ایک غزل پر میری تنقید

دائم

محفلین
غزل برائے تنقید

رات جھٹکے سے مری نیند کھلی ٹوٹ گئی
کانچ کی چیز تھی ٹیبل سے گری ٹوٹ گئی

شعبدہ باز نے غائب کیا منظر سے مُجھے
بےگھری چھوٹ گئی اور چھڑی ٹوٹ گئی

خامشی نام کی اک شے ہے مِرے سینے میں
تو مجھے ہاتھ لگا ! دیکھ ! ابھی ٹوٹ گئی

قہقہہ دائمی تھا میرا مرے پاس رہا
ماتمی چپ جو مری نام کی تھی ٹوٹ گئی

سانس دیوار ہے جیون کی بہت خستہ مزاج
دو منٹ ٹیک لگے اور بھلی ٹوٹ گئی !

تم سے اس واسطے مانوس نہیں ہوتا میں
جو کوئی چیز مجھے اچھی لگی ٹوٹ گئی

زندگی تحفہ ملی جس کو نہیں صَرف کیا
بند ڈبّے میں نئی چیز پڑی ٹوٹ گئی

اک ذرا رنج نہیں اپنی ہلاکت کا مُجھے
دُکھ تو یہ ہے تِری خاموش روی ٹوٹ گئی

شاعر : اسامہ خالد

....

*_بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ_*

*رات جھٹکے سے مری نیند کھلی، ٹوٹ گئی*
*کانچ کی چیز تھی ٹیبل سے گری ٹوٹ گئی*


مطلع جس چابک دستی اور عُلُوِّ فکر کا متقاضی ہوتا ہے، یہ اُس سے یکسر تہی دامن ہے.. اس میں محاسن شمار کیے جائیں تو صرف دو حُسن نمود فَگَن ہوں گے کہ اس میں نیند کو کانچ سے جو تشبہ دی گئی ہے، یہ یقیناً نادر و نایاب تشبیہ ہے اور جھٹکے کو ٹوٹنے سے جو نسبت ہے، اس کی شان ہی کیا بیان کی جا سکتی ہے... اور اگر اس میں معائب شمار جائیں تو ان کا سلسلہ لامتناہی *boundlessness* طور پر جُنباں دکھائی دے گا، ان میں سے کچھ ذکر کیے دیتا ہوں :

_1- جھٹکے سے آنکھ کھلنا اگرچہ ممکن ہے لیکن اس کے سبب کا عدمِ ذکر سُست کر رہا ہے_

_2- نیند کھلنا کہاں کی محاورہ بندی ہے؟ نیند کھلنا دہلی کا محاورہ ہے نہ لکھنؤ کا، نہ کسی استاد شاعر کے ہاں ملتا ہے نہ کہیں سے بطورِ اشتشہاد مل سکتا ہے_

_3- نیند اڑنا محاورہ ہے یہ مفہوم نیند کے فضا میں تحلیل ہونے اور بلند ہو کر غائب ہو جانے کی طرف نشاندہی کرتا ہے.. لیکن شعر میں ٹیبل سے گرنے کا بیان بالکل ہی محاورۂ معروفہ کا عکسِ کامل ہے،_ _جیسے کوئی کہے کہ بارش زمین سے آسمان کی طرف اڑتی ہے، بالکل ایسے ہی یہاں کہا گیا کہ نیند کانچ کی چیز تھی جو ٹیبل یعنی آنکھ سے گری اور ٹوٹ گئی، یعنی ختم ہو گئی.... ظاہر ہے کہ *گرنا* یہاں صریح غلطی ہے_

_4- ٹیبل کا تلازمہ کیا ہے؟ معدوم!!_

_5- لفظِ *رات* ظرفِ زمان ہے، یہاں اداتِ ظرف کا ذکر نہ کرنے سے یہ شبہ پیدا ہو گیا ہے کہ یہاں *رات کو* مراد ہے یا *رات* کو مخاطب کیا جا رہا ہے؟ یعنی *اے رات* کہا جا رہا ہے_

_6- نیند کھلی بھی اور ٹوٹی بھی، یہاں عدمِ تعیین استعارے کی گہرائی میں پہنچنے کو مانع ہے_

*المختصر یہ کہ یہ مطلع برائے مطلع ہے*

-------

*شعبدہ باز نے غائب کیا منظر سے مُجھے*
*بےگھری چھوٹ گئی اور چھڑی ٹوٹ گئی*


اس شعر میں جو چیز لُطف دے رہی ہے وہ مضمون کا عالی ہونا ہے، اگر چہ یہ برتا گیا بلکہ بہت زیادہ برتا گیا ہے

