"ایک ٹیڑھی لکیرکی سیدھی کہانی "

محمد فہد

محفلین
ایک ٹیڑھی لکیرکی سیدھی کہانی
(اشرف اقبال)
1966- مسلم ہائی سکول میں ایک روشن دن ،ابھی ابھی اسمبلی۔ جس میں تمام سکول کے بچے شرکت کرتے تھے۔ختم ہوئی تھی۔ آج کی اسمبلی میں ہمارے ہی دوستوں نے ایک بہت دلچسپ نظم پڑھ کر سنائی تھی۔ اب تمام سیکشن ایک سیدھی لکیر میں اپنے اپنے کلاس روم میں جانے کیلئے روانہ ہو گئے تھے۔ یہ ہمارا روز کا دستور تھا۔ اور ایک سیدھی لکیرایک دم سے بنا لینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ ٹیڑھی لکیر پر چلنے کا مطلب سب کو معلوم تھا۔ہماری کلاس میں تمام بچے سوائےبلّو کےسیدھی لکیر میں چلنے کوایک عبادت کی طرح عظیم سمجھتے تھے۔ جیسے ہی سیٹی بجی سب بچے۔ صاف ستھر ی یونفارم میں ایک سیدھی لکیر میں سب اپنی اپنی کلاس کی طرف چل پڑے تھے۔ سیدھی لکیر کہیں موجود نہیں تھی۔لیکن ہمارے دما غ میں بیٹھ گئی تھی۔بلّو کو یہ سیدھی لکیر کبھی نظر نہیں آئی تھی۔شاید اسکی آنکھیں کمزور تھیں۔ماسڑ صاحب نے کئی دفعہ اسکے والد صاحب کو اسکی آنکھوں کا علاج کروانے کا مشورہ دیا تھا۔مگر بلّو کا علاج آنکھوں کے ڈاکٹر کے پا س کہاں تھا۔ اسکو تو ٹیڑھی میڑھی لکیروں پر چلنے کی۔ بلکہ کودنے کی عادت تھی ۔ استاد جی صحیح کہتےتھے ۔ اسکے دماغ کی کوئی چول ڈھیلی تھی۔
آج بہار کا بہت خوبصورت دن تھا۔ ہمارے سکول میں بہار وقت سے پہلے ہی آجاتی تھی۔اسمبلی ہال سے کلاس روم تک جاتے جاتے سینکڑوں رنگ برنگے پھول۔ جو ایک خاص ترتیب سے سجائے جاتے تھے۔ دل کو طرح طرح کی خوشبووں اور رنگوںسے منور کر دیتے تھے۔ مگربلّو ضرورکسی نہ کسی گملے سے ٹکراکر یا تو خود گر پڑتا تھا۔ یاگملا گرا دیتا تھا۔ ہم سب کلاس میں اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان ہو گئےتھے۔ اتنے میں استاد جی کلاس روم میں داخل ہوئے۔ انہوں نے کلاس روم پر ایک گہری نظر ڈالی۔ وہ دیکھنا چاہ رہے تھے کہ آج صفائی کی کیا صورت حال ہے۔ باری باری تمام بچے کلاس روم کو اسمبلی کے وقت میں صاف کیا کرتے تھے۔ جھاڑو کے بعد اگرٹاکی نہ لگائی جائے تو فرش پر وہ چمک کبھی نہیں آتی یہ سب بچوں کو معلوم تھا۔ یہ استاد جی کا روز کادستور تھا۔ آج بھی ہمارا کلاس روم ایک نئی نویلی دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ کھڑکیوں کے شیشے بھی بلیک بورڈ پہ استعمال ہونے والے چاک اور پانی سے اتنے صاف کئے گئے تھے کہ گمان ہوتا تھا کہ کھڑکی کی چوکھٹ میں شیشہ غائب ہے۔ استاد جی آج موسم کے حساب سے کا فی خوش مزاج تھے۔ کلف لگے ہوئے سفید براق کپڑے اور مرغے کی کلغی کی طرح کھڑی ہوئی پگڑی کا پلوانکی آن اور شان میں اضافہ کر رہاتھا۔ حاضری لینے کے بعد اور جن بچوں نے آج کلاس روم کو سجایا تھا۔ انکوشاباشی دینے کے بعد روز کے معمول کے مطابق کلاس شروع ہو گئی۔ سب بچے خاموشی اور انہماک ک ساتھ انکی باتیں سن رہے تھے اور کبھی کبھی کچھ اپنی رف کاپی پر نوٹ بھی کر لیتے تھے۔ مکمل خاموشی کا عالم تھا۔ پڑھائی لکھائی کا، سمجھنے سجھانے کا کیسا خوبصورت ماحول تھا۔ استاد جی بڑی سُشتہ زبان میں ایک عالمانہ تقریر کر رہے تھے۔ اور تمام بچےاپنی صاف ستھری یوینفارم پہنے۔ انکی گفتگو سے اتنے مرعوب تھے کہ کسی کو سر کھجانے کی فر صت بھی نہیں تھی۔ اچانک بلو نے غالباً کوئی سوال پوچھنے کی غرض سے اپنا ہاتھ کھڑا کیا۔ اور استاد جی کی اجازت لئے بغیر ایک ایسا الٹاسیدھا۔ ٹیرھا میڑھا سوال پوچھا کہ سیدھی لکیر میں رواں دواں ان کا لیکچر درہم برہم ہو گیا کلاس روم کا سناٹا ایکا ایکی ٹوٹ گیا۔ ایک شور برپا ہوا۔ کہ بہت خاموش طبعیت بچے جو ہمیشہ ایک سیدھی لکیر میں چلنے کے عادی تھی۔ انکے چہرے پر بھی ایک ٹیڑھی مسکراہٹ آگئی ۔استاد جی کی پگڑی کا پلو یک دم ڈھیلا ہوکر لٹک گیا۔
ایک دن استاد جی نے صبح صبح بلّو سے پوچھا کہ تُو کلاس کے شروع میں ہی کیوں ایسی حرکت کر دیتا ہے۔کہ میں تجھے مارنے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔میراباقی سارادن خراب گزرتاہے۔ اور کلاس روم کا سیدھا ماحول چکنا چور ہو جا تا ہے۔ کم از کم اپنے ان دوستوں پر ہی رحم کر جو اتنی دور سے پیدل تعلیم حاصل کرنے کیلئے آتے ہیں اور کبھی کوئی ٹیڑھا سوال نہیں پو چھتے۔ آخر تیرے دماغ میں کیا خرابی ہے جو انکے دماغ میں نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ کوئی ایک بھی سیدھی لکیر تیرے دماغ میں نہیں۔جب ہی تو تیری ساری کا پیاں الٹی سیدھی ٹیرھی میڑھی لکیروں سے بھری پڑی ہیں۔
آج خزاں کا ایک اداس دن تھا۔ صبح سے ہی سورج کی ایک کرن بھی نمودارنہیں ہوئی تھی۔ ہلکی ہلکی بارش رات سے ہو رہی تھی۔ سکول کے سٹاف روم میں آج روزمرہ کی طرح وہ چہل پہل نہیں تھی۔ سب کی زبان پر صرف ایک ہی سوال تھا۔ آج ایک نئے انسپکٹر آف سکولز ہمارے سکول کا دورہ کرنے آرہے تھے۔ شاہ جی کا اس ڈویژن میں پہلا دورہ تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کیاسوال جواب لے کر آرہے ہیں ۔ تمام اساتذہ چہ میگوئیوں میں مصروف تھے۔ آج ان کی نوکری داؤ پر لگی ہوئی تھی۔ شاہ جی کے بارے میں عجیب و غریب کہانیاں مشہور تھیں۔ وہ بہت سخت انسان تھے۔ غالباً آنکھوں سے محروم تھے جب ہی ایک لکڑی کا سہارا لےکر چلتے تھے۔ لکڑی کی ٹک ٹک کی آواز دور سے ان کے آنے کا پتہ دیتی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ جان بوجھ کر اندھے بنے ہوئے ہیں۔جہاں بھی جاتے تھے کوئی نہ کوئی ڈرامہ ضرور کرتے تھے۔ کسی نہ کسی کی نوکری ضرور چلی جاتی تھی۔ کالے شیشوں کی موٹی عینک لگاتے تھے۔ اور عام طور پر آسمان کی طرف تکتے رہتے تھے۔ نابینا ہونے کی وجہ سے یا نابینا بننے کی وجہ سے ان کووہ چیزیں بھی نظر آجاتی تھیں جو عام صاحب نظرنہیں دیکھ سکتا ۔ آج اسکول کی اسمبلی منسوخ کر دی گئی اور کچھ ہی دیرمیں تمام بچے اپنی اپنی کلاس کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔ استاد جی بھی آج کچھ مایوس مایوس سے لگ ہے تھے۔ ان کو اپنی بیوی کی یہ با ت بار بار یاد آرہی تھی۔ کہ اس روز روز کی مار دھاڑ کی بجائے کوئی قصائی کی دوکان ہی کھول لو۔ کچھ آمدنی میں اضافہ بھی ہو جائےگا اور روز روز کا شاہ جی کا ڈر بھی ختم ہو گا۔ مگر وہ اپنے آبا واجداد کا یہ پاکیزہ کام کیسے چھوڑ سکتے تھے۔ کتنے بچوں کو انہوں نے راہ راست پر چلنا سکھایاتھا۔ یقیناً استاد کا پیشہ اللہ کے خاص بندوں کو ہی زیب دیتا ہے۔ شاہ جی کی آمد کے سلسلے میں آج ہماری کلاس میں خاص اہتمام کیا گیا تھا۔ کئی دن سے اس روزکی تیاری ہو رہی تھی۔ تمام بچوں کو خصوصی ہدایات دی گئی تھیں۔ بلّو سے کہا گیا تھا کہ یا تو وہ سکول نہ آئے اور یا پھر دوبچے اس کے اردگرد اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اپنی عادت سے مجبور کوئی الٹا سیدھا سوال نہ پوچھ لے۔
سکول کی گھنٹی بجی ۔ چپراسی بھا گتا ہوا اندر داخل ہوا اور اُستاد جی کو خبردار کر دیا کہ شاہ جی آ چکے ہیں۔ شاہ جی کے لیے کافی پُر تکلف چائے کا بندو بست کیا گیا تھا ۔ کو شش یہی تھی کہ وہ کھانے پینے میں اتنا وقت صرف کر دیں کہ پھر کلاس رُومز میں جانے کی نوبت ہی نہ آئے۔ مگر شاہ جی تو اندھے تھے اور آج شاید بہرے بھی بن گئے تھے ۔ انہوں نے اپنے تمام میزبانوں کو نظر انداز کر کے ۔ اپنی لکڑی کی ٹھک ٹھک کے ساتھ سیدھا ہماری کلاس کا رُخ کیا ۔ اُن کی اس بد تمیزی پر تمام اساتذہ کی، جو اُن کی خدمت پر مامور تھے۔ ایک دفعہ تو دل کی دھڑکن غالباً بند ہو گئی ۔ شاہ جی نے تو پانی کا ایک گھُونٹ پینا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔
آج اُستاد جی نے اپنی پگڑی کے پلُّو کو مزید کھڑا کر لیا تھا۔ دو بچے جو بلُّو کے ساتھ بٹھائے گئے تھے ۔ وہ چوکس ہو گئےتھے ۔ باقی تمام بچوں کو ہدایت تھی کہ وہ کتاب سے نظر نہ اُٹھا ئیں۔ کہ کہیں شاہ جی کن انکھیوں سے کچھ دیکھ نہ لیں۔ لکڑی کی ٹھک کی آواز بہت دُور سے آنی شروع ہو گئی ، کبھی یہ ہلکی ہو جاتی تو کبھی تیز۔ وقت گُزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ ہر ٹھک ٹھک منوں بھر وزن کی طرح ہر کسی کے اوسان خطا کر رہی تھی۔ کلاس کے دروازے میں پہلے اُن کی چھڑ ی داخل ہوئی اورپھر شاہ جی۔ اُستاد جی بوکھلاہٹ میں سلام دُعا کرنا ہی بھُول گئے۔ اور فوری طور اپنا عالمانہ لیکچر شروع کر دیا۔ جو کلاس کے بچے اتنی بار سُن چکے تھے کہ اُن کو اس کا ایک ایک لفظ یا د ہو گیا تھا۔
شاہ جی آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے اور شاید مُسکرا بھی رہے تھے ۔ اُستاد جی اپنی فصا حت و بلاغت کے ساتھ نیوٹن کے قوانینِ ثقل پڑھا رہے تھے۔ تمام بچے بالکُل خاموشی کے ساتھ سر جھُکائے بیٹھے تھے اور وہ کرتے بھی کیا؟ وقت کی سوئیاں چلنی بند ہو گئی تھیں۔ ایک دم شاہ جی کی لکڑی میں جُنبش ہوئی ۔ اُنہوں نے اسکو کئی دفعہ زمین پر پٹخا اُستاد جی خاموش ہو گئے۔ اور اِنتظار کرنے لگے کہ لکڑی کے پٹخنے کے بعد شاہ جی کُچھ مُنہ سے بھی بولیں گے۔ شاہ جی نے پھر لکڑی کو زمین پر پٹخا اور ایک شدید کرب کی حالت میں بولے۔ کیا کوئی زندہ بچے یہاں موجود ہیں؟؟؟ یہاں پر تو قبرستان کی سی خاموشی ہے۔ کوئی بولتا کیوں نہیں ؟ کیا یہ جُمعہ کا خطبہ ہو رہا ہےیا نیوٹن کا قانونِ ثقل؟ اُستاد جی کے چہرے پر ایک رنگ آتا اور ایک رنگ جاتا۔ وہ یہ بھُول گئے تھے کہ ایسے بُرے وقت کے لیے ہی اُنہوں نے سوال و جواب کا ایک ڈرامہ کچھ بچوں کو رٹایا ہُوا تھا۔ اُستاد جی کے اِشارے کا اِنتظار کیے بغیر ایک بچے نے بڑے ادب سے دو تین سوال بڑی خستہ اُردُو میں پوچھ ڈالے۔ ابھی اس کے سوال ختم نہیں ہوئے تھے کہ ایک اور بچے نے بڑی ترتیب کے ساتھ ، رُک رُک کر، آرام آرام سے اُنکے صحیح جوابات کی گِردان شروع کر دی۔
