اے این ایف نے رانا ثنااللہ کو گرفتار کرلیا

مفتاح اسماعیل کو ضمانت پر رہا کیا گیا تو احسن اقبال کو گرفتار کرلیا گیا۔
رانا ثناءاللہ کو ضمانت پر رہا کیا گیا ہے تو کوٹہ پورا کرنے کے لئے میاں جاوید لطیف کی گرفتاری کا امکان۔

;)
 

جاسم محمد

محفلین
176 دنوں کی گرفتاری کے بعد بھی جب استغاثہ کچھ بھی ثابت نہ کر سکا تو رانا ثنا اللہ کو ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

اگر ثبوت نہیں ملا تو ضمانت پر رہا کیوں کیا؟ سیدھا سیدھا پورا کیس ختم کرکے با عزت بری کر دیتے۔
پاکستان کا عجیب و غریب عدالتی نظام ہے۔ نیب عدالت نواز شریف، مریم نواز، جنید صفدر کو کئی سو پیشیوں کے بعد سزا سناتی ہے۔ اور محض دو ماہ بعد اسلام آباد ہائی کورٹ دو پیشیوں میں مجرمان کی سزا معطل کرکے ضمانت دے دیتی ہے۔ یعنی ابھی اصل کیس ہائی کورٹ میں لگنا باقی ہے اور عدم ثبوت کی بنیاد پر ضمانتیں پہلے دے دی گئی۔ یہی کچھ آج رانا ثناءاللہ کے ساتھ ہوا۔ ان کا ٹرائل اگلے ماہ ۴ جنوری سے شروع ہوگا۔ جبکہ ضمانت آج ہی مل گئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مفتاح اسماعیل کو ضمانت پر رہا کیا گیا تو احسن اقبال کو گرفتار کرلیا گیا۔
رانا ثناءاللہ کو ضمانت پر رہا کیا گیا ہے تو کوٹہ پورا کرنے کے لئے میاں جاوید لطیف کی گرفتاری کا امکان۔

;)
یہ صرف ضمانتوں پر رہا ہو رہے ہیں عدالتوں سے با عزت بری نہیں ہو رہے۔ اتنے بڑے سورما ہیں تو اپنے خلاف کیسز عدالتوں سے ختم کرکے دکھائیں
 

جاسم محمد

محفلین

رانا ثنا کیس؛ کبھی نہیں کہا ویڈیو موجود ہے فوٹیجز کی بات کی،شہریار آفریدی
ویب ڈیسک بدھ 25 دسمبر 2019
1929239-sheryarafridi-1577269133-987-640x480.jpg

راناثنااللہ کے معاملے پر تاثر دیا گیا سب کچھ ختم ہوگیا، وزیرمملکت

اسلام آباد: وزیرمملکت شہریار آفریدی کا کہنا ہے کہ آج کل ضمانتوں کا موسم ہے، ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں جس پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی۔

اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے شہریارآفریدی کا کہنا تھا کہ رانا ثنااللہ کے معاملے پر ایسا تاثر دیا گیا سب کچھ ختم ہوگیا لیکن ایسا نہیں ہے، رانا ثنااللہ کو بری نہیں کیا گیا بلکہ انہیں ضمانت پر رہا کیا گیا ہے، ان کے خلاف کیس ختم نہیں ہوا اور وہ اب بھی ملزم ہیں، کیس میں کبھی نہیں کہا کہ ویڈیو موجود ہے بلکہ فوٹیجز کی بات کی، آج کل ضمانتوں کا موسم ہے، ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں جس پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی۔

