اے میرے فلسطین میرے وطن

سیما کرن

محفلین
✍: ڈاکٹر سیما شفیع پاکستان

میں نوحہ سرا ہوں اے میرے وطن
کہ تو اور میں ایک جاں دو بدن
ہمیں دشمنوں نے کیا تار تار
چمن تیرے ویران اور میرا تن

مرے تن نے جو انبیاء ہیں جنے
ترے تن پہ وہ سب مذاہب بنے
براہیم سے موسی عیسی تلک
تری خاک کے سب تناور تنے

اسی سرزمیں پر نبی سب پلے
یہیں سے ابھر کر زمانے چلے
ستاروں بھرا آسماں سر پہ ہے
شہیدوں کی جنت ہے پیروں تلے

حمل میں بھی سہتی ہوں کرب و بلا
مسلط ہوئی مجھ پہ پھر کربلا
کہ معصوم پیاسے تڑپتے ہیں پھر
ملے گی کہاں میرے غم کو وَلا

اے بچے ترے صدقے ہو جاتی ماں
پہن خاک اپنی ہی سو جاتی ماں
بچا کر تجھے مرگ انبوہ سے
چھپا کر تجھے تن میں کھو جاتی ماں

کہ لاشوں کی پہچان کے واسطے
نکالوں ہزاروں نئے راستے
رقم نام کرتی ہوں بچوں کے میں
ننھے ہاتھوں پیروں پہ میں آستے

صدی پہلے تیرا دیا ساتھ تھا
یہودا کی نسبت ترا ناتھ تھا
ترا درد بھی مرگ انبوہ تھا
وہ میں تھی کہ تجھ کو دیا ہاتھ تھا

لیا میرے احساں کو تحقیر سے
مرے خواب چھینے ہیں تعبیر سے
ترا ظلم یوں جیسے کر دے جدا
معانی کو آیه کی تفسیر سے

ترا ہر ترانہ ہے جنگ و جدل
ہر اک وار ہے پر فتن مُبْتَذَل
شفا خانوں کو بھی شکستہ کیا
دبی سسکیاں مدرسہ تھا اجل

میں قاطِع ہوں سارے بَراہِین کی
لہو رنگ ممتا فلسطین کی
تری کوئی حجت بھی ناطق نہیں
میں مسند نہیں ہوں فراعین کی

ہیں حماس حزب اللہ حامی مرے
ایرانی فقط سچے جامی مرے
یہ مغضوب و ضالیں سبھی ہو گیے
سرائیل دشمن دوامی مرے

زمانے کے ہمدرد اور چارہ گر
کہاں ہے ترا زُعمِ مال و ہنر
کھڑے ہیں شہادت کی خواہش لیے
غزہ کے یہ پالے ہیں سینہ سپر

چلے گا نہ اب ہم پہ تیرا فسوں
کہ لُوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
ڈرائے نہ ہم کو کوئی موت سے
غزہ میں شہادت ہے اپنا جنوں

*میں نوحہ سرا ہوں اے میرے وطن*
*کہ تو اور میں ایک جاں دو بدن*
 

سیما علی

لائبریرین
اے بچے ترے صدقے ہو جاتی ماں
پہن خاک اپنی ہی سو جاتی ماں
بچا کر تجھے مرگ انبوہ سے
چھپا کر تجھے تن میں کھو جاتی ماں

