ایک پرشکوہ غزل میری نگاہ کوتاہ میں

فاخر

محفلین
ایک پرشکوہ غزل میری نگاہ کوتاہ میں

از: افتخاررحمانی فاخرؔ (احمد فاخرؔ ) نئی دہلی


IMG-20211024-WA0013-286x300.jpg


اکملؔ الٰہ آباد ی کے منظوم کلام کا ایک ’جزو‘میرے سامنے ہے ، یوں تو اکمل الٰہ آبادی کی مکمل شاعری دیدہ و دل کے لیے باعث آرام و تسکین اور باعثِ اطمینان ہے؛ لیکن ناچیز جس غزل کے متعلق لب کشائی کی جرأت کر رہا ہے ، وُہ ’جزو‘ اپنی مثال آپ ہے۔ اکملؔ الٰہ آبادی کا نام جہانِ شعر و سخن میں گرچہ نیا ہے، بعضے وجوہ کے باعث اُن کی شاعری اور اُن کا نام حلقہ اربابِ ذوق میں متعارف نہیں تھا،حتیٰ کہ خود راقم اِس مخفی جوہر و کمال سے ناواقف تھا؛ لیکن جدید ٹیکنالوجی انقلاب،اور گلوبل ولیج کے ’کرامات‘ کے باعث ان کی شاعری حلقہ ذوق میں متعارف ہوئی ، اور اپنی جادو بیانی ، نغز گوئی اوربرجستگی کے باعث ا حسن و اکمل مقام بھی پاگئی۔

راقم نے اپنے گزشتہ ’تبصرہ‘ میں قارئین سے عرض کیا تھا کہ ’اکمل الٰہ آبادی قدیم و جدید روایات کے امین و پاسبان ہیں، ان کی شاعری میں دونوں اقدار کی روایتیں ملتی ہیں‘، ایک طرف جہاں معاصر انہ احوال کا ذکر ہے، تووہیں قدیم طرزِ سخن ، ترکیب و استعارے حسنِ سخن میں اضافہ و کشش کا باعث ہیں۔ الٰہ آباد کی سرزمین علم و ادب اور شعر وسخن کے لیے بڑی زرخیز اور’ اُپجاؤ ‘ ہے۔کتنے اصحاب علم و ہنر کے نام لیے جائیں؟ اکبرالٰہ آبادی ،ابن صفی ، فراق گورکھپوری، برج نارائن چکبستؔ،آنند نرائن ملاؔ، نوح ناروی اور پرُنم الٰہ آبادی [متوفی لاہور] سے لے کر عتیق الٰہ آبادی ، اور اکمل الٰہ آبادی تک ایک سے بڑھ کر ایک گہر نایاب اِسی دھرتی سے اُٹھے، پوری دنیا میں اس شہر کی نمائندگی کی ، اورباعثِ ا فتخارہو گئے ۔




الغرض! بعد اِن تمہیدات کے، راقم اکمل الٰہ آبادی کے کلام کے جس ’جزو‘کو اپنے تبصرہ کے لیے ’مشق ستم ‘ بنا رہا ہے ، وہ ایک عزیز دوست کی شفایابی کے موقعہ پر کہی گئی پرُ بہار ’غزل مسلسل‘ ہے۔ عزیز دوست مختلف الصفات اور ذی استعداد ہیں ۔وہ شاعر وادیب بھی ہے، اور ایک بہترین مقرر بھی۔ بنا بریں اِس غزل میں’’ ممدوح‘‘ کے اوصاف و کمالات کا ذکرہے، چونکہ ممدوح کا رشتہ اردو زبان و ادب سے دیرینہ ہے ، اس ریختہ نوازی اور ’دیرینہ تعلقات‘ کو بھی شعری زبان میں احسن طریقہ سے بیان کیا گیا ہے ۔اس غزل میں مطلع کے ساتھ ساتھ حسن مطلع بھی ہے۔ غزل کا مطلع اور حسن مطلع یوں ہے:

