ایک لمبی تمہید !

نور وجدان

لائبریرین
اُردو محفل کی شراکت کو دو برس بیت گئے مگر آج تک اُردو کی کِسی کتاب کو پڑھنا نصیب نہیں ہوا ۔ کل جانے کیوں دل میں شہاب نامہ پڑھنے کی ُسوجی ۔ شہاب نامہ کو بچپنے میں پڑھا تھا اس لیے سوچا کہ اِسکو دوبارہ پڑھا جائے ۔ گوگل نے ساتھ ممتاز مفتی کے آپشنز پیش کیے ۔دونوں کی کتابیں کھولیں ۔ممتاز مفتی کی 'تلاش' اور لبیک ۔۔جبکہ قدرت کی شہاب نامہ ۔۔۔۔۔۔۔''تلاش' سے بس ایک ہی بات اخذ کرسکی

'' اگر کائنات کی خوبصورتی ہمارے ذہن کے بند دریچوں پر وا ہونے لگ جائے تو ہمیں اللہ تعالیٰ کا جلوہ ہوجائے اور اگر اللہ کا جلوہ ہوجائے تو خوبصورتی عدم ہوجائے ''

اس لیے سُوچا کہ مفتی کی ' لبیک ' پڑھوں ۔ میں نے اس کتاب کے بارے سُن رکھا تھا کہ مفتی نے ''خانہ کعبہ '' کو کوٹھا کہا ہے ۔ ابتدا میں مفتی کے دل میں حج کی خواہش بیدار کی جاتی ہے اور اس خواہش میں تڑپ ، اضطراب ، بے چینی ڈالی جاتی ہے ۔ اس اضطراب سے مایوسی کی جانب بڑھتے مفتی کو جیسے یہ صدا سنائی دیتی ہو

'' لا تقنطو '' اسی صدا کے ساتھ جانب مدینہ و مکہ روانہ ۔۔۔ اپنے دل کے سارے شکوے رکھے ، ذات کا کتھارسز کرتے ، لوگوں کی حالت پر تبصرہ کرتے مفتی حج کب کرتے ہیں۔ اپنے نفس کی غلاظتیں -------- سچ ہے کہ جسے اپنے اندر کا رنگ نظر آجائے وہ کسی اور کی جانب متوجہ نہیں ہوتا مگر مفتی دوسرے زائرین کے رنگوں پر توجہ رکھے ہوئے ہے ساتھ میں خود کی کثافتیں بھی بتانے پر بضد ہے ۔ اللہ سے ضد ہو جیسے ، اللہ سے مقابلہ ہو جیسے ، اللہ کو بُلایا ہو جیسے ہم کسی دوست ، یار کو بڑے کھُلے انداز میں پُکارتے ہیں ۔ 'خانہ کعبہ '' کو بت بنانا ، اس بت کے اوپر بیٹھنے والے کو کوٹھے والے کہنا۔۔۔ ذہن میں سوال کلبلائے کہ چلو مفتی نے کوٹھے والے کہا تو کس لیے کہا ہوگا ؟ کیا صنم خانے کا خریدار ہے اس لیے؟ شاید لوگوں نے دلوں میں صنم بنائے ہوئے ہیں اور اس کو صنم مانتے ، اپنے اپنے صنم کے دکھڑے روتے ہیں ۔۔ شاید وہ ان کو انکو غرض کے مطابق عطاکرتا ہوگا ، اس لیے مگر یہ ایک مفروضہ ٹھہرا ۔ جانے مفتی کے ذہن میں کیا تھا !