کہ لاشوں کی پہچان کے واسطے
نکالوں ہزاروں نئے راستے
رقم نام کرتی ہوں بچوں کے میں
ننھے ہاتھوں پیروں پہ میں آستے
بہت درد انگیز پڑھ کے آنسو رکتے نہیں اور ہر درد مند دل تڑپ اٹھتا ہے ۔۔یہ منظر بھی دنیا نے دیکھا ہے کہ ایک ننھی بچی فلسطین کا پرچم اٹھائے جارہی ہے اسے پوچھا گیا کہ کہاں جارہی ہو؟ تو کہتی ہے فلسطین جارہی ہوں اس سے پوچھا فلسطین کس کے پاس تو بولی ابو عبیدہ کے پاس حماس کو مٹانے کا عزم کرنے والے اسرائیلی جان لیں کہ حماس۔ فلسطین سے لے کر دنیا بھر میں پھیل رہی ہے اس لئے اسرائیلی اپنے ظلم کا سلسلہ موقوف کر دیں وگرنہ گھر گھر ابو عبیدہ پیدا ہوگا اور شہر شہر حماس ہوگی۔۔۔ان شاء اللہ۔
 

یاسر شاہ

محفلین
ماشاء الله سیما بہن آپ کی نظم آپ کے درد مند دل کی ترجمان ہے -عموماً جذبات کی ترجمان نظموں کی اصلاح مشکل کام ہے -ذرا سی ردو بدل سے جذبات مجروح ہونے لگتے ہیں -پھر بھی چونکہ یہ نظم اصلاح سخن میں پیش ہوئی ہے تو چاہوں گا کہ کچھ باتیں لکھ دوں -

آپ کی نظم میں جذبات کی فراوانی کے سبب کہیں کہیں تخیل خام رہ گیا ہے -زبان و بیان کے مسائل بھی ہیں اور کہیں کہیں وزن کی فروگزاشتیں بھی پائی جاتی ہیں جن کے متعلق صلاحیں اور تجاویز دینا نظم دوبارہ کہنے کے مترادف ہے -میں کوشش کرتا ہوں کہ کچھ ابتدائی بندوں میں متبادل بند تجویز کر کے توجیہات لکھ دوں جن کی روشنی میں آگے آپ ایک کوشش دوبارہ کر لیں تو حرج نہیں -

میں نوحہ سرا ہوں اے میرے وطن
کہ تو اور میں ایک جاں دو بدن
ہمیں دشمنوں نے کیا تار تار
چمن تیرے ویران اور میرا تن

متبادل :
میں ماں ہوں تو بھی ماں ہے ارضِ وطن !
ہیں تو اور میں ایک جاں دو بدن
ہمیں ظالموں نے ہے غارت کیا
تو برباد ہے میرا کٹتا ہے تن

توجیہات :
١-وطن مذکر ہے کہ "یہ وطن ہماری ہے ہمیں پاسباں اس کے " نہیں ہوتا لہٰذا جب ماں کے طور پر ہی لینا ہے تو "ارض وطن" ہونا چاہیے -
٢- "دشمنوں" کے مقابلے میں "ظالموں" میں عمومیت ہے -"تار تار " عموماً کپڑوں وغیرہ کے لیے کہا جاتا ہے -
٣- چمن کی تخصیص بے جا لگی -
٤-پھر بمباریوں سے ویرانی کے مقابلے میں لفظ بربادی بہتر لگتا ہے -
مرے تن نے جو انبیاء ہیں جنے
ترے تن پہ وہ سب مذاہب بنے
براہیم سے موسی عیسی تلک
تری خاک کے سب تناور تنے


متبادل :
میں وہ ماں کہ جس نے نبی ہیں جنے
تو وہ ماں کہ جس پر مذاہب بنے
خلیل خدا سے مسیحا تلک
تری خاک کے ہیں تناور تنے

توجیہات :
١- "میں وہ ماں " کچھ بہتر بیانیہ لگا -
٢-"جو انبیاء ہیں وہ مذاہب بنے "سے انبیاء کے مذاہب بننے کی الجھن بھی ختم ہو گئی -
٣-ابراہیم علیہ السلام کو براہیم کہنا کھٹکا - موسیٰ علیہ السلام کا آخری حرف گرانا بھی مناسب نہیں -
٤-اور سب انبیاء کا یہاں پیدا ہونا ثابت نہیں لہٰذا "سب" بھی ہٹا دیا-
اسی سرزمیں پر نبی سب پلے
یہیں سے ابھر کر زمانے چلے
ستاروں بھرا آسماں سر پہ ہے
شہیدوں کی جنت ہے پیروں تلے

