ایک مختصرغزل

اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے۔
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، یاسر شاہ
اس شان سے وہ آج سوئے دار گیا ہے
مقتل نہیں وہ جیسے کوئے یار گیا ہے

منصور تھا پھر آج بھی منصف کے مقابل
پھر آج ستم جیت کے بھی ہار گیا ہے

اس زندگی کی قید سے آزاد ہو کے وہ
جینے کی سزا دے کے مجھے مار گیا ہے

تکلیف بھلا دیتی ہے مَے اس کو پرکھنے
مَے خانے میں پینے وہ کئی بار گیا ہے

نا قابلِ بخشش یہ ترا جرم ہے ساقی
مَے خانے سے جو بن پئے مَے خوار گیا ہے
 
اس شان سے وہ آج سوئے دار گیا ہے
مقتل نہیں وہ جیسے کوئے یار گیا ہے
دوسرے مصرعے کی روانی بہت مخدوش ہے، بلکہ بحر سے خارج ہی ہو رہا ہے کیونکہ کوئے یار کی واؤ کا اسقاط درست نہیں ۔۔۔ اس کے علاوہ نہیں اور جیسے کی ی بھی گرائی گئی ہیں ۔۔۔ ایک ہی مصرعے میں اتنے مقامات پر حروف کے اسقاط سے روانی مجروح ہوتی ہے ۔۔۔

اس زندگی کی قید سے آزاد ہو کے وہ
جینے کی سزا دے کے مجھے مار گیا ہے
پہلے مصرعے کو پھر دیکھیں، یہاں بھی حروف کے بے دریغ اسقاط کے سبب روانی متاثر ہو رہی ہے ۔۔۔ زندگی کی ی کو گرانا تو ویسے بھی ٹھیک نہیں ۔۔۔ اگر گرائی نہ جائے تو پھر بحر بدل جاتی ہے ۔۔۔

تکلیف بھلا دیتی ہے مَے اس کو پرکھنے
مَے خانے میں پینے وہ کئی بار گیا ہے
پہلا مصرع گنجلک ہے ۔۔۔ اس کے بعد بات کی کمی واضح کھل رہی ہے ۔۔۔ ظاہر ہے یہاں ایک مفروضے کو پرکھنے کا ذکر ہو رہا ہے مگر’’اس‘‘ کی ضمیر موجودہ ہیئت میں مے کی طرف لوٹ رہی ہےجس سے ابہام پیدا ہو رہا ہے۔
دوسرے مصرعے میں ’’پینے‘‘ کا ذکر بھرتی کا ہے ۔۔۔ پہلے مصرعے کے سیاق سے واضح ہے کہ مے خانے جانے کا مقصد پینا ہی ہوگا سو اس کے مکرر ذکر کی یہاں ضرورت نہیں ۔۔۔

نا قابلِ بخشش یہ ترا جرم ہے ساقی
مَے خانے سے جو بن پئے مَے خوار گیا ہے
پہلے مصرعے میں الفاظ کی ترتیب بدل دیں تو روانی بہتر ہو جائے گی اور جو معمولی سی تعقید ہے وہ بھی دور ہو جائے گی۔ (اگرچہ ناقابلِ بخشش کی ترکیب کچھ خاص نہیں لگتی)۔
اسی طرح دوسرے مصرعے میں مے کی تکرار سے بچیں گے تو شعر زیادہ بہتر ہو جائے گا۔ مثلا
ناقابلِ بخشش ہے ترا جرم یہ ساقی
در سے ترے جو بن پیے مے خوار گیا ہے
 
سر محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب!
بہت شکریہ سر! دوبارہ کوششش کی ہے۔ آپ سے نظر ثانی کی درخواست ہے۔
اس شان سے وہ آج سوئے دار گیا ہے
مقتل نہیں وہ جیسے کوئے یار گیا ہے
دوسرے مصرعے کی روانی بہت مخدوش ہے، بلکہ بحر سے خارج ہی ہو رہا ہے کیونکہ کوئے یار کی واؤ کا اسقاط درست نہیں ۔۔۔ اس کے علاوہ نہیں اور جیسے کی ی بھی گرائی گئی ہیں ۔۔۔ ایک ہی مصرعے میں اتنے مقامات پر حروف کے اسقاط سے روانی مجروح ہوتی ہے ۔۔۔
اس شان سے وہ آج سوئے دار گیا ہے
اک یار کے کُوچے میں کوئی یار گیا ہے
اس زندگی کی قید سے آزاد ہو کے وہ
جینے کی سزا دے کے مجھے مار گیا ہے
پہلے مصرعے کو پھر دیکھیں، یہاں بھی حروف کے بے دریغ اسقاط کے سبب روانی متاثر ہو رہی ہے ۔۔۔ زندگی کی ی کو گرانا تو ویسے بھی ٹھیک نہیں ۔۔۔ اگر گرائی نہ جائے تو پھر بحر بدل جاتی ہے ۔۔۔
جیون کی کٹھن قید سے آزاد ہو کے وہ
جینے کی سزا دے کے مجھے مار گیا ہے
تکلیف بھلا دیتی ہے مَے اس کو پرکھنے
مَے خانے میں پینے وہ کئی بار گیا ہے
پہلا مصرع گنجلک ہے ۔۔۔ اس کے بعد بات کی کمی واضح کھل رہی ہے ۔۔۔ ظاہر ہے یہاں ایک مفروضے کو پرکھنے کا ذکر ہو رہا ہے مگر’’اس‘‘ کی ضمیر موجودہ ہیئت میں مے کی طرف لوٹ رہی ہےجس سے ابہام پیدا ہو رہا ہے۔
دوسرے مصرعے میں ’’پینے‘‘ کا ذکر بھرتی کا ہے ۔۔۔ پہلے مصرعے کے سیاق سے واضح ہے کہ مے خانے جانے کا مقصد پینا ہی ہوگا سو اس کے مکرر ذکر کی یہاں ضرورت نہیں ۔۔۔
ملتا ہے سکوں مَے سے یہ بات پرکھنے
مَے خانے میں خورشید کئی بار گیا ہے

