ایک کہانی (شیخ سفاری پارک) - قسط 27

سید رافع

محفلین
شیخ سفاری پارک- ایک کہانی


لڑکا سفاری پارک سے کچھ پہلے ایک مدرسے کے گیٹ کے اندر داخل ہوتا ہے۔

ایک مٹی اور پتھر کے میدان کے دائیں سمت کچھ کمرے تھے۔

لڑکے کے قدم زمین میں ابھرے چکنے پتھروں اور مٹی کو روندتے ہوئے استقبالیہ کے کمرے کی طرف بڑھتے ہیں۔

لڑکے کے ہاتھ میں ایک دستاویز تھی جو اس قبل وہ کئی شیوخ کو دکھا چکا ہوتا ہے۔

شیخ سید نظیر حسین کی کوششوں کے سلسلے سے تھے ۔

سید نظیر حسین قریبا ڈیڑھ سو برس قبل شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبد العزیز اور سید احمد بریلوی سے متاثر ہوئے۔

سید نظیر حسین اشرف شیعہ تھے اور جناب امام حسن کی اولاد میں سے تھے اور مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کے کام کو لے کر آگے بڑھے۔

تاج برطانیہ ناقابل تسخیر بنا جا رہا تھا۔

سورج سلطنت برطانیہ میں کبھی غروب نہ ہوتا تھا۔

مسلمانوں کے تمام مراکز یک بعد دیگرے تاج برطانیہ کے زیر نگین ہوتے جا رہے تھے۔

ساری اسلامی دنیا میں صوفیوں کا غلبہ تھا جو قرون اولی کے جہاد سے ناواقف تھے لیکن ٹمٹماتے روحانی نور سے روحوں کو سیراب کرنے میں مشغول تھے۔

عرب شریف میں سے مدھم نور سے رخ مڑا تو وہابی تحریک وجود میں آئی۔

مصر میں اس کمزور پڑتے نور کی مجلس سے کوئی اٹھا تو سلفی تحریک مصر میں برپا ہوئی۔

اور ہند میں صوفیوں کے طریقوں سے صرف نظر کیا تو سید نظیر حسین کی اہل حدیث کی تحریک شروع ہو گئی۔

دنیا میں اٹھتی ہوئی ان تحریکوں کا مقصد ہر پر تکلف اور بوجھل طریقے کو خیر باد کہہ کر تلوار ہاتھ میں اٹھانا تھا۔

زمانہ قیامت کی چال چل گیاتھا۔

دینا کی آبادی جو دو سو برس قبل محض ایک ارب تھی سات ارب جا پہنچی۔

لگتا تھا کہ اسلامی دنیا کے روحانی مراکز دجال سے مقابلے کے لیے تلوار ہاتھ میں اٹھانے کے لیے تیار ہورہے تھے۔

لیکن ابھی تلوار اور نور ایک ہو رہےتھے۔

سید نظیر حسین کے شاگردوں میں امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا قاسم نانوتوی بانی دیوبند اور رشید احمد گنگھوی شامل ہیں۔

لڑکا شیخ کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک رفیق کھجوریں اور پانی لڑکے کو پیش کرتے ہیں۔

شیخ بھی سید نظیر حسین کی طرح صوفی طور طریقوں، مذہب اربعا سے دور اور تلوار سے نزدیک تھے۔

شیخ کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور اپنی کرسی پر تشریف رکھتے ہیں جو ایک پرنسپل کو دی جانے والی میز کے پیچھے تھی۔

میز پر ایک شیشہ تھا جس کے نیچے دسیوں کارڈ تھے۔

کمرہ ایک اجڑا دیار تھا۔ چیزیں ضرورت کے تحت جہاں جس جگہ سمجھ آئیں رکھ دی گئیں تھیں۔

شیخ مسکراتے ہوئے لڑکے سے مصافحہ کرتے ہیں۔

لڑکا اپنا تعارف کراتا ہے اور رفع رنجش کی دستاویز شیخ کو پیش کرتا ہے۔

لڑکا دستاویز کا تعارف کراتا ہے اور صوفی طریقوں میں سے ایک طریقہ بعد از جمعہ درود و سلام کا تذکرہ کرتا ہے۔

شیخ اس کو مردود گردانتے ہیں۔

شیخ قرن اول کے علاوہ عبادت کے ہر طور طریقے سے سخت بے زار و خائف تھے ۔

بات چیت سے اندازہ ہوا کہ بخاری و مسلم شریف سے انکوبے حد عقیدت تھی اور مذہب اربعا کی تحقیقات کو وہ قابل قبول نہ جانتے تھے۔

وہ آزادی کے ساتھ مذہب کی تشریح بذریعہ احادیث کرنا چاہتے تھے۔

لڑکے کی دستاویز کے اولین مخاظب حنفی علماء تھے سو یہ ملاقات محض ایک اور نقطہ نظر جاننے کے لیے تھا۔

لڑکا شیخ سے اجازت لیتا ہے اور ایک چھوٹے سے برآمدے سے گزر کر پھر وہ اسی مٹی اور پتھروں کی میدان میں جا پہنچتا ہے۔

لڑکے کو ہر ملاقات سے پہلے کثیر درود اور تسبیحات پڑھنی پڑتیں اور ہر شیخ سے کئی کئی دفعہ ملاقات کرنی پڑتیں۔

اب لڑکا شیخ بنوری ٹاون دویم سے ملاقات کا ارادہ کرتا ہے۔ وہ ایک نفیس انسان تھے۔بعد کے سالوں میں انکو طارق روڈ فلائی اوور پر قتل کیا جاتا ہے۔

منظر تبدیل ہوتا لڑکا ایک صبح شیخ بنوری ٹاون دویم کے سامنے حاضر ہوتا ہے۔

میاں ظہوری-
 
Top