وزیرمملکت نے کہا کہ میں کسی کام کے سلسلے میں ملک سے باہر تھا لیکن تاثر ایسا دیا گیا کہ میں ڈر گیا اور میڈیا سے بھاگ رہا ہوں، میری اور وزیراعظم کی کسی سے ذاتی رنجش نہیں ہے، ہم نے رانا ثنااللہ کے کیس میں کسی قسم کی مداخلت کی، کیس لٹکانے کے لیے تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں شہریار آفریدی نے کہا کہ رانا ثنااللہ کیس کو میڈیا ٹرائل نہ بنایا جائے، کیس سے جڑے تمام ثبوت عدالت کو فراہم کرچکا ہوں لیکن فیصلہ کرنا میرا کام نہیں، ثبوتوں کے بنیاد پر فیصلہ عدالتوں نے دینا ہے اور تفصیلی فیصلہ آنے پر ہم تمام آپشن استعمال کرتے ہوئے کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

وزیرمملکت کا کہنا تھا کہ رانا ثنا اللہ کی ضمانت کے عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہیں، ضمانت سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے اور ہم مافیاز کے خلاف کھڑے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
رانا ثنااللہ کے خلاف ویڈیو سمیت تمام شواہد موجود ہیں، چیف پراسیکیوٹراے این ایف
ویب ڈیسک بدھ 25 دسمبر 2019
1929408-ranasanaullahZahoorulhaq-1577282432-842-640x480.jpg

کیس کی اہمیت وڈیو فوٹیجز نہیں بلکہ اہمیت ملزم سے منشیات کی برآمدگی کی ہے، ترجمان اے این ایف (فوٹو: فائل)

اسلام آباد: چیف پراسیکیوٹر اےاین ایف راجہ انعام امین منہاس کا کہنا ہے کہ منشیات برآمدگی کیس کے تقاضے کے مطابق وڈیو سمیت تمام ثبوت و شواہد موجود ہیں، رانا ثنااللہ کے خلاف کیس کا فیصلہ یکطرفہ ہوگا۔

راولپنڈی اے این ایف ہیڈ کوارٹرز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیف پراسیکیوٹر اے این ایف راجہ انعام امین منہاس کا کہنا تھا کہ رانا ثناء اللہ منشیات کیس میں میڈیا پر ایک طرف کے بیانات سامنے آرہے ہیں، یہ تاثر دیا گیا کہ پراسیکیوشن اس میں تاخیر لارہی ہے، ہماری تحقیقاتی تاریخ سب کے سامنے ہے ہم نے تاخیر کے لیے کوئی درخواست نہیں دی، اے این ایف کی جانب سے تمام کام مکمل کیا گیا، کیس کے تقاضے کے مطابق وڈیو سمیت تمام ثبوت و شواہد موجود ہیں، رانا ثنااللہ کے خلاف کیس کا فیصلہ یکطرفہ ہوگا۔

پراسیکیوٹر اے این ایف نے بتایا کہ منشیات برآمدگی کیس کی ایف آئی آر یکم جولائی 2019 کو درج ہوئی، ہم نے 23 جولائی کو چالان جمع کرادیا، جس کے تمام ثبوت عدالت میں پڑے ہوئے ہیں، چالان میں 15 کلوگرام برآمدگی ہیروئن، 15 گواہ، 3 گواہوں کے بیانات، کیمیکل ایگزیمینر کی رپورٹ اورموقعےکی فوٹیج کی سی ڈی بھی ساتھ لگی ہوئی ہے، برآمدگی کے گواہ اور رپورٹ یہ قانون شہادت ہے جو پراسیکیوشن نے پیش کرنا ہوتی ہے۔

پراسیکیوٹر اے این ایف نے کہا کہ سی این ایس ایکٹ کے مطابق 9 اے، بی اور سی کا کیس ثابت کرنے کی تمام قانونی کاروائی مکمل کی، اس کے بعد دفاع سے پوچھا جاتا ہے کہ برآمدگی ہوئی ہے یا نہیں کس طرح ہوئی سب کچھ بتایا جاتا ہے، ضمانت کیلئےشواہدکوعدالت میں ڈسکس نہیں کیاجاتا۔

