ایک قطرہ ہے دَروں ہے نہ بَروں ہے یوں ہے

محمد بلال اعظم صاحب کی فرمائش پر جناب احمد فراز کی زمین میں کہی ایک غزل احباب کی نزر:
عشق کلفت ہے نہ دریائے فسوں ہے یوں ہے​
ہجر وحشت نہ سکوں ہے، نہ جنوں ہے یوں ہے​
آنکھ میں آکے لَہو اب تو ٹھہر جاتا ہے​
ایک قطرہ ہے دَروں ہے نہ بَروں ہے یوں ہے​
گر ضروری ہے محبت میں تڑپنا دل کا​
کھینچنا آہ کا بھی کارِسکوں ہے یوں ہے​
لفظ جی اُٹھتے ہیں قرطاس پہ آتے آتے​
ہاتھ میرے بھی کوئی کُن فیَکوں ہے یوں ہے​
خال و خَد حُسن کے تُجھ سے نہ بیاں ہونے کے​
صرف لفاظی ہے کہتا ہے کہ یوں ہے یوں ہے​
ہم اسد دل میں بسا رکھتے ہیں دنیا ساری​
ورنہ کہنے کو یہ بس قطرہِ خُوں ہے یوں ہے​
اسد
سر اسد ۔ نہایت شاندار غزل اور لاجواب مقطع۔ بھرپور داد۔ سلامتی ہو
 
Top