ایک کہانی (شیخ یہودی دویم ) - قسط 16

سید رافع

محفلین
شیخ یہودی دویم - سو لفظوں کی کہانی

لڑکے کو اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا کہ چومسکی مذہب کے خلاف نہیں۔
لیکن دنیا کے موجودہ معاملات کو سلجھانے میں چومسکی نہ ہی معبود کو ضروری سمجھتا ہے اور ظاہر ہے نہ ہی الہامی کتاب کو۔
وہ بنیادی انسانی معاملات کو حل کرنے کے لیے دنیا کو عظیم تجربوں کی طرف دکھیلنا چاہتا ہے چاہے اسکے لیے کتنا ہی ظلم برپا ہوجائے۔
شاید چومسکی کا یہودی پس منظر اسے علماء سے بدظن کیے جا رہا تھا جن کو وہ اچھی طرح جانتا تھا ۔
یہودی علماء معمولی قیمت کے عوض کلام اللہ تبدیل کرتے۔
وہ جانتا تھا کہ وہ سبت کا قانون بزور مکرتبدیل کر کے ہفتے کے دن بھی مچھلیوں کا شکار کرنے لگے اور پھر بندر و سور تک بنا دیے گئے۔
اس کو یہودی علماء کی بددیانتی اس بات پر مجبور کر رہی تھی کہ وہ یکسر ہر مذہب کے علماء کو بددیانت سمجھے اور معبود کو تسلیم کرنے کے بجائے تجربگاہ کی کشتی میں بیٹھ جائے۔

لڑکا چومسکی کو لکھتا ہے کیا ہم الہامی کتابوں کے ماہرین کو معبود کے متعلق عادلانہ جوابات دینے دے سکتے ہیں؟ کیا ہم ایسے طریقہ کار بنا سکتے ہیں جس سے پتہ چلے کہ ایک ماہر نے الہامی کتاب کے متعلق عادلانہ بیان دیا کہ نہیں؟ اگر یہ ممکن نہیں تو مختلف معبودوں کے ماننے والوں کے درمیان کیا امن ناممکنات میں سے ہے؟ کیا اس سے ہم یہ سمجھیں کہ ہمیشہ ہی عادلانہ جواب کی غیر موجودگی رہے گی سو مذید جنگیں؟ ہم جنگ پھر کیسے کم کر سکتے ہیں؟ کیا معبود کو تسلیم کرنےکا کوئ بھی اثر انسانی زندگی پر ہےاور اسوجہ سے جنگوں پر؟

چومسکی پھر فلسفی کی مشکلات کو لکھتا ہے جو معبود سے بالاتر سوچتا ہے۔

وہ لکھتا ہے ماہرین اپنے ایمان کے مطابق اور اپنے معبود اور معبود کی صفات کو سامنے رکھتے ہوئےجواب دیں گے۔دلائل سخت مشکل لیکن علمی سطح پر بہت بلند ہوں گے لیکن ان کا کوئ وزن نہ ہو گا کیونکہ سب کے سب مفروضے فرض کردہ ہوں گے۔ہم کویہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ انسان جنگ اور دیگر خوفناک چیزوں پر قابو پانے کا اہل نہیں۔وہ ضرور ہیں اور گزری ہو صدیوں کبھی کبھی آگے بڑھنے کے اقدامات اپیل ایک یا دوسرے معبود کے ماننے والوں کے لیے قابل تعریف ہوتی ہے ، لیکن اس حد تک کہ اقدامات واقعی مناسب ہیں، لیکن اس کی توثیق کسی اور چیزسے ہوتی ہے۔

چومسکی نے واضح کر دیا تھا کہ بین المذاہب امن کا راستہ کتا ب سے باہر ہے۔ ظاہر ہے وہ معاہدوں کی بات کر رہا تھا جومختلف کتابوں کے ماننے والے اپنے اپنے ایمان کے تحت کریں گے۔ اس حد تک وہ صحیح تھا۔

وہ لکھتا ہے کہ ہم یہ اپنے اپنے خطوط میں بھی دیکھ سکتے ہیں. ہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جنگ ختم کرنے کے لئے مضبوط اقدامات کئے جائیں، لیکن اسکی بنیاد ایک معبود نہ ہو گی۔ آپ کے لئے یہ ممکن ہو، میرے لئے نہیں۔

