ایک قطعہ پیش کرنے کی جسارت

کاشف اختر

لائبریرین
عاصم بھائی ! ازراہ ِ محبت آپ سے پوچھنے کی جسارت کی کہ ضلع کون سا ہے کہ میں بھی ہندوستان ہی سے ہوں ، اپنی ایک ناقص رائے (جو یہاں محفل میں انتہائی سطحی مشاہدے پر مبنی ہے ) ظاہر کردوں ! وہ یہ کہ یہاں نووارد محفلین دو طرح کے ہوتے ہیں ، اول وہ جنہیں محفل میں لاگ ان کرنے میں کامیابی ،محفل کی خوب سیر و چھان بین کے بعد ہوتی ہے ،
دوم وہ جو اول دفعہ ہی لاگ ان میں کامیاب ہوجاتے ہیں ، پہلی قسم کے افراد ذرا مرعوب سے رہتے ہیں کہ پتہ نہیں اہل ِ محفل کیا کہیں گے ؟ آیا میں شریک ِ محفل کیا جا سکتا ہوں یا نہیں ؟ یہاں تو بڑے بڑے اساتذہ ٔ فن و اساطینِ علم و ادب موجود ہیں ،چناں چہ وہ اسی باعث اپنی شاعری ، یا دیگر ادبی شہ پارے جو کہ درحقیقت معیاری ہی ہوتے ہیں ، شریک ِ محفل کرنے قدرے تامل سے کام لیتے ہیں ، جبکہ دوسری قسم کے افراد اپنی محدود علاقائی مقبولیت کے باعث کسی قدر زعم کا شکار ہوتے ہیں ، پھر محفل میں آکر اپنی محدود طرزِ فکر کا کھل کر مظاہرہ کرنے لگتے ہیں ،جو بعد میں خود ان کی ندامت و پشیمانی کا سبب ہوا کرتا ہے ، ساتھ ایک حقیقت بھی واشگاف کرتا چلوں کہ میں نے یہ باتیں اپنی ذات کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے کہی ہیں ، کہ محفل میں شمولیت سے قبل میں اپنی ذات سے ایسا ہی بدگمان تھا ، خدا کا فضل کہ یہ خوش فہمی جسے بدگمانی ہی کہنا چاہئے ، زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی ، اور بالآخر شریک ِ محفل ہونے کے کچھ مدت بعد ہی ختم ہوگئی

عاصم شمس بھائی ! واقعی آپ کا شمار پہلی قسم کے احباب میں ہے کہ آپ نے محفل کی کافی سیر کرلی ہے ، اور اپنی رائے میں بالکل صائب ہیں ، کہ یہاں مزاح کےمستقل سیکشنز موجود ہیں ، اس لئے معذرت کی کوئی ضرورت نہیں ، امید ہے آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا ؟
اس لئے آپ اپنی مزید جسارتیں بھی شریک ِ محفل کریں تو محفلین کا بھلا ہوجائے گا ، کہ وہ کچھ سیکھنے کی جسارت کرپائیں گے
 
آخری تدوین:
It’s ok as I apologize. Despite living for many years here, perhaps I am still suffering from cognitive dissonance. J

نہایت ادب سے سوال ہے کہ آیا کہ میرا یہ نام نہاد قطعہ شاعری سے خارج ہے یا اس میں اصلاح کی کوئی گنجائش موجود ہے۔ تنقید برائے تنقید یا تنقید برائے اصلاح کی بحث میں ایک بات یاد آئی کہ ایک مصور نے اپنی ایک تصویر بنا کر چوراہے پر رکھ دی اور لکھ دیا تنقید درکار ہے۔ دوسری صبح جا کر دیکھا تو پوری تصویر نشان زدہ تھی۔ وہ سخت دل گیر ہو کر اپنے استاد کے پاس گیا اور ماجرا سنایا۔ استاد جہاں دیدہ تھے حقارت سے ہنستے ہوئے کہنے لگے دل گیر نا ہو یہ ہی تصویر دوبارہ بنائو اور پھر چوراہے پر رکھ دو مگر اس بار لکھنا کہ جہاں نقص ہے وہاں اصلاح در کار ہے۔ مصور نے اگلی صبح جا کر دیکھا تو پوری تصویر صاف پڑی تھی۔ ایک بار سر غالبؔ کا شعر پڑھا تھا کہ مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات، مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے۔ اسی طرح عربی میں کبھی پڑھا تھا کہ مکھی سارے صاف جسم کو چھوڑ کر وہیں بیٹھتی ہے جہاں زخم ہوتا ہے مگر اس بات کا میرے ایک ملحد دوست نے بڑا خوب جواب دیا کہ مکھی کے بیٹھنے کے لیے جسم میں زخم ہونا ہی نہیں چاہیے۔ چوں کہ اس بحث میں میرے پیشے کو درمیان میں لایا گیا ہے تو ایک آخری بات اور کہتا چلوں کہ یہ درست ہے۔ بے شک ہم صحافیوں کی پیشہ ورانہ تربیت اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ قلم سے نشتر کا کام لیا جائے مگر آج ہم میڈیا پرسنز نا جانے کس زعم میں قلم کو خنجر سمجھ بیٹھے ہیں۔ نشتر کی کاٹ اور خنجر کے وار میں بالیقین بہت فرق ہوتا ہے۔ اپنی کم علمی کے باعث نا دانستہ دل آزاری پر سب سے معذرت کا خواست گار ہوں۔ شکریہ
 

کاشف اختر

لائبریرین
It’s ok as I apologize. Despite living for many years here, perhaps I am still suffering from cognitive dissonance. J

انگریزی بہت کم سمجھ آتی ہے مجھے ، ترجمہ کردیں تو مہربانی ہوگی ، اب ہم نے تو اس محفل کو اردو محفل سمجھ کر جوئن کیا تھا ! کچھ پتہ ہوتا کہ یہاں انگریزی بھی بولی جاتی ہے تو بھاگ کیوں نہ جاتے ، ویسے آپ سے یہ گلہ کہ میری سمجھ کا خیال نہیں کیا اور انگریزی میں لکھتے چلے گئے ، اس لئے بھی درست نہیں کہ آپ کی اردو بھی بہت کم سمجھ میں آئی ، غزل اور قطعے کے فہم کی جسارت تو کجا ؟ آپ کا صحافتی نثری شہ پارہ بھی سرحدِ فہم کے قریب تک نہ آیا ۔
 
Top