ایک نظم :اندیشے:

یاسر شاہ بھائی، اظہارِ خیال کے لیے مدعو کرنے کا شکریہ۔ میں تو اس کا بھی اہل نہیں ہوں کہ اپنا کلام غلطیوں سے بچا سکوں کجا کہ اساتذہ کے کلام پر تنقیدی جائزہ پیش کروں۔ لیکن تعمیلِ ارشاد کی خاطر کچھ بیان کیے دیتا ہوں لیکن یہ ہرگز تنقید نہیں بلکہ اس نظم کو پڑھنے پر میں نے کیا محسوس کیا ہے صرف وہی بیان کر سکتا ہوں۔ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے میرے پاس مشاہیرِ فن کی کوئی مثال بھی نہ ہو گی۔

سرور عالم راز صاحب، سب سے پہلے تو یہ عرض کر دوں کہ یہ نظم مجموعی طور پر اچھی لگی۔ جس کے لیے داد و تحسین قبول فرمائیے۔


بے نیاز حسینہ پر یہ لائینیں خوبصورت ہیں اور ایک سماں باندھ رہی ہیں۔ یہ لائینیں ایک شاعر کی خود کلامی کے الفاظ محسوس ہوتے ہیں۔

لیکن یہاں سے "تیری" سے یکلخت ضمیر مخاطب در آئی۔
اور "بس" کے حوالے سے ارشد رشید کی بات بھی قابلِ غور ہے۔

پھر ان لائنوں نے دوبارہ سے ایک سماں سا باندھ دیا۔ لیکن آخری لائن کے "تو" کی بجائے "وہ" کا محل محسوس ہوتا ہے۔ لیکن مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ غالب کے مصرعوں کی گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ دو لائنیں نظم کو اپنے عنوان سے بھٹکاتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔ کیونکہ یہاں پر یہ تأثر مل رہا ہے کہ جیسے شاعر اندیشوں کے بجائے اپنی محرومیوں کا رونا رو رہا ہو۔

نظم کا اختتام بھی خوبصورت ہے۔
کوئی گستاخی ہوئی ہو تو معاف فرمائیے گا۔
قبلہ رئوف صاحب: سلام علیکم
یقن کیجئے کہ ہم دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کوئی گستاخی نہیں کی ہے اور چین کی نیند سو سکتےہیں! یہ جان کر مسرت ہوئی کہ مجموعی طور پرآ پ کو میری نظم پسند آئی۔ اسیطرح آپ کی تحریر مجموعی طور پر مجھ کو اچھی لگی۔ چلئے حساب برابر ہوا! آپ کی اور رشید صاحب کی تحریروں سے مجھے ایک شکایت ضرور ہے یععنی آپ حضرات نظم کے ٹکڑے اپنی مرضی کے مطابق کر لیتے ہیں اور پھر اس میں سے کوئی فضول سا حکم بھی برآمد کر لیتے ہیں۔ اسکے بعد اس بے لگام اور سرکش گھوڑےپر سوار ہو کر بیچاری نظم کو روندتے ہیں۔ بندہ پرور صحیح طریقہ یہ ہے کہ نظم میں وہ دیکھیں جو غریب شاعر کہنا چاہتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات کے بجائے نظم کو ایک اکائی کی طرح پرکھیں تو اس کا مقصد پورا ہو سکتا ہے۔اور از راہ کرم شاعر کے منھ میں وہ معنی نہ رکھیں جو اس کے فرشتوں کے دماغ میں بھی نہیں ہیں۔ آپ کی محبت اور عنایت کاشکریہ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
قبلہ رئوف صاحب: سلام علیکم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللّٰه و برکاته
یقن کیجئے کہ ہم دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کوئی گستاخی نہیں کی ہے اور چین کی نیند سو سکتےہیں! یہ جان کر مسرت ہوئی کہ مجموعی طور پرآ پ کو میری نظم پسند آئی۔ اسیطرح آپ کی تحریر مجموعی طور پر مجھ کو اچھی لگی۔ چلئے حساب برابر ہوا!
بہت شکریہ محترم 🙂
آپ کی اور رشید صاحب کی تحریروں سے مجھے ایک شکایت ضرور ہے یععنی آپ حضرات نظم کے ٹکڑے اپنی مرضی کے مطابق کر لیتے ہیں
اب مجھے آپ سے شکایت ہے کہ آپ نے میرا مراسلہ غور سے نہیں دیکھا۔ میں نے آپ کی نظم کے بند نہیں بنائے بلکہ ایک اکائی کے طور پر ہی لیا ہے۔ یہ تو محض اقتباسات کا سہارا لیا ہے تاکہ بتا سکوں کہ میری ناقص سمجھ نے اس نظم میں کہاں کہاں اور کیسی کیسی ٹھوکریں کھائیں۔
پھر اس میں سے کوئی فضول سا حکم بھی برآمد کر لیتے ہیں
یہ ہرگز تنقید نہیں بلکہ اس نظم کو پڑھنے پر میں نے کیا محسوس کیا ہے صرف وہی بیان کر سکتا ہوں۔ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے میرے پاس مشاہیرِ فن کی کوئی مثال بھی نہ ہو گی۔
محترم، اس کا اعتراف تو میں پہلے کر آیا ہوں کہ یہ میری محسوسات ہیں نہ کہ کوئی حکم۔ حکم ہوتا تو مشاہیرِ فن سے کوئی حوالہ بھی اخذ ضرور کرتا۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ نظم میں وہ دیکھیں جو غریب شاعر کہنا چاہتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات کے بجائے نظم کو ایک اکائی کی طرح پرکھیں تو اس کا مقصد پورا ہو سکتا ہے۔
بندہ کو اس کا ادراک ہے اور اس کا اعتراف اوپر اسی مراسلے میں کر دیا گیا ہے۔
از راہ کرم شاعر کے منھ میں وہ معنی نہ رکھیں جو اس کے فرشتوں کے دماغ میں بھی نہیں ہیں۔
استغفار ۔۔۔ کہاں راجا بھوج، کہاں گنگو تیلی۔۔۔
ایسی حرکت کا میں کیسے سوچ سکتا ہوں۔
آپ کی محبت اور عنایت کاشکریہ۔
آپ کے مفصل عنایت نامے کا از حد شکریہ۔ آپ کا سایہ دیر تک طالبانِ علم پر قائم رہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
محترمی السلام علیکم

آپ کی نظم غور سے پڑھی اور اس پہ تبصرے بھی پڑھے اور آپ کے جوابات سے بھی محظوظ ہوا -ارشد رشید صاحب اور عبد الرؤوف بھائی کا ممنون ہوں کہ انھوں نے میری ترغیب پر بیلاگ تبصرہ کیا،اوراپنے تبصرے کو میری ترغیب سے منسوب کیا-
آپ نے نظم کا پس منظر بیان فرمایا ہے کہ کس تاثر کے تحت یہ نظم لکھی گئی ہے ،ضرور اس میں کوئی مصلحت ہوگی مگر میرے خیال سے اس پس منظر کے بیان سے قاری کا دائرہ نگاہ محدود ہو کے رہ جاتا ہے اور وہ سوچنے سمجھنے میں اس قدر آزاد نہیں رہتا کہ جتنا آزاد وہ بغیر کسی پس منظر کے رہ سکتا تھا اور معاملہ اگر حسین دوشیزہ کا ہو جو دنیا و مافیہا سے بے خبر زلفیں سنوار رہی ہو تو اور بھی حسّاس ہو جاتا ہے ،ہو سکتا ہے کچھ دل جلے یہ بھی سوچ رہے ہوں کہ نظم پیش ہی کرنے کی ضرورت کیا تھی کوئی ویڈیو کلپ ریکارڈ کر کے پیش کر دی جاتی تاکہ سب محظوظ ہوتے نہ رہتا بانس نہ بجتی بانسری، نہ نظم ہوتی نہ اس پہ بیلاگ لکھنے کا ٹنٹا-
تفنن پہ معذرت ،کیا کروں آج کل اسی طرز پہ سوچا جا رہا ہے وائرل ویڈیوز دیکھی جا رہی ہیں، ایسی کلاسیکی نظمیں کون پڑھتا ہے بقول غالب :

