ایک مشاہدہ

عظیم خواجہ

محفلین
مسلمان کب اور کس جگہ مرتا ہے اسکا اس کے اگلے جہان کے سفر سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر غسل خانے میں گر کر موت واقع ہو جائے تو بات تشویش کی حد تک معیوب ہوجاتی ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ موصوف غسل خانے میں ہی کیوں مرے وہ تو نجس جگہ ہوتی ہے۔ ہالانکہ وضو بھی وہیں انجام دیا جاتا ہے جسے ہم ان نازک لمحات میں "خدا خدا" کھیلنے کے چکر میں نظرانداز کر دیتے ہیں۔

غسل خانے میں گر کر جاں بحق ہونے والے کی مغفرت کے چنے بھی بڑی بے دلی سے پڑھے جاتے ہیں کہ وقت ضایع کرنے کا کیا فائدہ جانا تو انہیں وہیں ہے۰۰۰

جمعہ کے دن اللّہ کو پیارا ہونے والا مسلمان سبھوں کو ویسے ہی بہت پیارا ہوجاتا ہے کہ مرحوم مبارک دن گئے ہیں یقینا صدقہ خیرات کے پابند ہوں گے، چھپ چھپ کر عبادت بھی کیا کرتے ہوں گے ورنہ ہفتے سے لیکر جمعرات کے دن بھی تو تھے۔ سانس تو بدھ کو زیادہ اکھڑا ہوا لگ رہا تھا۔ جمعہ کی صبح تو خود چل کر غسل خانے گئےتھےاور کھچڑی بھی مانگی تھی۔ اسکے علاوہ اور بھی ایمان افروز باتیں ہوتی ہیں جو ابھی یاد نہیں آ رہیں۔

پتہ نہیں آپ کا تجربہ کیا بتاتا ہے لیکن میں نے تو یہی دیکھا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مرنے والے کی آخرت کی زندگی کے معیار اور آسودگی کا تعین جائے انتقال اور ہفتے یا مہینے کے دنوں کو مد نظر رکھ کر ہی کیا جاتا ہے اس لئے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے جانے کے بعد لوگ آپ کو اچھے ناموں سے یاد کریں تو عمر کے ایک خاص حصہ میں قدم رکھنے کے بعد غسل خانے میں سوچ سمجھ کر قدم رکھیں۔ وہاں خواہ مخواہ منڈلانے سےاجتناب برتیں۔ صرف ضرورت کی حد تک ہی وقت سرف کریں۔

اور ہاں! جانا تو ایک دن سب ہی کو ہے لیکن اگر کسی طرح جمعہ تک کھینچ سکتے ہیں تو آپ کے حق میں بہتر ہے۔
 
Top