لڑکا لکھتا ہے۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں جو کہ ماہرین کتاب کے خیال میں آپ نے کہا ہے۔ اگرچہ آپ کو نہیں لگتا کہ عوام کو سکھانے کے لئے یہ مباحثہ ایک اچھا سرمایہ کاری ہو گی ؟ کہ کیا عادلانہ ہے اور کیا نہیں؟ یہ شعور کم جنگ کا نتیجہ لا سکتا ہے۔

یہ کیوں غلط ہوا کہ ایک فرض کردہ معبود میں ہی اپنے اقدامات کی دلیل تلاش نہ کی جائے؟ مثال کے طور پر اگر ایک الہامی کتاب یوں کہے کہ ایک قدم آگے بڑھو جب تک کہ فساد ختم نہ ہو اورکوئ معاہدہ سامنے نہ آجائے؟ کیا یہ محفوظ راستہ نہیں؟ کیا اگر وہی معبود یہ کہے کہ دولت چند لوگوں تک محدود نہ رہے اور سود غیر قانونی ہوتو اس پر اقدامات کرنا محفوظ نہ ہو گا؟

اسی طرح اگر ہم یہ نہیں بتا پا رہے کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا تو کیا یہ محفوظ راستہ نہ ہو گا کہ ہم معبود منتخب کر لیں اور اتنے عظیم تجربوں کو ختم کر یں جس میں کثیر سرمایہ لگ رہا ہے اور وہ ہماری نوع انسانی کے ضرورت زدہ علاقوں جیسے ایشا اور افریقہ میں استعمال ہو؟

چومسکی معبود کی ضرورت کو مسترد کرتے ہوئے لکھتا ہے اگر ایک دفعہ ہم اپنی منزل اور قابل احترام چیزوں کو طے کر لیں تو ہم ایک معبود منتخب کر سکتے ہیں جس کے یہاں وہ سب صحیح اور عادلانہ ہو۔ لیکن پھر مجھے معبود کی کوئ معقول ضرورت سمجھ نہیں آتی۔ مجھے اس بات پر قطعا اعتراض نہیں کہ آپ ایک یا دوسرا معبود منتخب کریں۔ لیکن مجھے اس سے کوئ مدد پہنچتی دکھائ ہی نہیں دیتی کہ جن مسائل کو آپ سامنے لا رہے ہیں۔

لڑکا اختتامی ای میل لکھتے ہوئے کہتا ہےمجھے لگتا ہے کہ یوں اسطرح گفتگو میں بہت سی باتوں کی وضاحت چاہیے جو دوبدو گفتگو میں اچھی طرح ممکن ہے۔لیکن ایک بات کہوں گا کہ میرا معبود میرے لیے منزل اور قابل احترام چیزوں کو طے کرتا ہے نہ کہ اسکے برعکس جیسا کہ آپ نے کہا۔مجھے ابتدا ء سے علم تھا کہ آپکو ایک یا دوسرا معبود منتخب کرنے پر کوئ اعتراض نہیں لیکن آپکے معبود کو نہ تسلیم کر کے کوئ بھی کوئ جواب نہیں۔ اگر ہم معبود تسلیم نہ کریں تو ایسا سادہ سوال کہ سادگی اور درگزر کی زندگی گزارنا کیوں مشکل ہے ایک لاینحل سوال بن جاتا ہے۔ اور ابھی تو میں نے اس سے سخت سوال سامنے نہیں رکھے کہ کس نے کائنات کو بنایا، کس نے مرد و عورت کو بنایا اور انکا مقصد حیات کیا ہے؟ سو میں اس بات چیت کو سمیٹتے ہوئے یہ کہوں گا کہ میرے پاس میرے منتخب کیے ہوئے معبود کے ذریعے تمام سوالوں کے تسلی بخش جوابات ہیں۔ میں آپ کا تہہ دل سے اپنے قیمتی وقت میں سے مجھے دینے کا مشکور ہوں۔

چومسکی لکھتا ہے واقعی ای میل پر یہ کچھ اچانک سا ہے خصوصا میرے لیے کہ میں اس دلچسپ بات چیت کو مذید آگے بڑھاوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہمیں کسی دن مل بیٹھنے کا موقع ملے گا کہ ہم بات کریں۔

منظر تبدیل ہوتا ہے لڑ کے کی دلہن شل ہو کر میکے اور لڑکا شیخ اول پرانی سبزی منڈی کی طرف والدین کے رضا مندی نہ ہونے کے باوجود جاتا ہے۔

- میاں ظہوری
 
Top