کون سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری

قاری آپ کے بیان کردہ خوبصورت پس منظر سے پیچھا چھڑا نہیں پاتا چنانچہ ان مقامات پہ چونکتا ہے -

تیری بس اک نگاہِ اُلفت کا

دور سے دیکھ دیکھ کر نقشہ کھینچتے کھینچتے شاعر اچانک مخاطب کیسے ہوگیا -

عشق مجبور، حُسن ہر جائی
پہلی ہی نظر میں عشق کیونکر ہو گیا -

لیکن سوال یہ ہے کہ اگر پس منظر بیان نہ ہوتا تو کیا یہ دونوں سوال رہتے -میرے خیال سے :عشق: کے استعمال کا پھر سوال نہ اٹھتا لیکن نظم کی ہیئت کو دیکھتے ہوئے میری ذوقی رائے ہے کہ پہلا سوال پھر بھی اٹھتا -اس سوال کا جواب جاننے کے لیے آخر میں ایک ذوقی تجربہ کروں گا -
نظم دیکھتے ہیں :
رنگ وخوشبو، شباب و رعنائی
عِشوہ و ناز و حسن و زیبائی

خوبصورت شعر لیکن بندے کی ناقص رائے ہے کہ دوسرا مصرع ایک طویل مرکب بن کے رہ گیا ہے ،پہلے مصرع ہی کی طرز میں یوں کہا جاتا تو بہتر تھا :
عِشوہ و ناز ، حسن و زیبائی
میری ناقص رائے میں نہ :عشوہ و ناز: مترادفات ہیں نہ: بال و پر: اگر مترادفات ہوتے تو ان کا استعمال وزن پورا کرنے کے لیے نقص شمار ہوتا کہ ہر دوسرا لفظ محض خانہ پری اور بھرتی ہوتا -اور کہیں عربی صرف و نحو کا قاعدہ نظر سے گزرا کہ مرکبات عطفی (بال و پر ،عشوہ و ناز وغیرہ )میں حرف عطف یعنی :و : مغایرت کے لیے آتا ہے ،یوں کہیں تو شاید غلط نہ ہو کہ دو غیروں میں جوڑ پیدا کرنے کے لیے ایسے مرکبات میں :و : لایا جاتا ہے -عشوہ و ناز اساتذه کے ہاں بھی مستعمل ہے -

عشوہ و ناز و ادا سے کسو کو پھر کیا کام
جی نہ بے چین رہا کرتا نہ دل بے آرام

میر تقی میر

عشوہ و ناز ترا ہم سے یہی کہتا ہے
نہیں کرتے جو کبھی تیر خطا ہم ہی ہیں

مصحفی غلام ہمدانی

----------------

ہر تبسم طلسم ِ ہوش رُبا
ہر اَدا دُشمن ِ شکیبائی

واہ بہت خوب -ہر لفظ گویا تیر ہے جو ٹھیک نشانے پہ بیٹھا ہے -
بے نیازی سی بے نیا زی ہے!
خود تما شا ہے ، خود تماشائی

یہاں میں ارشد رشید صاحب سے خود کو متفق پاتا ہوں ان کے لکھنے سے پہلے یہ نکتہ میرے ذہن میں بھی تھا -بےنیاز بھی اور پھر تماشائی بھی -ذوق میں کچھ کھٹک ضرور ہے لیکن کچھ اتنی زیادہ بھی نہیں -اسی طرح ہلکی سی کھٹک :خود: کا دو بار استعمال بھی پیدا کر رہا ہے -میں دوسرا مصرع شاید یوں کہتا :

ہے تماشا بھی خود تماشائی

تیری بس اک نگاہِ اُلفت کا
اِک زمانہ ہوا ہےسودائی
یہاں بھائی عبد الرؤف کے اٹھائے نکتے سے متفق ہوں اور ان کے لکھنے سے پہلے بھی میرا یہ خیال تھا کہ :تیری: کچھ عجیب لگ رہا ہے -باقی :بس: کا استعمال بھرتی کا مجھے محسوس نہیں ہوتا -

ہر نظر بہرِ احترامِ حُسن
اُٹھ رہی ہے پئے پذیرائی

یہاں :پئے پذیرائی: میں صوتیت کی کچھ ناگواری ہے -
دِل ہے بے تاب و بے سُکون اِدھر
تو ُاُدھر محوِ بزم آرائی
میری محرومیاں کوئی دیکھے
عشق مجبور، حُسن ہر جائی
قلبِ مُضطر، نگاہِ آوارہ
بَن نہ جائیں دلیلِ رُسوائی

واہ -

کُشتہ ء راز ہائے ناز و نیاز
:خود ہی اپنی شکست کی آواز
تو اور آرائشِ خم ِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز :

آخری بند میں :خود ہی اپنی شکست کی آواز: کے جوڑ کا مصرع اگرچہ خوبصورت ہے مگر دوسرے مصرع سے مطلوبہ ربط پیدا کرنے سے قاصر محسوس ہوتا ہے -غالب کہتے ہیں :

نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز

دوسرے مصرع میں :آواز : کے استعمال سے پہلے وہ :نغمہ: اور :ساز : کے استعمال سے فضا کو سازگار بناتے ہیں جبکہ آپ نے ایسا کوئی تکلف نہیں کیا -

مجموعی طور پہ نظم غالب کے رنگ کو شعوری طور پر اپنانے کی، خصوصا خوبصورت لفظوں کے چناؤ کے لحاظ سے ، ایک کامیاب کوشش ہے اور آپ کے لفظوں کو برتنے کی خوش سلیقگی کی آئینہ دار -

آخر میں ایک ذوقی تجربہ پیش کروں گا -اسے محض ایک تجربہ سمجھا جائے اپنے ابتداء میں اٹھائے سوال کے جواب کے طور پر اور آپ سے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ نظم کی اس شکل میں کیا کیا نقائص اور قباحتیں ہیں :

اندیشے

رنگ وخوشبو، شباب و رعنائی
عِشوہ و ناز ،حسن و زیبائی
ہر تبسم طلسم ِ ہوش رُبا
ہر اَدا دُشمن ِ شکیبائی
بے نیازی سی بے نیا زی ہے!
ہے تما شا بھی خود تماشائی
اس کی بس اک نگاہِ اُلفت کا
اِک زمانہ ہوا ہےسودائی
ہر نظر بہرِ احترامِ حُسن
اُٹھ رہی ہے پئے پذیرائی
دِل ہے بے تاب و بے سُکون اِدھر
وہ اُدھر محوِ بزم آرائی
میری محرومیاں کوئی دیکھے
عشق مجبور، حُسن ہر جائی
قلبِ مُضطر، نگاہِ آوارہ
بَن نہ جائیں دلیلِ رُسوائی
----------
کُشتہ ء راز ہائے ناز و نیاز
:خود ہی اپنی شکست کی آواز
وہ اور آرائشِ خم ِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز :
================​


