قرۃالعین اعوان
لائبریرین
آئینہ رکھ دیا گیا عکسِ جمال کے لیے
پورا جہاں بنا دیا، ایک مثال کے لیے
خاک کی نیند توڑ کر آب کہیں بنا دیا
ارض وسما کے درمیاں خواب کہیں بنا دیا
خواب نمود میں کبھی آتش و باد مل گئے
شاخ پر آگ جل اٹھی ، آگ میں پھول کھل گئے
سازِ حیات تھا خموش، سوز و سرود تھا نہیں
اس کا ظہور ہوگیا جس کا وجود تھا نہیں
خاک میں جتنا نور ہے ایک نگاہ سے ملا
سنگ بدن کو ارتعاش دل کی کراہ سے ملا
دشتِ وجود میں بہار اس دل لالہ رنگ سے
رنگ حیات و کائنات اس کی بس امنگ سے
قرنوں کے فاصلوں میں یہ دل ہی مرے قریب تھا
قصہ ء ہست و بود میں کوئی مرا حبیب تھا
تیرہ و تار راہ میں ایک چراغ تھا مرا
کوچہ ء بے تپاک میں کوئی سراغ تھا مرا
ہوکے دیارِ خواب سے کیسی عجب ہوا گئی
شیشہء تابدار پر گرد ہی گرد جم گئی
بھول چکا ہے اپنی ذات بھول گیا ہے اس کا نام
سوزو گداز کے بغیر لب پہ درود اور سلام
مدت عمر ہوگئی اس کو عجیب حال میں
فرق ہی کچھ رہا نہیں شوق میں اور ملال میں
دل کی جگہ رکھا ہے اب ، سنگ سیاہ اس طرف
ہجر و وصال کے خدا! ایک نگاہ اس طرف
ثمینہ راجہ