پراسیکیوٹر اے این ایف کا کہنا تھا کہ ملزمان نے ٹرائل کورٹ میں پہلی ضمانت 8 اگست 2019 فائل کی اور وہ منسوخ ہوگئی، ہم نے 9 اگست کو تمام کاپیاں ملزمان کو دے دی اس کے بعد چارج فریم ہونا تھا، ہم نے عدالت سے کہا آپ چارج فریم کریں اور کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کریں، ڈے ٹو ڈے ہیرنگ کریں، پھر ملزمان کی درخواست 20 ستمبر کو منسوخ ہوئی، اور پھر یہ ہائی کورٹ چلے گئے، ہائی کورٹ میں 3 اکتوبر کو دفاع نے یہ ضمانت ودڈرا کرلی، پھر دوبارہ 5 نومبر 2019 کو ٹرائل کورٹ میں ضمانت لگائی وہ بھی منسوخ ہوگئی، 21 دسمبر سے پہلے ہڑتال چل رہی تھی اور اس کے بعد ملزمان نے ایک اور درخواست دے دی، سیکنڈ ہائی کورٹ میں دوبارہ فائل کی جس میں شارٹ آرڈر میں ضمانت دی گی۔

کا کہنا تھا کہ ملزمان کو صرف ایک گراونڈ پیرا فور کے تحت ضمانت ملی جو سیف سٹی کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی تھی، اس کیس کی اہمیت وڈیو فوٹیجز نہیں اس کیس کی اہمیت ملزم سے منشیات کی برآمدگی ہے، صرف وڈیو کو بنیاد بنا کر وہ کہہ رہے ہیں کیس کمزور ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
رانا ثناء اللہ کا انسداد منشیات عدالت میں مقدمہ اگلے سال 4 جنوری سے شروع ہوگا۔ اپوزیشن، لفافوں اور لبرلز نے جان اللہ کو دے کر رانا ثناء کو دسمبر میں ہی با عزت بری کر دیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
لوہار ہائی کورٹ نے رانا ثناءاللہ منشیات کیس انسداد منشیات عدالت میں چلنے سے قبل ہی ختم کر دیا۔

کون کہتے ہے پنجاب کی عدالتوں میں انصاف نہیں ملتا۔ بس آپ کا تعلق ن لیگ سے ہونا چاہئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اے این ایف کا رانا ثنا کی رہائی سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان
جمعرات 26 دسمبر 2019
1930621-antinarcoticsforce-1577377733-288-640x480.jpg

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں قانونی سقم ہیں، اس طرح کے مقدمات میں ضمانت نہیں ہوتی، اینٹی نارکوٹکس فورس (فوٹو: فائل)

اسلام آباد: اینٹی نارکوٹکس فورس نے منشیات برآمدگی کیس میں رانا ثنا اللہ کی رہائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا۔

اے این ایف کے ترجمان کے مطابق ادارے نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کی منشیات برآمدگی کیس میں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے رہائی کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا۔

ترجمان نے کہا ہے کہ رانا ثنا اللہ کی ضمانت کے فیصلے میں بہت سے قانونی سقم ہیں، لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے کیوں کہ اس طرح کے مقدمات میں ضمانت نہیں ہوتی۔

ترجمان نے مزید کہا ہے کہ اے این ایف ٹرائل کورٹ رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت پہلے ہی رد کرچکی تھی، اس کیس میں ہمارے پاس برآمد شدہ منشیات اور گواہ بھی موجود ہیں۔

دوسری جانب رانا ثںا اللہ نے مقدمے کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے اسے ملکی تاریخ کا گھٹیا ترین مقدمہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر میں منشیات کا نیٹ ورک چلارہا ہوں تو وہ نیٹ ورک پکڑا کیوں نہیں گیا؟
 

جاسم محمد

محفلین
28 دسمبر ، 2019
705_092114_reporter.JPG
محمد بلال غوری
رانا ثنا اللّٰہ کس کی فرمائش پر گرفتار ہوئے؟
211094_8897576_updates.jpg

سچ یہ ہے کہ رانا ثنا اللہ کو اعمران خان یا شہریارآفریدی نے نہیں بلکہ ان کی اپنی ہی جماعت کی ایک انتہائی اہم شخصیت نے گرفتار کروایا ہے— فوٹو فائل