حج کے بارے میں ایک بڑی حقیقت مفتی سامنے لاتا ہے کہ حج کے ارکان ادا کرنے سے حج کا فریضہ پورا ہوجاتا ہے مگر حج دراصل سرشاری ہے ، جذبہ ہے ، کیفیت ہے ، سرور ہے ، مستی ہے ، بت ہے ۔ شاید مستی ، جمود ، سکتہ جیسی کیفیتات احساس کو مفلوج کردیتی ہوں گی اور بت کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہوگی ۔۔شاید ! پاکستان کے بارے میں ایڈووکیٹ کے حقائق کو سامنے لاتے صدر ایوب کے متعلق ''اللہ کے بندوں '' کی کانفرنس ہونا باعث حیرت ہے۔

سفر یونہی قدرت اللہ شہاب ، مفتی ، ایوب ، ایڈوکیٹ ، صدر ایوب اور لوگوں کے حال کے متعلق گھومتے حج کے بارے ، مدینے ، مکے کی سڑکوں کے بارے میں بتاتا ہے ۔ راقم بھی کچھ تجسس تھا کہ کوئی ایسی بات جو دل پر لگ جائے ، جس سے کتاب پڑھنے کا حاصل نصیب ہو ، محروم رہی ! خیر یہ کتاب ''علی پور کے ایلی '' سے بہتر لکھی گئی ۔ علی پور کے ایلی سر سے گزر گئی ۔ ممتاز مفتی پیاز کے چھلکے کی طرح اپنے ذہن کے پرت در پرت اتارتے نظر آئے اور جب سب سے نیچے کی پرت میں ''شوق'' رکھا تھا جو کہ بچے کے پاس ہوتا ہے ۔ بچہ شوق میں نئے چیز کھولتا ، سوال کرتا ہے ، مفتی میں مجھے وہی بچہ نظر آیا جس نے اپنے شوق کو دبا کے اتنا نیچے رکھ دیا تھا جب اس کو اس کی یاد آئی تو احساس کمتری در آئی ۔ احساس کمتری کا شوق کے ساتھ کوئی جوڑ بنتا نہیں ہے یا کہ لیں جدید دور میں شوق کو احساسِ کمتری سے ماورا نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لیے مفتی کی 'لبیک ' بھی قدرت کو مثالی ثابت کرتے ، مفتی کو نیچا دکھاتے سمجھ آئی ۔ ان دونوں ہستیوں کو یکجا کرتے دیکھا جائے تو دونوں ایک دوسرے کا آئنہ تھا مگر باخبر تھے مگر انجان بننے کی اداکاری میں مصروف تھے ۔


قاری کی حیثیت سے مجھے اُردو ادب سے ایک شکوہ کرنا ہے ۔اُردو ادب کے مقابلے فارسی ادب میں جو خیال کی بُلندی ہے ، زبان میں چاشنی گھُلی ہے ، بیان میں جو مٹھاس ہے ، شوق میں جو شرار ہے ، قلم میں جو رفتار ہے وہ اردو ادب میں کہیں کہیں دکھی ملتی ہے جیسے ذہین شاہ کا کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا عنایت شاہ کا، بیدم وارثی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمدہ انداز میں ، بڑی بات چھوٹے سے پیرائے میں کرنے کے عادی ۔۔۔ میں نے ارادہ کیا ہے اب اردو ادب کو پڑھنا شروع کروں اس لیے آپ سے تجاویز درکارہیں کہ کن چیزوں ، کتابوں ، اصحاب کو پڑھوں ، اور ساتھ پڑھنے کا اسباب بھی قلم بند کردیں تو مہربانی ہوگی ۔
 