آپ کی دیگر شعری و نثری نگارشات کا منتظر

یاسر
 

یاسر شاہ

محفلین
جناب یاسر صاحب - میں سرور صاحب کے کلام پر براہ راست تبصرہ نہیں کرتا کیونکہ مجے اندازہ ہو ا تھا کہ میں اس قابل نہیں ہوں - مگر آپ نے نام لے کر بلایا ہے تو کچھ عرض کرتا ہوں آپ کے لیے - راز صاحب کا اس سے متفق ہونا ہر گز ضروری نہیں -
ارشد رشید بھائی سرور صاحب نہایت شفیق اور معتبر علمی و ادبی شخصیت ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جن کی ڈانٹ بھی مست و سرشار کر دیتی ہے لہٰذا آپ ان کے کلام پہ بے تکلف لکھا کریں اور ان کی بے لگی لپٹی باتوں کو تلخ سمجھ کر تبصروں سے گریز مت کریں - ایک دوسرے سے کھچے کھچے رہنے سے نہ صرف سیکھنے سکھانے کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا بلکہ یوں یہ محفلیں بھی ویران ہو جائیں گی -
 

ارشد رشید

محفلین
سر ضرور ایسا ہی ہوگا - لیکن میں انکو بالکل نہیں جانتا - انکے جوابات سے اب تک مجھے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ وہ میری بات سمجھ ہی نہ سکے -
اس بار بھی جو جوابات انہوں نے دیئے وہ تو میرے اعتراضات تھے ہی نہیں - میں کسی اور طرف اشارہ کر رہا تھا وہ کچھ اور سمجھتے رہے اور مجھے اپنا مطالعہ بڑھانے کا مشورہ دے ڈالا - یہ بات تو صحیح ہے کہ مجھے اپنا مطالعہ اور بڑھانے کی یقینا ضرورت ہے مگر یہ میرے ان جوابات سے عیاں نہیں تھا -

خیر - میرے لیئے سرور صاحب سے تعلق ایسا تو نہیں ہے کہ میں کہو ں - گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
تو مجھے ان پر تبصروں سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے -
 
محترمی السلام علیکم

آپ کی نظم غور سے پڑھی اور اس پہ تبصرے بھی پڑھے اور آپ کے جوابات سے بھی محظوظ ہوا -ارشد رشید صاحب اور عبد الرؤوف بھائی کا ممنون ہوں کہ انھوں نے میری ترغیب پر بیلاگ تبصرہ کیا،اوراپنے تبصرے کو میری ترغیب سے منسوب کیا-
آپ نے نظم کا پس منظر بیان فرمایا ہے کہ کس تاثر کے تحت یہ نظم لکھی گئی ہے ،ضرور اس میں کوئی مصلحت ہوگی مگر میرے خیال سے اس پس منظر کے بیان سے قاری کا دائرہ نگاہ محدود ہو کے رہ جاتا ہے اور وہ سوچنے سمجھنے میں اس قدر آزاد نہیں رہتا کہ جتنا آزاد وہ بغیر کسی پس منظر کے رہ سکتا تھا اور معاملہ اگر حسین دوشیزہ کا ہو جو دنیا و مافیہا سے بے خبر زلفیں سنوار رہی ہو تو اور بھی حسّاس ہو جاتا ہے ،ہو سکتا ہے کچھ دل جلے یہ بھی سوچ رہے ہوں کہ نظم پیش ہی کرنے کی ضرورت کیا تھی کوئی ویڈیو کلپ ریکارڈ کر کے پیش کر دی جاتی تاکہ سب محظوظ ہوتے نہ رہتا بانس نہ بجتی بانسری، نہ نظم ہوتی نہ اس پہ بیلاگ لکھنے کا ٹنٹا-
تفنن پہ معذرت ،کیا کروں آج کل اسی طرز پہ سوچا جا رہا ہے وائرل ویڈیوز دیکھی جا رہی ہیں، ایسی کلاسیکی نظمیں کون پڑھتا ہے بقول غالب :

کون سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری

قاری آپ کے بیان کردہ خوبصورت پس منظر سے پیچھا چھڑا نہیں پاتا چنانچہ ان مقامات پہ چونکتا ہے -



دور سے دیکھ دیکھ کر نقشہ کھینچتے کھینچتے شاعر اچانک مخاطب کیسے ہوگیا -


پہلی ہی نظر میں عشق کیونکر ہو گیا -

لیکن سوال یہ ہے کہ اگر پس منظر بیان نہ ہوتا تو کیا یہ دونوں سوال رہتے -میرے خیال سے :عشق: کے استعمال کا پھر سوال نہ اٹھتا لیکن نظم کی ہیئت کو دیکھتے ہوئے میری ذوقی رائے ہے کہ پہلا سوال پھر بھی اٹھتا -اس سوال کا جواب جاننے کے لیے آخر میں ایک ذوقی تجربہ کروں گا -
نظم دیکھتے ہیں :


خوبصورت شعر لیکن بندے کی ناقص رائے ہے کہ دوسرا مصرع ایک طویل مرکب بن کے رہ گیا ہے ،پہلے مصرع ہی کی طرز میں یوں کہا جاتا تو بہتر تھا :
عِشوہ و ناز ، حسن و زیبائی
میری ناقص رائے میں نہ :عشوہ و ناز: مترادفات ہیں نہ: بال و پر: اگر مترادفات ہوتے تو ان کا استعمال وزن پورا کرنے کے لیے نقص شمار ہوتا کہ ہر دوسرا لفظ محض خانہ پری اور بھرتی ہوتا -اور کہیں عربی صرف و نحو کا قاعدہ نظر سے گزرا کہ مرکبات عطفی (بال و پر ،عشوہ و ناز وغیرہ )میں حرف عطف یعنی :و : مغایرت کے لیے آتا ہے ،یوں کہیں تو شاید غلط نہ ہو کہ دو غیروں میں جوڑ پیدا کرنے کے لیے ایسے مرکبات میں :و : لایا جاتا ہے -عشوہ و ناز اساتذه کے ہاں بھی مستعمل ہے -

عشوہ و ناز و ادا سے کسو کو پھر کیا کام
جی نہ بے چین رہا کرتا نہ دل بے آرام

میر تقی میر

عشوہ و ناز ترا ہم سے یہی کہتا ہے
نہیں کرتے جو کبھی تیر خطا ہم ہی ہیں

مصحفی غلام ہمدانی

----------------



واہ بہت خوب -ہر لفظ گویا تیر ہے جو ٹھیک نشانے پہ بیٹھا ہے -


یہاں میں ارشد رشید صاحب سے خود کو متفق پاتا ہوں ان کے لکھنے سے پہلے یہ نکتہ میرے ذہن میں بھی تھا -بےنیاز بھی اور پھر تماشائی بھی -ذوق میں کچھ کھٹک ضرور ہے لیکن کچھ اتنی زیادہ بھی نہیں -اسی طرح ہلکی سی کھٹک :خود: کا دو بار استعمال بھی پیدا کر رہا ہے -میں دوسرا مصرع شاید یوں کہتا :

ہے تماشا بھی خود تماشائی


یہاں بھائی عبد الرؤف کے اٹھائے نکتے سے متفق ہوں اور ان کے لکھنے سے پہلے بھی میرا یہ خیال تھا کہ :تیری: کچھ عجیب لگ رہا ہے -باقی :بس: کا استعمال بھرتی کا مجھے محسوس نہیں ہوتا -



