عدم اے عشق! وہ بُت رونقِ بُت خانہ بنا دے- عدم

کاشفی

محفلین
غزل
(عدم)
اے عشق! وہ بُت رونقِ بُت خانہ بنا دے
جو ہستیء یزداں کو بھی افسانہ بنادے
ہے عشرتِ دیوانگیء عشق عجب چیز
دیوانہ بنا دے، مجھے دیوانہ بنا دے
ہر فکرِ جگر سوز کی بنیاد خرد ہے
اے دوست مجھے عقل سے بیگانہ بنا دے
گمنام ہوں، ناپید ہوں، گویا کہ نہیں ہوں
کیا دیکھ رہا ہے؟ مجھے افسانہ بنادے
ہوسکتا ہے افسانے کا گر تو متحمّل
پھر مجھ کو بڑے شوق سے افسانہ بنادے
اے زاہدِ کم فہم! تجھے علم بھی ہے کچھ؟
دل کعبہ نہیں ہے اسے بت خانہ بنادے
دل مانگا تھا یارب، یہ تجھے کس نے کہا تھا
پہلو میں مرے چھوٹا سا غم خانہ بنادے
یہ آپ کی دزدیدہ نگاہی کہیں یوں ہی
دل میں مرے اک شہرِ تمنّا نہ بنادے
ہستی مری رہ جائے نہ جز نشہ و مستی
یوں دیکھ مجھے لغزشِ مستانہ بنادے
اے جانِ عدم آ مری گفتار میں ڈھل جا
ہر شعرِ صنم رنگ کو بُت خانہ بنادے
 
Top