آوازِ دوست

محفلین
ممتاز مفتی ایک شرارتی بچہ ہے جو بڑوں کو اپنی شرارتوں سے محظوظ ہوتا دیکھ کر اور زیادہ شرارتیں کرتا ہے۔ عموما" ایسی صورتِ حال میں جب بچے اوور ڈو کرتے ہیں تو اُنہیں روکا جاتا ہے اور پھر بھی نہ رُکنے پر اُن کی پٹائی بھی ہو جاتی ہے۔ کُچھ بچے مگر استثنٰی رکھتے ہیں وہ کُچھ بھی کرتے رہیں بڑے اُن کی حرکتوں سے خوش ہی ہوتے ہیں اُنہیں ڈس کرج نہیں کرتے ممتاز مفتی ایک ایسا ہی بچہ ہے جو وہ کہتا ہے اُس پر اُس سے کوئی ناراض نہیں ہوتا بلکہ اُس پر اور زیادہ لاڈ آتا ہے۔ دیکھو تو صاف صاف اپنے من کی بات کہہ رہا ہے، دیکھو اس کے دِل میں کوئی کھوٹ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ چیز مگر اُس کےلیے مخصوص ہے آپ کبھی اسے ٹرائی مت کریں۔ وہ آٹوگراف کے لیے خود کو گھیرے ہوئے مہ جبینوں کے جھُرمٹ میں بیٹھ کر یہ کہتا ہے "جب دانت تھے تو بادام نہیں تھے اب بادام ہیں تو دانت نہیں" کسی کو بُرا نہیں لگتا۔ اُسے آگ سے محفوظ فاصلے پر رکھا گیا مگر اُس کی مرضی کے خلاف وہ فقط آنکھیں سینک سکا جب وہ پورا جلنا چاہتا تھا۔ جو چاہ کے بھی سُدھر نہ سکے اور چاہ کے بھی بگڑ نہ سکے وہ ممتاز مُفتی ہے۔ وہ اپنی نادیدہ مجبوریوں کی یہی جھلاہٹ اور فرسٹریشن باہرنکالنا چاہتا ہے تو ایسی باتیں کہتا اور لکھتا ہے کہ اُسے منصور کی طرح اُس کی خطاؤں پر سزا مل جائے مگر یہاں بھی فقط وہی ہوتا ہے جو وہ نہیں چاہتا ۔ یہ مفتی کی دُنیا ہے۔ یہاں اور کہانی ہے۔ وہ غلاظتیں لکھتا ہے مگر اُس کے حرفوں میں سے خوشبو آتی ہے۔ یہاں کوئی کُچھ نہیں کر سکتا حتٰی کہ مفتی خود بھی آپ اپنی ذات کا تماشا ہے۔ مفتی شریر بچوں کی استثنٰی کا نام ہے۔
ادب میں شائد سلیکشن ممکن نہیں ہوتی کیوں کہ ادب ہے ہی وہی جو آپ کے دِل میں گھر کر جائے سو اِس چکر میں مت پڑیں کہ کیا پڑھنا چاہیے اور کیا نہیں بس جو اچھا لگے اُسے زیادہ پڑھیں اور جو اچھا نہ لگے اُسے کم :)
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
ادب میں سیلکشن نہیں ہوتی مگر رائے دینے میں حرج ہی کیا ہے؟ سوچ کو سمت مل جاتی ہے ۔۔۔ !

مفتی صاحب کو منصور سے ملاکے زیادتی کردی ہے۔منصور جیسا کوئی نہیں اور مفتی جیسا بھی کوئی نہیں ۔ منصور کا گُناہ بڑا تھا ، جرم بڑا ہو تو شرارت پر سزا مل جاتی ہے ۔ اس لیے سزا ملی ۔ ابھی تک سوچتی ہوں سرمد کو کیوں سزا ملی ؟

میرا ذاتی خیال ہے کتھارسز کے بعد اصل نکھر آتا ہے ! شوق خالص ہوتا ہے ! مجھے شکوہ ہے کہ شوق کو دوسرے شعوری احساس سے جوڑنا لاشعوری کیسے ہوگیا ! آپ بیتی ایک ایسا موضوع ہے جہاں پر جذبات کے رنگ تصویر میں زیادہ کھلتے ہیں جبکہ اس آپ بیتی میں جذبات کی کیمیاگری نہیں کی گئی ۔کیمیاگری بھی شاید ودیعت کردہ ہوتی ہے ،بندہ کہاں اس قابل کے نگار خانے میں خود سے اضافہ کرے ۔اللہ تعالیٰ کو ایک ایسا مفتی منظور تھا جس کی روح میں مامتا کی مٹھاس تو تھی مگر اس کے شعوری احساس میں چھپی رہی ۔۔ کوئی آگ میں جلایا جاتا ہے ،کسی کو بس مشاہدہ کرایا جاتا ہے !
 

