ایک پہلو یہ بھی ہے

قیصرانی

لائبریرین
اہم نقاط یہ ہیں۔ اصل خبر کے لئے ماخذ پر جائیے

پاکستان: سالانہ ہزاروں ’ناجائز بچوں‘ کا خفیہ قتل


پاکستان میں سالانہ ہزاروں کی تعداد میں نومولود بچوں کو ناجائز قرار دیتے ہوئے خفیہ طور پر قتل کر کے دفن کر دیا جاتا ہے۔ کوڑے کے ڈھیروں پر بچوں کی ایسی لاشیں بھی ملتی ہیں، جن کے جسم کے حصے جانور کھا چکے ہوتے ہیں۔

صوبہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کی تحصیل نوشہرہ ورکاں کے ایک میٹرنٹی ہوم میں کام کرنے والی نرس رضیہ الیاس ( نام تبدیل کر دیا گیا ہے) کہتی ہیں، ’’میں نے اب نوزائیدہ بچوں کو قتل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ان کی ماؤں کو خود انہیں مارنا چاہیے۔ کسی کے گناہوں کا بوجھ میں کیوں اٹھاؤں؟‘‘

آپ تصور کریں ایک بچہ ابھی پیدا ہی ہوا ہے۔ کسی کو بھی یہ فکر نہیں ہے کہ اسے نہلانا ہے۔ جسم پر ابھی خون کے نشانات باقی ہیں، بے ترتیب بال آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور ناف کی نالی بھی بس کاٹ کر چھوڑ دی گئی ہے۔ ماں کے سینے میں دودھ اتر چکا ہے، روتے ہوئے بچے کی چیخیں ماں کے دل کو چیرتی جا رہی ہیں۔ ان دیکھے خوف اور محبت کی وجہ سے اس کے آنکھوں کا کاجل اور آنسو دوپٹے پر گرتے ہوئے خودکشی کرتے جا رہے ہیں۔ 350 گرام کے اس بچے کو ہاتھ کی ہتھیلی میں اٹھایا جا سکتا ہے۔ ماں کے لرزتے اور کانپتے ہاتھ بچے کے نرم اور نازک گلے تک پہنچتے ہیں۔ تہذیب یافتہ دنیا میں آنے والے اس بچے کی شہہ رگ پر ہلکا سا دباؤ پڑتا ہے۔ تیس منٹ کے بعد بچے کے رونے کی سکت پہلے ہی کم ہو چکی ہے۔ شہ رگ پر انگوٹھے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، کمزور آواز بند ہوتی جا رہی ہے، بچے کا جسم نیلا ہو چکا ہے۔ تقریبا 45 منٹ پہلے اس دنیا میں آنے والا بچے کی روح پرواز کر چکی ہے۔ نرس بچے کی دل کی دھڑکن محسوس کیے بغیر اسے ایک پلاسٹک کے بیگ میں بند کرتی ہے۔ شاید ابھی یہ بچہ زندہ ہو ؟ لیکن یہ دیکھے بغیر اسے رات کی تاریکی میں کوڑے کے کسی ڈھیر میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ لڑکی کسی کا سہارا لے کر لرزتے قدموں کے ساتھ کلینک سے باہر نکل جاتی ہے۔ خطرہ ہے کہ کوئی پہچان نہ لے۔ چند گھنٹے پہلے ماں بننے والی لڑکی نے پردہ کر رکھا ہے۔ اس لڑکی کو نہ تو اونچی آواز میں رونے کی اجازت ہے اور نہ ہی یہ واقعہ کسی اور کو بتانے کی۔ آج رات پھر کسی خاندان کی عزت بچا لی گئی ہے۔ اگر آج پیدا ہونے والے بچے کو قتل نہ کیا جاتا تو شاید اس کی ماں ہی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑ جاتے۔

نرس رضیہ کہتی ہے کہ پاکستان میں ’’روزانہ ایسے سینکڑوں واقعات‘‘ رونما ہوتے ہیں۔ رضیہ فوری طور پر اس واقعے کے بارے میں بتاتی ہے، جو ابھی کچھ ہی دن پہلے ہی پیش آیا ہے، ’’لڑکی آٹھ ماہ سے حاملہ تھی۔ ہم اس کا کیس نہیں کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اس کے خاندان نے ہماری بہت منت سماجت کی، وہ ہمارے پاؤں پڑ گئے تھے۔ ہمیں مجبوراﹰ لڑکی کا آپریشن کرنا پڑا۔ انہوں نے کتنے پیسے دیے، صرف بڑی ڈاکٹر جانتی ہیں۔ ہم نے اس فیملی کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ ہم بچے کو قتل نہیں کریں گے۔ ہم نے بچے کو ان کے حوالے کر دیا۔ صرف وہ لڑکی اور اس کی ماں جانتی ہے کہ انہوں نے بچے کے ساتھ کیا کیا یا اسے کیسے قتل کیا۔‘‘

کراچی میں ایدھی فاؤنڈیشن کے مینیجر انور کاظمی کے مطابق ہر طرف المناک کہانیوں کی کثرت ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’چند واقعات میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ ایک بچے کی عمرصرف چھ دن تھی لیکن اس کو جلا کر پھینک دیا گیا تھا۔ ہمیں کوڑے کے ڈھیروں پر بچوں کی ایسی لاشیں بھی ملیں، جنہیں پھانسی دے کر قتل کیا گیا تھا اور ایسی بھی، جن کے جسم کے حصے جانور کھا چکے تھے۔ ایک واقعہ میں ساری زندگی نہیں بھول سکتا۔ ایک بچہ کسی عورت نے مسجد کے دورازے کے سامنے رکھ دیا، اسے امید ہو گی کہ کوئی اسے پال لے گا۔ لیکن امام مسجد کے کہنے پر اس بچے کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ میں نے بھی اس بچے کی لاش دیکھی، وہ کئی حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔‘‘
 

جاسمن

لائبریرین
استغفراللہ!
لیکن امام مسجد کے کہنے پر اس بچے کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ میں نے بھی اس بچے کی لاش دیکھی، وہ کئی حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔‘‘
گوبر کے ڈھیر سے رونے کی آواز پہ کی بے اولاد جوڑے نے دیکھا اور بچے کو نکال کر گود لے لیا۔
آج ہی یونیورسٹی کی کنٹین میں کام کرنے والے نے بتایا کہ یونیورسٹیاں۔۔۔۔ڈیش ۔۔۔بن گئے ہیں۔ بقول اُس کے میری امّی دائی ہے اور یونیورسٹی کی بہت لڑکیاں ۔۔۔۔۔۔۔ اُس کے پاس آتی ہیں۔اور یہ تعداد بتدریج بڑھتی جا رہی ہے۔بقول اُس کے لیپ ٹاپ دے کر حکومت نے ظلم کیا ہے۔ لڑکے لڑکیاں اِس کا استعمال اچھے مقاصد کے لئے نہیں کرتے بلکہ اِس پہ غلیظ فلمیں دیکھتے ہیں۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
ایدھی والوں نے اسی لئے باسکٹ رکھے ہوتے ہیں کہ بچوں کو قتل نہ کریں بلکہ اس میں ڈال دیں۔ حکومتی سطح پر بھی اس معاملے پر کچھ ہونا چاہیے۔
 

arifkarim

معطل
آج سے کوئی ہزار سال قبل زمانہ مسیحیت سے قبل اسکینڈینیون اقوام میں بھی یہی رواج عام تھا کہ وہ لوگ بالکل صحیح سلامت بچوں کو بھی جنگلات میں مرنے کیلئے چھوڑ آتے تھے:
http://www.arild-hauge.com/familie.htm

اسی سے اندازہ لگا لیں کہ ہمارا آبائی وطن کس قدر تاریخی اور معاشرتی زوال کا شکار ہے۔
 
Top