یہاں :پئے پذیرائی: میں صوتیت کی کچھ ناگواری ہے -


واہ -



آخری بند میں :خود ہی اپنی شکست کی آواز: کے جوڑ کا مصرع اگرچہ خوبصورت ہے مگر دوسرے مصرع سے مطلوبہ ربط پیدا کرنے سے قاصر محسوس ہوتا ہے -غالب کہتے ہیں :

نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز

دوسرے مصرع میں :آواز : کے استعمال سے پہلے وہ :نغمہ: اور :ساز : کے استعمال سے فضا کو سازگار بناتے ہیں جبکہ آپ نے ایسا کوئی تکلف نہیں کیا -

مجموعی طور پہ نظم غالب کے رنگ کو شعوری طور پر اپنانے کی، خصوصا خوبصورت لفظوں کے چناؤ کے لحاظ سے ، ایک کامیاب کوشش ہے اور آپ کے لفظوں کو برتنے کی خوش سلیقگی کی آئینہ دار -

آخر میں ایک ذوقی تجربہ پیش کروں گا -اسے محض ایک تجربہ سمجھا جائے اپنے ابتداء میں اٹھائے سوال کے جواب کے طور پر اور آپ سے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ نظم کی اس شکل میں کیا کیا نقائص اور قباحتیں ہیں :

اندیشے

رنگ وخوشبو، شباب و رعنائی
عِشوہ و ناز ،حسن و زیبائی
ہر تبسم طلسم ِ ہوش رُبا
ہر اَدا دُشمن ِ شکیبائی
بے نیازی سی بے نیا زی ہے!
ہے تما شا بھی خود تماشائی
اس کی بس اک نگاہِ اُلفت کا
اِک زمانہ ہوا ہےسودائی
ہر نظر بہرِ احترامِ حُسن
اُٹھ رہی ہے پئے پذیرائی
دِل ہے بے تاب و بے سُکون اِدھر
وہ اُدھر محوِ بزم آرائی
میری محرومیاں کوئی دیکھے
عشق مجبور، حُسن ہر جائی
قلبِ مُضطر، نگاہِ آوارہ
بَن نہ جائیں دلیلِ رُسوائی
----------
کُشتہ ء راز ہائے ناز و نیاز
:خود ہی اپنی شکست کی آواز
وہ اور آرائشِ خم ِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز :
================​
حالا


آپ کی دیگر شعری و نثری نگارشات کا منتظر

یاسر
مکرم بندہ یاسر ساحب: والسلام علیکم
جواب خط اور اس پر اتنی محنت کے لئے ممنون و متشکر ہوں۔ آپ کا تبصرہ بغور دیکھا اور دوسرے دوستوں سے بھی مستفید ہوا۔ آپ کی تحریر کا کلیدی جملہ حالات کی صحیح ترجمانی کرتا ہے :ایسی کلاسیکی نظمیں کون پڑھتا ہے؟: انا للہ و انا الیہ راجعون۔ تو پھر ایسی نظموں کو کہیں پیش کرنے ہی کی کیا ضرورت ہے؟ چنانچہ افسوس کے ساتھ رخصت چاہتا ہوں۔ کوشش کروں گا کہ ارباب محفل کو مستقبل میں زحمت نہ دوں۔ قبلہ روءف صاحب آپ کو الگ جواب دینے کا حوصلہ اس وقت نہیں۔ دست بستہ معذرت خواہ ہوں۔ انشاالہہ پھر کسی وقت ملاقات ہوگی۔ فی امان اللہ۔
 

یاسر شاہ

محفلین
محترمی و مشفقی آپ کا خط پڑھ کے رنج ہوا اور یہی تاثر ملا کہ آپ مجھ سے خفا ہو کر جا رہے ہیں،یوں نہ چاہیے حالانکہ میں نے وہ بات جس کا حوالہ آپ نے دیا ہے محض ان باتوں کے تسلسل میں کی ہے جو آپ کیا ہی کرتےہیں یعنی عوام سے گلہ اور عوام کا دکھ۔اسی نظم کے ذیل میں اس قسم کے ارشادات موجود ہیں :
ہر جگہ کی طرح یہاں بھی ادب و شعر کا چرچا :بقدر بادام: ہی ہے ۔ اصلاح تو بڑی چیز ہے یہاں تو اظہار خیال کے مواقع بھی خال خال ہیں۔ آپ میری اصلاح کا ذکر کرتے ہیں۔ ڈرتا ہوں کہ :چھوٹا منھ اور بڑی بات: نہ ہو جائے ۔ یہاں کے :شعرا ئے کرام : کو فی الوقت میری اصلاح کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کے لئے انھیں کافی وقت چاہئے۔رہ گئے کہنہ مشق شاعر تو وہ :پردہء خفا :میں ہیں ۔ آپ اگر ان کی نشاندہی کردیں تو ممنون کرم ہوں گا۔ کام آگے بڑھے گا اس وقت جب وہ شروع ہو گا ۔ آپ خود دیکھیں کہ تخلیق کو ڈیڑھ سو افراد دیکھتے ہیں اور اس پر نہایت مختصر اظہار خیال (عام طور پر ایک لفظ یا ایک جملے میں)ایک یا دو مہربان کرتے ہیں

آپ نے :موجودہ دور کی شاعری: کا ذکر کیا ہے سو یہ شاعری کہاں ہورہی ہے؟ جو صورت حال ہے وہ مایوس کن ہے۔ لوگ زبان وبیان پر وہ مشق ستم کر رہے ہیں اور اسے ادب وشعر کا نام دے رہے ہیں کہ حیرت نہیں افسوس ہوتا ہے
میری یہ رائے بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے:
تفنن پہ معذرت ،کیا کروں آج کل اسی طرز پہ سوچا جا رہا ہے وائرل ویڈیوز دیکھی جا رہی ہیں، ایسی کلاسیکی نظمیں کون پڑھتا ہے

بقول غالب :

کون سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
ظاہر سی بات ہے گلہ عوام سے کیاگیا ہے جو کہ غالب کو بھی اپنے لوگوں سے تھا اوپر شعر بھی نقل کیا۔ورنہ میں تو آپ کی شاعری شوق سے پڑھتا ہوں ،ہر ایک کاوش کو قریب قریب دس بار سے زیادہ دیکھتا ہوں اور میرے علاوہ خواص بھی شوق سے پڑھتے ہیں ایسا کلام ۔تبھی تو آپ کی نظم کو کلاسیکی کہا ،اس کا کلاسیکی ہونا ہی کافی ہے کہ کلاسیک میں تو خواص ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور کون پڑھتا ہے کو تو رہنے دیں قابل غور بات یہ ہے کہ اس طرز پہ لکھ کون سکتا ہے ،ظاہر سی بات ہے یہ رنگ اپنانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔اور پھر کوئی پڑھے نہ پڑھے آپ اپنا مطمح نظر بتا ہی چکے ہیں:
راز مل جاتی ہے فکروں سے نجات
شاعری سے اور کچھ حاصل نہیں

اب جو آپ میرے بے لاگ تبصرے کو بنیاد بنا کر رخصت ہو رہے ہیں جو آپ کے اصرار پر کیا گیا تھاتو گویا خوشامد اور چاپلوسی واہ ،واہ ،چہ خوب ،زبردست جیسے ہذیانی کلمات کا بول بالا کر کے رخصت ہو رہے ہیں ۔آپ سے گزارش ہے کہ اپنے فیصلے پہ نظر ثانی فرمائیے۔
اگر بوجوہ رخصت ہونا ہی ہے تو مجھے مجرم ٹھہرا کر نہ جائیے ہجران جمیل فرمائیے۔جزاک اللہ خیراً
 