فلک شیر

محفلین
اردو کی سو بہترین کتابوں کی یہ ایک فہرست ہے، اس سے بہت حد تک اختلاف ممکن ہے کہ اس میں ممتاز مفتی، بانو قدسیہ، شہاب نامہ، وغیرہ کا ذکر نہیں ہے ، لیکن پھر بھی کم از کم اس سے بہت سی کتابوں کا علم ہو جاتا ہے۔
ابھی تک گلافتاب کے نہ پڑھ پانے کی بڑی کسک ہے :)
 

محمد وارث

لائبریرین

نور وجدان

لائبریرین
اردو کی سو بہترین کتابوں کی یہ ایک فہرست ہے، اس سے بہت حد تک اختلاف ممکن ہے کہ اس میں ممتاز مفتی، بانو قدسیہ، شہاب نامہ، وغیرہ کا ذکر نہیں ہے ، لیکن پھر بھی کم از کم اس سے بہت سی کتابوں کا علم ہو جاتا ہے۔

ابھی لسٹ دیکھ رہی ہوں تعجب کی بات ہے کہ اردو انگریزی لغات بھی پسندیدہ کتب کے زمرے میں ہے ۔ آپ کو ممتاز مفتی اور شہاب صاحب کے اسلوب میں کیا فرق دکھتا ہے؟ حیرت کی بات ہے اشفاق صاحب کا نام نہیں لیا ۔۔۔ اکثر لوگ لیتے نظر آتے ہیں
سرمد کاشانی کی سزا ایک سیاسی سزا تھی۔ اس کا قصور یہ تھا کہ وہ دارا شکوہ کا مصاحب تھا، باقی الحاد و زندقہ کے الزام تو بس اس سزا کو "جسٹیفائی" کرنے کے لیے تھے۔

جو موت سرمد کو نصیب ہوئی وہ منصور کے حصے میں بھی نہیں آئی ، اس لیے اس کے پیچھے سیاست کے علاوہ کوئی اور محرک لگتا ہے ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ابھی لسٹ دیکھ رہی ہوں تعجب کی بات ہے کہ اردو انگریزی لغات بھی پسندیدہ کتب کے زمرے میں ہے ۔ آپ کو ممتاز مفتی اور شہاب صاحب کے اسلوب میں کیا فرق دکھتا ہے؟ حیرت کی بات ہے اشفاق صاحب کا نام نہیں لیا ۔۔۔ اکثر لوگ لیتے نظر آتے ہیں۔

جو موت سرمد کو نصیب ہوئی وہ منصور کے حصے میں بھی نہیں آئی ، اس لیے اس کے پیچھے سیاست کے علاوہ کوئی اور محرک لگتا ہے ۔
اگر آپ بغور فہرست دیکھیں تو اشفاق احمد کی سفر در سفر موجود ہے۔ باقی زاویہ وغیرہ نہیں ہے تو ٹھیک ہی ہے۔ جس اردو انگریزی لغت پر آپ تعجب کا اظہار کر رہی ہیں وہ فقط آپ کا اس شاہکار سے ناواقفیت کی وجہ سے ہے اور یہ کہنے کی ضرورت تو شاید نہیں کہ کسی زبان کی لغات اس زبان کی ترویج و ترقی میں ایک سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہیں۔

سرمد کے بارے میں آپ کا تبصرہ سمجھ نہیں سکا، بہتر ہوگا کہ آپ پہلے سرمد کی موت کے بارے میں کچھ مطالعہ کر لیں، شیخ محمد اکرام نے اپنی کوثر سیریز میں کافی کچھ لکھا ہے، مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک کتاب بھی ہے اس موضوع پر۔
 