لاہور ہائیکورٹ کی یہ آبزرویشن بالکل درست ہے کہ مخالفین سے سیاسی انتقام ہمارے ملک کا کھلا راز ہےالبتہ ہر دور میں سیاسی انتقام کے انداز و اطوار بدل جاتے ہیں۔ پہلے بھینس چوری کے مقدمات سے کام چلالیا جاتا تھا مگر اب سیاسی لوگوں کو ہیروئن اور ایفی ڈرین کے مقدمات میں اُلجھا دیاجاتا ہے۔ یادش بخیر اس سے پہلے مسلم لیگ(ن)کے رہنما حنیف عباسی کو بھی ایفی ڈرین کیس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی مگر لاہور ہائیکورٹ نے انہیں سنائی گئی سزا معطل کرتے ہوئے ضمانت پر رہا کر دیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دورِحکومت میں ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت چوہدری ظہور الہٰی کیخلاف بنائے گئے ایک مقدمے میں ضمانت منظور ہوگئی مگر اوپر سے حکم تھا کہ انہیں رہا نہیں کرنا۔ ایس ایچ او نے اپنی نوکری بچانے کے لئے چوہدری ظہورالٰہی کیخلاف بھینس چوری کا مقدمہ درج کرکے ڈیرے پر باندھے گئے جانوروں کو مالِ مسروقہ قرار دیتے ہوئے برآمد کرلیا۔

یہ مقدمہ تب ختم ہوا جب ایف آئی آر میں مدعی بنائے گئے شخص نے لاہور ہائیکورٹ میں جا کر بیان دے دیا کہ نہ تو اس کی کوئی بھینس چوری ہوئی ہے اور ناں ہی اس نے اندراج مقدمہ کی کوئی درخواست دی ہے۔ اسی طرح عراقی سفارتخانے سے اسلحہ برآمد ہوا تو نیب کے رہنماؤں اور چوہدری ظہور الٰہی کو گرفتار کرکے دہشتگرد قرار دیدیا گیا۔ سرکاری طور پر بتایا گیا کہ پکڑے گئے غیر ملکی اسلحہ کی کھیپ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو پہنچائی جانی تھی اور یہ سب سیاستدان اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔چوہدری ظہور الٰہی کو بھی کوہلو جیل لے جا کر قید کردیا گیا اور چوہدری شجاعت حسین کا دعویٰ ہے کہ بھٹو صاحب نے اپنے خاص لوگوں کے ذریعے یہ پیغام گورنر بلوچستان نواب اکبر بگٹی کو پہنچایا کہ چوہدری ظہور الہٰی کو پولیس مقابلے میں مار دیا جائے مگر نواب اکبر بگٹی نے اجرتی قاتل بننے سے انکار کر دیا۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں تب ختم ہوا جب اعلیٰ عدالت نے قرار دیا کہ کوئی ایسا شخص جس کے خلاف پاکستان کے قانون کے تحت کوئی مقدمہ درج ہوا ہو، اسے قبائلی علاقے میں لے جا کر جرگے کے تحت سزا نہیں دی جا سکتی۔

اسی طرح 90 کی دہائی میں بینظیر بھٹو اور نوازشریف کی حکومتوں میں سیاسی مخالفین سے انتقام کی جو روش اپنائی گئی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بالخصوص نوازشریف کے دوسرے دورِحکومت میں احتساب سیل کے چیئرمین نے جو انتقامی کارروائیاں کیں وہ ہماری سیاسی تاریخ پر بدنما داغ ہیں۔ اس دوران آصف زرداری کو بھی رانا ثنااللہ کی طرح منشیات اسمگلنگ کے مقدمے میں پھنسانے کی پوری کوشش کی گئی۔