متبادل :
تری گود میں انبیاء ہیں پلے
یہیں سے ابھر کر زمانے چلے
مجھے بھی خدا نے یہ رتبہ دیا
کہ رکھ دی ہے جنت بھی پیروں تلے


توجیہات :

١-"میں ، تو" اور "میری ،تیری "کے بیانیے کے بیچ میں "اسی سرزمین " کا بیانیہ ٹھیک نہیں -
٢-پھر زمین کے پیروں تلے جنت کا ہونا کے مقابلے میں ماں کے پیروں تلے جنت کا ہونا کہنا زیادہ موزوں لگا -
حمل میں بھی سہتی ہوں کرب و بلا
مسلط ہوئی مجھ پہ پھر کربلا
کہ معصوم پیاسے تڑپتے ہیں پھر
ملے گی کہاں میرے غم کو وَلا

متبادل :
میں سہتی ہوں بچوں کے کرب و بلا
تو سہتی ہے ہر دور میں کربلا
ہمارے تو غم سارے سانجھے کے ہیں
نہ تیرا ٹلا غم نہ میرا ٹلا

توجیہات :

١-حمل کی تخصیص کی بجائے بچوں کے کرب و بلا میں سب کچھ آ جاتا ہے -آگے کربلا سے مناسبت کے لیے بھی عمومیت چاہیے نہ کہ حمل کی تخصیص -
٢-غم کو ولا ملنا میرے لیے تو نامانوس ہے -
٣-پھر آج کل کے حالات کو آگے بیان کرنا چاہیے کہ ابھی تک تو نظم بطور ماں زمین سے ایک ماں کی مشابہت کے متعلق تھی -
---------------

یہاں تک تو تجاویز اور ان کے متعلق توجیہات تھیں -آگے کے بندوں کے حوالے سے کچھ موٹی موٹی بے لاگ باتیں لکھ کر نظم آپ کے حوالے کرتا ہوں تاکہ پھر سے ان تجاویز کی روشنی میں ایک کوشش کر لیں -

اے بچے ترے صدقے ہو جاتی ماں
پہن خاک اپنی ہی سو جاتی ماں
بچا کر تجھے مرگ انبوہ سے
چھپا کر تجھے تن میں کھو جاتی ماں

ابھی تک کی نظم کی روشنی میں واضح نہیں کہ کونسی ماں مراد ہے -
اپنی خاک پہن کر سونا اور بچے کو تن میں چھپا کر کھو جانا عبارات کھٹکتی ہیں -

کہ لاشوں کی پہچان کے واسطے
نکالوں ہزاروں نئے راستے
رقم نام کرتی ہوں بچوں کے میں
ننھے ہاتھوں پیروں پہ میں آستے

کونسی ماں کہہ رہی ہے، مذکور ہونا چاہیے -
"میں آستے " کیا ہے ؟

صدی پہلے تیرا دیا ساتھ تھا
یہودا کی نسبت ترا ناتھ تھا
ترا درد بھی مرگ انبوہ تھا
وہ میں تھی کہ تجھ کو دیا ہاتھ تھا

ابھی تک تو آپ "ارض وطن " سے مخاطب تھیں یہاں اچانک روئے سخن یہودیوں کی طرف ہو گیا ؟
"ناتھ " لفظ غریب ہے محض قافیہ پیمائی -

لیا میرے احساں کو تحقیر سے
مرے خواب چھینے ہیں تعبیر سے
ترا ظلم یوں جیسے کر دے جدا
معانی کو آیه کی تفسیر سے