اکمل زیدی

محفلین
میرے قلیل علم میں اک کتاب کا نام ھے پڑھیے گا ۔ ۔ ۔ رجب علی خیاط صاحب کی "کیمیا محبت" فارسی میں ھے اردو ترجمہ بھی ہو چکا ھے "اور میں نے خدا کو پالیا" کر کے نام ھے ۔ شاید ۔ ۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اگر آپ بغور فہرست دیکھیں تو اشفاق احمد کی سفر در سفر موجود ہے۔ باقی زاویہ وغیرہ نہیں ہے تو ٹھیک ہی ہے۔ جس اردو انگریزی لغت پر آپ تعجب کا اظہار کر رہی ہیں وہ فقط آپ کا اس شاہکار سے ناواقفیت کی وجہ سے ہے اور یہ کہنے کی ضرورت تو شاید نہیں کہ کسی زبان کی لغات اس زبان کی ترویج و ترقی میں ایک سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہیں۔

سرمد کے بارے میں آپ کا تبصرہ سمجھ نہیں سکا، بہتر ہوگا کہ آپ پہلے سرمد کی موت کے بارے میں کچھ مطالعہ کر لیں، شیخ محمد اکرام نے اپنی کوثر سیریز میں کافی کچھ لکھا ہے، مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک کتاب بھی ہے اس موضوع پر۔

شکریہ لغت کے بارے میں معلومات فراہم کیں ۔ اگر میری لغت اچھی ہوتی تو شاید ایسا تبصرہ پڑھنے پر آپ خود کو مجبور نہ پاتے ۔جی فہرست کو میں دیکھ کے ساتھ سرچ کررہی تھی اس لیے نظر انداز ہوگئی ۔

میری نا اہلی کہیے کہ شاید ان دو کتب سے ہاتھ صاف کرنے کے بعد ان اسباب کو جان نہیں سکی جس کی وجہ سے آپ نے ان کو بطور حوالہ پیش کیا ہے ۔

میرے کہنے کا مقصد تھا کہ منصور نے کوئی دعوی کیا تھا جبکہ سرمد کا کوئی ایسا دعوی نہیں تھا ۔منصور نے ''انا لحق '' کہا جبکہ سرمد نے کلمے کو پڑھنے سے انکار کیا ۔کوئی ایسا دعوی نہیں کیا تھا
 

نور وجدان

لائبریرین
میرے قلیل علم میں اک کتاب کا نام ھے پڑھیے گا ۔ ۔ ۔ رجب علی خیاط صاحب کی "کیمیا محبت" فارسی میں ھے اردو ترجمہ بھی ہو چکا ھے "اور میں نے خدا کو پالیا" کر کے نام ھے ۔ شاید ۔ ۔۔


بہت شکریہ سب سے پہلے ایسی کتاب کو تجویز کرنے کا۔ میں اس کو ڈھونڈ تو رہی ہوں ۔۔ اس نام کی کتاب کا ایک صفحہ نمودار ہوا فیس بک پر گوگل کرنے پر بس ۔۔''پھر میں نے خُدا کو پالیا '' بازار میں دستیاب ہے ؟ عنوان اچھا معلوم ہوتا ہے کچھ آپ بتایے ۔اگر یہ باہر سے ملتی ہوں تو پبلشر کا نام بتادیں ۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ لغت کے بارے میں معلومات فراہم کیں ۔ اگر میری لغت اچھی ہوتی تو شاید ایسا تبصرہ پڑھنے پر آپ خود کو مجبور نہ پاتے ۔جی فہرست کو میں دیکھ کے ساتھ سرچ کررہی تھی اس لیے نظر انداز ہوگئی ۔

میری نا اہلی کہیے کہ شاید ان دو کتب سے ہاتھ صاف کرنے کے بعد ان اسباب کو جان نہیں سکی جس کی وجہ سے آپ نے ان کو بطور حوالہ پیش کیا ہے ۔