_فنی اعتبار سے مصارع باہم مربوط نہیں ہیں اور اسلوب بھی شُستگی سے خالی اور تکلفِ محض سے پُر ہے_

_دوسرے مصرعے میں جو اطمینان کا احساس ہے وہ اندازِ بیان سے دائمی معلوم ہوتا ہے جبکہ پہلے مصرعے میں *شعبدہ بازی* کی تصریح نے وقت کی تحدید بھی کر دی ہے، اب تحدیدِ وقت کے باوجود اطمینان کر لینا کہ اب بے گھری نہیں رہی، سراسر حماقت پر مبنی ہے_

_دوسری بات یہ کہ *چھڑی ٹوٹ گئی* یہاں اس کا محل نہیں اور یہ کسی اور عبارت کا مضمون کا ٹکڑا معلوم ہو رہا ہے، لیکن مطلع کی بہ نسبت اچھا شعر ہے_

-------

*خامشی نام کی اک شے ہے مِرے سینے میں*
*تو مجھے ہاتھ لگا ! دیکھ ! ابھی ٹوٹ گئی*


خامشی کا تعلق سینے سے نہیں بلکہ زبان سے ہے، *میر تقی میر* نے کہا تھا کہ :

*_مصلحت ہے میری خاموشی ہی میں اے ہم نفس_*
*_لوہو ٹپکے بات سے جو ہونٹ اپنے وا کروں_*

_بالکل ظاہر و بارز ہے کہ خامشی کی نسبت لب، منہ یا زبان کیساتھ ہے، شاعر نے فَقَط بحر کی پابندی سے مجبور ہو کر *سینے* کر دیا ہے_

_ثانیاً یہ کہ فَقَط ہاتھ لگانے سے خاموشی کے حصار کا ٹوٹ جانا کہاں کا انصاف ہے؟_

_تیسری بات یہ کہ *لگا* اور *دیکھ* معطوفاتِ فعلی ہیں، لیکن حروفِ عاطفہ میں سے کسی کا بھی نہ لانا بندش کو سُست کر رہا ہے_

*مفہوم کے اعتبار سے شعریت عنقا ہے*

-------

*قہقہہ دائمی تھا میرا، مرے پاس رہا*
*ماتمی چپ جو مری نام کی تھی ٹوٹ گئی*


قہقہہ ٹوٹنا چاہیے تھا مگر یہاں خموشی ٹوٹ گئی، روایت اور حقائق سے انحراف کرتا ہوا شعر

ہاں! ایک جہت نکل سکتی ہے کہ شاعر زندگی سے بھرپور انداز میں خوش ہے اور شکوہ و شکایت کی رسمِ کُہَن بھول کر مسکرانا چاہتا ہے، جیسا کہ ایک شاعر کا شعر ہے کہ :

_*بالکل نہیں ہے شکوۂ جورِ فَلَک مجھے*_
*_میں حُسنِ کائنات کی رعنائیوں میں ہوں_*

معنوی تعقید کی بنا پر شعر کی پرتیں کھولنا دقت کا باعث بن رہا ہے، البتہ مذکورہ بالا مبیّنہ مفہوم آسانی سے نکل رہا ہے

-------

*سانس دیوار ہے جیون کی بہت خستہ مزاج*
*دو منٹ ٹیک لگے اور بھلی ٹوٹ گئی !*


پہلا مصرعہ بہترین ہے، دوسرے میں *منٹ* اور *ٹیک* باہم قریب ہونے کی وجہ سے ملفوظی اعتبار سے *صوتی عیبِ تنافر* پیدا ہو رہا ہے

دوسرے مصرعے میں *بھلی* فقط قافیہ پیمائی ہے، اس کا محل بالکل بھی نہیں

-------

*تم سے اس واسطے مانوس نہیں ہوتا میں*
*جو کوئی چیز مجھے اچھی لگی، ٹوٹ گئی*


واااہ، شاعر کے لیے بہت سی داد، بہترین شعر نکالا گیا ہے، اس کے محاسن پر کچھ بات کرنا چاہوں گا کہ :

_1- محبوب کے زیاں کو اپنا زیاں سمجھ کر مانوس نہ ہوا گیا، بلاشبہ یہ نادر مضمون ہے_

_2- اور اہم چیز یہ کہ نا مانوسی کو اختیاری فعل رکھا گیا جس سے یہاں اور زیادہ لُطف پیدا پو گیا ہے_

_3- شعر میں عمومیت ہے جو لُطفِ مزید کا پیش خیمہ ہے_

_4- سبب اور مسبب دونوں کا حسین امتزاج دلکشی و حُسن میں اضافہ کر رہا ہے، بہترین شعر یعنی *شاہ بیت* ہے_