یہاں ایک تو وہی خطاب کی الجھن -پھر ظلم کی مثال بھی عجیب سی ہی لگی -

ترا ہر ترانہ ہے جنگ و جدل
ہر اک وار ہے پر فتن مُبْتَذَل
شفا خانوں کو بھی شکستہ کیا
دبی سسکیاں مدرسہ تھا اجل

مدرسہ تھا اجل ؟

میں قاطِع ہوں سارے بَراہِین کی
لہو رنگ ممتا فلسطین کی
تری کوئی حجت بھی ناطق نہیں
میں مسند نہیں ہوں فراعین کی

پہلا مصرع محض قافیہ پیمائی لگا -اور وہی خطاب کی الجھن بھی باقی ہے -

ہیں حماس حزب اللہ حامی مرے
ایرانی فقط سچے جامی مرے
یہ مغضوب و ضالیں سبھی ہو گیے
سرائیل دشمن دوامی مرے

یہ بند بے وزن ہو گیا -سرائیل بھی کھٹک رہا ہے -

زمانے کے ہمدرد اور چارہ گر
کہاں ہے ترا زُعمِ مال و ہنر
کھڑے ہیں شہادت کی خواہش لیے
غزہ کے یہ پالے ہیں سینہ سپر

اب پھر آپ کا مخاطب بدل گیا -

چلے گا نہ اب ہم پہ تیرا فسوں
کہ لُوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
ڈرائے نہ ہم کو کوئی موت سے
غزہ میں شہادت ہے اپنا جنوں

پہلا بیت حبیب جالب کا ہے -اسے واوین میں لکھیں -

*میں نوحہ سرا ہوں اے میرے وطن*
*کہ تو اور میں ایک جاں دو بدن*

میری مانیں تو متبادل بند جو پیش کیے ہیں رکھ کر آگے کی نظم دوبارہ کہیں -
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ -
 

سیما کرن

محفلین
ماشاء الله سیما بہن آپ کی نظم آپ کے درد مند دل کی ترجمان ہے -عموماً جذبات کی ترجمان نظموں کی اصلاح مشکل کام ہے -ذرا سی ردو بدل سے جذبات مجروح ہونے لگتے ہیں -پھر بھی چونکہ یہ نظم اصلاح سخن میں پیش ہوئی ہے تو چاہوں گا کہ کچھ باتیں لکھ دوں -

آپ کی نظم میں جذبات کی فراوانی کے سبب کہیں کہیں تخیل خام رہ گیا ہے -زبان و بیان کے مسائل بھی ہیں اور کہیں کہیں وزن کی فروگزاشتیں بھی پائی جاتی ہیں جن کے متعلق صلاحیں اور تجاویز دینا نظم دوبارہ کہنے کے مترادف ہے -میں کوشش کرتا ہوں کہ کچھ ابتدائی بندوں میں متبادل بند تجویز کر کے توجیہات لکھ دوں جن کی روشنی میں آگے آپ ایک کوشش دوبارہ کر لیں تو حرج نہیں -



متبادل :
میں ماں ہوں تو بھی ماں ہے ارضِ وطن !
ہیں تو اور میں ایک جاں دو بدن
ہمیں ظالموں نے ہے غارت کیا
تو برباد ہے میرا کٹتا ہے تن

توجیہات :
١-وطن مذکر ہے کہ "یہ وطن ہماری ہے ہمیں پاسباں اس کے " نہیں ہوتا لہٰذا جب ماں کے طور پر ہی لینا ہے تو "ارض وطن" ہونا چاہیے -
٢- "دشمنوں" کے مقابلے میں "ظالموں" میں عمومیت ہے -"تار تار " عموماً کپڑوں وغیرہ کے لیے کہا جاتا ہے -
٣- چمن کی تخصیص بے جا لگی -
٤-پھر بمباریوں سے ویرانی کے مقابلے میں لفظ بربادی بہتر لگتا ہے -



متبادل :
میں وہ ماں کہ جس نے نبی ہیں جنے
تو وہ ماں کہ جس پر مذاہب بنے
خلیل خدا سے مسیحا تلک
تری خاک کے ہیں تناور تنے