میرے کہنے کا مقصد تھا کہ منصور نے کوئی دعوی کیا تھا جبکہ سرمد کا کوئی ایسا دعوی نہیں تھا ۔منصور نے ''انا لحق '' کہا جبکہ سرمد نے کلمے کو پڑھنے سے انکار کیا ۔کوئی ایسا دعوی نہیں کیا تھا
سرمد پر الزام تھا کہ وہ صرف آدھا کلمہ پڑھتا ہے، یعنی بس لا الہ اور جو کہ کلمہ کفر ہے۔ اُس سے پوچھا گیا تو اُس نے کہا کہ ابھی تک اسی کے اسرار میں گم ہوں، یہاں سے نکلوں گا تو باقی بھی پڑھ لوں گا۔ دوسرا الزام یہ تھا کہ وہ ننگ دھڑنگ رہتا ہے، اس کے جواب میں اُس نے عالمگیر کو ایک دردناک رباعی لکھ کر بھیج دی تھی۔ مؤرخین و محققین کا خیال ہے، شیخ اکرام اور مولانا آزاد دونوں، کہ سرمد کے قتل کی اصل وجہ اس کے دارا شکوہ کے ساتھ تعلقات تھے۔ دارا شکوہ عالمگیر کا صوفی منش بھائی تھا، لیکن بہرحال شہزادہ تھا سو عالمگیر کے دیگر بھائیوں کی طرح وہ بھی عالمگیر کے ہاتھوں قتل ہوا اور اُس کا مصاحب سرمد بھی۔
 

نور وجدان

لائبریرین
سرمد پر الزام تھا کہ وہ صرف آدھا کلمہ پڑھتا ہے، یعنی بس لا الہ اور جو کہ کلمہ کفر ہے۔ اُس سے پوچھا گیا تو اُس نے کہا کہ ابھی تک اسی کے اسرار میں گم ہوں، یہاں سے نکلوں گا تو باقی بھی پڑھ لوں گا۔ دوسرا الزام یہ تھا کہ وہ ننگ دھڑنگ رہتا ہے، اس کے جواب میں اُس نے عالمگیر کو ایک دردناک رباعی لکھ کر بھیج دی تھی۔ مؤرخین و محققین کا خیال ہے، شیخ اکرام اور مولانا آزاد دونوں، کہ سرمد کے قتل کی اصل وجہ اس کے دارا شکوہ کے ساتھ تعلقات تھے۔ دارا شکوہ عالمگیر کا صوفی منش بھائی تھا، لیکن بہرحال شہزادہ تھا سو عالمگیر کے دیگر بھائیوں کی طرح وہ بھی عالمگیر کے ہاتھوں قتل ہوا اور اُس کا مصاحب سرمد بھی۔

داراشکوہ کا کردار مورخین نے متنازعہ بنادیا ہے ۔دار کا کردار مزاج میں صوفی ہی سہی مگر سننے میں آیا ہے کہ تخت نشینی کی جنگ بھی اسی نے شروع کی تھی ۔ دارا کے تو بہت سے صوفیوں کے ساتھ تعلقات تھے، تحائف ، مصاحبت کے سلاسل تھے ، یعنی صوفی منش بندہ تھا تو ایک سرمد ہی کیوں؟ بس یہی بات سمجھ نہیں آئی ۔ اورنگ زیب نے سبھی صوفیوں کو قتل نہیں کیا تھا ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
داراشکوہ کا کردار مورخین نے متنازعہ بنادیا ہے ۔دار کا کردار مزاج میں صوفی ہی سہی مگر سننے میں آیا ہے کہ تخت نشینی کی جنگ بھی اسی نے شروع کی تھی ۔ دارا کے تو بہت سے صوفیوں کے ساتھ تعلقات تھے، تحائف ، مصاحبت کے سلاسل تھے ، یعنی صوفی منش بندہ تھا تو ایک سرمد ہی کیوں؟ بس یہی بات سمجھ نہیں آئی ۔ اورنگ زیب نے سبھی صوفیوں کو قتل نہیں کیا تھا ۔
جی میں نے عرض کیا کہ شہزادہ تو وہ بھی تھا۔ تخت کی جنگ میں عالمگیر کے ہاتھوں دیگر بھائی بھی مارے گئے، دارا شکوہ بھی شامل تھا۔ دارا شکوہ کئی ایک صوفیانہ کتابوں کا مصنف بھی ہے۔ اور عالمگیر نے اپنے درباری ملاؤں کو بھیجا تھا سرمد کے پاس، اُس کے جواب سن کر پھڑکا دیا، آخر بادشاہ تھا۔ صوفیوں کو تو چھوڑیے اس نے تو طبلے سارنگی کو بھی دفن کروا دیا تھا۔ بقول ابنِ انشا عالمگیر نے نہ کوئی نماز چھوڑی اور نہ کوئی بھائی چھوڑا۔