ہوگیا ہے پھر مصفی خاندانِ ریختہ

مل گیا اردو زباں کو پاسبانِ ریختہ

در نیا کوئی کھلا ہے در جہانِ ریختہ

اب نشاطِ جاوداں ہے ترجمانِ ریختہ




مطلع کی زبان اورطرزِ بیان اکمل الٰہ آبادی کی فنی اکملیت کے گواہ ہیں ، جوکہ غزل کی ایک تمہیدِ قند بھی ہے ۔مطلع اور حسن مطلع کے بعد مدّعا کا بیان ہے۔ غزل میں مکمل طور پر دوست کے مبتلائے مرض اور اِس سے دوری و فراق کا ذکر ہے۔ کہیں فراق کا شکوہ ہے، تو کہیں دردِ ہجراں کی شکایت۔ جب مبتلائے مرض ہونے کی خبر ملی، تو یوں نوا سنج ہوئے:

داستانوں کا سفر دریائے اشک غم میں تھا

وہ رہا ساحل یہ بو لا بادبانِ ریختہ

پھر معاً یہ شکوہ بھی کہ:

اک تو غم تھا ہجر کا ، پھر اس پہ ڈھایا یہ ستم

فرقتوں کا ذکرِ گریہ در زبانِ ریختہ

یہ شکوہ سنجی کی کیفیت دوسرے شعر میں بھی محیط ہے۔’چشم ساقی ‘ سے ’اشک طہور‘ کا عطیہ اس کیفیت کو اور بھی بڑھا دیتی ہے ۔لیکن تشبیہ اور معانی کے استعارے اس میں روح پھونک دیتے ہیں ۔اشک طہور سے جہان ریختہ کا شبنمی ہوجانا، پرلطف ترکیب ہے۔ اس شعر سے بھی اکملؔ الٰہ آبادی کے فنی صلاحیت اور شعری ادارک و وجدان کا ظہور ہوتا ہے، کہتے ہیں:

آج کی شب چشمِ ساقی سے ملا اشکِ طہور

شبنمی سا ہوگیا ہے سب جہانِ ریختہ


دوستی ،محبت ، قربت ،لگاؤ، الفت، تعلقات کے جتنے بھی مترادفات ہیں، ان کی اصل بنیاد ایک ’حس لطیف ‘ ہے، جو فطری طور پر غیر مرئی بھی ہے، جس کی ہیئت اورشدت کو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے ،کسی میزان پر تولا نہیں جاسکتا، جیسے موسیقی اِس غیر مرئی’ حس لطیف‘ کے بغیر ہنگامہ ، شوراورسمع خراشی ہے، اِسی طرح انسانی رشتے اس غیر مرئی ’حس لطیف‘ کے بغیر قالب بے جان ہیں۔ اسی کی بڑھی ہوئی کیفیت کو اہل لغت و زبان نے ’عشق ‘ کا نام دیا ہے ، مگر میری نظر میں یہ عشق سے بلند ترشی فنائیت ہے۔ اس فنائیت میں کہیں شکوہ ہے، تو کہیں فراق و دوری کا بیان ہے۔



اِس فنائیت میں دوری یا پیش آمدہ خطراتِ ہجر کافطرتاً ذکر ہے، اس ’ہجر‘ کا اظہار یوں کیا ہے :

بے رخی تو ہجر سے بھی تلخ تر سمجھی گئی

دیکھ لے، پڑھ لے، سمجھ لے داستانِ ریختہ

یہ بھی سچ ہے کہ جس کے دم سے گلشن و باغباں شاداب ہوں ،اور آہوان و غزالاں چوکڑیاں بھرتے ہوں ،لیکن بہ سببِ خاص وہ نظروں سے اوجھل ہو، یا پھر بہ مشیتِ الٰہی کسی حوادث کا شکا ر ہوگیا ہو، توقدرتاً گلشن کی تابناکی اور اس کے طمطراق پر فرق پڑے گا۔ پھول مضمحل ہوں گے، خوشبوئیں مدھم ہوں گی اور فضا گریہ کناں ہوگی، اِس لطیف استعارے کا اس شعر میں بخوبی استعمال کیا گیا ہے، کہتے ہیں:

