اے حسن مجھے تھام کہ برباد نہ ہوں میں ٭ راحیلؔ فاروق

اے حسن مجھے تھام کہ برباد نہ ہوں میں
اللہ نہ کرے عشق سے بھی شاد نہ ہوں میں

ہو ہی نہیں سکتا کہ اسے یاد نہ ہوں میں
ایسا ہو تو ہر بند سے آزاد نہ ہوں میں

اپنے ہی کسی وہم کی ایجاد نہ ہوں میں
اے جوشِ سخن گنگ کی فریاد نہ ہوں میں

شاعر کا شعور اصل ہے ہر چھان پھٹک کی
نقاد نہ ہوں میں اگر استاد نہ ہوں میں

مت دیکھ کہ تو بندۂِ درگاہ کا ہے عشق
یہ سوچ ترا حسنِ خداداد نہ ہوں میں

وحشت کا وہ عالم ہے ترے شہر میں اب کے
شاید کسی ویرانے میں آباد نہ ہوں میں

ڈر اس سے کہ مجھ میں کوئی مجھ سے بھی سوا ہو
ممکن ہے کہ تعمیر ہوں بنیاد نہ ہوں میں

الہام کرے عشق تو الہام سراپا
ارشاد کرے عقل تو ارشاد نہ ہوں میں

محشر میں مجھے اذنِ سخن سوچ کے دیجو
اے کن فیکونی تری روداد نہ ہوں میں

کیا ہے اگر اس دور کا راحیلؔ نہ تھا وہ
کیا ہے اگر اس دور کا فرہاد نہ ہوں میں

راحیلؔ فاروق
 
محشر میں مجھے اذنِ سخن سوچ کے دیجو
اے کن فیکونی تری روداد نہ ہوں میں

کمال !!!
بھائی یہ اتنے اچھے شاعر محفل کو کیوں چھوڑ گئے۔
 
Top