ایک کہانی (شیخ تبلیغ ) - قسط 13

سید رافع

محفلین
شیخ تبلیغ - سو لفظوں کی کہانی
شام کی ڈھلتی دھوپ میں عصر کی جماعت بائیں جانب سلام پھیرتی ہے۔
جماعت کی پہلی صف سے ایک نوجوان کھڑے ہو کربا آواز بلنددا ئیں بائیں گردن گھماتے ہوے اعلان کرتا ہے۔
دعا کے بعد دین کی محنت پر بات ہو گی آپ سب شریک ہو کر ثواب دارین حاصل کریں۔
لڑکا مسجد کے صحن میں دعا کے بعد دیگر لوگوں کے ساتھ ایک دائرہ بنا کر بیٹھ جاتا ہے۔
مسجد کے حسن کو اسکی خوبصورت تعمیر چار چاند لگا رہی تھی۔
ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام کہ برا ہے وہ پیسہ جو مٹی اور گارے پر لگے اور ایک یہ مسجد!
یہ شاہ فیصل سعودیہ کے عطیے سے بنی تھی۔
راج برطانیہ کے اگلے دستوں کو اپنا پیغام ساری دنیا تک پہچانا تھا۔
مسجد نبوی کھجور کے تنوں کے ستنوں پر تعمیر ایک چوکور کمرہ جس میں بلال حبشیؓ کی اذانیں ایمانوں کو گرماتیں۔
سلطنت عثمانیہ اپنے بوجھل اور باتکلف دین کے باعث گر چکی تھی۔
دنیا بھر میں یہ خوبصورت مساجد عجیب و غریب پیغام نشر کر رہیں تھیں۔
ان کا مقصد ہدایت نہ تھا بلکہ ذہن سازی تھا۔
ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں سے اپنے حصے کے کارندے جمع کرنا۔
یہ دل کے لیے نہیں دماغ کے لیے بنی تھیں۔
یہ برین واشنگ اور پروپگینڈے کی میکانیات کو سامنے رکھ کر بنای گئیں تھیں۔
ایک پیغام کو اتنی زیادہ اور کثرت سے نشر کرو کہ دماغ مفلوج ہو کر رہ جاے۔
پھر اس مفلوج دماغ سے جو چاہو کرا لو۔
لیکن ابتدا ء میں یہ سب یوں نہ تھا۔
ہزار سال میں اسلام میں اسقدر کمزوری آی کہ بادشاہ جہانگیر کے والد اکبر نے دین اکبری پھیلانا شروع کیا۔
مجدد الف ثانی نے ایک طویل قید و جدوجہد کے بعد بادشاہ جہانگیر کو سجدہ تعظیمی اور دیگر بے جاء باتیں نہ کرنے پر آمادہ کیا۔
جہانگیر کی کئی بیویاں شیعہ اور ہندو تھیں۔ نور جہاں ان میں اسے ایک شیعہ بیوی تھی۔
یہ اپنی لڑکی دینا بھی اپنا مذہب پھیلانے کا ایک طریقہ ہے۔
لیکن بے جاء باتیں اسقدر تھیں کہ مکتوبات میں مجدد الف ثانی کو بے جاء باتوں کا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہر سو دکھای دے رہا تھا۔
مذید تین سو سال گزرے تو کمزور ی اور بڑھی یہاں تک کہ سلطنت عثمانیہ تک گر گئی۔
لوگ اب دین و ادب سیکھنے خانقاہوں میں نہیں آتےسو خانقاہوں کو لوگوں تک جانا پڑا۔
راج برطانیہ میں ہر کاشتکار، دیہاتی، اجڈ، گنوار، نان بای، پنساری، دھوبی اور بدو کو کلمہ اور چند سورتیں سکھانا مقصود تھا کہ نماز تو پڑھیں۔
اس تبلیغ کے بانی مولانا الیاس پر تبلیغ کا اسقدر غلبہ تھا کہ ایک کاشتکار کو پیغام پہنچایا اس نے ایک طماچہ دیا۔
انہوں نے کہا کہ بے شک طماچہ مار لو لیکن میری بات سن لو۔
ان پر یہ کیفیت گویا پیاس و بھوک کی طرح ہو کر رہ گئی تھی۔
مسجد کے اطراف میں ہرے بھرے پیڑ جس پر چڑیاں شام ہونے کی وجہ سے دن بھر کی خبریں ایک دوسرے کو سنا رہیں تھیں۔