ویسے سرمد پر آپ اپنی تحقیق کیجیے، اپنے خیالات اور ریسرچ کو بہتر طریقے سے سامنے لائیے یقینا کچھ پر لطف پڑھنے کو ملے گا۔
 

نور وجدان

لائبریرین
جی میں نے عرض کیا کہ شہزادہ تو وہ بھی تھا۔ تخت کی جنگ میں عالمگیر کے ہاتھوں دیگر بھائی بھی مارے گئے، دارا شکوہ بھی شامل تھا۔ دارا شکوہ کئی ایک صوفیانہ کتابوں کا مصنف بھی ہے۔ اور عالمگیر نے اپنے درباری ملاؤں کو بھیجا تھا سرمد کے پاس، اُس کے جواب سن کر پھڑکا دیا، آخر بادشاہ تھا۔ صوفیوں کو تو چھوڑیے اس نے تو طبلے سارنگی کو بھی دفن کروا دیا تھا۔ بقول ابنِ انشا عالمگیر نے نہ کوئی نماز چھوڑی اور نہ کوئی بھائی چھوڑا۔

ویسے سرمد پر آپ اپنی تحقیق کیجیے، اپنے خیالات اور ریسرچ کو بہتر طریقے سے سامنے لائیے یقینا کچھ پر لطف پڑھنے کو ملے گا۔

آپ نے کہا ہے تو یقینا اس پر تحقیق شروع کیے دیتی ہوں ۔ شاید کچھ اچھا لکھ سکوں ۔ابنِ انشاء کی کیا بات ہے ،ان کی بات میں وہ درد ہے جو شاید امیر خسرو کے لہجے میں ہے ۔ سچ کہیں تو آپ کو لکھتے ہوئے سوچ رہی ہوں کہ کہاں سے جہالت چھپاؤں ، سر سے چادر کھینچتی ہوں تو پاؤں ننگے ہوجاتے ہیں ۔ حسرت ہے کہ آپ کا سا علم ہو پاس ، میرا گمان ہے کہ شاید ہی کوئی اردو کی کتاب آپ کے ہاتھ سے بچ پائی ہو ۔۔

