ایک غزل تنقید و تبصرہ کیلئے،'' کیوں کسی موڑ پہ رُکنے کو مچل جاتا ہے''

کیوں کسی موڑ پہ رُکنے کو مچل جاتا ہے
دل سمجھتا ہی نہیں، دوڑ کے پل جاتا ہے

کام پڑتے ہی اُسے یاد مری آتی ہے
بھول جاتا ہے وہ جب کام نکل جاتا ہے

کیا عجب ہے کہ مچلتا ہے تڑپتا ہے یہ دل
سامنے آئے مگر وہ تو سنبھل جاتا ہے

خود پہ نفرت کی یہ شکنیں نہ چڑھی رہنے دو
ان میں دب کے تو شباب اور بھی ڈھل جاتا ہے

کام ہو کوئی، رضا اُس کی مقدم نہ ہوئی
آخرت میں جو بھی ملنا تھا وہ پھل جاتا ہے

جب دعاؤں میں ہو گریہ تو اثر ہوتا ہے
کُچھ مصیبت ہو، بُرا وقت ہو ٹل جاتا ہے

اُس کی عادت سے پریشاں ہوں، کروں کیا اظہر
جس پہ مسرور تھا کل، آج وہ کھل جاتا ہے
 
ہماری صلاح

کیوں کسی موڑ پہ رُکنے کو مچل جاتا ہے
دل سمجھتا ہی نہیں، دوڑ کے پل جاتا ہے
دوڑ کے پل جاتا ہے کا مطلب کیا ہوا؟


آخرت میں جو بھی ملنا تھا وہ پھل جاتا ہے

اس مصرع کی بھی تشریح فرمائیے


اُس کی عادت سے پریشاں ہوں، کروں کیا اظہر
جس پہ مسرور تھا کل، آج وہ کھل جاتا ہے​

کھلتا ہے سنا تھا لیکن ’کھل جاتا ہے‘ ، اس پر غور فرمائیے
 
محمد اظہر نذیر بھائی اچھی غزل ہے ۔ کچھ اشعار مجھے بہت پسند آئے۔ کچھ اشعار میں میرے مطابق بہتری کی گنجائش البتہ موجود ہے۔

کیوں کسی موڑ پہ رُکنے کو مچل جاتا ہے
دل سمجھتا ہی نہیں، دوڑ کے پل جاتا ہے
پِل پڑنا ۔ اگر یہ "پِل" مراد ہے تو بے مزہ بات لگتی ہے ۔ اگر "پُل" مراد ہے تو میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ شعر کا مطلب کیا ہے ۔

کام پڑتے ہی اُسے یاد مری آتی ہے
بھول جاتا ہے وہ جب کام نکل جاتا ہے
یہ شعر مجھے بہت اچھا لگا ۔ دونوں مصرعے خوب ہیں ۔
کیا عجب ہے کہ مچلتا ہے تڑپتا ہے یہ دل
سامنے آئے مگر وہ تو سنبھل جاتا ہے
یہ شعر بھی اچھا ہے ۔
خود پہ نفرت کی یہ شکنیں نہ چڑھی رہنے دو
ان میں دب کے تو شباب اور بھی ڈھل جاتا ہے
مصرع ثانی میں "اور بھی" اضافی معلوم ہوتا ہے ۔
کام ہو کوئی، رضا اُس کی مقدم نہ ہوئی
آخرت میں جو بھی ملنا تھا وہ پھل جاتا ہے
اس شعر میں بھی بیان کو واضح کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ میری سمجھ میں تو یوں آسکا ہے کہ " کوئی بھی کام ہو،لیکن اگر اللہ کو راضی کرنے کی نیّت نہیں ہے تو اِس کارِ خیر کا جو اجر آخرت میں متوقع ہے وہ ہاتھ سے جاتا ہے"
جب دعاؤں میں ہو گریہ تو اثر ہوتا ہے
کُچھ مصیبت ہو، بُرا وقت ہو ٹل جاتا ہے
مصرع ثانی میں "کچھ" غلط تو نہیں ہے لیکن اگر اسے "وہ" سے بدل کر پڑھیں تو زیادہ رواں لگتا ہے ۔
اُس کی عادت سے پریشاں ہوں، کروں کیا اظہر
جس پہ مسرور تھا کل، آج وہ کھل جاتا ہے
"کھل" سمجھ نہیں آیا ۔ شائد "کَھل" ہو ( یعنی : کَھلنا ، بُرا لگنا) اس صورت میں محمد خلیل الرحمٰن بھائی کی بات سے متفق ہوں۔
یہ میری ناقص رائے ہے جس میں غلطی کی گنجائش موجود ہے۔ میں خود مبتدی ہوں ۔ یہاں اساتذہ اور ماہرین موجود ہیں ۔ جن کی آراء سے مجھے خود بھی اصلاح درکار رہے گی۔
 

