ سولہ دسمبر 71ء کو ہتھیار ڈالے گئے اور اسکے چند ہی روز بعد راولپنڈی میں یہ بحث جاری تھی کہ جنگ میں شجاعت دکھانے پر جو تمغے دیے جانے تھے ان کا ڈیزائن کچھ ایسا رکھا جائے کہ رقص کے دوران کہیں ہم رقص کو چبھ نہ جائے۔ بھارتی منصوبہ سازوں نے آپریشن جبرالٹر کو چند بنیادی تبدیلیوں کے ساتھ بنگال میں استعمال کیا تھا اور پاکستانی جرنیلوں کو انہی کی چالوں میں مات دی تھی۔ بھٹو صاحب نے یحییٰ خان کے رخصت ہونے پر اقتدار سنبھالا توبنگال میں جرنیلوں کی کارکردگی کے متعلق جسٹس محمود الرحمان کمیشن بنانے کی ’غلطی‘ کی، اس کمیشن کی رپورٹ سرکاری طور پر آج تک منظر عام پر نہیں لائی گئی لیکن اس کے بیشتر حصے اب غیر سرکاری ذرائع سے دستیاب ہیں۔

تزویراتی گہرائی کیا ہے؟
تزویراتی گہرائی (Strategic Depth)کی اصطلاح پاک افغان تعلقات اور جہادی گروہوں کی سرپرستی کے حق میں دلیل کے طور پر استعمال کی جاتی رہی ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسی کو تزویراتی گہرائی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے اس لیے اس نظریے کے ارتقاء اور اس کی مختلف صورتوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ سنہ 1917 ء میں سوویت یونین کی تشکیل کے بعدملک کی جنگی حکمت عملی تبدیل کرنے پر غور کیا جانے لگا۔ روسی افواج اپنی کثرت کے باوجود جاپان،پولینڈ ا ور پہلی جنگ عظیم میں شکست کھا چکی تھیں اور ان ناکامیوں کے پیش نظر نئی حکمت عملی بنائی گئی۔نئی حکمت عملی میں روس کا دفاع مختلف حصاروں یا سطحوں پر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس منصوبے کا اہم جز یہ تھا کہ جارح فوج اور روس کے اہم شہری مراکز کے درمیان اتنا فاصلہ رکھا جائے کہ اگر دشمن پہلے حصار کو پار کر بھی لے تو اہم شہروں تک پہنچنے میں اسے کچھ وقت لگے اس حکمت عملی کو تزویراتی گہرائی (Strategic Depth)کہا گیا۔ پاکستانی فوج نے بنگال میں بھارت سے شکست کھانے کے بعد اس حکمت عملی کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔ جغرافیائی طور پر پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ روس کے برعکس ہمارے اہم شہری مراکز سرحدوں سے زیادہ فاصلے پر واقع نہیں لہذٰا ہماری فوج ایک سے زیادہ دفاعی حصار نہیں بنا سکتی۔ پاکستانی منصوبہ سازوں کے لیے تزویراتی گہرائی سے مراد فوج کی بھارت سے سرحدی شکست کی صورت میں پسپائی اختیار کر کے افغانستان میں پناہ لینے اور پھر وہاں سے بھارتی افواج کے خلاف جوابی حملے کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس مقصد کیلئے فوج نے افغانستان میں پاکستان کی مرضی کی حکومت قائم کرنے کی کوشش شروع کی(جو کہ چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی جاری ہے)۔
پاکستانی منصوبہ سازوں کے لیے تزویراتی گہرائی سے مراد فوج کی بھارت سے سرحدی شکست کی صورت میں پسپائی اختیار کر کے افغانستان میں پناہ لینے اور پھر وہاں سے بھارتی افواج کے خلاف جوابی حملے کرنے کی صلاحیت ہے۔

