ایک معریٰ نظم - بے غََرض

ارشد رشید

محفلین
بے غََرض

وقت کو اس سے کو ئی غََرض ہی نہیں
کس پہ وہ کس طرح سے گزر تا رہا
کون اس کی وجہ سے سِمٹتا گیا
کون اس کی وجہ سے بکِھرتا رہا
کس کی منزل فقط اک قدم دور تھی
کس نے آغاز ہی بس کیا تھا ابھی
منتظر کون ہے اچھے وقتوں کا پھر
کس کی آنکھوں میں سپنے سجے ہیں ابھی
کون بیمار ، کسکو حَرض ہی نہیں
وقت کو اس سے کوئی غرض ہی نہیں
ٌ
کس کا با قی ہے کس کا گزر بھی چکا
کون زندہ ابھی کون مر بھی چکا
کون پیچھے رہا کون آگے گیا
کس کو آنا ہے اور کون جا بھی چکا
کس نے پا یا ہے کچھ ، کون کھو بھی چکا
کس کو ملنے ہیں غم کس کی باقی خوشی
اِس کے ذمے کسی کا عِوض ہی نہیں
وقت کو اس سے کوئی غََرض ہی نہیں
ٌ
وقت بے مہر ہے وقت ظالم ہے پر
ایسی باتوں کے شکوے سے کیا فائدہ
کوئی تدبیر اس کے ٹھہرنے کی ہو
آپ اپنے کو دھوکے سے کیا فائدہ
جو ابھی وقت ہے اس میں جی لیں ابھی
پاس اپنے تو کچھ اور ہے بھی نہیں
جاں لگا لو تو سب سے بڑا روگ ہے
بھول جاؤ تو یہ پھر مَرض ہی نہیں
وقت کو اس سے کوئی غَرض ہی نہیں

ارشد رشید
 

ارشد رشید

محفلین
جی سر میری معلومات کے مطابق وجہ کو
فِعْل اور فَعَل دونوں طرح سے باندھا جاسکتا ہے - عروض ڈاٹ کام بھی یہی کہتا ہے اور جن شعرا کو میں جانتا ہوں وہ بھی یہی کہتے ہیں - لیکن آپ سمجھتے ہیں کہ اسے صرف وج ہ باندھنا چاہیئے تو بتائیے میں ضرور مزید تحقیق کر کے مصرع بدل دوں گا - نوازش


 

علی وقار

محفلین
ارشد بھائی! عمدہ نظم ہے۔ تصورِ وقت کو بہت سے شاعروں نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ آپ کی یہ کاوش دیکھ کر مجھے مجید امجد مرحوم کی نظم امروز یاد آ گئی۔

ابد کے سمندر کی اک موج جس پر مری زندگی کا کنول تیرتا ہے
کسی ان سنی دائمی راگنی کی کوئی تان آزردہ آوارہ برباد
جو دم بھر کو آ کر مری الجھی الجھی سی سانسوں کے سنگیت میں ڈھل گئی ہے
زمانے کی پھیلی ہوئی بیکراں وسعتوں میں یہ دو چار لمحوں کی میعاد
طلوع و غروب مہ و مہر کے جاودانی تسلسل کی دو چار کڑیاں
یہ کچھ تھرتھراتے اجالوں کا رومان یہ کچھ سنسناتے اندھیروں کا قصہ
یہ جو کچھ کہ میرے زمانے میں ہے اور یہ جو کچھ کہ اس کے زمانے میں میں ہوں
یہی میرا حصہ ازل سے ابد کے خزانوں سے ہے بس یہی میرا حصہ
مجھے کیا خبر وقت کے دیوتا کی حسیں رتھ کے پہیوں تلے پس چکے ہیں
مقدر کے کتنے کھلونے زمانوں کے ہنگامے صدیوں کے صد ہا ہیولے
مجھے کیا تعلق میری آخری سانس کے بعد بھی دوش گیتی پہ مچلے
مہ و سال کے لا زوال آبشار رواں کا وہ آنچل جو تاروں کو چھو لے
مگر آہ یہ لمحۂ مختصر جو مری زندگی میرا زاد سفر ہے
مرے ساتھ ہے میرے بس میں ہے میری ہتھیلی پہ ہے یہ لبا لب پیالہ
یہی کچھ ہے لے دے کے میرے لیے اس خرابات شام و سحر میں یہی کچھ
یہ اک مہلت کاوش درد ہستی یہ اک فرصت کوشش آہ و نالہ
یہ صہبائے امروز جو صبح کی شاہزادی کی مست انکھڑیوں سے ٹپک کر
بدور حیات آ گئی ہے یہ ننھی سی چڑیاں جو چھت میں چہکنے لگی ہیں
ہوا کا یہ جھونکا جو میرے دریچے میں تلسی کی ٹہنی کو لرزا گیا ہے
پڑوسن کے آنگن میں پانی کے نلکے پہ یہ چوڑیاں جو چھنکنے لگی ہیں
یہ دنیائے امروز میری ہے میرے دل زار کی دھڑکنوں کی امیں ہے
یہ اشکوں سے شاداب دو چار صبحیں یہ آہوں سے معمور دو چار شامیں
انہی چلمنوں سے مجھے دیکھنا ہے وہ جو کچھ کہ نظروں کی زد میں نہیں ہے
 
جی سر میری معلومات کے مطابق وجہ کو
فِعْل اور فَعَل دونوں طرح سے باندھا جاسکتا ہے
سر فَعَل کا جواز تو تب پیدا ہوگا جب وَ+جْ+ہْ کا تلفظ وَ+جَ+ہْ درست بھی ہو. وجہ کو ج کے فتح کے ساتھ بولنا غلط العوام ہے...
عروض ڈاٹ کام بھی یہی کہتا ہے اور جن شعرا کو میں جانتا ہوں وہ بھی یہی کہتے ہیں
عروض ڈاٹ کام تو خیر کوئی سند نہیں، اس میں غلطی کا امکان رہتا ہے. آپ جن شعرا کا حوالہ دے رہے ہیں ان کا کچھ نمونۂ کلام عنایت کیجیے. میں نے تو کسی ثقہ شاعر کو وجہ ج کے فتح کے ساتھ استعمال کرتے نہیں دیکھا.
والسلام
 
آخری تدوین:
Top