موؤرخ لکھتے ہیں کہ اورنگ زیب کو دکن بھجوا کے، مراد اور شجاع کو بنگال اور احمد آباد بجھوا کے اس نے شاہ جہاں کی علالت اور موت کی جھوٹی خبر پھیلادی اور خود بادشاہ بن بیٹھا جبکہ بادشاہ ابھی زندہ تھا ۔ اورنگ نے مراد، شجاع کو اکٹھا کیا اور دار پر دھاوا بول دیا ۔ اس جنگ میں سلیمان شکوہ جو دار کا بیٹا تھا مارا گیا ، وفادار راجپوتوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ۔ مراد نے شراب پینے کے بعد قتل کیا تھا سو قصاص کے طور قتل واجب ہوا جبکہ شجاع کو اورنگ زیب نے مارا نہیں تھا وہ اورنگ زیب کے ڈر سے بھوٹان یا نیپال چلا گیا وہاں کے لوگوں نے اس کو قتل کردیا ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ نے کہا ہے تو یقینا اس پر تحقیق شروع کیے دیتی ہوں ۔ شاید کچھ اچھا لکھ سکوں ۔ابنِ انشاء کی کیا بات ہے ،ان کی بات میں وہ درد ہے جو شاید امیر خسرو کے لہجے میں ہے ۔ سچ کہیں تو آپ کو لکھتے ہوئے سوچ رہی ہوں کہ کہاں سے جہالت چھپاؤں ، سر سے چادر کھینچتی ہوں تو پاؤں ننگے ہوجاتے ہیں ۔ حسرت ہے کہ آپ کا سا علم ہو پاس ، میرا گمان ہے کہ شاید ہی کوئی اردو کی کتاب آپ کے ہاتھ سے بچ پائی ہو ۔۔

موؤرخ لکھتے ہیں کہ اورنگ زیب کو دکن بھجوا کے، مراد اور شجاع کو بنگال اور احمد آباد بجھوا کے اس نے شاہ جہاں کی علالت اور موت کی جھوٹی خبر پھیلادی اور خود بادشاہ بن بیٹھا جبکہ بادشاہ ابھی زندہ تھا ۔ اورنگ نے مراد، شجاع کو اکٹھا کیا اور دار پر دھاوا بول دیا ۔ اس جنگ میں سلیمان شکوہ جو دار کا بیٹا تھا مارا گیا ، وفادار راجپوتوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ۔ مراد نے شراب پینے کے بعد قتل کیا تھا سو قصاص کے طور قتل واجب ہوا جبکہ شجاع کو اورنگ زیب نے مارا نہیں تھا وہ اورنگ زیب کے ڈر سے بھوٹان یا نیپال چلا گیا وہاں کے لوگوں نے اس کو قتل کردیا ۔
یہ مغلوں کی عام روایت تھی، باپ چچا کے خلاف تلوار کھینچنا، بھائیوں کا آپس میں ٹکرا کر کٹ مرنا، یہاں کی سیاسی تہذیب تھی سو اس میں تو کچھ اچنبھے کی بات نہیں، یقینا عالمگیر کے علاوہ کسی اور شہزادے کا بس چلتا تو وہ بھی باقی بھائیوں کو مروا دیتا۔ عالمگیر ذاتی کردار میں شاید سب سے اچھا مغل حکمران تھا اور پابند شرع سخت گیر حکمران بھی لیکن وہ بھول گیا تھا کہ اس کی رعایا کی ایک بڑی اکثریت مسلمان نہ تھی اور سرمد کا قتل، چاہے کسی بھی وجہ سے ہو، اس کے دامن پر لہو کی ایسی چھینٹ ہے جو تا قیامت مٹائے نہ مٹے گی۔
 

آوازِ دوست

محفلین
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ نے ایک کتاب پڑھنے کا قصد کیا تھا نام اُس کتاب کا غالباً کیمیائے سعادت تھا. مصنف کتاب غزالی ہیں :)
 

اکمل زیدی

محفلین
بہت شکریہ سب سے پہلے ایسی کتاب کو تجویز کرنے کا۔ میں اس کو ڈھونڈ تو رہی ہوں ۔۔ اس نام کی کتاب کا ایک صفحہ نمودار ہوا فیس بک پر گوگل کرنے پر بس ۔۔''پھر میں نے خُدا کو پالیا '' بازار میں دستیاب ہے ؟ عنوان اچھا معلوم ہوتا ہے کچھ آپ بتایے ۔اگر یہ باہر سے ملتی ہوں تو پبلشر کا نام بتادیں ۔
بہت آسانی سے دستیاب ھے آن لاین بھی مل سکتی ھے عنوان جو آپ کو ملا وہی ھے کیمیاء محبت" کا اردو ترجمہ ہے ۔ ۔
 
Top