ایک غزل کی ممکنہ تفہیم

دائم

محفلین
غزل برائے نقد نظر




کسی بزرگ پہاڑی پہ تو اترتا ھے ۔۔
قدیم دشت غشی میں خرام کرتا ھے ۔۔۔

شجر کی چھال اترتے فقیر رونے لگا ۔۔۔
بدن کی کھال ادھیڑو توپھر نکھرتا ھے۔

مسام چیر کے اگتی ھے جسم پر اترن۔۔
ھمارا زہر خدو خال سے اترتا ھے ۔۔۔

اٹھا حجاب ، جلا دے چراغ معبد کے۔۔
جہان گرد ترا اب قیام کرتا ھے ۔۔۔۔

عجیب خاک چمکتی ھے اپنے چہرے پر ۔۔
یہ آئنہ تو ھمیں دیکھ کر سنورتا ھے۔۔

ھمارے جسم پہ کندہ ھزار ھا نقشے ۔۔
ھماری آنکھ سے ھر راستہ گزرتا ھے ۔۔۔

کہیں سے حرف اترتا ھے بور کی صورت۔۔۔
جو مجھ سے بانجھ درختوں کی شاخیں بھرتا ھے۔۔۔



شعر اول حمدیہ ہے
لفظِ *تُو* سے باری الہٰ کی طرف اشارۃً تخاطب ہے، بزرگ پہاڑی کوہِ طور سے استعارہ ہے، قدیم دشت دامنِ کوہ سے اور خرام ذرہ ذرہ ہو جانے کا بیان ہے، معنیٰ بالکل عیاں ہے کہ "اے اللہ! تیری شان یہ ہے کہ تُو کوہِ طور پر تجلی کی صفت سے نزول کرتا ہے اور اس کے مآل میں پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر خراماں ہے

استعارات و تشبیہات میں ملفوف بات کی گئی، جو کہ شاعرانہ انداز کا مکمل اور گہری عکاسی ہے، شعر معنوی اعتبار سے بالکل درست اور تام ہے


شعر دُوُم، اولیاء الله کی شان ہے کہ کسی غیر انسان کو بھی تکلیف یا گزند پہنچایا جائے تو انھیں آزار محسوس ہوتا ہے اور ان کے اپنے بَدَن کی کھال اتارو تو وہ روحانی طور پر تسکین کے باع‍ث نکھر نکھر جاتے ہیں، غالباً یہ تلمیح ہو اس واقعہ سے کہ بابا کلامی علیہ الرحمۃ نے ایک شیر کو اپنے جسم کی بوٹیاں کاٹ کاٹ کر کھلائی تھیں کہ یہ بیچارہ بھوکا ہے


شعر سِوُم، رنگِ تصوف میں گُندھا ہوا مگر پیچیدہ شعر ہے، اگرچہ اس کی گرہیں بہت گہری ہیں مگر ظاہری بخیے ادھیڑے جائیں تو کچھ یوں مفہوم نکلتا ہے کہ :
انسان کا اصل لباس اس کے اندر دل کا تقویٰ ہے، جب ظاہری آرائیوں اور پیرائیوں کا لبادہ اتارا جائے تو وہ گویا انسان کے جوہرِ اصلی یعنی قلبِ مطمئنہ کے لیے زہر کی شال ہوتا ہے، خدو خال سے ظاہرہ جسم مراد ہے، یعنی جب اندر سے تقویٰ لباس بن کر باہر آتا ہے تو باہر کا مصنوعی زہریلا لباس خدو خال سے اتر جاتا ہے اور انسان مکمل طور پر طہارتِ قلبی و جسمانی سے مزین ہو جاتا ہے


شعر چہارُم، معبد سے مراد دل کا خانہ ہے، انسان سے خطاب ہے کہ :
ای انسان! نقاب کشائی کا مرحلہ آن پہنچا، اب حجابِ ظاہری سے عریاں ہو جا اور دلوں پر پڑے دبیز پردے اتار پھینک! اور دل کو معرفت کے نور سے روشن کر دے! کہ یہ خاکی دنیا تیرے آگے ادباً قیام کیے ہوئے ہے،
یہاں حال بول کر مستقبل کا معنیٰ مراد ہے، یعنی *کرتا ہے* کو از قبیلِ فعلِ مضارع لیں گے، کہ صیغہ حال ہی کا ہو اور مراد استقبالی معنیٰ ہو


