ایک کہانی (شیخ اول پرانی سبزی منڈی) - قسط 17

سید رافع

محفلین
شیخ اول پرانی سبزی منڈی - سو لفظوں کی کہانی

رات کا آٹھ بج رہا تھا۔
لڑکا ایک چھوٹے بیگ میں دو جوڑی کپڑے ٹوتھ پیسٹ برش اور دو چادریں رکھتا ہے۔
رکشا لے کر وہ پرانی سبزی منڈی کی ایک مسجد پہنچتا ہے۔
یہ مسجدایک تاریخ رکھتی ہے۔
سات سو برس قبل عراق سے بے شمار نیک و صالح بزرگ ہند تشریف لائے۔
بغداد میں عباسی خلیفہ کو چنگیز خان کے سپاہیوں نے قالین میں لپیٹا اور گھوڑوں سے روند ڈالا۔
یوں عظیم اسلامی خلافت و حکومت کا خاتمہ ہوا۔
اسلام ایک نور ہے ۔
یہ سینوں میں اترنے کے لیے اپنا ظاہر حدود میں رہ کر تبدیل کر لیتا ہے۔
ہند آنے والے نیک اور صالح بزرگوں نے دیکھا کہ یہاں کے لوگ جب مندر جاتے ہیں توپرپرساد کا کھانا ملتا ہے۔
سو ان صالحین نے مسجد میں آنے والوں کو کھانا کھلایا اور اسکا نام لنگر پڑا۔
لوگ اس سے خوش ہوتے اور اسلام سے جڑتے جاتے۔
مندر میں بھجن گایا جاتا۔
سو ان بزرگوں نے قرآن و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف پر مبنی قوالیاں اور نعتیں ترتیب دیں۔
لوگ اس سے خوش ہوتے اور اسلام سے جڑتے جاتے۔
مندر کے سادھو اور پنڈت گہرے رنگوں جیسے نارنجی، بیگنی اور ہرے رنگوں کے لباس پہنتے۔
سو ان صالحین نے اسلام کی ترویج کے لیے انہی رنگوں کے عمامے اور عبائے سلوا کر پہننا شروع کیے تا کہ ظاہر سے وحشت نہ ہو۔
لوگ اس سے خوش ہوتے اور اسلام سے جڑتے جاتے۔
ان صالحین نے دیکھا کہ ہندو جوگی، بابے اور پنڈت آسن لے کے کر چالیس روز دریا میں کھڑے ہوتے، کچھ کنویں میں پورا دن الٹا لٹکتے، کچھ سالوں ہمالیہ کے پہاڑوں پر گزارتے۔
یہ عملیات جوگی بابے میں ہوا میں اڑنے، پہاڑوں کو سرکانے اور مستقبل کا نقشہ بتا دینے میں مدد کرتیں۔
سو ان صالحین نے چالیس روز دریا میں کھڑے ہو کر سورہ مزمل پڑھی، کچھ عقیدت مندوں کو کنویں میں الٹا لٹکنے کو کہا اور کچھ نے بارہ سال ہمالیہ میں اپنے شیخ کے ساتھ گزارے۔
ان صالح بزرگوں کی اسلام سے یہ محبت اور جان توڑ ریاضتیں رنگ لایں ۔
ایک اندازے کے مطابق محض بزرگوار خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ کے کوششوں سے نوے لاکھ ہندوں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
یہ سب کے سب صالحین حیدر کرار جناب علی المرتضی علیہ السلام کے شجر کے خوشہ چیں تھے۔
وقت گزرا۔
اب ہندووں پنڈتوں نے ظاہر کو تبدیل کیا کہ اسلام کے اس سیل رواں کے آگے بند باندھا جائے۔
سو پنڈتوں اور بابوں نے مسلمانوں کی طرح ایک خدا کو ماننا شروع کیا۔
ان میں باباگرو نانک اولین اور اس تحریک کے بانی ہیں۔
مسلمان بارہ اماموں کو مانتے سو انہوں نے دس گرو کو مانا۔
عمامہ پہننا شروع کیا۔
زلفیں بڑھایں۔
تلوار و کرپان لباس کا حصہ بنایا۔
یہ مذہب سکھ مت کھلایا۔
مسلمان صالحین پر ایک مشکل یہ تھی تو دوسری طرف مسلمان علماء بزرگوں کی ظاہری حالت کو واپس اصل سادہ حالت میں واپس لانا چاہتے تھے۔
یہ مسجد جس میں لڑکا رات ساڑھے آٹھ بجے پہنچا تھا انہی بزرگوں کے سلسلہ جدوجہد کی ایک کڑی تھی۔
لڑکا تربیت گاہ پر بیٹھے شیخ اول سے مصافحہ کرتا ہے اور اپنے تین دن رکنے کے ارادے کو ظاہر کرتا ہے۔
شیخ مسکرا کر کہتے ہیں آپ بیگ یہاں رکھیں اور بعد از عشاء ہم بات کرتے ہیں۔
لڑکے کی نظر مسجد کے ستنوں پر لگے بورڈ ز پر پڑتی ہے۔
ایک بورڈ جو پلاسٹک کا بنا ہوا تھا اور ٹیوب لایٹ اسکے اندر روشن تھی لکھا تھا کہ ماں باپ کا نافرمان جنت میں نہ جائے گا۔
لڑکے کو دھچکا لگتا ہے کیونکہ وہ اپنے والدین کی رضا مندی کے بناء یہاں آیا تھا۔
بعد از عشاء لڑکا وہ بورڈ شیخ کو دکھاتا ہے اور واپس گھر لوٹنے کا عندیہ سناتا ہے۔
شیخ لا کھ تاویل کرتے ہیں لیکن لڑکا بعد از سلام رخصت ہوتا ہے۔
اب رکشا گھر کی جانب دھواں اڑاتے دوڑا جا رہا ہے۔
لڑکا بعد کے مہینوں میں جب اس بورڈ کو دیکھتا ہے تو وہ اتار دیا گیا ہوتا ہے۔
لڑکے کو روحانی مراکز مکر میں گھرے ہوئے اور مادی مراکز سود میں ڈوبے دکھائ دیتے ہیں۔

منظر تبدیل ہوتا ہے لڑ کا غیر سودی اشتہاری بورڈ بیت المکرم پر لگاتا ہے۔

- میاں ظہوری
 
Top