تو نہ تھا گلشن میں تو گلشن بیاباں ہوگیا

دیکھ کیسے سہمے سے ہیں آہوانِ ریختہ


شکووں کی طویل تمہید کے بعد اپنی حالت کا بیا ن ہے، عمومی طور اپنی حالت کا بیان سب سے آخر میں کیا جاتا ہے۔ اس جگہ یہ بتانا لازمی ہے کہ شکووں کی طوالت غایت محبت کی دلالت ہے ؛ کیوں کہ جس قدر محبت کی شدت ہوگی، اُسی قدر شکووں کی تمہید بھی طویل ہوگی، یہ آزمودہ اورمجرب ہے۔ بناء بریں تمہید طویل ہوگئی ہے۔ اپنی حالت یوں بیان کی ہے:

قلب میں آہ و فغاں تھی چشم تھی گریہ کناں

مضمحل سا ہو گیا تھا کاروانِ ریختہ

لیکن جب یہ نوید سماعت سے ٹکرائی کہ وہ ’’مُنتظَر‘‘ روبہ صحت ہوکرگلشن کی شادابی کاباعث بن رہا ہے ، تو بے ساختہ زبان سے ’مرحبا صد مرحبا‘ کے زمزمے گونجنے لگے۔ مُنتظَر کی کمیابی ضرورہے، لیکن کمیابی کے تقرب و وصال پر وفورِ شوق کے معنی کی ادائیگی و اظہار کیلئے الفاظ و تعبیرات ادھورے ہیں، کماحقہٗ اس کی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی۔
صرف ’مرحبا صد مرحبا ‘ کے ترانے ہی گائے جاسکتے ہیں۔ اس کیفیت کو مقطع میں یوں بیان کیا ہے :

اِک گل اکملؔ بھی مثل گلستاں تھا منتظر

مرحبا صد مرحبا اے باغبانِ ریختہ


اِس غزل میں جن تراکیب اور شعری خصوصیات کا استعمال کیا گیا ہے، وہ فنی معراج و اکملیت کی بین دلیل تو ہی ہیں،علاوہ ازیں وہ قارئین جو قدیم روایات اور عنصر کی کمیابی کا شکوہ کرکے نئے دور کی شاعری کا رونا روتے تھے، یہ غزل اُ ن کے لیے باعث تسکین ہے۔ اگر موضوع اپنے اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے، تو وہیں استعمال کی گئیں تراکیب چست ہیں، الفاظ تراشے ہوئے، اور معانی اِس سلیقہ سے مفہوم ہوتے ہیں کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاعری کے ذریعہ کسی پختہ مصوّر نے مصوری کارنگ بھردیا ہے۔ اور یوں بھی شاعری اور مصوّری دونوں ایک ہی شعبہ سے سر رشتہ ہیں۔

خاکم بدہن! ایسی غزلیں اردو ادب میں نایاب ہیں، فی زماننا نئے شاعروں کے یہاں اس کی خوُ بوُ بھی نہیں ملتی۔ جس طرح اکملؔ الٰہ آبادی کا یہ شعری سفر جاری ہے ، اور فنی سمندِ اقبال محوِ فتح مندی ہے، مستقبل میں اردو ادب کے لئے نہایت ہی نیک فال ثابت ہوگا،(ان شا ءاللہ ) جس کا اعتراف خود حامیانِ ریختہ کریں گے۔
○○○
 
آخری تدوین:

اکمل زیدی

محفلین
ماشاءالللہ بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا آپ نے موصوف کی شاعری کے حسنات کو شاعر کے کلام نے ان کے شاعری قد و کاٹھ کا پتہ دیا مگر آپ بھی خوب کھلے اس اظہاریے میں ماشاءاللہ متاثر کن۔۔
یہ بھی اچھا اتفاق رہا کے مضمون کے حامل توصیف کا نام بھی خاکسار کے نام پر ہے یہ الگ بات کے ہم تحریر میں اپنے نام کو نبھا نہ سکے ۔ ۔
 
Top