ایک کہانی (شیخ یہودی دویم ) - قسط 15

سید رافع

محفلین
شیخ یہودی دویم - سو لفظوں کی کہانی


چومسکی لڑکے سے بات چیت میں دلچسپی لے رہا تھا جسکا اظہار اس نے گفتگو کے اختتام پر کیا بھی۔

لڑکا بات کو آگے بڑھاتے ہوئے چومسکی کو لکھتا ہے۔

جبکہ عظیم ترین کاروبار ی تجربات اپنی پوری قوت سے جاری ہیں جن میں ایجائل سے لے کر ہر جگہ اور ہر وقت کے تجربات بھی شامل ہیں بل گیٹس نے اپنے تیس سالہ کاروباری تجربات یہ سیکھا کہ پندرہ سینٹ کی میزل ویکسین انسانیت کے لیے ٹیکنالوجی کے تجربات سے زیادہ اہم ہے۔ وہ گیٹس فاونڈیشن کی ویب سائٹ پر لکھتا ہےہر روز ایک ہزار بچے پندرہ سینٹ کی میزل ویکسین نہ ملنے کے باعث مر رہے ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ 3 ارب لوگ دو ڈالر روزآنہ سے کم پر زندگی گزار رہے ہیں۔

جبکہ عظیم ترین کمر توڑ تکلیف دہ تجربات انسانی پیدایش و منزل تجارت اور کاروبار میں ابھی چل ہی رہے ہیں ہمارے لیے ضروری ہو گا کہ ہم سیاست میں بھی تجربات کریں تاکہ تماتر تجربات کے لیے دولت اور لوگ میسر آیئں۔ مثلا ہمیں جواب دینا ہو گاکہ کیا عام افراد قانون سازی میں حصہ لے سکتے ہیں یا یہ امیر لوگوں کا حق ہے؟ کیا سیاست قوم کے لیے کی جائے یا کہ انسانیت کے لیے؟ کیا لیڈر ایک قوم کا ہو یا کہ انسانیت کا؟

ہمیں میڈیا میں خبر پہنچانے پر بھی تجربات کرنے ہوں گے کہ کیااسکا مطلب صحیح خبر پہنچانا ہے یا انسانوں کی پروپیگنڈے کے ذریعے ذہن سازی کر نا ہے؟

سیاسی تجربات ہی کی ایک شاخ انسانی حقوق ہیں۔ ہمیں جواب دینا ہو گا کہ فرد کے کیا حقوق ہیں اور معاشرے کے کیا حقوق ہیں؟ کیا ہم جنس شادی فرد کا حق ہے یا سوسائٹی کا؟ کیا حمل ضایع کرنا انفرادی حق ہے؟جمہوریت کے تجربے کو جاری رکھنے کے لیے قانون سازی کے تجربات بھی کرنا پڑیں گے تاکہ فرد اور معاشرے کے حقوق کے درمیان ایک لطیف توازن تلاش کر لیا جائے۔مثلا کیا شادی سے قبل سیکس اور شادی سے باہر سیکس جرم ہیں؟ کیاشراب پی کر گاڑی چلانا جرم ہے یا شراب پینا ہی جرم ہے؟ ان تمام تجربات کے نتائج جانچنے کے لیے ادارے بنانے پڑیں گے جو نئے تجربات کی نشاندہی کریں اور نتائج کی روشنی میں موجودہ قوانین کو منظور و مسترد کریں۔

اسکے برعکس اگر ہم الہامی کتاب سے شروع کریں تو بنے بنائے قوانین ہمیں میسر ہوں گے اور ہمیں عظیم تجربات نہیں کرنا پڑیں گیں اوردنیاوی سرمایہ اس جگہ استعمال ہو گا جہاں ضرورت ہے۔

میں آپ سےتفصیلی ہونے پر اور آپ کا قیمتی وقت لینے پر معذرت خواہ ہوں۔



چومسکی جواب میں لکھتا ہے میں آپ نے جو کہا میں اس کے بڑے حصے سے متفق ہوں۔ لیکن ایک حذف کروں گا۔ الہامی کتاب سے بالکل یہی مسائل ابھریں گے ،ایک مذیڈ کے ساتھ۔ ہمیں اپنے منتخب شدہ معبودپر ایمان کو حق بجانب ثابت کرنا ہوگا اور اپنے معبود کو اسکی چنی گی صفات کے ساتھ حق بجانب ثابت کرنے کی جستجو کرنا پڑے گی۔



لڑکا اپنی پچھلی بات کی مذید وضاحت کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میری معذرت قبول کریں کہ انگلش میری مادری زبان نہیں۔ ایک الہامی کتاب کے ساتھ ہمیں یکساں مسائل کا سامنا نہ ہو گا کہ ہمارے پاس بنے بنائے قوانین موجود ہوں گے اور کوئ عظیم تجربات کی چنداں ضرورت نہ ہوگی۔مثلاایک معبود کو تسلیم کر لینے بعد ہمیں معلوم ہو گا کہ ہم کہاں سے آئے اور کہاں جا رہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہو گا کہ بلاسودی کاروبار ہی صحیح تجارتی ماڈل ہے۔ اسی طرح کم شرح منافع اس بات کے احساس کے ساتھ کہ کاروبار کا اصل مقصد انسانی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے نہ کہ منافع کمانا۔ معبود کو تسلیم کرنے سے عظیم تجربات ضرور بالضرور رک جایئں گے۔ جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ اگر ہم کوئی بھی معبود منتخب کر لیں اس کو حق بجانب کیسے ثابت کریں گے؟ سو اسکے لیے ایمان لانے والےاپنے اپنے صحیفوں کی طرف لوٹیں گے اورصحیفوں کے علماء آپس میں بات چیت کر کے ایک صفحے پر آجایئں گے۔ علماء صحفاء آسان الفاظ میں عام انسانوں کو بتا دیں گے کہ انکے حق بجانب ہونے کی کیا دلیل ہے کہ جن صفات کے ساتھ انہوں نے معبود کو مانا۔ کیونکہ یہ کام تحقیق طلب اور قابل تعین ہے سو یہ ممکن ہے کہ اس میں کثیر سرمایہ نہ لگے ۔ چومسکی جواب میں لکھتا ہے کہ اگر ہم ایسا معبود منتخب کریں جو حق بجانب جواب دیتا ہو تو سوالوں کے جواب عادلانہ دیے جائیں گے۔لیکن ایسا تو ہم بنا کسی معبود کو منتخب کیے بغیر بھی کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ معبود منتخب کرنے سے انکی زندگیاں بہتر ہوں گی، انکے خیالات بہتر ہوں گے، ان کے جذبات بہتر ہوں گے۔ بہت خوب۔لیکن میں دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں قابل گفتگو کچھ ہے ہی نہیں۔



منظر تبدیل ہوتا ہے لڑ کا گفتگو کو سمیٹتے ہوئے علماء اور جنگوں پر کچھ مذید کلام کرتاہے۔

- میاں ظہوری
 
Top