اس پر تو شاہ جی کا پارا آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ وہ چنگھاڑے ، میں نے بچوں کو اِمتحان میں سوالات کے جواب نقل کرتے ہوئے دیکھا ہے لیکن سوالات نقل کرتے ہوئے آج دیکھ رہا ہوں۔ یہ سارے سوالات تو کتاب کےسبق کے آخرمیں موجود ہیں کیا آپ میں سے کسی کے پاس بھی کوئی اپنا سوال نہیں ہے؟ نیوٹن کا قانونِ ثقل سمجھنا اور سمجھانا بہت مُشکل کام ہے۔ آج یہ اتنا آسان کیسے ہو گیا؟ یہ کیسا کلاس رُوم ہے جہاں خاموشی ہی خاموشی ہے، ادب ہی ادب ہے۔ مگر کوئی سوال نہیں ہے۔
اُستاد جی کا آخری سہارا بھی بُری طرح فیل ہو چکا تھا ۔ اُنہیں دن کے وقت قصائی کی دُکان کے خواب آ رہے تھے۔ بچوں پر سکتہ کا عالم تھا ۔ چپراسی جو شاہ جی کے لیے پانی گلاس لے کرآیا تھا۔گلاس رکھے بغیر دُم دبا کر بھاگ گیا۔ ایک قیامت کا سماں تھا ہر کسی کا دل اس قدر زورسے دھک دھک کر رہا تھا کہ شاہ جی کی لکڑی کی ٹھک ٹھک بھی ماند پڑ گئی تھی۔
اِتنے میں کلاس کے پیچھے سے ایک کانپتی ہوئی آواز نے اس قیامت کی خاموشی کا بھرم توڑ دیا۔ بلُّو کچھ کہنا چاہتا تھا ، کچھ پوچھنا چا ہتا تھا۔ مگر اس کےدونوں طرف بیٹھے ہوئے ہٹے کٹے دوست اس کا مُنہ بند کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ شاہ جی نے اس سمت کا تعین کرنے کی کوشش کی جہاں سے دبی دبی آوازیں آرہی تھیں۔ شاہ جی کے خوف نے بلُّو کے ساتھ بیٹھے ہوئے بچوںکو خوف زدہ کر دیا اور جیسے ہی بلُّو آزاد ہوا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا شاہ جی کے پاس آیا اور اُن کی لکڑی کو پکڑ کر کھینچنا شروع کر دیا۔ شاہ جی اس اچانک حملے سے گھبرا گئے ۔ آج تک کسی نے یہ جُرات نہیں کی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتے بلُّو نے اپنی ٹُو ٹی پھُوٹی زبان میں پوچھا ۔ شاہ جی میں آپ کی اس لکڑی کو اپنی سِیٹ سے کھینچنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ نیوٹن کی کشش ِ ثقل کے مُطابق ۔ مگر اس پر ذرا برابر بھی اثر نہیں ہو رہا تھا، اب مُجھے آپ کے پاس چل کرآنا پڑا۔ تا کہ اس لکڑی کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ سکوں ۔ سورج یا زمین کے آخر وہ ہاتھ کہاں ہیں جن کے ذریعے وہ کششِ ثقل کے مُطابق مُختلف چھوٹی چیزوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔شاہ جی ایک دم اچنبھے میں آگئے۔ وہ جھکے تا کہ بلُّو کا ہاتھ تھام لیں ۔ جھکنےکی وجہ سے ان کی کالے موٹے شیشوں کی عینک نیچے گر پڑی۔ اور سب بچوں کو اُن کی بے نُور آنکھیں صاف نظر آنے لگیں ۔ انہوں نے بلُّو کو اپنے پاس بلایااور گلے لگا لیا۔ ایک آنسو ان کی ایک بے نُور آنکھ سے گر کر ان کی داڑھی میں جذب ہو گیا۔
اُستاد جی نے سکون کا سانس لیا۔ آج ایک ٹیڑھی لکیر نے اُن کی نوکری بچا لی تھی۔
ربط
 
Top