الف عین

لائبریرین
خلیل اور ادب دوست (معذرت کہ ان کا اصل نام بھول رہا ہوں، حالانکہ بتایا تھا تعارف کے دھاگے میں) کی باتوں سے متفق ہوں۔ کھَل جاتا درست تو ہے، لیکن ناگوار سا محسوس ہوتا ہے۔

کام پڑتے ہی اُسے یاد مری آتی ہے
بھول جاتا ہے وہ جب کام نکل جاتا ہے
۔۔درست ہے، لیکن محاورہ مری یاد آنا مختلف ہوتا ہے، اور ’میں یاد آتا ہوں‘ مختلف ہوتا ہے۔ یہاں موخر الذکر کا محل ہے
کام پڑتے ہی اسے یاد میں آ جاتا ہوں

کیا عجب ہے کہ مچلتا ہے تڑپتا ہے یہ دل
سامنے آئے مگر وہ تو سنبھل جاتا ہے
۔۔اس میں بھی اصلاح کی گنجائش ہے۔ کہ پہلے مصرع میں ’یوں تو‘ شعر واضح کرنے کے لئے ضروری ہے۔ ’کیا عجب ہے‘ کی جگہ ’یہ عجب بات ہے‘ کا محاورہ چاہئے تھا۔
مثلاً
یوں تو ہر وقت مچلتا ہے تڑپتا ہے یہ دل

خود پہ نفرت کی یہ شکنیں نہ چڑھی رہنے دو
ان میں دب کے تو شباب اور بھی ڈھل جاتا ہے
÷÷شکنیں کاف پر سکون کے ساتھ تقطیع ہو رہا ہے۔ اس کو محض شکن استعمال کرو اور الفاظ بدل دو۔
دب کے کی جگہ ’دب کر‘ بہتر ہے۔

جب دعاؤں میں ہو گریہ تو اثر ہوتا ہے
کُچھ مصیبت ہو، بُرا وقت ہو ٹل جاتا ہے
÷÷÷گَریہ، واحد لفظ یا گر یہ بمعنی ’اگر یہ‘ ؟۔ اسے واضح کرو تو بہتر ہے۔ دوسرے مصرع میں بھی محض ایک لفظ استعمال کیا جائے تو بہتر ہے۔ بلکہ ٹل جاتا کی مناسبت سے محض برا وقت کافی ہے۔
 
ہماری صلاح


دوڑ کے پل جاتا ہے کا مطلب کیا ہوا؟



اس مصرع کی بھی تشریح فرمائیے



کھلتا ہے سنا تھا لیکن ’کھل جاتا ہے‘ ، اس پر غور فرمائیے

دوڑ کے پل جاتا ہے کا مطلب کیا ہوا؟
پل یہاں بمعنیٰ ، پلک جھپکانے کا وقفہ، سیکنڈ، آن، لمہہ، دم
گویا دل یہ نہیں سمجھتا کہ موڑ پر رُکنے سے وقت دوڑ کر گزر جائے گا

اس مصرع کی بھی تشریح فرمائیے
آخرت میں جو بھی ملنا تھا وہ پھل جاتا ہے
یہ بھی آسان سا ہے کہ اگر کسی کام میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا مقدم نہ ہوئی اور دنیاوی اعتبار سے انجام دیا تو آخرت میں رضائے الہی کی بجا آوری کے پھل سے محروم ہو جائے گا

کھلتا ہے سنا تھا لیکن ’کھل جاتا ہے‘ ، اس پر غور فرمائیے
محترم اُستاد اس پر رائے دے چُکے

 
محمد اظہر نذیر بھائی اچھی غزل ہے ۔ کچھ اشعار مجھے بہت پسند آئے۔ کچھ اشعار میں میرے مطابق بہتری کی گنجائش البتہ موجود ہے۔


پِل پڑنا ۔ اگر یہ "پِل" مراد ہے تو بے مزہ بات لگتی ہے ۔ اگر "پُل" مراد ہے تو میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ شعر کا مطلب کیا ہے ۔