توجیہات :
١- "میں وہ ماں " کچھ بہتر بیانیہ لگا -
٢-"جو انبیاء ہیں وہ مذاہب بنے "سے انبیاء کے مذاہب بننے کی الجھن بھی ختم ہو گئی -
٣-ابراہیم علیہ السلام کو براہیم کہنا کھٹکا - موسیٰ علیہ السلام کا آخری حرف گرانا بھی مناسب نہیں -
٤-اور سب انبیاء کا یہاں پیدا ہونا ثابت نہیں لہٰذا "سب" بھی ہٹا دیا-


متبادل :
تری گود میں انبیاء ہیں پلے
یہیں سے ابھر کر زمانے چلے
مجھے بھی خدا نے یہ رتبہ دیا
کہ رکھ دی ہے جنت بھی پیروں تلے


توجیہات :

١-"میں ، تو" اور "میری ،تیری "کے بیانیے کے بیچ میں "اسی سرزمین " کا بیانیہ ٹھیک نہیں -
٢-پھر زمین کے پیروں تلے جنت کا ہونا کے مقابلے میں ماں کے پیروں تلے جنت کا ہونا کہنا زیادہ موزوں لگا -


متبادل :
میں سہتی ہوں بچوں کے کرب و بلا
تو سہتی ہے ہر دور میں کربلا
ہمارے تو غم سارے سانجھے کے ہیں
نہ تیرا ٹلا غم نہ میرا ٹلا

توجیہات :

١-حمل کی تخصیص کی بجائے بچوں کے کرب و بلا میں سب کچھ آ جاتا ہے -آگے کربلا سے مناسبت کے لیے بھی عمومیت چاہیے نہ کہ حمل کی تخصیص -
٢-غم کو ولا ملنا میرے لیے تو نامانوس ہے -
٣-پھر آج کل کے حالات کو آگے بیان کرنا چاہیے کہ ابھی تک تو نظم بطور ماں زمین سے ایک ماں کی مشابہت کے متعلق تھی -
---------------

یہاں تک تو تجاویز اور ان کے متعلق توجیہات تھیں -آگے کے بندوں کے حوالے سے کچھ موٹی موٹی بے لاگ باتیں لکھ کر نظم آپ کے حوالے کرتا ہوں تاکہ پھر سے ان تجاویز کی روشنی میں ایک کوشش کر لیں -

اے بچے ترے صدقے ہو جاتی ماں
پہن خاک اپنی ہی سو جاتی ماں
بچا کر تجھے مرگ انبوہ سے
چھپا کر تجھے تن میں کھو جاتی ماں

ابھی تک کی نظم کی روشنی میں واضح نہیں کہ کونسی ماں مراد ہے -
اپنی خاک پہن کر سونا اور بچے کو تن میں چھپا کر کھو جانا عبارات کھٹکتی ہیں -

کہ لاشوں کی پہچان کے واسطے
نکالوں ہزاروں نئے راستے
رقم نام کرتی ہوں بچوں کے میں
ننھے ہاتھوں پیروں پہ میں آستے

کونسی ماں کہہ رہی ہے، مذکور ہونا چاہیے -
"میں آستے " کیا ہے ؟

صدی پہلے تیرا دیا ساتھ تھا
یہودا کی نسبت ترا ناتھ تھا
ترا درد بھی مرگ انبوہ تھا
وہ میں تھی کہ تجھ کو دیا ہاتھ تھا

ابھی تک تو آپ "ارض وطن " سے مخاطب تھیں یہاں اچانک روئے سخن یہودیوں کی طرف ہو گیا ؟
"ناتھ " لفظ غریب ہے محض قافیہ پیمائی -

لیا میرے احساں کو تحقیر سے
مرے خواب چھینے ہیں تعبیر سے
ترا ظلم یوں جیسے کر دے جدا
معانی کو آیه کی تفسیر سے

