ایک غزل تنقید و تبصرہ کیلئے، '' اے زندگی دیا ہو، کہیں روشنی رہے''

اے زندگی دیا ہو، کہیں روشنی رہے
کیوں چاہے تُو اندھیر نگر سے بنی رہے

ادراک کہہ رہا ہے مجھے ہوش میں تُو رہ
اور عشق چاہتا ہے ابھی بے خودی رہے

اُس سے ملن کی شام ہے، کچھ بھی بُرا نہ ہو
پھر زندگی کی شام بُری ہو، بھلی رہے

محفل کا لین دین نہیں دوستی سے کُچھ
یاروں بغیر بھی تو یہ محفل سجی رہے

دل کے مکیں ہو تو یہ بیگانگی ہے کیوں
ممکن نہیں ہے دل میں کوئی اجنبی رہے

اُس کا بھی چاہتا ہوں مجھے ساتھ ہو نصیب
اس سے بھی کیا بُرا ہے اگر دوستی رہے

اظہر نہ اوڑھ خود پہ ملمع، خطا ہے یہ
باطن میں جو بھی کُچھ ہو، وہی ظاہری رہے​
 

ابن رضا

لائبریرین
ادراک کہہ رہا ہے مجھے ہوش میں تُو رہ
اور عشق چاہتا ہے ابھی بے خودی رہے

دل کے مکیں ہو تو یہ بیگانگی ہے کیوں
ممکن نہیں ہے دل میں کوئی اجنبی رہے

بہت خوب اشعار ہیں یہ۔ بہت سی داد قبول کیجیے
 

الف عین

لائبریرین
بہت دن بعد آمد ہوئی ہے!!!

اے زندگی دیا ہو، کہیں روشنی رہے
کیوں چاہے تُو اندھیر نگر سے بنی رہے
÷÷÷ انداز بیان میں کچھ کمی رہ گئی ہے اس لئے رواں نہیں ہے۔ لچھ الفاظ بدلے جائیں۔

ادراک کہہ رہا ہے مجھے ہوش میں تُو رہ
اور عشق چاہتا ہے ابھی بے خودی رہے
÷÷پہلا مصرع رواں نہیں، اور ہتر یوں ہو کہ اس کو یہوں کہو تو روانی بہتر ہو جائے۔
ادراک کہہ رہا ہے کہ میں ہوش میں رہوں
یا
ادراک چاہتا ہے۔۔۔۔۔

اُس سے ملن کی شام ہے، کچھ بھی بُرا نہ ہو
پھر زندگی کی شام بُری ہو، بھلی رہے
۔۔درست، اگرچہ روانی کی کمی ہے اس میں بھی۔

محفل کا لین دین نہیں دوستی سے کُچھ
یاروں بغیر بھی تو یہ محفل سجی رہے
÷÷محفل لفظ دونوں مصرعوں میں استعمال کرنے سے بچو۔ ’یاروں بغیر‘ بجائے ’یاروں کے بغیر‘ بھی درست نہیں۔ اس کو ہیوں کہو تو۔۔۔
یہ بزم دوستوں کے بِنا بھی سجی رہے

دل کے مکیں ہو تو یہ بیگانگی ہے کیوں
ممکن نہیں ہے دل میں کوئی اجنبی رہے
÷÷پہلا مصرع خارج از بحر؟ درست ’مکین‘ ہونا چاہئے ’مکیں“ نہیں۔

اُس کا بھی چاہتا ہوں مجھے ساتھ ہو نصیب
اس سے بھی کیا بُرا ہے اگر دوستی رہے
÷÷درست، دوسرا مصرع
اور یوں بھی کیا برا ہے۔۔۔
یا
اور یہ بھی کیا برا ہے۔۔۔۔

اظہر نہ اوڑھ خود پہ ملمع، خطا ہے یہ
باطن میں جو بھی کُچھ ہو، وہی ظاہری رہے
÷÷ملمع اوڑھا نہیں جاتا، چڑھایا جاتا ہے۔ الفاظ بدلو۔
 
بہت دن بعد آمد ہوئی ہے!!!

اے زندگی دیا ہو، کہیں روشنی رہے
کیوں چاہے تُو اندھیر نگر سے بنی رہے
÷÷÷ انداز بیان میں کچھ کمی رہ گئی ہے اس لئے رواں نہیں ہے۔ لچھ الفاظ بدلے جائیں۔

ادراک کہہ رہا ہے مجھے ہوش میں تُو رہ
اور عشق چاہتا ہے ابھی بے خودی رہے
÷÷پہلا مصرع رواں نہیں، اور ہتر یوں ہو کہ اس کو یہوں کہو تو روانی بہتر ہو جائے۔
ادراک کہہ رہا ہے کہ میں ہوش میں رہوں
یا
ادراک چاہتا ہے۔۔۔۔۔

اُس سے ملن کی شام ہے، کچھ بھی بُرا نہ ہو
پھر زندگی کی شام بُری ہو، بھلی رہے
۔۔درست، اگرچہ روانی کی کمی ہے اس میں بھی۔

محفل کا لین دین نہیں دوستی سے کُچھ
یاروں بغیر بھی تو یہ محفل سجی رہے
÷÷محفل لفظ دونوں مصرعوں میں استعمال کرنے سے بچو۔ ’یاروں بغیر‘ بجائے ’یاروں کے بغیر‘ بھی درست نہیں۔ اس کو ہیوں کہو تو۔۔۔
یہ بزم دوستوں کے بِنا بھی سجی رہے

دل کے مکیں ہو تو یہ بیگانگی ہے کیوں
ممکن نہیں ہے دل میں کوئی اجنبی رہے
÷÷پہلا مصرع خارج از بحر؟ درست ’مکین‘ ہونا چاہئے ’مکیں“ نہیں۔

اُس کا بھی چاہتا ہوں مجھے ساتھ ہو نصیب
اس سے بھی کیا بُرا ہے اگر دوستی رہے
÷÷درست، دوسرا مصرع
اور یوں بھی کیا برا ہے۔۔۔
یا
اور یہ بھی کیا برا ہے۔۔۔۔

اظہر نہ اوڑھ خود پہ ملمع، خطا ہے یہ
باطن میں جو بھی کُچھ ہو، وہی ظاہری رہے
÷÷ملمع اوڑھا نہیں جاتا، چڑھایا جاتا ہے۔ الفاظ بدلو۔
محترم اُستاد نوکری کے جھمیلوں میں مصروف رہا، کُچھ یوں دیکھ لیجئے

اے زندگی دیا ہو، کہیں روشنی رہے
کیوں کر فقط اندھیر نگر سے بنی رہے

ادراک چاہتا ہے کہ میں ہوش میں رہوں
اور عشق چاہتا ہے ابھی بے خودی رہے

اُس سے ملن کی شام ہے، کچھ بھی بُرا نہ ہو
پھر زندگی کی شام بُری ہو، بھلی رہے

محفل کا لین دین نہیں دوستی سے کُچھ
یہ بزم دوستوں کے بنا بھی سجی رہے

دل کے مکین ہو تو یہ بیگانگی ہے کیوں
ممکن نہیں ہے دل میں کوئی اجنبی رہے

اُس کا بھی چاہتا ہوں مجھے ساتھ ہو نصیب
تُم سے بھی کیا بُرا ہے اگر دوستی رہے

اظہر چڑھا نہ خود پہ ملمع، خطا ہے یہ
باطن میں جو بھی کُچھ ہو، وہی ظاہری رہے​
 
Top