یہ شعر مجھے بہت اچھا لگا ۔ دونوں مصرعے خوب ہیں ۔

یہ شعر بھی اچھا ہے ۔

مصرع ثانی میں "اور بھی" اضافی معلوم ہوتا ہے ۔

اس شعر میں بھی بیان کو واضح کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ میری سمجھ میں تو یوں آسکا ہے کہ " کوئی بھی کام ہو،لیکن اگر اللہ کو راضی کرنے کی نیّت نہیں ہے تو اِس کارِ خیر کا جو اجر آخرت میں متوقع ہے وہ ہاتھ سے جاتا ہے"

مصرع ثانی میں "کچھ" غلط تو نہیں ہے لیکن اگر اسے "وہ" سے بدل کر پڑھیں تو زیادہ رواں لگتا ہے ۔

"کھل" سمجھ نہیں آیا ۔ شائد "کَھل" ہو ( یعنی : کَھلنا ، بُرا لگنا) اس صورت میں محمد خلیل الرحمٰن بھائی کی بات سے متفق ہوں۔
یہ میری ناقص رائے ہے جس میں غلطی کی گنجائش موجود ہے۔ میں خود مبتدی ہوں ۔ یہاں اساتذہ اور ماہرین موجود ہیں ۔ جن کی آراء سے مجھے خود بھی اصلاح درکار رہے گی۔
اکثر سوالات کا جواب محترم محمد خلیل صاحب کے استسفارات کے جواب میں دیا ہے، باقی آپ کی اور محترم اُستاد کی آراء کی روشنی میں کُچھ تبدیلیاں کر رہا ہوں امید ہے کہ پسند فرمائیے گا
 
خلیل اور ادب دوست (معذرت کہ ان کا اصل نام بھول رہا ہوں، حالانکہ بتایا تھا تعارف کے دھاگے میں) کی باتوں سے متفق ہوں۔ کھَل جاتا درست تو ہے، لیکن ناگوار سا محسوس ہوتا ہے۔

کام پڑتے ہی اُسے یاد مری آتی ہے
بھول جاتا ہے وہ جب کام نکل جاتا ہے
۔۔درست ہے، لیکن محاورہ مری یاد آنا مختلف ہوتا ہے، اور ’میں یاد آتا ہوں‘ مختلف ہوتا ہے۔ یہاں موخر الذکر کا محل ہے
کام پڑتے ہی اسے یاد میں آ جاتا ہوں

کیا عجب ہے کہ مچلتا ہے تڑپتا ہے یہ دل
سامنے آئے مگر وہ تو سنبھل جاتا ہے
۔۔اس میں بھی اصلاح کی گنجائش ہے۔ کہ پہلے مصرع میں ’یوں تو‘ شعر واضح کرنے کے لئے ضروری ہے۔ ’کیا عجب ہے‘ کی جگہ ’یہ عجب بات ہے‘ کا محاورہ چاہئے تھا۔
مثلاً
یوں تو ہر وقت مچلتا ہے تڑپتا ہے یہ دل

خود پہ نفرت کی یہ شکنیں نہ چڑھی رہنے دو
ان میں دب کے تو شباب اور بھی ڈھل جاتا ہے
÷÷شکنیں کاف پر سکون کے ساتھ تقطیع ہو رہا ہے۔ اس کو محض شکن استعمال کرو اور الفاظ بدل دو۔
دب کے کی جگہ ’دب کر‘ بہتر ہے۔

جب دعاؤں میں ہو گریہ تو اثر ہوتا ہے
کُچھ مصیبت ہو، بُرا وقت ہو ٹل جاتا ہے
÷÷÷گَریہ، واحد لفظ یا گر یہ بمعنی ’اگر یہ‘ ؟۔ اسے واضح کرو تو بہتر ہے۔ دوسرے مصرع میں بھی محض ایک لفظ استعمال کیا جائے تو بہتر ہے۔ بلکہ ٹل جاتا کی مناسبت سے محض برا وقت کافی ہے۔