محترمی و مشفقی آپ کا خط پڑھ کے رنج ہوا اور یہی تاثر ملا کہ آپ مجھ سے خفا ہو کر جا رہے ہیں،یوں نہ چاہیے حالانکہ میں نے وہ بات جس کا حوالہ آپ نے دیا ہے محض ان باتوں کے تسلسل میں کی ہے جو آپ کیا ہی کرتےہیں یعنی عوام سے گلہ اور عوام کا دکھ۔اسی نظم کے ذیل میں اس قسم کے ارشادات موجود ہیں :



میری یہ رائے بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے:



ظاہر سی بات ہے گلہ عوام سے کیاگیا ہے جو کہ غالب کو بھی اپنے لوگوں سے تھا اوپر شعر بھی نقل کیا۔ورنہ میں تو آپ کی شاعری شوق سے پڑھتا ہوں ،ہر ایک کاوش کو قریب قریب دس بار سے زیادہ دیکھتا ہوں اور میرے علاوہ خواص بھی شوق سے پڑھتے ہیں ایسا کلام ۔تبھی تو آپ کی نظم کو کلاسیکی کہا ،اس کا کلاسیکی ہونا ہی کافی ہے کہ کلاسیک میں تو خواص ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور کون پڑھتا ہے کو تو رہنے دیں قابل غور بات یہ ہے کہ اس طرز پہ لکھ کون سکتا ہے ،ظاہر سی بات ہے یہ رنگ اپنانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔اور پھر کوئی پڑھے نہ پڑھے آپ اپنا مطمح نظر بتا ہی چکے ہیں:
راز مل جاتی ہے فکروں سے نجات:
شاعری سے اور کچھ حاصل نہیں

اب جو آپ میرے بے لاگ تبصرے کو بنیاد بنا کر رخصت ہو رہے ہیں جو آپ کے اصرار پر کیا گیا تھاتو گویا خوشامد اور چاپلوسی واہ ،واہ ،چہ خوب ،زبردست جیسے ہذیانی کلمات کا بول بالا کر کے رخصت ہو رہے ہیں ۔آپ سے گزارش ہے کہ اپنے فیصلے پہ نظر ثانی فرمائیے۔
اگر بوجوہ رخصت ہونا ہی ہے تو مجھے مجرم ٹھہرا کر نہ جائیے ہجران جمیل فرمائیے۔جزاک اللہ خیراً
عزیز مکرم یاسر صاحب: سلام علیکم
آپ تردد نہ کریں۔ میرا وقت نکل چکا ہے اور اب نئے لوگوں کا زمانہ ہے ۔ اردو محفل میں میری ضرورت نہیں ہے۔ جہاں :شعرا : کم تعداد میں ہوں اور :اساتذہ ء کرام: بے تحاشہ زیادہ، وہ محفل مجھ جیسے کرم خوردہ، دقیانوسی لوگوں سے کیونکر مستفید ہو سکتی ہے؟ آپ نے وہ مثل ضرور سنی ہوگی کہ :تم گھوڑے کو پانی کےجوہڑ تک تو لے جا سکتے ہو، اسے پانی پینے پر مجبور نہیں کر سکتے:۔محفل کی یہی کیفیت ہے۔ جب کوئی سیکھنا نہ چاہے تو آپ اس کو اس کے حال پرچھوڑ دیں۔ اپنی عزت اپنے ہاتھ ہوتی ہے۔ بزرگوں سے یہی سیکھا ہے اور اسی کو سچ پایا ہے۔ محفل کے حق میں فلاح و بہبود کا خواستگار ہوں اوردعا گو بھی لیکن پر امید مطلق نہیں ہوں۔ جاتےجاتے ایک لطیفہ سن لیں۔
چند دن ہوئے میں نے سوچا کہ کسی تخلیق پر تبصرہ کروں تاکہ میرئ فکر کا کچھ اندازہ لوگوں کو ہو سکے چنانچہ ایک :استاد فن: کی غزل منتخب کی جس کی تعریف و توصیف میں کافی ڈونگرے برس رہے تھے۔ تین اشعار پر لکھ چکا تو اپنی تحریر پر دشمن کی نگاہ ڈالنے کو رکا اور اس فیصلہ پر پہنچا کہ اگر اسی صورت سے لکھتا رہا تو غزل کے سب کے سب اشعار قلم زد کرنے ہوں گے سوائے مقطع کے کہ :لیپا پوتی: کے بعد وہ قابل قبول ہو سکتا تھا! وہیں اصلاح سے ہاتھ اٹھایا اور کام بند کر دیا۔ جو لوگ :بھرتی کا لفظ: تلاش کرنے کو تنقید و تبصرہ کی ابتدا اور انتہا سمجھتے ہیں ان کو اپنی بات ذہن نشین کرانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اور میرا زنگ آلود تیشہ اس کام کے قابل اب نہیں رہا! اللہ آپ کو کامیاب مقاصد فرمائے۔
 

علی وقار

محفلین
میرا وقت نکل چکا ہے اور اب نئے لوگوں کا زمانہ ہے ۔
اب اس کا کیا علاج کہ ہمیں تو پرانے لوگ عزیز ہیں اور گزرا ہوا زمانہ۔ خفا ہونا یوں بھی آپ کا حق ہے۔ میری نظر میں آپ کا لکھا اب بھی متعلقہ ہے اور رہے گا۔ یوں ہی آتے جاتے رہیے اور گاہے گاہے خفگی کا اظہار کیجیے اور کبھی کبھار شفقت کا سلوک روا رکھیے۔ یقین جانیے کہ آپ کی ہلکی پھلکی ڈانٹ ڈپٹ بھی پیار کا انداز ہے اور اسے تبرک سمجھ کر قبول کیا جاتا ہے، یا قبول کیا جانا چاہیے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
عزیز مکرم یاسر صاحب: سلام علیکم
وعلیکم السلام مشفق و محترم
آپ تردد نہ کریں۔ میرا وقت نکل چکا ہے اور اب نئے لوگوں کا زمانہ ہے ۔
مجھے تردد نہیں یقین ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ دنیا کے لیے اور طلوع ہونے والا نیا دن زندگی کے لیے امید کی کرنیں ہیں۔جب وقت ختم ہوتا ہے تو ملک الموت لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرتا۔اللہ جل شانہ آپ کا سایہ سب کے سروں پہ تا دیر سلامت رکھے ۔ امید کسی قیمت پہ بھی ہارنی نہیں چاہیے کہ بقول اقبال :
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اردو محفل میں میری ضرورت نہیں ہے۔ جہاں :شعرا : کم تعداد میں ہوں اور :اساتذہ ء کرام: بے تحاشہ زیادہ، وہ محفل مجھ جیسے کرم خوردہ، دقیانوسی لوگوں سے کیونکر مستفید ہو سکتی ہے؟ آپ نے وہ مثل ضرور سنی ہوگی کہ :تم گھوڑے کو پانی کےجوہڑ تک تو لے جا سکتے ہو، اسے پانی پینے پر مجبور نہیں کر سکتے:۔محفل کی یہی کیفیت ہے۔ جب کوئی سیکھنا نہ چاہے تو آپ اس کو اس کے حال پرچھوڑ دیں۔ اپنی عزت اپنے ہاتھ ہوتی ہے۔ بزرگوں سے یہی سیکھا ہے اور اسی کو سچ پایا ہے
بے شک۔
چند دن ہوئے میں نے سوچا کہ کسی تخلیق پر تبصرہ کروں تاکہ میرئ فکر کا کچھ اندازہ لوگوں کو ہو سکے چنانچہ ایک :استاد فن: کی غزل منتخب کی جس کی تعریف و توصیف میں کافی ڈونگرے برس رہے تھے۔ تین اشعار پر لکھ چکا تو اپنی تحریر پر دشمن کی نگاہ ڈالنے کو رکا اور اس فیصلہ پر پہنچا کہ اگر اسی صورت سے لکھتا رہا تو غزل کے سب کے سب اشعار قلم زد کرنے ہوں گے سوائے مقطع کے کہ :لیپا پوتی: کے بعد وہ قابل قبول ہو سکتا تھا! وہیں اصلاح سے ہاتھ اٹھایا اور کام بند کر دیا۔ جو لوگ :بھرتی کا لفظ: تلاش کرنے کو تنقید و تبصرہ کی ابتدا اور انتہا سمجھتے ہیں ان کو اپنی بات ذہن نشین کرانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اور میرا زنگ آلود تیشہ اس کام کے قابل اب نہیں رہا! اللہ آپ کو کامیاب مقاصد فرمائے۔
آمین۔
آپ سے میری یہی گزارش ہے کہ فی الحال رخصت کا ارادہ کچھ عرصے کو ملتوی کر دیجیے۔میں بھی اپنی کاوشیں پیش کروں گا ان شاء اللہ ،آپ کے بے لاگ تبصروں کی مجھے ضرورت ہے اور اسی طرح کچھ اور احباب بھی جو آپ سے سیکھنا چاہتے ہیں انھیں محروم نہ فرمائیے۔
سرکشوں کی سزا پابندوں کو نہ دیجیے اور بے حسوں کی سزا احساس مندوں کو نہ دیجیے۔
جزاک اللہ خیر
 