یہاں ایک تو وہی خطاب کی الجھن -پھر ظلم کی مثال بھی عجیب سی ہی لگی -

ترا ہر ترانہ ہے جنگ و جدل
ہر اک وار ہے پر فتن مُبْتَذَل
شفا خانوں کو بھی شکستہ کیا
دبی سسکیاں مدرسہ تھا اجل

مدرسہ تھا اجل ؟

میں قاطِع ہوں سارے بَراہِین کی
لہو رنگ ممتا فلسطین کی
تری کوئی حجت بھی ناطق نہیں
میں مسند نہیں ہوں فراعین کی

پہلا مصرع محض قافیہ پیمائی لگا -اور وہی خطاب کی الجھن بھی باقی ہے -

ہیں حماس حزب اللہ حامی مرے
ایرانی فقط سچے جامی مرے
یہ مغضوب و ضالیں سبھی ہو گیے
سرائیل دشمن دوامی مرے

یہ بند بے وزن ہو گیا -سرائیل بھی کھٹک رہا ہے -

زمانے کے ہمدرد اور چارہ گر
کہاں ہے ترا زُعمِ مال و ہنر
کھڑے ہیں شہادت کی خواہش لیے
غزہ کے یہ پالے ہیں سینہ سپر

اب پھر آپ کا مخاطب بدل گیا -

چلے گا نہ اب ہم پہ تیرا فسوں
کہ لُوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
ڈرائے نہ ہم کو کوئی موت سے
غزہ میں شہادت ہے اپنا جنوں

پہلا بیت حبیب جالب کا ہے -اسے واوین میں لکھیں -

*میں نوحہ سرا ہوں اے میرے وطن*
*کہ تو اور میں ایک جاں دو بدن*

میری مانیں تو متبادل بند جو پیش کیے ہیں رکھ کر آگے کی نظم دوبارہ کہیں -
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ -
جزاک اللہ خیرا
یاسر شاہ صاحب!
مجھے یقین نہیں آ رہا کہ کوئی اس قدر محبت سے بھی کسی کی کاوش کی اصلاح کرتا ہے۔ مجھے تو اب تک تنقید کے پیرائے صرف تنقیص ہی ملی۔ یہ شاید پہلی مرتبہ ہے کہ کسی نے اتنی محنت کی۔ یقین جانئیے میں صرف نو آموز نہیں بلکہ صرف ایک جز وقتی شوقیہ شاعرہ ہوں۔
سارا دن مریضوں کے ساتھ گزارنے کے بعد کچھ وقت کبھی کبھی ملتا ہے تو کچھ الفاظ جوڑ لیتی ہوں۔
یہ نظم تو دو گھنٹے میں لکھی تھی کہ ایرانی قونصل خانے میں فلسطین اور خواتین پر مظالم کے حوالے سے دن منایا جا رہا تھا۔ مجھے میری سہیلی نے دعوت دی کچھ بولنے کے لئے لہٰذا میں نے یہ نظم لکھ کر سنائی ۔ مجھے معلوم تھا کہ بہت سی بڑی بڑی غلطیاں ہوں گی۔
مگر شاید میری خوش نصیبی کہ ایران قونصل خانے نے نظم کی علیحدہ ویڈیو بھی بنائی اور پرنٹ بھی لئے کہ یہ نظم ہم نے ایران میں ایک مشاعرے کے لئے منتخب کر لی ہے۔میں پہلے حیران ہوئی مگر پھر یہ سوچا کہ شاید اس نظم کو وہ ایک ڈاکٹر کے دل کی آواز کے طور پیش کریں۔
آپ کی محبت کی سپاس گزار ہوں۔اللہ تعالٰی آپ کو رحمتوں، برکتوں اور نعمتوں سے نوازے آمین۔
ڈاکٹر سیما شفیع
 
Top