ایک چہرہ بدلنے والے کے نام۔

رشید حسرت

محفلین
یہ مانا کہ روشن ستارہ تِرا
اندھیروں جلتا ھؤا میں دیّا
تِرے چار سو زر کی جھنکار سی
مجھے نہ میسّر ھے دو وقت کی
تِری بات کا ھر کسی کو لحاظ
کرے کیوں نہ تُو اپنی قسمت پہ ناز
مِرا سچ بھی سُولی پہ لٹکا رہے
تِرے جھوٹ پر سب کو اثبات ھے
ترے پاس بیٹھیں خوشامد مزاج
ترے گُن جو گاتے ہیں اے دوست آج
مبادہ ھوں کل تجھ سے بیزار یہ
پُجاری ہیں کرسی کے سرکار یہ
تُو حلقے میں ان کے ھے بیٹھا ھؤا
تُو دانش کا داعی تھا یہ کیا ھؤا
تجھے سنگ و پارس کی پہچان تھی
ترے جسم میں تو مری جان تھی
شِکستہ سے کمرے میں جاڑے کے دن
شب و روز مستی اکھاڑے کے دن
سرِ رہ گذر بے سبب قہقہے
کہاں کھو گئے ہیں وہ سب قہقہے
وہ لُڈّو وہ فلمیں وہ شوخی وہ بھوک
کبھی یاد آئیں تو اُٹھتی ھے ہُوک
جو فُرصت ملے اپنے ماضی میں جھانک
بدن برہنہ ھے بدن اپنا ڈھانک
اگر یاد ہو تُو بھی مزدور تھا
کہ افلاس کے ہاتھوں مجبور تھا
جو بُھولا ھؤا ھے وہ سب یاد کر
مِرے دوست کو خود سے آزاد کر
اگر وقت کے ہاتھوں لاچار ھوں
تو اتنا بتا دوں کہ خود دار ھوں
تِری بات میں تُرش لہجہ ترا
بڑا بھید جیون کا مجھ پر کُھلا
غریبی امیری کا کیا جوڑ ھے
تعلق کا یہ آخری موڑ ھے
بہت دوستی کا ھے رکھا بھرم
مگر اب تو سینے میں گُھٹتا ھے دم
مجھے ناز ھے جو بھی، جیسا بھی ھوں
مگر آخری بات کہتا چلوں
الگ کل جو عہدے سے ھونا پڑے
تجھے پھر اکیلے نہ رونا پڑے
اگر اب بھی سنبھلے تو کیا بات ھے
وگرنہ تجھے وقت سے مات ھے۔

رشید حسرتؔ۔
 
Top