بہت بہتر اُستاد محترم یوں دیکھ لیجئے

کیوں کسی موڑ پہ رُکنے کو مچل جاتا ہے
دل سمجھتا ہی نہیں، دوڑ کے پل جاتا ہے

کام پڑتے ہی اُسے یاد میں آ جاتا ہوں
بھول جاتا ہے وہ جب کام نکل جاتا ہے

یہ عجب بات کے تڑپے گا بھی، مچلے گا بھی دل
سامنے آئے مگر وہ تو سنبھل جاتا ہے

خود پہ نفرت کی شکن کو نہ چڑھا رہنے دو
اس میں دب کر تو شباب اور بھی ڈھل جاتا ہے


کام ہو کوئی، رضا اُس کی مقدم نہ ہوئی
آخرت میں جو بھی ملنا تھا وہ پھل جاتا ہے

جب دعاؤں میں ہو گَریہ تو اثر ہوتا ہے
گڑگڑاؤ تو بُرا وقت ہو ٹل جاتا ہے


اُس کی عادت سے پریشاں ہوں، کروں کیا اظہر
جس پہ مسرور تھا کل، آج وہ کھل جاتا ہے​
 

الف عین

لائبریرین
مطلع اب بھی پسند نہیں آیا۔ قاری صرف یہ اندازہ ہی لگا سکتا ہے کہ پل جاتا سے مراد پل گزر جاتا ہے، یہ سمجھنے کا کوئی قرینہ نہیں۔ باقی اشعار درست ہو گئے ہیں۔ ایک جگہ ’کے‘ ٹائپو ہے، ’کہ‘ کا محل ہے۔ گریہ اور گر۔یہ کا حل تو اب بھی نہیں نکلا!! میری اصلاح یوں ہو گی
گریہ ہو گر جو دعاؤں میں، اثر ہوتا ہے
گڑگڑاؤ تو بُرا وقت بھی ٹل جاتا ہے
اس استعمال میں ، کہ ’گر‘ بعد میں بھی استعمال ہو رہا ہے، اس طرف دھیان نہیں جائے گا۔
 
مطلع اب بھی پسند نہیں آیا۔ قاری صرف یہ اندازہ ہی لگا سکتا ہے کہ پل جاتا سے مراد پل گزر جاتا ہے، یہ سمجھنے کا کوئی قرینہ نہیں۔ باقی اشعار درست ہو گئے ہیں۔ ایک جگہ ’کے‘ ٹائپو ہے، ’کہ‘ کا محل ہے۔ گریہ اور گر۔یہ کا حل تو اب بھی نہیں نکلا!! میری اصلاح یوں ہو گی
گریہ ہو گر جو دعاؤں میں، اثر ہوتا ہے
گڑگڑاؤ تو بُرا وقت بھی ٹل جاتا ہے
اس استعمال میں ، کہ ’گر‘ بعد میں بھی استعمال ہو رہا ہے، اس طرف دھیان نہیں جائے گا۔
اور اگر یوں کہا جائے تو اُستاد محترم کیسا رہے گا

کیوں کسی موڑ پہ رُکنے کو مچل جاتا ہے
دل سمجھتا ہی نہیں، آدمی ٹل جاتا ہے

کام پڑتے ہی اُسے یاد میں آ جاتا ہوں
بھول جاتا ہے وہ جب کام نکل جاتا ہے

یہ عجب بات کہ تڑپے گا بھی، مچلے گا بھی دل
سامنے آئے مگر وہ تو سنبھل جاتا ہے

خود پہ نفرت کی شکن کو نہ چڑھا رہنے دو
اس میں دب کر تو شباب اور بھی ڈھل جاتا ہے

کام ہو کوئی، رضا اُس کی مقدم نہ ہوئی
آخرت میں جو بھی ملنا تھا وہ پھل جاتا ہے

مانگنا ہے تو کہیں جا کے قرینہ سیکھو
گڑگڑاؤ تو بُرا وقت بھی ٹل جاتا ہے

غم کا ہوتا ہے تو جیسے ہوں قدم من بھر کے
اور خوشی کا ہو تو پھر دوڑ کے پل جاتا


اُس کی عادت سے پریشاں ہوں، کروں کیا اظہر
جس پہ مسرور تھا کل، آج وہ کھل جاتا ہے​
 

الف عین

لائبریرین
نہیں میاں، مزا نہیں آیا نئے اشعار اور مطلع میں۔ مطلع یوں ہو تو؟
کیوں کسی موڑ پہ رُکنے کو مچل جاتا ہے
دل سمجھتا نہیں،اور وقت نکل جاتا ہے
گڑگڑانے والا شعر بھی پہلی صورت ہی بہتر ہے۔ ’گریہ‘ والی تمہاری یا میری ترمیم شدہ۔
 
نہیں میاں، مزا نہیں آیا نئے اشعار اور مطلع میں۔ مطلع یوں ہو تو؟
کیوں کسی موڑ پہ رُکنے کو مچل جاتا ہے
دل سمجھتا نہیں،اور وقت نکل جاتا ہے
گڑگڑانے والا شعر بھی پہلی صورت ہی بہتر ہے۔ ’گریہ‘ والی تمہاری یا میری ترمیم شدہ۔
واہ یہ تو بہت عمدہ ہو گیا محترم اُستاد
 
Top