نا قابلِ بخشش یہ ترا جرم ہے ساقی
مَے خانے سے جو بن پئے مَے خوار گیا ہے
پہلے مصرعے میں الفاظ کی ترتیب بدل دیں تو روانی بہتر ہو جائے گی اور جو معمولی سی تعقید ہے وہ بھی دور ہو جائے گی۔ (اگرچہ ناقابلِ بخشش کی ترکیب کچھ خاص نہیں لگتی)۔
اسی طرح دوسرے مصرعے میں مے کی تکرار سے بچیں گے تو شعر زیادہ بہتر ہو جائے گا۔ مثلا
ناقابلِ بخشش ہے ترا جرم یہ ساقی
در سے ترے جو بن پیے مے خوار گیا ہے
آپ کا متبادل بہتر ہے شکریے کے ساتھ!
 

الف عین

لائبریرین
اصل میں دو بحور میں کنفیوژن ہے خورشید کو۔ ثانی مصرعے مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن میں ہیں، اور اولی اس کے ساتھ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن /فاعلات یا آدھے آدھے دونوں میں
سوئے دار کی واو کا اسقاط بھی غلط ہے مطلع کے پہلے مصرعے میں
دونوں تبدیل شدہ اشعار بحر سے خارج ہو گئے ہیں
"ملتا ہے سکوں مے سے" کے بعد کوما ضرور لگایا جائے، "یہ" کو "یہی" سے بدلنے سے درست ہو جاتا ہے یہ شعر۔ مگر باقی اشعار درست نہیں
 
اصل میں دو بحور میں کنفیوژن ہے خورشید کو۔ ثانی مصرعے مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن میں ہیں، اور اولی اس کے ساتھ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن /فاعلات یا آدھے آدھے دونوں میں
سوئے دار کی واو کا اسقاط بھی غلط ہے مطلع کے پہلے مصرعے میں
دونوں تبدیل شدہ اشعار بحر سے خارج ہو گئے ہیں
"ملتا ہے سکوں مے سے" کے بعد کوما ضرور لگایا جائے، "یہ" کو "یہی" سے بدلنے سے درست ہو جاتا ہے یہ شعر۔ مگر باقی اشعار درست نہیں
سر الف عین بہت شکریہ!
میں نے تو پوری غزل
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
میں ہی کہنے کی کوشش کی ہے۔
یہ کو یہی سے تبدیل کرنے سے بحر ٹھیک ہو گئی یہ واقعی مجھ سے غلطی ہوئی تھی۔
در اصل پہلے میں نے تصحیح ایسے کی تھی کہ
مے غم کو بھلا دیتی ہے یہ بات پرکھنے
بعد میں اسے
ملتا ہے سکوں مَے سے یہ بات پرکھنے ۔۔۔ کردیا تو یہ غلطی ہو گئی
واؤ کے اسقاط کے علاوہ کہاں غلطی ہے اگر اصلاح فرمادیں تو مہربانی ہوگی۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
جیون کی کٹھن قید سے آزاد ہو کے وہ
جینے کی سزا دے کے مجھے مار گیا ہے
شعر میں بھی "آزاد ہکے وو" تقطیع ہونا غلط ہے، "ہو ک وہ" فاعلات ہو جاتا ہے
 
جیون کی کٹھن قید سے آزاد ہو کے وہ
جینے کی سزا دے کے مجھے مار گیا ہے
شعر میں بھی "آزاد ہکے وو" تقطیع ہونا غلط ہے، "ہو ک وہ" فاعلات ہو جاتا ہے
سر الف عین بہت شکریہ!ایک دفعہ پھر نظر ثانی کی درخواست ہے۔
جیون کی کٹھن قید سے آزاد وہ ہو کے
جینے کی سزا دے کے مجھے مار گیا ہے
سر بعض الفاظ دونوں اوزان (1 اور 2 ) میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جیسے کو ، کا، وغیرہ لیکن یہاں ہو کا (1) میں استعمال آپ نے منع فرمایا ہے۔ تو اس کے لیے کوئی کلیہ بنایا جا سکتا ہے؟
اب پھر میں نے وہ کو (1) وزن کے ساتھ استعمال کیا ہے تو کیا یہ درست ہو گا؟
 

الف عین

لائبریرین
یہ اب درست ہے، یہاں ہو بھی بر وزن فع ہے۔ کلیہ یہ بنایا جا سکتا ہے کہ جہاں ہو ایسے لفظ کے ساتھ ہو کہ دونوں ایک ہی لفظ کے طور پر استعمال ہوتے ہوں، وہاں "ہو "دو حرفی باندھا جائے، جیسے ہو گا، ہو کر، ہونا
وہ یک حرفی درست ہے
 
یہ اب درست ہے، یہاں ہو بھی بر وزن فع ہے۔ کلیہ یہ بنایا جا سکتا ہے کہ جہاں ہو ایسے لفظ کے ساتھ ہو کہ دونوں ایک ہی لفظ کے طور پر استعمال ہوتے ہوں، وہاں "ہو "دو حرفی باندھا جائے، جیسے ہو گا، ہو کر، ہونا
وہ یک حرفی درست ہے
سر الف عین بہت شکریہ!
 
Top