چوہدری شجاعت حسین نے اپنی سوانح حیات ’’سچ تو یہ ہے ‘‘میں اس حوالے سے ڈالے جا رہے دباؤ کا ذکر تفصیل سے کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ایک روز میں نے ڈائریکٹر جنرل اینٹی نارکوٹکس فورس کو اپنے دفتر بلایا اور علیحدہ میٹنگ کی ۔میں نے کہا،اللہ نے ہمیں منصف بنایا ہے ،یہ ایک شخص کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ یہ کیس سچا ہے یا جھوٹا۔ڈی جی نے جواب دیا کہ کیس تو بالکل جھوٹا ہے اور جس آدمی کے بیان پر یہ کیس دائر کرنے کےلئے کہا جا رہا ہے ،وہ بھی نہایت بدنام ہے۔

یہ سننے کے بعد میں نے ڈی جی سے کہا ،آپ اس کیس کے بارے میں ہماری آج کی میٹنگ کا حوالہ دے کر کیس کے تمام کوائف اور اس پر اپنی دیانت دارانہ رائے تحریری طور پر مجھے بھجوا دیں۔ڈی جی اگلے ہی روز یعنی 19اکتوبر1997ء کو اپنی تحریری رائے کیساتھ کیس کی فائل لے کر آگئے۔ انہوں نے آخری صفحے پر اپنی سمری میں کیس کو اخلاقی اور قانونی طور پر غلط قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ اینٹی نارکوٹکس فورس کے نزدیک یہ کیس بے حد کمزور ہے لہٰذا اس متنازعہ کیس میں نہیں پڑنا چاہئے۔‘‘

اگروزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی چوہدری شجاعت حسین کی طرح ہمت کرتے یا پھر اے این ایف کے موجودہ ڈی جی بھی سابق ڈی جی کی طرح جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈٹ جاتے تو شاید ادارے کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ رانا ثنااللہ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور ان کی رہائی میں ان کی اہلیہ نبیلہ رانا نے وہی کردار ادا کیا ہے جس طرح 12اکتوبر1999ء کے بعد نوازشریف کی رہائی کے لئے بیگم کلثوم نواز نے تحریک چلائی تھی۔

رانا ثنااللہ کی گرفتاری پر حسب روایت وزیراعظم عمران خان کو مطعون کیا جا رہا ہے یا پھر وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی پر تنقید ہو رہی ہے ۔وزیر مملکت شہریار آفریدی نے تو اس معاملے میں آبیل مجھے مار کے مصداق توپوں کا رُخ ازخود اپنی طرف کیا ہے مگر میرا خیال ہے کہ رانا ثنااللہ جیسے سچے اور کھرے انسان کو پورا سچ بیان کرنا چاہئیے۔

پورا سچ یہ ہے کہ انہیں عمران خان یا شہریارآفریدی نے نہیں بلکہ ان کی اپنی ہی جماعت کی ایک انتہائی اہم شخصیت نے گرفتار کروایا۔بات دراصل یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن)کے قائد میاں نوازشریف کسی صورت علاج کیلئے بیرون ملک جانے پر رضامند نہیں ہو رہے تھے۔ جب بھی انہیں قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ،رانا ثنااللہ حائل ہوجاتے اور یہ کوششیں ناکام ہو جاتیں۔ کچھ عرصہ بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جب تک رانا ثنااللہ کو نوازشریف کیساتھ ملنے سے نہیں روکا جاتا، بیرون ملک جانے کا معاملہ منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکتا۔

یوں اس اہم ترین شخصیت کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ رانا ثنااللہ کو کسی ایسے مقدمے میں گرفتار کیا جائے کہ وہ فوری طور پر باہر نہ آسکیں۔یوں رانا ثنااللہ کو دھرلیا گیا اور پھر نوازشریف کو بیرون ملک جانے پر رضامند کرلیا گیا ۔مقدمہ ثابت کرنے کی سنجیدہ کوشش اس لئے نہیں کی گئی کہ مقصد رانا ثنااللہ کو سزا دلوانا نہیں بلکہ کچھ عرصہ کیلئے جیل میں رکھنا تھا۔ جب نوازشریف بیرون ملک چلے گئے اور سارے معاملات طے پا گئے تو رانا ثنااللہ کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کردی گئی اور کمزور شواہد کے پیش نظر وہ رہا ہوگئے۔
 
Top