ایک نعتیہ کلام پر چند گزارشات

دائم

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم

برائے تنقید

مجھے داستان وہ کر عطا، کہ کبھی کسی نے لکھی نہ ہو
"نہ ہی آب و خاک کا ذکر ہو، سرِچاک کوزہ گری نہ ہو"


ایک مصرعہ لے کر پھر اس پر مصرعہ پیمائی کرنا اتنا ہی مشکل فن ہے جتنا کہ خُود تضمین نگاری کافن ، آپ نے اس شعر میں معانی کی آفرینی بھی برقرار رکھی اور لفظی و معنوی ربط بھی از حد پیدا کر دیا ، اس ایک شعر پر اگر تنقید کی جائے تو شائد مجھے ایک دن اور رات کا وقت ناکافی ہے ، لیکن یہاں یہ بات روا بھی نہیں اور نہ میں متحمل ہوں کہ ایسا کروں ، بہر حال شعر خُوب صورت ہے اور اس میں کسی طرح کی کجی و سقم نہیں ہے .. ایک بات میرے ذہن میرے ذہن میں آئی ہے اور وہ یہ کہ آپ نے ایک لفظ استعمال کیا (کبھی کسی نے لکھی نہ ہو) اور اس پر مستزاد یہ کہ داستان عطا کر ..

مجھے جہاں تک معلوم ہے وہ یہ کہ داستان لکھنے سے بہتر لفظ داستان کہنا ہے ، اور اس پر میں آپ کو چند اشعار و عبارات سند کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں..

1...
یہ داستان مرحمت عام کیا کہوں
کہہ دوں تو دل سے خون کا چشمہ ابل پڑے

جوشؔ ملیح آبادی

اس شعر میں جوش صاحب نے داستان کہنے کا صیغہ استعمال کیا ہے ..

2....
خواجہ حسن نظامی جو کہ اردو ادب کا بہت بڑا نام ہے ان کے مضامین میں سے ایک لائن بطورِ سند پیش ہے کہ
(اس جھینگرکی داستان ہرگزنہ کہنا۔..............الخ)

3....
زباں کو حکم ہی کہاں کہ داستان غم کہیں
ادا ادا سے تم کہو نظر نظر سے ہم کہیں

شمیم کرہانی

4....
داستان غم دل کہاں کہی جائے
یہاں تو کھل کے کوئی بات بھی نہ کی جائے

احمد راہی

عشق میں نے جب کہی سسرال میں
میرے سالے گالیاں بے انتہا دینے لگے
ساس نے ڈنڈا اٹھایا اور سسر نے چپلیں
''جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے''

آثم پیرزادہ

ان تمام حوالہ جات کی موجودگی میں یہ بات دلیل کی بنیاد پر کہی جاسکتی ہے کہ داستان لکھنا افصح نہیں بلکہ داستان کہنا افصح ہے ، پس یہ لفظ بدل کر ( کہنا ) لکھا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا..



میں خیال یار میں ڈوب کر، کوئی ایسا شعر رقم کروں
جو زباں کی قید سے ماورا، جسے سننے والا کوئی نہ ہو

ماشاء اللہ .. خوب خیال باندھا ہے .. بس خیال کو اوزان کا پابند کرتے کرتے لفظی تعقید کا عیب پیدا ہو گیا ہے .. شعر رقم کرنا درست ہے ، جیسا کہ بعض احباب نے اس پر اعتراض کیا ہے جو کہ غَلَط ہے.. ایک بات ادھر بھی توجہ طلب ہے کہ آپ شعر رقم کرنا چاہ رہے ہیں خیالِ یار میں ڈُوب کر ، لیکن اس شعر کی صِفاتِ منفصِلہ میں یہ بات کیسے درست ہو گئی کہ (جسے سُننے والا کوئی نہ ہو) ، دیکھئیے ! یہاں دوسرا مصرعہ خیال کی رِفعت اور عُلُوّ کا متقاضی ہے اور اگر میں طباطبائی کی نظر سے دیکھوں تو یہ شعر مضامینِ مبتذلہ میں ایک ہے اور یہ حد درجہ عمومیت کو مستلزم ہے جو کہ نہ چاہیئے .. بلکہ صِفاتِ منفصلہ کو ارفع بنانا وُجُوب کا تقاجا کرتا ہے .. میرا خیال ہے کہ آپ میرا مدّعا سمجھ گئے ہوں گے..



فقط اک خیال حزیں ترا، فقط ایک آرزو مضطرب
تری بزم میں ہوں براجماں، کوئی اور بے ادبی نہ ہو

یہاں عروضی اعتبار سے ایک مسئلہ ہے . مصرعہِ اوّل میں (آرزُو) کے لفظ میں واؤ کا ماقبل پیش ہے جو کہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ز کو لمبا کر کے پڑھا جائے .. لیکن یہاں وزن کا لحاظ رکھا جائے تو واؤ ماقبل ز کو کھینچ کے نہیں بلکہ بالاختصار پڑھا جا رہا ہے جو کہ نہ چاہیئے.. باقی خیال اپنی تمام تر معنوی خوبیوں کے ساتھ جلوہ بار ہے.. اور کسی بھی طرح کے سقم اور کجی سے بالکل پاک و صاف ہے..



کئی عقل والے یوں، شاہ زادٓ، دوانگی کو تری سہیں
کہیں تیری بے تکی باتوں میں ہی نہ زندگی کا قرینہ ہو

بؔحر کو اس مشکل میں بہت مشکل سے برتنے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ صاف ظاہِر ہو رہا ہے .. یہاں پر تمام اشعار کی بہ نسبت پڑھنے میں زیادہ مشکل پیش آرہی ہے .. دیکھیئے کہ (دِوانگی) کا لفظ پڑھنا مشکل ہو رہا ہے ، پھر ( بے تُکی) میں ی بالکل ہی حذف ہو رہی ہے . اور پھر (قرینہ) میں بھی (نہ) کی ہ بالکل ہی گُم ہو گئی ہے .. اگرچہ ایسا کرنا جواز کا احتمال رکھتا ہے مگر اس غزل کا حُسن بھی تو انھی کے سبب اکارت جا رہا ہے جو کہ صاف کھٹک رہا ہے ..

بس یہی گزارشات تھیں ... باقی واللہ اعلم بالصواب
 
Top