اےباد بیابانی

با ادب

محفلین
اے بادِ بیابانی

سوچتی ہوں اگر میں گوتم ہوتا ۔ شاہی کو لات مار کے کسی جنگل بیابان میں جا کے پناہ لیتا ۔ کہیں دھونی رما کے گیان کرتا نروان مل جانے پہ اللہ کا بندہ بن جاتا ۔
یہ سب میں نے تب سوچا جب مجھے کچھ دن جنگلوں کی خاک چھاننی تھی ۔ کسی چیڑھ کے سائے میں بیٹھ کے کچھ دیر اعصاب کو پر سکون رکھ کر شور و شغب سے دور میں نے اپنی اس دنیا کا تصور کیا جہاں کب دن چڑھتا ہے اور کب رات ہوتی ہے کچھ خبر نہ ہوتی ۔ بس ایک بھاگ دوڑ اور زندگی ہاتھوں سے پھسلی جاتی تھی ۔ یوں لگتا خدا واقعی بہت دور آسمانوں پہ ہے جسے بلانا کبھی مشکل لگتا اور کبھی لگتا ہم میں آواز دینے کی اہلیت ہی نہیں ۔
یہ ہر گز مت سوچیے گا کہ جنگل میں چیڑھ کے اُس درخت تلے بیٹھ کر اُس روز ہمیں واقعی نروان مل گیا تھا ۔ یا ہم اللہ کی مکمل معرفت حاصل کر پائے تھے ۔
زمانوں کی گرد اور دل پہ لگے زنگ اچانک سے دھل جائیں ایسا فقط پیغمبروں اور ولیوں کے ساتھ ہو سکتا ہے ۔ ہم ' جنہیں نہ تو سدھرنے کا شوق ہوتا ہے نہ ہی محنت کرنے کا ہمارے سنورنے سدھرنے کے لیے کوئی معجزہ اور کرامت ہو تو ہو خود سے سیدھے راستے پہ چل پڑنا ازحد مشکل کام ہے ۔

لیکن اُس روز اُس خاموشی میں ہمیں لگا کہ اللہ وہ سب سن رہا ہے جو ہم بولتے ہیں ۔
یوں لگنے لگا کہ خلوت اور تنہائی میں رب کو پکارنے اس سے بات کرنے کا الگ ہی لطف ہے ۔
ہم نے بھی پکار لیا ۔ چار آنسو بہائے اور عرض گزاری ۔
" اللہ ! تیری برکتوں کا مہینہ ہے لیکن دل میں کوئی ہلچل نہیں ہوتی جسے تیرے حضور پیش کر کے کہوں کہ میں نے اتنی نیکیاں کما لیں ۔ اتنے نوافل پڑھے اتنا قرآن کا مطالعہ کیا ۔ میں تو نہایت مارے باندھے تیرے سامنے سر بسجود ہوتی ہوں ۔ اور بس ایک ندامت ہے کہ جب تیرے سامنے کھڑی ہونگی تو عمل کے نام پہ بالکل خالی ہاتھ ۔

تیرے دین والے بندوں کو دیکھ کے جی چاہتا ہے ان سے منہ چھپا لوں ۔ اور کہوں دیکھیے ! مجھ سے نیکی کمانے کی گفتگو مت کیا کیجیے ۔ میرا دل فقط آنسوؤں کے دریا بہا سکتا ہے عمل کے نام پہ فقیر کا کشکول خالی ہے ۔

میرے اللہ ! بے شک تو دلوں کو پھیرنے والا ہے میرے دل کو اپنی اطاعت پہ قائم کر دے ۔ خود مجھ سے کچھ ہو یہ میرے بس کی بات ہی کہاں ۔ "

اور یوں لگا اللہ نے سب سن لیا ہے ۔

یہ گنبدِ مینائی ' یہ عالمِ تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی

علامہ یاد آئے بھی تو کہاں ۔۔۔۔۔۔

بھٹکا ہوا راہی میں ' بھٹکا ہوا راہی تو
منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی

لالے کا پھول اگر صحرا میں کھل بھی جائے تو اسکا قدردان کہاں ؟ اگر وہ باغ میں کھلتا تو خوب ہوتا ۔
مردِ مومن اگر دنیا ترک کر کے کسی جنگل میں دھونی رما کے بیٹھ جائے تو ایسے بے فیض مومن کا کیا فائدہ جس سے مخلوقِ خدا کو کوئی فیض نہ ملے ۔

خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلۀ سینائی ' میں شعلۀ سینائی

یہ پہاڑ اور وادی کلیموں جیسی عظیم ہستیوں سے خالی ہیں ۔
اگر یہ خالی نہ ہوتے پیارے گُلِ لالہ تو تیرے سینے میں بھی طورِ سینا کے شعلے پوشیدہ ہیں اور میرے سینے میں بھی یہ قائم ہیں ۔ حسنِ حق کا جلوہ سینوں میں موجود ہو تو کسی صاحبِ نظر کا موجود ہونا اور اسکی نظرِ التفات کے ہونے سے ہی شعلوں کا بھڑک اٹھنا ممکن ہوا کرتا ہے ۔

تو شاخ سے کیوں پھوٹا ؟
میں شاخ سے کیوں ٹوٹا ؟
اک جذبۀ پیدائی
اک لذتِ یکتائی

ہم دونوں عدم سے ہستی میں کیوں آئے ؟
یہی تو سوچنے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ لذتِ یکتائی پا لینے کے شوق نے ہم میں سے ہر ایک کو کیسا خوار کر ڈالا ۔ کیا ہے یہ لذتِ یکتائی ؟ بے مثل بننے کا ذوق و شوق ۔۔۔۔ وہی تو ہوتا ہے فقط ۔۔۔ کیا فقط ذوق و شوق سے انسان کا رو بہ عمل ہونا ممکن ہے ؟
سوال و جواب کے سلسلے خود ہی اندر سے شروع ہوتے ہیں اور خود ہی ندامت آن گھیرتی ہے ۔
کچھ چیزیں جب بے موقع یاد آجائیں تو وہ اللہ ویسے ہی نہیں یاد دلا دیتا ۔
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر ۔۔۔۔۔۔
تو وہ جو چیڑھ کے اُ س درخت کے نیچے دنیا کے شور و شغب سے دور بیٹھ کے اللہ سے اپنی نالائقی کا رونا رویا تھا نا اسکا جواب یہی تھا ۔
لیکن انسان بڑا کم ظرف ہے اسے فقط رونا رونا آتا ہے ۔ اگرچہ حل سامنے ہی موجود ہو نہ وہ حل کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے نہ حق کو ۔
دین کیا فقط لفاظی کا نام ہے ؟ یہ تو جد وجہد ہے ۔ جنگ ہے خود اپنے نفس سے شیطان سے ۔
شیطان تو قید کر دیے جاتے ہیں نفسوں کا کیا کیجیے؟
نفس کی تربیت کرنی پڑتی ہے ۔ آپ دیکھتے ہیں نا امتحان سے پہلے بچوں کو اکیڈمی میں ٹریننگ کے لیے بھیجا جاتا ہے کہ تیاری خوب ہو جائے ۔
یہ جو سال کے بارہ مہینوں میں سے ایک مہینہ ہمیں ملتا ہے نا نفس کی ٹریننگ کے لیے اس میں سخت محنت کرنی پڑتی ہے ۔ خود کو ایک بہترین سپاہی بنانے کے لیے ۔
جنگ میں اگر سپاہی کمزور ہوگا تو پچھاڑ دیا جائے گا ۔ اسلیے سپاہی کو مضبوط ' چوکس اور توانا کرنا پڑتا ہے ۔

غواصِ محبت کا اللہ نگہباں ہو
ہر قطرۀ دریا میں دریا کی ہے گہرائی

اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی

ساحل سے ٹکرانے کے لیے تندی و تیزی درکار ہوتی ہے ۔ جو موج پوری طاقت سے نہ اٹھے وہ بھلا ساحل سے کیونکر ٹکرا پائے گی ؟

اے بادِ بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی ' سرمستی و رعنائی
آمین

سمیرا امام
 
Top