افغانستان سیل، گلبدین حکمت یار اور پروفیسر ربانی
جنرل خالد محمود عارف (کے ایم عارف) اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جولائی یا اگست 1973 ء میں پاکستان کی وزارت خارجہ میں ایک ’افغانستان سیل‘ بنایا گیا جس میں وزیر اعظم بھٹو، خارجہ سیکرٹری، آئی ایس آئی اور ایف سی کے سربراہ شریک تھے ۔ اس سیل کا کام افغانستان کے اندرونی معاملات پر نظر رکھنا اور وہاں موجود پاکستان کے حامیوں کوشہ دینا تھا۔ اسی دور میں پاکستانی اہل کار گلبدین حکمت یار اور برہان الدین ربانی سے متعارف ہوئے۔ پروفیسر ربانی کی جماعت اسلامی اور حکمت یار کی حزب اسلامی مقامی سطح پر چھوٹی جماعتیں مانی جاتی تھیں۔ پاکستانی حکومت نے افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کمزور کرنے کی خاطر ان جماعتوں کی پشت پناہی شروع کردی۔ برہان الدین ربانی نے پشاور میں ڈیرے ڈال لیے اور اس کی جماعت کے ارکان کو وہاں عسکری تربیت دی گئی۔ جواب میں افغان حکومت نے بلوچستان میں جاری گوریلا گروہوں کو پناہ اور اسلحہ مہیا کرنا شروع کیا۔ یاد رہے کہ یہ کارروائی روس کے افغانستان پر حملے سے کئی سال قبل شروع ہو چکی تھی۔

ملکی دفاع سے جہاد فی سبیل اللہ تک
اکہتر کی جنگ کے بعد پاکستانی افواج کی سیکولر اقدار بری طرح متاثر ہوئیں۔ جنگ میں ناکامی کی زمہ داری اعلیٰ عسکری و سیاسی قیادت کی نااہلی کی بجائے اخلاق باختگی اور مذہب سے دوری کو قرار دیا گیا جس کے بعد فوج میں بتدریج مذہبی شدت پسندی کا عنصر بڑھنے لگا۔ بھارت سے شکست کھانے کے بعد پاکستانی فوج کے ایک بریگیڈیئر ایس کے ملک نے مذہبی نقطہ نگاہ سے جنگی حکمت عملی کے متعلق ایک کتاب The Quranic Concept of Warلکھی جو سنہ1975 ء میں پہلی دفعہ شائع ہوئی۔ اس کتاب میں یہ بتایا گیا کہ دشمن کے خلاف باقاعدہ جنگ سے پہلے ہی چالیں چلنا شروع کردینا چاہیے اور ہمارا مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ بریگیڈیئر صاحب نے اس کتاب میں یہ بھی لکھا کہ جنگ کا اصل مقصد دشمن کے دل میں اپنی دہشت پیدا کرنا ہے اور اس مقصد کیلئے ہر قسم کا حربہ استعمال کرنا جائز ہے۔بعدازاں جنرل ضیاء نے حکومت سنبھالنے پر اس کتاب کو سرکاری طور پر شائع کروایا اور اس کا دیباچہ بھی لکھا۔یہ کتاب فوجی لائبریریوں کے علاوہ افغان جنگجوؤں میں بھی تقسیم کی گئی۔اس دور میں پاکستانی فوج نے ملکی دفاع کی جگہ جہاد فی سبیل اللہ کو اپنا مقصد بنایا اور فوج کے سربراہ تقریبات میں مودودی صاحب کی کتب تقسیم کرتے پھرتے( واضح رہے کہ مودودی صاحب نے جنگی حکمت عملی پر کوئی کتاب نہیں لکھی)۔

جب پشاور جہادیوں کا مستقر تھا
سنہ 1979ء میں روسی فوج کے افغانستان پر حملے کے بعد امریکی امداد کی بھرمار شروع ہوئی اور اس امداد کی بدولت پاکستانی جاسوسی اداروں نے افغانستان میں جہاد کے نام پر جنگ لڑی۔اس جنگ کی کوکھ سے دنیا کو تہہ وبالا کرنے والے عفریت نمودار ہوئے۔مئی 1988میں افغان جنگ کے خاتمے تک عرب جنگجووں پر مشتمل جماعت ’القاعدہ‘پشاور میں جنم لے چکی تھی۔جد ہ اور مکہ یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے بعد فلسطین سے تعلق رکھنے والے دانشور عبداللہ عظام نے پہلی افغان جنگ کے دوران پشاور میں ’مکتبہ الخدمت‘ بنایا جہاں افغانستان جانے والے سعودی رضا کار کچھ دیر قیام کرتے۔ اسکا قائم کردہ مکتبہ، افغان جنگ کو جہاد کے طور پر ترویج دینے کیلئے پمفلٹ اور اخبارات کے مضامین بھی چھاپتا تھا۔سعودی دفتر خارجہ کے اندازے کے مطابق لگ بھگ دس ہزار سعودی شہری اس جنگ میں حصہ لینے کی غرض سے پاکستان آئے۔
جنرل مشرف ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز بنا تو اس نے بینظیر حکومت کی اجازت سے پاکستانی گروہوں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کر کے کشمیر بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔

پہلی دفاعی لائن
افغانستان میں اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے کے بعد تزویراتی گہرائی کا ایک نیا باب سامنے آیا۔ افغان جنگ کے خاتمے پر فوجی طالع آزماؤں نے یہ فیصلہ کیا کہ غیر رسمی لشکروں کو کشمیر بھیجا جائے اور یہ لشکر پاکستان کی پہلی دفاعی لائن تشکیل دیں۔ اس مقصد کیلئے پہلے افغان جنگ سے فراغت پانے والوں کو کشمیر بھیجا گیا اور بعد میں نئی فصل تیار کرنے کی غرض سے آزاد کشمیر میں تربیت گاہیں قائم کی گئیں اور کشمیر میں مقامی انتخابات میں حکومتی دھاندلی کے باعث شروع ہونے والی تحریک کی آڑ میں سنہ 1989 ء میں جہاد کا آغاز کر دیا گیا۔جنرل مشرف ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز بنا تو اس نے بینظیر حکومت کی اجازت سے پاکستانی گروہوں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کر کے کشمیر بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔ کشمیر میں پاکستانی جہادی گروہوں کی مداخلت کے شواہد سامنے آمنے کے باعث حکومت عالمی دباؤ کا شکار ہوگئی۔ جولائی 1995ء میں حرکت الانصار نامی گروہ نے چھے غیر ملکی سیاحوں کو مقبوضہ کشمیر میں اغوا کیا اور مولانا مسعود اظہر سمیت اپنے دیگر ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تو پوری دنیا کی نگاہیں کشمیر میں جاری خانہ جنگی اور اس میں پاکستانی کردار پر مرکوز ہو گئیں۔ اس دوران پاکستانی افواج نے نہ صرف پاکستانیوں اور افغانوں کو تربیت دی بلکہ مشرق وسطی، وسط ایشیا اور یورپ کے نوجوانوں کو بھی جہادی تربیت فراہم کی۔ بینظیر بھٹو کے مطابق انہوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ جاوید اشرف قاضی سے دریافت کیا کہ ہم غیر ملکی دہشت گردوں کو اپنے کیمپوں میں تربیت دے کر کشمیر کیوں بھیج رہے ہیں تو جواب ملا ’کیونکہ بھارتی افواج نے سب کشمیری مار دیے ہیں‘

خانہ جنگی سے طالبان تک
افغانستان میں روس کے خلاف جنگ ختم ہوئی تو مجاہدین حکومت کے حصول کی کشمکش میں مبتلا ہوگئے۔ پاکستانی حساس اداروں نے اس خانہ جنگی کے دوران پہلے پہل مفاہمت کی کوشش کی لیکن پے درپے جھڑپوں سے تنگ آکر انہوں نے پاکستانی مدرسوں سے تعلیم یافتہ افغان نوجوانوں پر مشتمل گروہ طالبان کی حمایت کا فیصلہ کیا اور اس گروہ نے ستمبر 1996ء میں کابل فتح کر لیا۔ طالبان کی صفوں میں پاکستان جہادی گروہ سپاہ صحابہ، لشکر طیبہ اور جیش محمد شامل تھے۔
قندھار کے علاقے میوند میں فضل اللہ نامی افغان مجاہد کے لشکر میں شمولیت اختیارکرنے والے ملاّ عمر کی قیادت میں طالبان نے روسی افواج کے انخلا ء کے بعد پیدا ہونے والے انتشار کا فائدہ اٹھایا۔ پہلی افغان جنگ کے خاتمے پر مجاہدین کے سات بڑے گروہ مرکزی حکومت کے لالچ میں جنگ وجدل برپا کیے ہوئے تھے اور عام افغان شہری اس انتشار کے باعث پریشان تھے۔ کاروبار زندگی معطل تھا اور مختلف مسلح گروہوں نے شاہراہوں کے گرد چیک پوسٹیں قائم کر رکھی تھیں جہاں سے گزرنے والوں کو بلا تفریق لوٹ مار کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔
ہرات پر حملے کے دوران پاکستانی کمانڈو طالبان کے شانہ بشانہ موجود تھے، ہرات شہر فتح کرنے پر پاکستانی حکومت کی جانب سے کرنل امام کو ہرات کونصل خانے کا سفیر مقرر کیا گیا۔