دوسری طرف ایک وسیع میدان جس میں کھیلوں کے شوقین اس حلقے سے بے فکر اپنے آپ کو تھکا رہے تھے۔
شیخ نے ایک مخصوص کتاب سے درس دیا۔
پھر اجتماع کا وعدہ انشااللہ کہلوا کر لیا گیا اور ارادے کاپی میں لکھ لیے گئے۔
لڑکے نے بھی بوجہ اصرار شیخ اجتماع کا ارادہ لکھوایا اور یوں تشکیل مکمل ہوئی۔
پھر محلے کا گشت ہوا۔
کچھ دنوں بعد ایک صبح صابن نما سوزکی گاڑی میں لڑکا بمعہ آٹھ لوگوں کے اورنگی کی اجتماع گاہ کی طرف راونہ ہوئے۔
اجتماع گاہ پہنچنے پر ظہر کا وقت تھا۔ شیخ ایک نوجوان تھے۔ انہوں نے ہماری مسجد کا ٹینٹ جلد ڈھونڈ نکالا۔
شیخ پنساری کی دکان چلاتے تھے۔ ان کو ہاں کہلانے کا ہر حربہ آتا تھا۔
ہر طرف ہزاروں ٹینٹ تھے۔ ایک طرف خواص کا ٹینٹ تھا جس میں مال دار لوگ سہولیات کے ساتھ تھے۔
وضو کے لیےآدھے پایپ کا ٹ کر ایک کئی سو میٹر کی درجنوں نہریں سی بنا لی گئیں تھیں ۔
ہزاروں لوگ وضو کر رہے تھے۔
ایک طرف عارضی بیت الخلاء کی ایک طویل لاین تھی۔
دوسری طرف کئی منزلہ کوکا کولا اور سیون اپ کی کریٹ تھے۔
درجنوں کھانے پینے کی عارضی دکانیں تھیں جہاں پانچ روپے میں دال روٹی مل جاتی۔
لڑکے کے وضو شدہ گیلے پاوں میں میدان کی ریت چپکے جارہی تھی ۔
لڑکے نے اپنے ٹینٹ پر آکر چپل اتاری تو وہ ساری ریت پاوں سے چٹائی پر آ گئی۔
دیگر ساتھیوں کی ریت اور اردگرد اڑتی دھول نے چہرہ کپڑے سب گرد آلودہ کر دیے تھے۔
جب لڑکے نے سنتوں کے سجدے میں سر چٹائی پر رکھا تو پیشانی مٹی کے موٹے اور باریک ذرات سے بھر گئی۔
اب فرض کا اعلان ہوا تو لوگ آگے پڑھنا شروع ہوے۔
لڑکا اپنے ٹینٹ سے کئی سو میٹر آگے جا چکا تھا لیکن صف نہ بنتی تھی کہ اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی۔
صف میں دائیں بائیں آگے پیچھے ہر طرف جگہ تھی۔
لڑکا نماز کی نیت باندھ لیتا ہے۔
نماز کے بعد کھانا ہوتا اور پھر درس۔ یوں آدھی درجن دروس کے بعد رات ہو گئی۔
دور کسی مسجد سے پوری رات درود و سلام پڑھنے کی آوازیں آ تی رہیں۔
وہیں چٹائی پر نیم جاگے نیم سوئے تھے کہ اذان فجر ہوِئی۔ بعد از نماز ناشتہ اور پھر ذہن سازی کا سلسلہ شروع ہوا۔
لڑکے کے سارے جسم میں عجیب قسم کا درد ہو رہا تھا۔
لڑکے نے شیخ سے ظہر کے بعد واپسی کا ارادہ ظاہر کیا۔
لیکن شیخ سے ہاں کہلوانا نا ممکنات میں سے تھا۔
درس ہوتے رہے یوں ظہر کے فرض ختم ہوئے۔
لڑکے نے شیخ سے پوچھا تو انہوں نے ڈیل بریک کرنے کے لیے کہا کہ کل چلے جائیں، پھر عصر تک اصرار ہوا، پھر ظہر کی بقیہ سنتوں تک لیکن یہ ذہن سازی لڑکے کے لیے سخت اذیت کا باعث تھی۔
سو لڑکا شیخ سے بعد از سلام اپنے گھر کی ویگن میں بیٹھتا ہے۔
رفتہ رفتہ ویگن اجتماع گاہ کو پشت دکھاتی اور اس شاہراہ کی بھیڑ کو پیچھے چھوڑ کر تیز رفتاری سے اپنی منزل کی طرف رواں ہو جاتی ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکا شیخ یہودی دوم نوم چومسکی سے بات چیت کرتا ہے۔
- میاں ظہوری
 
Top