شعر پنجم، ملفوف انداز میں غالباً انسانی وجاہت کی عظمت کا اقرار ہے، آئینہ سے مراد نیک سیرت اور خوش طبع لوگ ہیں، اب معنیٰ بالکل واضح ہے کہ :
میرے چہرے پر ایسا نور ہے کہ نیک سیر اور خوش طبع لوگ اسے دیکھ کر مجھے قابلِ تقلید نمونہ گردانتے ہیں،
میرے ناقص خیال کے مطابق *خاک* کا لفظ زبانِ خَلق سے مستعار لیا گیا ہے، یعنی لوگ اسے معمولی شے سمجھتے ہیں، مگر أصلاً خوش طبع لوگ ہی اس نور سے آشنا ہیں جو ہم نے اپنے چہرے پر سجایا ہوا ہے، شاہد داڑھی کی سنت سے استعارہ ہو

یہ تو معنیٰ کی صرف ایک جہت ہوئی، ورنہ اس سے اور بہت سارے معانی نکل سکتے ہیں


شعر ششم، بالکل واضح ہے، اس کی تشریح صرف اس شعر سے کروں گا جس کا مفہوم یہ ہے کہ جسم کے کسی بھی حصے میں درد ہو تو آنکھ ہی کو رونا پڑتا ہے


شعر ہفتم، عطائے الٰہی کی طَرَف اشارہ ہے، کہ مجھ کمتر پر انعام و اکرام کی ایسی بارش نازل ہوتی ہے کہ مجھ جیسے کم ظرف کو بھی برگ و بار کی ثروت سے نواز دیتا ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
برادرم دائم

آپ جب تنقید کرتے ہیں کسی غزل پر تو شاعر کا نام لکھتے ہیں -کیا وجہ ہے کہ تفہیم کرتے ہوئے نام نہیں لکھا-یہ گمان ہوتا ہے کہ غزل آپ کی ہے -خیر غزل جس کی بھی ہو چند باتیں عرض کروں گا :


کسی بزرگ پہاڑی پہ تو اترتا ھے ۔۔
قدیم دشت غشی میں خرام کرتا ھے ۔۔۔

اس کی تشریح آپ نے فرمائی ہے :
شعر اول حمدیہ ہے
لفظِ *تُو* سے باری الہٰ کی طرف اشارۃً تخاطب ہے، بزرگ پہاڑی کوہِ طور سے استعارہ ہے، قدیم دشت دامنِ کوہ سے اور خرام ذرہ ذرہ ہو جانے کا بیان ہے، معنیٰ بالکل عیاں ہے کہ "اے اللہ! تیری شان یہ ہے کہ تُو کوہِ طور پر تجلی کی صفت سے نزول کرتا ہے اور اس کے مآل میں پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر خراماں ہے

استعارات و تشبیہات میں ملفوف بات کی گئی، جو کہ شاعرانہ انداز کا مکمل اور گہری عکاسی ہے، شعر معنوی اعتبار سے بالکل درست اور تام ہے


معذرت' نہ شعر میں تشریح ہے نہ تشریح میں شعر -

شجر کی چھال اترتے فقیر رونے لگا ۔۔۔
بدن کی کھال ادھیڑو توپھر نکھرتا ھے۔
اس کی تشریح آپ نے فرمائی :

شعر دُوُم، اولیاء الله کی شان ہے کہ کسی غیر انسان کو بھی تکلیف یا گزند پہنچایا جائے تو انھیں آزار محسوس ہوتا ہے اور ان کے اپنے بَدَن کی کھال اتارو تو وہ روحانی طور پر تسکین کے باع‍ث نکھر نکھر جاتے ہیں، غالباً یہ تلمیح ہو اس واقعہ سے کہ بابا کلامی علیہ الرحمۃ نے ایک شیر کو اپنے جسم کی بوٹیاں کاٹ کاٹ کر کھلائی تھیں کہ یہ بیچارہ بھوکا ہے


یہاں بھی وہی بات کہ نہ تشریح میں شعر ہے نہ شعر میں تشریح -تلمیح کے لئے بھی شرط ہے کہ واقعہ مشہور ہو -


مسام چیر کے اگتی ھے جسم پر اترن۔۔
ھمارا زہر خدو خال سے اترتا ھے ۔۔۔

آپ نے اس کی شرح یوں فرمائی :
شعر سِوُم، رنگِ تصوف میں گُندھا ہوا مگر پیچیدہ شعر ہے، اگرچہ اس کی گرہیں بہت گہری ہیں مگر ظاہری بخیے ادھیڑے جائیں تو کچھ یوں مفہوم نکلتا ہے کہ :
انسان کا اصل لباس اس کے اندر دل کا تقویٰ ہے، جب ظاہری آرائیوں اور پیرائیوں کا لبادہ اتارا جائے تو وہ گویا انسان کے جوہرِ اصلی یعنی قلبِ مطمئنہ کے لیے زہر کی شال ہوتا ہے، خدو خال سے ظاہرہ جسم مراد ہے، یعنی جب اندر سے تقویٰ لباس بن کر باہر آتا ہے تو باہر کا مصنوعی زہریلا لباس خدو خال سے اتر جاتا ہے اور انسان مکمل طور پر طہارتِ قلبی و جسمانی سے مزین ہو جاتا ہے