وعلیکم السلام مشفق و محترم

مجھے تردد نہیں یقین ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ دنیا کے لیے اور طلوع ہونے والا نیا دن زندگی کے لیے امید کی کرنیں ہیں۔جب وقت ختم ہوتا ہے تو ملک الموت لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرتا۔اللہ جل شانہ آپ کا سایہ سب کے سروں پہ تا دیر سلامت رکھے ۔ امید کسی قیمت پہ بھی ہارنی نہیں چاہیے کہ بقول اقبال :
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

بے شک۔

آمین۔
آپ سے میری یہی گزارش ہے کہ فی الحال رخصت کا ارادہ کچھ عرصے کو ملتوی کر دیجیے۔میں بھی اپنی کاوشیں پیش کروں گا ان شاء اللہ ،آپ کے بے لاگ تبصروں کی مجھے ضرورت ہے اور اسی طرح کچھ اور احباب بھی جو آپ سے سیکھنا چاہتے ہیں انھیں محروم نہ فرمائیے۔
سرکشوں کی سزا پابندوں کو نہ دیجیے اور بے حسوں کی سزا احساس مندوں کو نہ دیجیے۔
جزاک اللہ خیر
مکرمی وقار صاحب و محبی یاسر صاحب: سلام علیکم
آپ کے خطوط کا ممنون ہوں۔ آپ مجھ کو شرمندہ کر رہے ہیں اور میں آپ کی بات ماننے کو اس شرمندگی کا تھوڑا بہت ازالہ سمجھتا ہوں۔ بہت شکریہ۔ میں محفل میں آتا رہوں گا اور گاہے گاہے کچھ لکھ بھی دیا کروں گا ۔ انشااللہ، کیالکھوں گا اور کیسے لکھوں گا اس کا فیصلہ وقت اور موضوع کر سکے گا۔ میری خواہش ہے کہ جو تھوڑا بہت بزرگوں سے حاصل کیا ہے وہ ضائع نہ جائے اور آنے والی نسل تک پہنچ جائے۔ سو کوشش کروں گا کہ اس مقصد میں کامیاب رہوں۔ آگے اللہ مالک ہے۔ وما توفیقی الا باللہ۔
 

یاسر شاہ

محفلین
مکرمی وقار صاحب و محبی یاسر صاحب: سلام علیکم
آپ کے خطوط کا ممنون ہوں۔ آپ مجھ کو شرمندہ کر رہے ہیں اور میں آپ کی بات ماننے کو اس شرمندگی کا تھوڑا بہت ازالہ سمجھتا ہوں۔ بہت شکریہ۔ میں محفل میں آتا رہوں گا اور گاہے گاہے کچھ لکھ بھی دیا کروں گا ۔ انشااللہ، کیالکھوں گا اور کیسے لکھوں گا اس کا فیصلہ وقت اور موضوع کر سکے گا۔ میری خواہش ہے کہ جو تھوڑا بہت بزرگوں سے حاصل کیا ہے وہ ضائع نہ جائے اور آنے والی نسل تک پہنچ جائے۔ سو کوشش کروں گا کہ اس مقصد میں کامیاب رہوں۔ آگے اللہ مالک ہے۔ وما توفیقی الا باللہمہک اٹھا ہے آنگن اس خبر سے
😀😀😀
مہک اٹھا ہے آنگن اس خبر سے
وہ خوشبو لوٹ آئی ہے سفر سے
جون ایلیا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اچھا شعر بھی عجیب شے ہوتا ہے۔ یہ اپنے الفاظ تو نہیں بدلتا لیکن اپنے معانی و مفاہیم ہر قاری پر اس کی داخلی کیفیات و تجربات کے مطابق الگ اور مختلف رنگ میں واضح کرتا ہے۔ اور یوں بھی ہوتا ہے کہ جو شعر کبھی کسی قاری کو عام سا لگتا ہے وہی شعر زندگی کےکسی اور مرحلے اور کیفیت میں دل و دماغ پر ایک بہت ہی گہرا رنگ اور تاثر چھوڑجاتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات کسی خاص ماحول اور کیفیت میں قاری پر اپنی پرتیں کچھ اس طرح سے بھی کھولتا ہے کہ جذبات و احساسات میں ایک تلاطم سا برپا ہوجاتا ہے۔ یعنی اچھا شعر ایک ایسے مشروب کے مانند ہوتا ہے کہ جس پیالے میں انڈیلو نہ صرف یہ کہ اُس کی شکل اور رنگ اختیار کرلیتا ہے بلکہ پینے والے کی کیفیت اور اس کے ماحول کی مناسبت سے اپنا ذائقہ بھی تبدیل کرلیتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ اچھا شعر ایک ایسا مضراب ہوتا ہے جو حسبِ حالات و کیفیات سازِ دل کے مختلف تاروں کو چھیڑ کر جذبات و احساسات کی فضا میں ہر دفعہ ایک سرودِ نو بکھیر دیتا ہے۔
سرور صاحب کی اس تاثراتی تخلیق نے بھی ایک ایسی ہی فضا میں جنم لیا کہ جب ایک خاص منظر میں غالبؔ کا ایک شعر اپنی تمام تر حدت و شدت کے ساتھ پردۂ تصور پر نمودار ہوا اور دل کے تار جھنجوڑ گیا۔ اس نظم کی کماحقہ تفہیم اور تنقیدی جائزے کے لیے اُس شعر اور اُس پس منظر کا جاننا بہت اہم ہے کہ جس کا ذکر شاعرنے تمہید میں کیا۔ بہتر ہوتا کہ نظم کے عنوان کے بعد قوسین میں کچھ اس طرح کا مختصر تمہیدی فقرہ بھی لکھ دیا جاتا جیسے علامہ اقبال نے اپنی نظم (۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی گود میں بلی دیکھ کر) میں لکھا تھا۔ بہرحال ، معلوم یہ ہوتا ہے کہ غالب کا مذکورہ شعر اس منظر اور کیفیت میں شاعر پر کچھ اس طرح سے وارد ہوا کہ گویا ابھی ابھی اسی واقعے کے لیے کہا گیا ہو۔ اور پھر اسی شعر کی جمالیاتی اور معنویاتی بنیاد پر اس نظم کے تار وپود بنے گئے۔ نہ صرف یہ کہ نظم اُسی بحر میں لکھی گئی بلکہ اس کا اختتام بھی غالبؔ کے اس شعر پر کیا گیا۔ اس بات کا منطقی تقاضا تھا کہ اس نظم میں حسنِ خود آرا سے تخاطب کا وہ اسلوب بھی استعمال کیا جائے جو غالبؔ نے اپنے شعر میں کیا۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ نظم غالبؔ کے شعر پر ایک طرح کی تضمین ہے۔ خوبصورتی اس کی یہ ہے کہ نظم کا پیرایہ اور شکوہِ الفاظ شعرِ غالبؔ کے شایانِ شان ہیں ۔ مجموعی طور پر نظم کی بنت اور بہاؤ ایسا ہے کہ غالبؔ کے شعر تک پہنچتے پہنچتے پڑھنے والے کو کوئی جھٹکا نہیں لگتا۔ اکثر مصاریع میں بندشِ الفاظ کا التزام ایسا رکھا گیا ہے کہ نہ صرف نظم کی مجموعی فضا اور رنگ برقرار رہتا ہے بلکہ غالبؔ کا شعر بھی آخر میں آکر اجنبی محسوس نہیں ہوتا۔
رنگ وخوشبو، شباب و رعنائی
عِشوہ و ناز و حسن و زیبائی
ہر تبسم طلسم ِ ہوش رُبا
ہر اَدا دُشمن ِ شکیبائی
بے نیازی سی بے نیا زی ہے!
خود تما شا ہے ، خود تماشائی
نظم کا آغاز بہت اعلیٰ ہے اور فوراً ہی قاری کی توجہ حاصل کرلیتا ہے۔ ان اشعار کی لفظیات اور بندش نفسِ مضمون کے مطابق اور ادائے مطلب میں کامیاب ہیں۔ محوِ آرائش دوشیزہ کے حسن و جمال کی مدح و تعریف بلکہ تعارف کے بعد پھر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے شاعر اپنے جذبات و احساسات کی اندرونی کشمکش اور اندیشوں میں گرفتار ہوگیا ہو۔ عین ممکن ہے کے ماضی کے تجربات اور قلبی وارداتیں جاگ اٹھی ہوں۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو گویا بزمِ ناز میں پاتا ہے اور اپنے تصور میں حسنِ بے پروا سے یکطرفہ مکالمہ شروع کردیتا ہے جو شکوہ آمیز بھی ہے اور اپنے قلبی احساسات کا عکاس بھی ۔