جب ہم طالبان کے ساتھ مل کر لڑے
سن 1994ء میں قندھار کے مغربی علاقوں میں موجود اہم مجاہدین نے فیصلہ کیا کہ ان چیک پوسٹوں سے نجات حاصل کی جائے اور شر پسند عناصر کا قلع قمع کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے مولوی پسنائی نامی ایک قاضی مقرر کیا گیا اور کچھ لشکر بنائے گئے۔ ان میں سے ایک لشکر کی سربراہی ملا عمر کو سونپی گئی۔ اس لشکر نے بارہ دن کی قلیل مدت میں قندھار کے گرد موجود چیک پوسٹوں کو ختم کیا۔ اس کے بعد ملا عمر نے دیگر لشکروں کے ساتھ مل کر قندھار شہر سے بھتہ خوروں اور شرپسندوں کو پاک کیا۔ اس موقع پر میجر گل اور کرنل امام، پاکستانی مدرسوں میں زیر تعلیم افغان طلباء پر مشتمل پاکستانی کمک کے ہمراہ طالبان کو آن ملے۔ کرنل امام نے افغان جنگ کے دوران ہزاروں افغان مجاہدین کی فوجی تربیت کی تھی اور افغانیوں کے لیے وہ ایک جانی پہچانی شخصیت تھے۔ کچھ عرصے بعد پاکستانی کمانڈو دستوں نے قندھار پر طالبان کی فتح کے بعد اہم مقامات کی کمان سنبھال لی۔ ہرات پر حملے کے دوران پاکستانی کمانڈو طالبان کے شانہ بشانہ موجود تھے، ہرات شہر فتح کرنے پر پاکستانی حکومت کی جانب سے کرنل امام کو ہرات کونصل خانے کا سفیر مقرر کیا گیا۔ اپریل 1996ء میں ملا عمر نے ملک بھر سے علماء کو قندھار بلایا اور وہاں خرقہ شریف اوڑھ کر اپنے آپ کو امیر المومنین کا خطاب عطا کیا۔ کابل پر قبضہ کرنے کے بعد پاکستان ہدایات کے مطابق طالبان نے سابق صدر نجیب اللہ کو رسی سے باندھ کر کابل کی گلیوں میں رگیدا اور پھر آریانا اسکوئر میں سرعام پھانسی پر لٹکا دیا۔طالبان نے مزار شریف پر حملہ کیا تو انکی صفوں میں لشکر جھنگوی کے دہشت گرد شامل تھے اور شہر پر قبضے کے بعد ایرانی سفارت کاروں کو قتل کرنے میں یہی دہشت گرد ملوث تھے۔
2001 میں امریکی کارروائی کے بعد ملا عمر ایک پاکستانی ملا کے ہمراہ موٹر سائیکل پر سوار ہو کر فرار ہوا اور مصدقہ وغیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق کوئٹہ میں رہائش پذیر ہے۔