یہ شرح بھی دور از کار تاویل کے سوا کچھ نہیں -"اترن" کا معنی بھی محض لباس غلط ہے -اترن سے مراد کسی کا مستعمل لباس ہوتا ہے جیسے لنڈے بازار سے اترنیں خریدی جاتی ہیں -

اٹھا حجاب ، جلا دے چراغ معبد کے۔۔
جہان گرد ترا اب قیام کرتا ھے ۔۔۔۔

تشریح :
شعر چہارُم، معبد سے مراد دل کا خانہ ہے، انسان سے خطاب ہے کہ :
ای انسان! نقاب کشائی کا مرحلہ آن پہنچا، اب حجابِ ظاہری سے عریاں ہو جا اور دلوں پر پڑے دبیز پردے اتار پھینک! اور دل کو معرفت کے نور سے روشن کر دے! کہ یہ خاکی دنیا تیرے آگے ادباً قیام کیے ہوئے ہے،
یہاں حال بول کر مستقبل کا معنیٰ مراد ہے، یعنی *کرتا ہے* کو از قبیلِ فعلِ مضارع لیں گے، کہ صیغہ حال ہی کا ہو اور مراد استقبالی معنیٰ ہو

یہاں بھی عنقا کا شکار ہے


عجیب خاک چمکتی ھے اپنے چہرے پر ۔۔
یہ آئنہ تو ھمیں دیکھ کر سنورتا ھے۔۔
تشریح :
شعر پنجم، ملفوف انداز میں غالباً انسانی وجاہت کی عظمت کا اقرار ہے، آئینہ سے مراد نیک سیرت اور خوش طبع لوگ ہیں، اب معنیٰ بالکل واضح ہے کہ :
میرے چہرے پر ایسا نور ہے کہ نیک سیر اور خوش طبع لوگ اسے دیکھ کر مجھے قابلِ تقلید نمونہ گردانتے ہیں،
میرے ناقص خیال کے مطابق *خاک* کا لفظ زبانِ خَلق سے مستعار لیا گیا ہے، یعنی لوگ اسے معمولی شے سمجھتے ہیں، مگر أصلاً خوش طبع لوگ ہی اس نور سے آشنا ہیں جو ہم نے اپنے چہرے پر سجایا ہوا ہے، شاہد داڑھی کی سنت سے استعارہ ہو

یہ تو معنیٰ کی صرف ایک جہت ہوئی، ورنہ اس سے اور بہت سارے معانی نکل سکتے ہیں

یہاں میں آپ سے کلّی متفق ہوں کہ ایک ممکنہ تفہیم تو آپ نے فرمائی اور اچھی فرمائی-

اور بھی اس کے مفاہیم ہو سکتے ہیں -شعر اچھا ہے -


ھمارے جسم پہ کندہ ھزار ھا نقشے ۔۔
ھماری آنکھ سے ھر راستہ گزرتا ھے ۔۔۔

تشریح :
شعر ششم، بالکل واضح ہے، اس کی تشریح صرف اس شعر سے کروں گا جس کا مفہوم یہ ہے کہ جسم کے کسی بھی حصے میں درد ہو تو آنکھ ہی کو رونا پڑتا ہے


آپ نے اقبال کے اس شعر سے اس کو ملایا ہے :

مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

لیکن مجھے دونوں میں کوئی جوڑ نہیں لگتا--آپ جسم پہ کندہ نقشوں کو اعضاء کے درد سے تعبیر کیسے کریں گے اور پھر ہر راستے کا آنکھ سے گزرنا ؟؟

کہیں سے حرف اترتا ھے بور کی صورت۔۔۔
جو مجھ سے بانجھ درختوں کی شاخیں بھرتا ھے۔۔۔

یہ شعر بھی ناقص ہے اس ترجمانی میں جو آپ نے کی ہے -بور اترتا نہیں البتہ ابھرتا ہے -

والسلام
 
راشد امام اب آپ دونوں وضاحت والوں میں سے کس سے متفق ہوجائیں
اگر یوں کہہ دیں شاعر کو اپنی کیفیت ڈهالنے کے لئے رنگ اور الفاظ کے جنگ کی سکت نہ تهی
 
Top