ایک غزل پیش ہے،'' ہم سے ملتے ہو، بچھڑتے ہو، چلے جاتے ہو'' اصلاح کے لئے

ہم سے ملتے ہو، بگڑتے ہو، چلے جاتے ہو
بات کرتے ہو، الجھتے ہو، چلے جاتے ہو

حسن ایسا ہے کہ صدیوں نے بھی دیکھا نہ کہیں
مسکراتے ہو، پلٹتے ہو، چلے جاتے ہو

موقع ملتا ہے ملاقات کا مشکل سے مگر
کیا یہ کرتے ہو، جھگڑتے ہو، چلے جاتے ہو

ایک ہی بات کو پکڑو تو ہمیشہ جاناں
بات بے بات، کلپتے ہو ، چلے جاتے ہو

میں جو کہتا ہوں، کوئی بات بھلے کی خاطر
میری ہر بات، پکڑتے ہو، چلے جاتے ہو

اُس کی خاطر ہی ہوا نام مسافر اظہر
تم بھی ہر بار، اُجڑتے ہو، چلے جاتے ہو

 
Top