تیری بس اک نگاہِ اُلفت کا
اِک زمانہ ہوا ہےسودائی
ہر نظر بہرِ احترامِ حُسن
اُٹھ رہی ہے پئے پذیرائی
دِل ہے بے تاب و بے سُکون اِدھر
تو اُدھر محوِ بزم آرائی
چوتھے اور پانچویں اشعار پر مجھے مزید توجہ اور فکر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ نگاہِ الفت والے مصرع کی بندش میں بقیہ اشعار کی نسبتاً کچھ ناہمواری نظر آتی ہے۔ میری ناقص رائے میں "اک زمانہ ہوا ہے سودائی" کے بجائے" اک زمانہ ہوا تمنائی " نظم کے سیاق و سباق یعنی محولہ بالا منظر اور ماحول سے سے زیادہ مطابقت رکھے گا۔ سودائی ہونے کا عمل عموماً ایک طویل دورانیے اور مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد ظہور پذیر ہوتا ہے۔تمنائی کہنے سے بات اگلے شعر سے مربوط بھی ہوجاتی ہےکہ: "ہر نظر بہرِ احترامِ حسن ۔۔۔ اٹھ رہی ہے پئے پذیرائی"۔ یہاں ایک معمولی سا نکتہ یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ احترامِ حسن کی نسبت یہاں اعترافِ حسن کی ترکیب شاید زیادہ قرینِ حقیقت ہو کہ مذکورہ ماحول میں ہر نظر میں احترام کا ہونا محال ہے۔

میری محرومیاں کوئی دیکھے
عشق مجبور، حُسن ہر جائی
قلبِ مُضطر، نگاہِ آوارہ
بَن نہ جائیں دلیلِ رُسوائی
کُشتہ ٔراز ہائے ناز و نیاز
خود ہی اپنی شکست کی آواز
مندرجہ بالا اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب شاعر کے تصور میں ماضی کے تجربات و واردات جھلکنے لگے ہیں۔ یہ اشعار پہلی نظر کے عشق اور دو چار گھڑیوں کے نظارے کو بیان نہیں کرتے بلکہ ایک مدت کی محرومیوں اور ماضی کے تجربات کو منعکس کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں ایک دائمی قلبِ مضطر اور شکستگیِ جاں کا ذکر ہے۔ شاید کوئی بھولی ہوئی داستانِ محبت یاد کے دیچےپر دستک دینے لگی ہے۔ رازہائے ناز و نیاز کسک دینے لگے ہیں۔ ناکامیاں اور ان سے پیدا ہونے والے خوف جھلکنے لگے ہیں۔ حسنِ بے پروا کی پہلی نظر سے لے کر عشقِ مجبور کے جنونِ آخر تک کے مراحل اپنے تمام تر اندیشوں کے ساتھ دوبارہ شاعرکے دل ودماغ پر نمودار ہونے لگے ہیں۔ اور غالب کا یہ شعر اپنی تمام حدت و شدت کے ساتھ شاعر کے احساسات میں گونجنے لگا ہے کہ:
تو اور آرائشِ خمِ کاکل
میں اور اندیشۂ ہائے دور دراز!
 
آخری تدوین:

ارشد رشید

محفلین
یاسر صاحب اتنا خوبصورت تجزیہ کم ہی کم ہی پڑھنے کو ملتا ہے - آپ کی تحریر کا میں قائل ہوگیا - ماشااللہ
گو میں اس نظم کی یہ حیثیت ہر گز نہیں سمجھتا مگر آپ کی اردو پڑھ کر لطف آیا -
 