_5- شعر کے دونوں مصارع باہم پیوست اور مربوط ہیں_

-------

*زندگی تحفہ ملی جس کو نہیں صَرف کیا*
*بند ڈبّے میں نئی چیز پڑی ٹوٹ گئی*


*_کون جانے، کون سمجھے، کون سمجھائے نصیر_* .... کہ یہاں دوسرے مصرعے کا کیا مفہوم ہے؟

بند ڈبے میں پڑی نئی چیز *دل* ہو سکتا ہے، وہ ٹوٹ گیا، شعر کا مفہوم کچھ اس طرح وا ہو رہا ہے کہ زندگی تو ملی مگر اسے صرف ہی نہیں کیا اور جلد ہی اس سے دست کش ہو گئے، مگر دل ضرور ٹوٹ گیا...، اس سے چھوٹی عمر میں محبت اور پھر اس محبت کی ناکامیابی کا بلیغ بیان ہے، معنیٰ کے اعتبار سے شعر *شاہکار* ہے، لیکن بندش معمولی اور اسلوب پھیکا ہونے کی وجہ سے آسمانِ غزل میں بے لُطفی کی فضا پیدا ہو رہی ہے

-------

*اک ذرا رنج نہیں اپنی ہلاکت کا مُجھے*
*دُکھ تو یہ ہے تِری خاموش روی ٹوٹ گئی*


سبحان اللہ!!

خاموش روی بہت خوب صورت ترکیب ہے، ماشاء اللّٰہ!

_ایک قابلِ غور بات عرض کروں کہ *اک* معنئ تبعیض کو مستلزم ہے اور *ذرا* بھی تبعیض کا معنی دیتا ہے، یہاں دونوں کا اجتماع کیوں کر درست ہو گیا؟_

_دوسری بات یہ کہ یہاں مخاطب کی خاموش روی ٹوٹ جانے پر دُکھ کا اظہار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، خاموش روی اگر تو محبوب کی ٹوٹی ہے تو شاعر کو خوشی سے نہال ہو جانا چاہیے کہ اچھا کہا یا بُرا، محبوب نے زبان تو کھولی، چہ جائیکہ یہاں دُکھ کا اظہار ہو،...... ہاں! اگر کسی دکاندار کی خاموش روی ٹوٹی ہے تو پھر تو اللہ کا شکر! ، کیوں کہ نصیر الدین نصیر شاہ صاحب فرما گئے کہ :_

*ایسے میں کیا پِٹے کوئی سودا سرِ دکاں*
*بائع جب اُٹھ کے مغزِ خریدار چاٹ لے*

بائع کی خاموش روی ٹوٹے تو دُکھ ہو ہی جاتا ہے، اور ہونا بنتا بھی لیکن یہاں شعر میں *معنی الشعر فی بطنہ* والی بات ہے

*والسلام : غلام مصطفیٰ دائم اعوان*
 

فرقان احمد

محفلین
اچھی بھلی غزل تھی اور پھر یوں ہوا کہ آپ کے ہاتھ چڑھ گئی۔ :)

تفنن برطرف! سچ بات یہ ہے کہ غزل پر آپ کی جانب سے ہونے والی تنقید کو غور سے پڑھا تو یہ تنقید، غزل سے زیادہ اچھی لگی۔ بہت خوب!
 

الف عین

لائبریرین
کچھ تنقید برائے تنقید نہیں ہو گئی ؟ اگرچہ ایسے نکات لانے سے استادی کا اظہار ضرور ہوتا ہے لیکن شاعری میں اکثر ایک آدھ خوبی کی وجہ سے ایسی معمولی خامیوں سے صرفِ نظر کرنا بہتر سمجھتا ہوں میں۔
 

دائم

محفلین
کچھ تنقید برائے تنقید نہیں ہو گئی ؟ اگرچہ ایسے نکات لانے سے استادی کا اظہار ضرور ہوتا ہے لیکن شاعری میں اکثر ایک آدھ خوبی کی وجہ سے ایسی معمولی خامیوں سے صرفِ نظر کرنا بہتر سمجھتا ہوں میں۔

میرے منہ میں خاک جو استاذی ظاہر کروں ، واللہ! فَقَط اپنی کم فہمی کی بنا پر جو سمجھ پایا ، عرض کر دیا
 

الف عین

لائبریرین
میرے منہ میں خاک جو استاذی ظاہر کروں ، واللہ! فَقَط اپنی کم فہمی کی بنا پر جو سمجھ پایا ، عرض کر دیا
یہ تو تمہاری انکساری ہے ورنہ اظہار تو ہو ہی چکا، اگر استادی کو منفی معنی میں لیتے ہیں تو میں اس کی جگہ "مہارت" کا استعمال کروں گا
 
Top