ایک کہانی (شیخ بنوری ٹاون سویم) - قسط 29

سید رافع

محفلین
شیخ بنوری ٹاون سویم- ایک کہانی


اکیسویں صدی کی دوسری دہائی شروع ہو چکی تھی۔

ایک دن سورج عین نصف النہار سے گزر چکا ہوتا ہے۔

لڑکا بنوری ٹاون کی ایک مسجد ڈاکٹر صاحب سے ملنے کے لیے پہنچتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب ایبٹ آباد سے کراچی تعلیم کے لیے آئے، پھر مدینہ یورنیورسٹی سے چار سال دینی علوم حاصل کیے اور بالآخر الازہر سے ڈاکٹریٹ کیا۔

مدینہ یورنیورسٹی میں مذہب اربعاء ایسے ہی پڑھائے جاتے ہیں جیسے ہماری سرکاری اسکولوں میں انگریزی۔

مدینہ یورنیورسٹی میں تعلیم کا اصل مقصد کتب حدیث سے مذہب برآمد کرنا ہے نہ کہ ائمہ اربعا سے۔

ڈاکٹر صاحب اسی کمرے میں ایک خصوصی نشست رکھتے تھے جہاں آج سے قریبا 8 برس قبل لڑکا شیخ اول بنوری ٹاون سے ملا تھا۔

لڑکا بلا کسی دستاویز کے ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں داخل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کسی سے محو گفتگو ہوتے ہیں۔

اب لڑکے کا نمبر آتا ہے۔

لڑکا اپنا مدعا عرض کرتا ہے کہ حنفی علماء سے اسکی ملاقات ہوئی جس میں لڑکا چاہتا ہے کہ وہ حنفی مسلک کی ایک تشریح اور ایک قائد منتخب کر لیں۔

اسی سلسلے میں وہ آپ کے پاس حاضر ہوا ہے۔

شیخ مناسب الفاظ میں لڑکے کو ٹالتے ہیں۔

لڑکا اصرار کرتا ہے۔

شیخ تبلیغی جماعت کے تعارف پر مبنی ایک کتابچہ لڑکے کو دیتے ہیں کہ آپ اس سے منسلک ہو جائیں۔

لڑکے کا اصرار بڑھتا ہے۔

لڑکا کہتا ہے کہ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حریص علیکم یعنی ہم سب کی بھلائی اور خیر خواہی میں سب سے زیادہ حریص نہ تھے۔

اب ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے لیے وہیں کے ایک استاذ تشریف لاچکے تھے۔ وہ لنگی اور کرتے میں تھے۔

وہ لڑکے کی گفتگو سن رہے ہوتے ہیں۔

یکایک کہتے ہیں کہ شیطان بھی تو ہوتا ہے۔

مطلب انکا یہ تھا کہ لڑکا جو یہ اصرار کر رہا ہے وہ بجا ہے لیکن شیطان لوگوں کو ایک حنفی قائد پر متفق ہونے سے روک رہا ہے۔

لڑکا شیخ دستگیر 15 کا تذکرہ کرتا ہے کہ انہوں نے شیخ گارڈن سے ملنے کو کہا تھا کہ وہ انکے بڑے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب یہ سن کر کہتے ہیں کہ آپ شیخ شاہ فیصل کالونی سے ملیں کہ وہ ہمارے بڑے ہیں۔

دوپہر کا ابتدائی وقت گزر چکا ہوتا ہے۔

لڑکا ڈاکٹر صاحب سے رخصتی کا سلام کر کے اپنی گاڑی کی جانب روانہ ہوتا ہے۔



منظر تبدیل ہوتا لڑکا ایک صبح شیخ شاہ فیصل کالونی کے سامنے حاضر ہوتا ہے۔

میاں ظہوری-
 
Top