اچھا شعر بھی عجیب شے ہوتا ہے۔ یہ اپنے الفاظ تو نہیں بدلتا لیکن اپنے معانی و مفاہیم ہر قاری پر اس کی داخلی کیفیات و تجربات کے مطابق الگ اور مختلف رنگ میں واضح کرتا ہے۔ اور یوں بھی ہوتا ہے کہ جو شعر کبھی کسی قاری کو عام سا لگتا ہے وہی شعر زندگی کےکسی اور مرحلے اور کیفیت میں دل و دماغ پر ایک بہت ہی گہرا رنگ اور تاثر چھوڑجاتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات کسی خاص ماحول اور کیفیت میں قاری پر اپنی پرتیں کچھ اس طرح سے بھی کھولتا ہے کہ جذبات و احساسات میں ایک تلاطم سا برپا ہوجاتا ہے۔ یعنی اچھا شعر ایک ایسے مشروب کے مانند ہوتا ہے کہ جس پیالے میں انڈیلو نہ صرف یہ کہ اُس کی شکل اور رنگ اختیار کرلیتا ہے بلکہ پینے والے کی کیفیت اور اس کے ماحول کی مناسبت سے اپنا ذائقہ بھی تبدیل کرلیتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ اچھا شعر ایک ایسا مضراب ہوتا ہے جو حسبِ حالات و کیفیات سازِ دل کے مختلف تاروں کو چھیڑ کر جذبات و احساسات کی فضا میں ہر دفعہ ایک سرودِ نو بکھیر دیتا ہے۔
سرور صاحب کی اس تاثراتی تخلیق نے بھی ایک ایسی ہی فضا میں جنم لیا کہ جب ایک خاص منظر میں غالبؔ کا ایک شعر اپنی تمام تر حدت و شدت کے ساتھ پردۂ تصور پر نمودار ہوا اور دل کے تار جھنجوڑ گیا۔ اس نظم کی کماحقہ تفہیم اور تنقیدی جائزے کے لیے اُس شعر اور اُس پس منظر کا جاننا بہت اہم ہے کہ جس کا ذکر شاعرنے تمہید میں کیا۔ بہتر ہوتا کہ نظم کے عنوان کے بعد قوسین میں کچھ اس طرح کا مختصر تمہیدی فقرہ بھی لکھ دیا جاتا جیسے علامہ اقبال نے اپنی نظم (۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی گود میں بلی دیکھ کر) میں لکھا تھا۔ بہرحال ، معلوم یہ ہوتا ہے کہ غالب کا مذکورہ شعر اس منظر اور کیفیت میں شاعر پر کچھ اس طرح سے وارد ہوا کہ گویا ابھی ابھی اسی واقعے کے لیے کہا گیا ہو۔ اور پھر اسی شعر کی جمالیاتی اور معنویاتی بنیاد پر اس نظم کے تار وپود بنے گئے۔ نہ صرف یہ کہ نظم اُسی بحر میں لکھی گئی بلکہ اس کا اختتام بھی غالبؔ کے اس شعر پر کیا گیا۔ اس بات کا منطقی تقاضا تھا کہ اس نظم میں حسنِ خود آرا سے تخاطب کا وہ اسلوب بھی استعمال کیا جائے جو غالبؔ نے اپنے شعر میں کیا۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ نظم غالبؔ کے شعر پر ایک طرح کی تضمین ہے۔ خوبصورتی اس کی یہ ہے کہ نظم کا پیرایہ اور شکوہِ الفاظ شعرِ غالبؔ کے شایانِ شان ہیں ۔ مجموعی طور پر نظم کی بنت اور بہاؤ ایسا ہے کہ غالبؔ کے شعر تک پہنچتے پہنچتے پڑھنے والے کو کوئی جھٹکا نہیں لگتا۔ اکثر مصاریع میں بندشِ الفاظ کا التزام ایسا رکھا گیا ہے کہ نہ صرف نظم کی مجموعی فضا اور رنگ برقرار رہتا ہے بلکہ غالبؔ کا شعر بھی آخر میں آکر اجنبی محسوس نہیں ہوتا۔
رنگ وخوشبو، شباب و رعنائی
عِشوہ و ناز و حسن و زیبائی
ہر تبسم طلسم ِ ہوش رُبا
ہر اَدا دُشمن ِ شکیبائی
بے نیازی سی بے نیا زی ہے!
خود تما شا ہے ، خود تماشائی
نظم کا آغاز بہت اعلیٰ ہے اور فوراً ہی قاری کی توجہ حاصل کرلیتا ہے۔ ان اشعار کی لفظیات اور بندش نفسِ مضمون کے مطابق اور ادائے مطلب میں کامیاب ہیں۔ محوِ آرائش دوشیزہ کے حسن و جمال کی مدح و تعریف بلکہ تعارف کے بعد پھر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے شاعر اپنے جذبات و احساسات کی اندرونی کشمکش اور اندیشوں میں گرفتار ہوگیا ہو۔ عین ممکن ہے کے ماضی کے تجربات اور قلبی وارداتیں جاگ اٹھی ہوں۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو گویا بزمِ ناز میں پاتا ہے اور اپنے تصور میں حسنِ بے پروا سے یکطرفہ مکالمہ شروع کردیتا ہے جو شکوہ آمیز بھی ہے اور اپنے قلبی احساسات کا عکاس بھی ۔

تیری بس اک نگاہِ اُلفت کا
اِک زمانہ ہوا ہےسودائی
ہر نظر بہرِ احترامِ حُسن
اُٹھ رہی ہے پئے پذیرائی
دِل ہے بے تاب و بے سُکون اِدھر
تو اُدھر محوِ بزم آرائی
چوتھے اور پانچویں اشعار پر مجھے مزید توجہ اور فکر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ نگاہِ الفت والے مصرع کی بندش میں بقیہ اشعار کی نسبتاً کچھ ناہمواری نظر آتی ہے۔ میری ناقص رائے میں "اک زمانہ ہوا ہے سودائی" کے بجائے" اک زمانہ ہوا تمنائی " نظم کے سیاق و سباق یعنی محولہ بالا منظر اور ماحول سے سے زیادہ مطابقت رکھے گا۔ سودائی ہونے کا عمل عموماً ایک طویل دورانیے اور مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد ظہور پذیر ہوتا ہے۔تمنائی کہنے سے بات اگلے شعر سے مربوط بھی ہوجاتی ہےکہ: "ہر نظر بہرِ احترامِ حسن ۔۔۔ اٹھ رہی ہے پئے پذیرائی"۔ یہاں ایک معمولی سا نکتہ یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ احترامِ حسن کی نسبت یہاں اعترافِ حسن کی ترکیب شاید زیادہ قرینِ حقیقت ہو کہ مذکورہ ماحول میں ہر نظر میں احترام کا ہونا محال ہے۔

میری محرومیاں کوئی دیکھے
عشق مجبور، حُسن ہر جائی
قلبِ مُضطر، نگاہِ آوارہ
بَن نہ جائیں دلیلِ رُسوائی
کُشتہ ٔراز ہائے ناز و نیاز
خود ہی اپنی شکست کی آواز
مندرجہ بالا اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب شاعر کے تصور میں ماضی کے تجربات و واردات جھلکنے لگے ہیں۔ یہ اشعار پہلی نظر کے عشق اور دو چار گھڑیوں کے نظارے کو بیان نہیں کرتے بلکہ ایک مدت کی محرومیوں اور ماضی کے تجربات کو منعکس کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں ایک دائمی قلبِ مضطر اور شکستگیِ جاں کا ذکر ہے۔ شاید کوئی بھولی ہوئی داستانِ محبت یاد کے دیچےپر دستک دینے لگی ہے۔ رازہائے ناز و نیاز کسک دینے لگے ہیں۔ ناکامیاں اور ان سے پیدا ہونے والے خوف جھلکنے لگے ہیں۔ حسنِ بے پروا کی پہلی نظر سے لے کر عشقِ مجبور کے جنونِ آخر تک کے مراحل اپنے تمام تر اندیشوں کے ساتھ دوبارہ شاعرکے دل ودماغ پر نمودار ہونے لگے ہیں۔ اور غالب کا یہ شعر اپنی تمام حدت و شدت کے ساتھ شاعر کے احساسات میں گونجنے لگا ہے کہ:
تو اور آرائشِ خمِ کاکل
میں اور اندیشۂ ہائے دور دراز!
مکرمی ظہیر صاحب: تسلیمات! نظم پر آپ کا تبصرہ بہت دلچسپ اور جامع ہے اور میں اس کے لئے آپ کا ممنون ہوں- بوجوہ جوابات دینےسے فی الوقت قاصر ہوں-معذرت قبول کیجئے- ایک آدھ دن میں جواب دوں گا یا فون کر لوں گا-
 
Top