کشمیر پالیسی میں تبدیلی
نوے کی دہائی میں پاکستان اپنی مغربی اور مشرقی سرحدوں پر تزویراتی گہرائی قائم کرنے میں وقتی طور پر کامیاب ہو چکا تھا۔ پاکستان کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے باوجود اس زمانے میں بھی طالبان کی جانب سے پاکستانی ریاست کے زیر انتظام قبائلی علاقوں اور موجودہ خیبر پختونخواہ میں پاکستانی ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کا عمل جاری تھا۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ پاکستانی سرپرستی کے باوجود طالبان پاکستانی ریاست اور اس کے جمہوری نظام کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔ رفتہ رفتہ افغانستان القاعدہ اور دیگر جہادی گروہوں کی تربیت گاہ بن گیا جہاں سے عالمگیر اسلامی جہاد کا آغاز کیا گیا۔ سانحہ گیارہ ستمبر نے ان منصوبوں پر پانی پھیر دیا اور پاکستان کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے کا موقع ملا۔2001 میں امریکی کارروائی کے بعد ملا عمر ایک پاکستانی ملا کے ہمراہ موٹر سائیکل پر سوار ہو کر فرار ہوا اور مصدقہ وغیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق کوئٹہ میں رہائش پذیر ہے۔گیارہ ستمبر2001کے کچھ عرصے بعد ہی دسمبر کے مہینے میں پاکستانی دہشت گردوں نے بھارت کی پارلیمنٹ پر حملہ کردیا جسکے نتیجے میں پاک بھارت تعلقات میں ایک نئی دراڑ پڑ گئی۔ مشرف نے بین الاقوامی حالات کے پیش نظر فوج کی کشمیر پالیسی تبدیل کرنے کی کوشش کی تو فوج کے اندر ہی سے مزاحمت دیکھنے کو ملی اور اس پر یکے بعد دیگرے قاتلانہ حملے ہوئے۔ پاکستانی فوج کی جانب سے کشمیر جہاد کی پشت پناہی روکنے سے کشمیری جہادی بھی تحریک طالبان پاکستان کا حصہ بنے ہیں۔ پاکستانی فوج کے جہادی اثاثے آج پاکستان کے خلاف ہی برسرپیکار ہیں اور افغانستان کی طرز پر ہی اپنی ریاست قائم کرنے کے لیے مصروف جہاد ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ
گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان نے کشمیر میں سرگرم مسلح گروہوں کو کارروائی کرنے سے روکے رکھا لیکن اپنے ہی وطن میں افغان طالبان اور ان کے حمایتی گروہوں کو کھلی چھوٹ دی۔ ہمارے عسکری ادارے یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہے کہ افغان طالبان نہ صرف پاکستانی طالبان کی سرپرستی کر رہے ہیں بلکہ عالمی جہادی گروہوں سے بھی روابط استوار کر چکے ہیں۔ اس صورت حال کا ایک منطقی نتیجہ لال مسجد آپریشن کی صورت میں سامنے آیا جب حکومت کے سابقہ حلیف جہادیوں نے حکومتی رٹ کو سرِعام چیلنج کرنا شروع کردیا اور اپنی شریعت قائم کرنے کا اعلان کیا۔اس موقعے پر پاکستانی فوج نے لال مسجد کے خلاف کارروائی میں سخت مزاحمت کا سامنا کیا اور کئی روز ہ مسلح تصادم کے بعد مسجد کو بازیاب کروایا۔
یہ ہماری تزویراتی گہرائی کی پالیسی ہی تھی جس کے باعث ہماری فوج نے کئی سال تک فاٹا میں فوجی آپریشن کرنے سے گریز کیا اور تین دفعہ مقامی دہشت گردوں سے امن معاہدے کئے۔ یہ معاہدے اس امید کی بنیاد پر کیے گئے کہ امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں پاکستان دوست حکومت یا ایسی حکومت جس پر پاکستان اثر انداز ہو سکے، قائم کی جائے گی اور اس مقصد میں حقانی نیٹ ورک اور اس قماش کے دیگر گروہ ہماری مدد کریں گے۔
تاریخ نے ثابت کیا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران تزویراتی گہرائی کی پالیسی نے روس کو کچھ خاص فائدہ نہیں پہنچایا اور اس ناکام پالیسی کو اپنا کر پاکستان نے بھی کوئی قابلِ ذکر فائدہ حاصل نہیں کیا۔ عسکری اداروں سے یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ وہ کب تک تزویراتی گہرائی جیسی ناکام دفاعی حکمت عملی اپنائے رکھیں گے اور نقصان اٹھاتے رہیں گے؟
ختم شد!

حوالہ
 
Top